توازن اور اسلام
حال ہی میں تاریخی مسجد اخونجی اور مدرسہ بحرالعلوم کو بھی شہید کر دیا گیا
زندگی اتفاقات، حادثات اور معجزات سے پُر ہے۔ کل کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا لیکن کچھ ذہن بہت کچھ ترتیب دیے بیٹھے ہیں اور اس کے مطابق ایک کے بعد ایک اپنی طے کردہ ترکیب کے مطابق عمل کر رہے ہیں۔ ان کا خیال یہی ہے کہ وہ بہت زیرک، فرض شناس اور موقع شناس ہیں۔
پاکستان میں الیکشن ہوچکے ہیں تو پڑوسی ممالک کھیل کر اپنی بازی جما چکے ہیں کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں الیکشن محض ایک کھیل ہی تھا پھر اب بھارت میں یہ بازی اپریل میں سجنے والی ہے اور بنگلہ دیش میں یہ کھیل ہو کر بھی ختم ہو چکا ہے اور شیخ حسینہ پانچویں بار بھی جیت گئیں۔ نریندر مودی اپنی نوجوانی کے سمائے خناس پر عمل کرتے جا رہے ہیں اور ان کی رسی کی ڈھیل انھیں مواقع فراہم کرتی جا رہی ہے۔
یہ کیا کم ہے کہ بھارت میں دوسری بڑی اکثریت مسلمان ہے لیکن جو کچھ 1992 میں بابری مسجد کے حوالے سے تاریخ پر ثبت ہو چکا تھا کہ مودی کے دور حکومت میں سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اب پھر سے کارروائی جاری ہے، مسلمانان ہند کو ایک بار پھر اسی دور میں دھکیلا جا رہا ہے جب انگریز حکمرانوں کے ساتھ ہندوؤں نے مل کر ایسی سازش سجائی، جس سے مسلمانوں کو گاڑی بان، چپڑاسی اور مزدور طبقے تک محدود کردیا گیا تھا پھر بھی ایک بڑی اکثریت کو دلت قوم میں بدلنے کا خواب بس خواب ہی رہا تھا۔
کہتے ہیں کہ اگر رب العزت انسان کے ہاتھ میں رزق کی تقسیم سونپ دے تو شاید کسی کو بھی پیٹ بھر کھانے کو نہ ملے، اس لیے کہ انسان تو بڑا کم ظرف ہے۔ بس اسی اعلیٰ ہستی نے ہندوستان کے نقشے پر پاکستان کا جھنڈا گاڑا تھا۔ اس سے آگے کی کہانی کو چھوڑیے لیکن آج کے بھارت میں جو چل رہا ہے، وہ ایک بار پھر سے ماضی کی ریل چلا رہا ہے۔
بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ڈی کے سریش نے مودی سرکار کی بے انصافیوں پر ایک عجب مطالبے کا اعلان کردیا ہے اور وہ ہے ایک الگ ملک کا مطالبہ۔ ان کا کہنا ہے مرکزی حکومت جنوبی ریاستوں کو فنڈز جاری نہیں کر رہی اور اگر ایسی ہی صورت حال جاری رہی تو بھارت کی جنوبی ریاستیں جلد ہی علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں گی۔
مودی حکومت نے رواں برس، اپریل میں ہونے والے انتخابات سے پہلے ملک کا ایک عبوری بجٹ پیش کیا ہے جو 2024 اور 2025 کے لیے ہے۔ کیا یہ بجٹ واقعی ایسا ہی ہے جس سے ملک کی جنوبی ریاستیں اس حد تک عاجز آچکی ہیں کہ انھیں اپنے لیے ایک الگ ملک چاہیے کیا مودی سرکار اس سے بے خبر ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے، لیکن ان کا اصل فوکس تو دراصل ان کی جنونیت پر ہے جس میں کھو کر وہ اپنا آپ کھو رہے ہیں، اس غیر متوازن صورت حال میں بھارت کی آیندہ کیا صورت نکل کر آتی ہے زیرک دماغوں نے یہ نہیں سوچا۔
