قائد ڈے
قائداعظم کے 147ویں یوم پیدائش کے موقع پرمرکز مشاورت ورہنمائی علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے قائدڈے منایا
بابائے قوم قائداعظم کے ایک سو سیتالیس ویں یوم پیدائش کے موقع پر مرکز مشاورت و رہنمائی علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے قائد ڈے منایا جس میں تقاریر اور خاکوں کے مقابلے رکھے گئے۔
یہ تقریب مرکز مشاورت و رہنمائی کی آرٹ سوسائٹی نے منعقد کی، پچھلے ماہ قائم ہونے والے اس مرکز میں اور بھی سوسائیٹز ہیں جو صرف و صرف ایک صحت مند تربیتی ماحول کی فراہمی کے غرض سے بنائی گئی ہیں تاکہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی ماحول بنا رہے اور طالب علم خوشگوار احساسات کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر توجہ دے سکیں نہ کہ ایک بوجھ اور اکتاہٹ کے زیر اثر جس سے رٹو طوطے تو نکل سکتے ہیں، قابل سمجھدار اور ذمے دار شہری نہیں تخلیق پا سکتے اس لیے تربیت، تعلیم اور تربیت کے تحت ہی اگر ایک طالب علم کی نشوونما ہو تو مادر وطن کا مستقبل شاندار تابناک ہوسکتا ہے اور اس کے لیے صرف تعلیمی ادارے یا ان میں پڑھانے والے اساتذہ ہی ذمے دار نہیں ہیں بلکہ گھر میں بھی اس کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے جس سے دور حاضر کے اکثر والدین انتہائی غفلت برت رہے ہیں، اپنے بچوں کو ان کے حال پر چھوڑکر اس سے نہ صرف معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے بلکہ بچوں کے ساتھ ساتھ والدین اپنا بڑھاپا بھی تاریک کر رہے ہیں۔
ایک اچھی تربیت ہی اچھی تعلیم کی بنیاد ہے اس لیے خداوند نے ماں کی کوکھ میں ہی اولاد کی تربیت کا عمل شروع کر دیا ہوتا ہے اور تربیت کا عنصر تعلیم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ جس کی تربیت اچھی اس کی تعلیم بھی اچھی چونکہ تربیت ہی اچھی تعلیم کی قدر دانی کرواتی ہے۔ انھی خطوط کو مدنظر رکھتے ہوئے راقم الحروف والدین سے پر زور اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنی بہت سی مصروفیات میں سے اپنے مستقبل اپنے بڑھاپے کے سہاروں کے لیے وقت نکالیں کیونکہ اگر آج آپ ان کے لیے وقت نہ نکال سکے تو کل وہ آپ کو وقت نہ دے سکیںگے اور پھر آپ ان سے کسی شکوے کے حقدار نہ ہونگے۔
بہرحال مرکز مشاورت و رہنمائی کی آرٹ سوسائٹی کی یہ پہلی تقریب تھی اور اس تاریخی تقریب کا حصہ بن کر راقم کو ایک ناقابل بیان سکون قلب نصیب ہوا۔ بچوں نے قائد کے پاکستان کے حوالے سے اپنی تقاریر مرتب کیں جس میں انھوں نے برملا قائد کے کرپشن سے پاک وطن کے تاریخی واقعات کو بیان کیا اور اس خواہش وعزم کا اظہار کیا کہ انھیں ویسا ہی پاکستان چاہیے جس کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کریں گئے ،ان خیالات نے مجھے بہت متاثر کیا جو بچے اپنے بڑوں سے اصلاح لیتے ہوئے چلے ( با ادب بانصیب) وہی کامیابی کے حقدار ٹھہرے، میں نے اپنے اس مستقبل میں ہر طرح کی خوبیاں دیکھیں بس صرف کمی ہے تو ان کی رہبری و رہنمائی کی جس کے وہ متمنی ہیں وہ سیکھنا چاہتے ہیں کچھ کرنا چاہتے ہیں ضرورت صرف ان کا ہاتھ تھامنے کی ہے۔