بھارت میں بابری مسجد کے بعد جس شان و شوکت سے پنڈال سجا کر اپنے جنونی جذبات کو ٹھنڈک پہنچانے کی کوشش کی گئی اس میں شوبز کا ساتھ نہ ہو، ایسی چمک دمک کی پبلسٹی سے مودی سرکار کیسے پلو بچا سکتی تھی، اس کے لیے انھوں نے شوبزکی چمکتی شخصیات کو مفت ہوائی ٹکٹ جاری کیے تھے۔ تعصب پسندی کا یہ دہرا روپ برقیاتی تاروں کے ذریعے ایک دنیا نے دیکھا کہ کیسی شان سے ایک مذہبی مقام کو نیست و نابود کرنے کے بعد اس کو دوسرا مذہبی مقام بنا دیا گیا۔
ایسا ہی نہیں بلکہ حال ہی میں تاریخی مسجد اخونجی اور مدرسہ بحرالعلوم کو بھی شہید کر دیا گیا، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے احاطے میں دفن کئی قابل احترام شخصیات کی قبروں کو بھی مسمار کر دیا گیا، یہ کارروائی انتہائی خفیہ رکھی گئی تھی۔ طلوع آفتاب سے قبل جب دنیا محو خواب تھی۔ آخر ایسا کس اسکیم کے تحت کیا گیا، اس بڑے واقعے کو عام عوام سے چھپانے کی غرض سے اس کے ملبے کو بھی غائب کر دیا گیا تھا۔ یہ مسجد دلی کے علاقے سنجے وان میں قائم تھی۔
مودی حکومت نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ ایک اور انڈیا کی تاریخی مسجد گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت دے دی گئی، یہ اجازت عدالت کے ایک حکم نامے کے مطابق دی گئی تھی جس کے مطابق وشواناتھ مندر کے پجاری مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کرسکتے ہیں، انڈیا کی عدالت نے مسجد کے سروے کے بعد تہہ خانے کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ تو ہے مودی سرکار کی چالیں جو ان کے مطابق مسلمان حکمرانوں نے اپنی آمد کے بعد ہندوستان کی زمین پر مساجد کی صورت میں قائم کی تھیں، اور اب جنون پسند سرکار ان تمام یادگاروں کو ختم کرکے اسے پرانی صورت میں واپس لانا چاہتی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی سرکار صدیوں پہلے مسلم حکمرانوں کی آمد اور ان کے اچھے برتاؤ سے اسلام قبول کرنے والے ان گھرانوں کو ان کے آباؤ اجداد کے مذہب کی جانب موڑ سکتی ہے اور جواب ہے صرف طاقت۔
ایک اہم نقطہ تو رہ ہی گیا وہ اہم سرزمین جس پر مسلمانوں کے لیے مر جانے کا خواب۔ چلیے آگے بڑھتے ہیں کہ آج کے منظرنامے میں ہمارے کھلے ذہن کے کھلے دل کے مسلم حکمران کیا کر رہے ہیں کہ جن کے دلوں کی وسعتوں کے بارے میں خون دل سے ہی تحریر کیا جاسکتا ہے، متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے ہندو مندر کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور عنقریب اس کا افتتاح ہونے جا رہا ہے۔
یہ مندر کراچی کے شری سوامی نارائن کی کڑی ہے اور اٹھارہویں صدی کے آخر میں شروع ہونے والے سماجی روحانی عقیدے سے اس کی شاخیں جڑی ہیں۔ ہائے رے معصومیت محض اٹھارہویں صدی جب کہ چودہ سو سال قبل بلکہ اول انسان حضرت آدم علیہ السلام کے مذہب اسلام کو وسعت دل نے کیا مقام دیا۔ اس مندرکا افتتاح کرنے جو بھی جائیں گے کیا اپنے آپ کو اس توازن میں رکھ پائیں گے جسے رب العزت نے انھیں عطا فرمایا ہے۔ ہم لوگ مسلمان تو مستقل توازن کے بگاڑ میں لگے ہیں۔ تب ہی کہتے ہیں قیامت قریب ہے۔