میوزک سوسائٹی کے بچوں نے ملی نغمہ '' ہیں ہم قائد کے سپاہی'' تخلیق کر کے سنایا اتنی کم عمری میں ملی نغمے کی شاعری ترتیب دینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں واقعی رب العزت نے الحمدللہ انگنت خوبیوں سے ہمیں نوازا ہے ضرورت صرف سمجھنے اور عمل کرنے کی ہے یہی نہیں بلکہ آرکیٹیکچرکے بچوں کے اسکیچز بھی قابل دید تھے۔ تقریب کے مہمان خصوصی سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عارف علی تھے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورننگ باڈی اے آئی ٹی فرخ احمد نظامی نے کہا کہ ' علی گڑھ سے قائد کو ایک خصوصی عقیدت رہی یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب مزار قائد پر علی گڑھ ایسوسی ایشن کا وفد جاتا ہے تو اس سے خصوصی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فنی تعلیم اور زبان کی فہم و فراست فکر سیدی کے دو اہم موضوع ہیں، جلد ہی سرسید ٹاور میں اے آئی ٹی کی دوسری شاخ قائم کی جائے گی اور Chat GPT کی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جائے گی، جس میں زمانہ قدیم میں ہونے والے تاریخی واقعات کی عکاس بندی آواز کے ساتھ دور حاضر میں دکھائی جائے گی۔
کسی بھی قوم کی ترقی و خوشحالی میں اس کے نوجوانوں کا کردار ہمیشہ اہم ہوتا ہے جیسے قیام پاکستان کے سلسلے میں علی گڑھ کے طلبا، جس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شہر کے بیچوں بیچ ہے، اسی طرح علی گڑھ اور سرسید بھی شہر کے سینٹر میں بنائے گئے تاکہ طلبا باآسانی پہنچ سکیں۔ قیام پاکستان کے بعد طلبا علی گڑھ کا یہ دونوں ادارے قائم کرنا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے جس کے روح رواں ظل احمد نظامی اور ذاکر علی خان تھے۔ جامعہ سرسید و علی گڑھ اپنی مخصوص اقدار ثقافت سے جامعہ علی گڑھ کا آئینہ ہیں۔
زیڈ اے نظامی ایک علمی ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے جن کے جد امجد سرسیدکے عاشق تھے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے شہر عزیز میں تعلیمی ادارے قائم کیے خصوصا ٹیکنالوجی کے فروغ میں آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ نظامی صاحب کے پردادا منشی محمد ارشاد علی نے اپنے فرزند مولوی فرید احمد کو یہ نصیحت فرمائی کہ '' خاندان کی بنیاد پر اپنی عزت کروانے کے بجائے خود خاندان کے لیے باعث افتخار ہونا چاہیے۔''
بلاشبہ نظامی صاحب کے تمام بزرگوں نے بشمول خود انھوں نے اس نصیحت پر من و عن عمل کیا اور سب ہی اپنے خاندان کی توقیر کا باعث ہوئے۔ فرخ نظامی ان اداروں کے قیام سے ہی اپنے والد کی سر براہی میںان سے وابستہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان میں ان اداروں کی بھلائی، بہتری اور ترقی کی تڑپ راقم کو واضح طور پر نظر آئی کہ ان اداروں کے قیام کے پیچھے جو فکر سیدی کے اہم محرکات کار فرما رہے وہ پورے ہوں، ان کے والد کا اصل خواب کیا تھا، ان اداروں کی موجودہ شکل کتنی تگ و دو کے بعد سامنے آئی جس کو وہ واضح نصب العین کی صورت میں منظر عام پر لانے کے لیے بے تاب ہیں، جو ان اداروں اس کے تعلیم یافتگان اور وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوں۔
بحیثیت المنائی راقم خود بھی بانی چانسلر نظامی صاحب کے نظم و نسق کی کمی کو اداروں میں واضح طور پر محسوس کر رہا ہے۔ دور حاضر کے طالبعلموں کی تعلیم سے عدم دلچسپی جس کی اہم ترین وجہ وطن عزیز کی موجودہ صورت حال عملی مشقوں کے لیے آلات میسر نہ ہونا تحقیق کے رحجانات کا مخدوش ہونا جو ان کے حصول روزگار کے مواقعوں کو متاثر کررہا ہے جس کے نتیجے میں ہمارا آج کا نوجوان دیار غیر میں اپنوں سے دوری کی اذیت جھیل کر اپنے خوابوں کی جنت تلاش کررہا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ تخت نشینی کی جنگوں سے مسلمانوں کو فائدے کے بجائے ہمیشہ نقصان ہی ہوا، ہم اپنے فلاحی معاملات جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے کیا کیا قربانیاں دیں کیا کیا خواب دیکھے کیونکہ وہ مصلح قوم سرسید کے جانشین تھے اس لیے انھوں نے کبھی اقتدار کی ہوس نہ رکھی اور آج وہی معاملات کی دھجیاں ایوانوں میں بے مقصد اچھالی جارہی ہیں یہاں تک کہ وہ مشن جس کے زیر اثر ان نایاب اداروں کا قیام عمل میں آیاوہ اس بلاسبب نورا کشتی کی وجہ سے جمود کا شکار ہے۔