پاکستان میں الیکشن ہوچکے ہیں تو پڑوسی ممالک کھیل کر اپنی بازی جما چکے ہیں کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں الیکشن محض ایک کھیل ہی تھا پھر اب بھارت میں یہ بازی اپریل میں سجنے والی ہے اور بنگلہ دیش میں یہ کھیل ہو کر بھی ختم ہو چکا ہے اور شیخ حسینہ پانچویں بار بھی جیت گئیں۔ نریندر مودی اپنی نوجوانی کے سمائے خناس پر عمل کرتے جا رہے ہیں اور ان کی رسی کی ڈھیل انھیں مواقع فراہم کرتی جا رہی ہے۔
یہ کیا کم ہے کہ بھارت میں دوسری بڑی اکثریت مسلمان ہے لیکن جو کچھ 1992 میں بابری مسجد کے حوالے سے تاریخ پر ثبت ہو چکا تھا کہ مودی کے دور حکومت میں سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اب پھر سے کارروائی جاری ہے، مسلمانان ہند کو ایک بار پھر اسی دور میں دھکیلا جا رہا ہے جب انگریز حکمرانوں کے ساتھ ہندوؤں نے مل کر ایسی سازش سجائی، جس سے مسلمانوں کو گاڑی بان، چپڑاسی اور مزدور طبقے تک محدود کردیا گیا تھا پھر بھی ایک بڑی اکثریت کو دلت قوم میں بدلنے کا خواب بس خواب ہی رہا تھا۔
کہتے ہیں کہ اگر رب العزت انسان کے ہاتھ میں رزق کی تقسیم سونپ دے تو شاید کسی کو بھی پیٹ بھر کھانے کو نہ ملے، اس لیے کہ انسان تو بڑا کم ظرف ہے۔ بس اسی اعلیٰ ہستی نے ہندوستان کے نقشے پر پاکستان کا جھنڈا گاڑا تھا۔ اس سے آگے کی کہانی کو چھوڑیے لیکن آج کے بھارت میں جو چل رہا ہے، وہ ایک بار پھر سے ماضی کی ریل چلا رہا ہے۔
بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ڈی کے سریش نے مودی سرکار کی بے انصافیوں پر ایک عجب مطالبے کا اعلان کردیا ہے اور وہ ہے ایک الگ ملک کا مطالبہ۔ ان کا کہنا ہے مرکزی حکومت جنوبی ریاستوں کو فنڈز جاری نہیں کر رہی اور اگر ایسی ہی صورت حال جاری رہی تو بھارت کی جنوبی ریاستیں جلد ہی علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں گی۔
مودی حکومت نے رواں برس، اپریل میں ہونے والے انتخابات سے پہلے ملک کا ایک عبوری بجٹ پیش کیا ہے جو 2024 اور 2025 کے لیے ہے۔ کیا یہ بجٹ واقعی ایسا ہی ہے جس سے ملک کی جنوبی ریاستیں اس حد تک عاجز آچکی ہیں کہ انھیں اپنے لیے ایک الگ ملک چاہیے کیا مودی سرکار اس سے بے خبر ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے، لیکن ان کا اصل فوکس تو دراصل ان کی جنونیت پر ہے جس میں کھو کر وہ اپنا آپ کھو رہے ہیں، اس غیر متوازن صورت حال میں بھارت کی آیندہ کیا صورت نکل کر آتی ہے زیرک دماغوں نے یہ نہیں سوچا۔
بھارت میں بابری مسجد کے بعد جس شان و شوکت سے پنڈال سجا کر اپنے جنونی جذبات کو ٹھنڈک پہنچانے کی کوشش کی گئی اس میں شوبز کا ساتھ نہ ہو، ایسی چمک دمک کی پبلسٹی سے مودی سرکار کیسے پلو بچا سکتی تھی، اس کے لیے انھوں نے شوبزکی چمکتی شخصیات کو مفت ہوائی ٹکٹ جاری کیے تھے۔ تعصب پسندی کا یہ دہرا روپ برقیاتی تاروں کے ذریعے ایک دنیا نے دیکھا کہ کیسی شان سے ایک مذہبی مقام کو نیست و نابود کرنے کے بعد اس کو دوسرا مذہبی مقام بنا دیا گیا۔
ایسا ہی نہیں بلکہ حال ہی میں تاریخی مسجد اخونجی اور مدرسہ بحرالعلوم کو بھی شہید کر دیا گیا، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے احاطے میں دفن کئی قابل احترام شخصیات کی قبروں کو بھی مسمار کر دیا گیا، یہ کارروائی انتہائی خفیہ رکھی گئی تھی۔ طلوع آفتاب سے قبل جب دنیا محو خواب تھی۔ آخر ایسا کس اسکیم کے تحت کیا گیا، اس بڑے واقعے کو عام عوام سے چھپانے کی غرض سے اس کے ملبے کو بھی غائب کر دیا گیا تھا۔ یہ مسجد دلی کے علاقے سنجے وان میں قائم تھی۔
مودی حکومت نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ ایک اور انڈیا کی تاریخی مسجد گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت دے دی گئی، یہ اجازت عدالت کے ایک حکم نامے کے مطابق دی گئی تھی جس کے مطابق وشواناتھ مندر کے پجاری مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کرسکتے ہیں، انڈیا کی عدالت نے مسجد کے سروے کے بعد تہہ خانے کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ تو ہے مودی سرکار کی چالیں جو ان کے مطابق مسلمان حکمرانوں نے اپنی آمد کے بعد ہندوستان کی زمین پر مساجد کی صورت میں قائم کی تھیں، اور اب جنون پسند سرکار ان تمام یادگاروں کو ختم کرکے اسے پرانی صورت میں واپس لانا چاہتی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مودی سرکار صدیوں پہلے مسلم حکمرانوں کی آمد اور ان کے اچھے برتاؤ سے اسلام قبول کرنے والے ان گھرانوں کو ان کے آباؤ اجداد کے مذہب کی جانب موڑ سکتی ہے اور جواب ہے صرف طاقت۔
ایک اہم نقطہ تو رہ ہی گیا وہ اہم سرزمین جس پر مسلمانوں کے لیے مر جانے کا خواب۔ چلیے آگے بڑھتے ہیں کہ آج کے منظرنامے میں ہمارے کھلے ذہن کے کھلے دل کے مسلم حکمران کیا کر رہے ہیں کہ جن کے دلوں کی وسعتوں کے بارے میں خون دل سے ہی تحریر کیا جاسکتا ہے، متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے ہندو مندر کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور عنقریب اس کا افتتاح ہونے جا رہا ہے۔
یہ مندر کراچی کے شری سوامی نارائن کی کڑی ہے اور اٹھارہویں صدی کے آخر میں شروع ہونے والے سماجی روحانی عقیدے سے اس کی شاخیں جڑی ہیں۔ ہائے رے معصومیت محض اٹھارہویں صدی جب کہ چودہ سو سال قبل بلکہ اول انسان حضرت آدم علیہ السلام کے مذہب اسلام کو وسعت دل نے کیا مقام دیا۔ اس مندرکا افتتاح کرنے جو بھی جائیں گے کیا اپنے آپ کو اس توازن میں رکھ پائیں گے جسے رب العزت نے انھیں عطا فرمایا ہے۔ ہم لوگ مسلمان تو مستقل توازن کے بگاڑ میں لگے ہیں۔ تب ہی کہتے ہیں قیامت قریب ہے۔