سرسید نے انگریزی تعلیم پر اس وقت اس لیے زور دیا کہ وہ وقت کی ضرورت تھی اور انگریز سامراجی قوتوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے رابطے کا موثر ذریعہ بھی یہی زبان تھی پر اس کا یہ مطلب ہر گز کبھی بھی یہ نہیں رہا جو آج کی نسل اور ان کے بعض بزرگ لے رہے ہیں کہ اردو کم تر زبان ہے جب کہ قائداعظم کے پاکستان میں اسی زبان کو مادری زبان قرار دیا گیا ہے۔ سرسید کی تحریک نے اردو زبان کو وسعت دی بلکہ اس کے موضوعات کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر بھی کیا۔
اردو صحافت میں سرسید کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اس تحریک کے لیے تدبر اور شعور کو پروان چڑھانا لازمی تھا اور اردو نثر ہی ان مقاصد کو پورا کرسکتی تھی چنانچہ ادبی سطح پر اس تحریک نے اردو نثر کا ایک باوقار، سنجیدہ اور متوازن معیار قائم کیا، جو سادگی اور متانت کا لبادہ پہنے ادب کی افادی اور مقصدی حیثیت کو ابھار سکی کیونکہ غلامی کی زبان کبھی بھی سر اٹھا کر آگئے بڑھنے میں معاون و مددگار نہیں ہوسکتی۔
یہ تقریب مرکز مشاورت و رہنمائی کی آرٹ سوسائٹی نے منعقد کی، پچھلے ماہ قائم ہونے والے اس مرکز میں اور بھی سوسائیٹز ہیں جو صرف و صرف ایک صحت مند تربیتی ماحول کی فراہمی کے غرض سے بنائی گئی ہیں تاکہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی ماحول بنا رہے اور طالب علم خوشگوار احساسات کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر توجہ دے سکیں نہ کہ ایک بوجھ اور اکتاہٹ کے زیر اثر جس سے رٹو طوطے تو نکل سکتے ہیں، قابل سمجھدار اور ذمے دار شہری نہیں تخلیق پا سکتے اس لیے تربیت، تعلیم اور تربیت کے تحت ہی اگر ایک طالب علم کی نشوونما ہو تو مادر وطن کا مستقبل شاندار تابناک ہوسکتا ہے اور اس کے لیے صرف تعلیمی ادارے یا ان میں پڑھانے والے اساتذہ ہی ذمے دار نہیں ہیں بلکہ گھر میں بھی اس کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے جس سے دور حاضر کے اکثر والدین انتہائی غفلت برت رہے ہیں، اپنے بچوں کو ان کے حال پر چھوڑکر اس سے نہ صرف معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے بلکہ بچوں کے ساتھ ساتھ والدین اپنا بڑھاپا بھی تاریک کر رہے ہیں۔
ایک اچھی تربیت ہی اچھی تعلیم کی بنیاد ہے اس لیے خداوند نے ماں کی کوکھ میں ہی اولاد کی تربیت کا عمل شروع کر دیا ہوتا ہے اور تربیت کا عنصر تعلیم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ جس کی تربیت اچھی اس کی تعلیم بھی اچھی چونکہ تربیت ہی اچھی تعلیم کی قدر دانی کرواتی ہے۔ انھی خطوط کو مدنظر رکھتے ہوئے راقم الحروف والدین سے پر زور اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنی بہت سی مصروفیات میں سے اپنے مستقبل اپنے بڑھاپے کے سہاروں کے لیے وقت نکالیں کیونکہ اگر آج آپ ان کے لیے وقت نہ نکال سکے تو کل وہ آپ کو وقت نہ دے سکیںگے اور پھر آپ ان سے کسی شکوے کے حقدار نہ ہونگے۔
بہرحال مرکز مشاورت و رہنمائی کی آرٹ سوسائٹی کی یہ پہلی تقریب تھی اور اس تاریخی تقریب کا حصہ بن کر راقم کو ایک ناقابل بیان سکون قلب نصیب ہوا۔ بچوں نے قائد کے پاکستان کے حوالے سے اپنی تقاریر مرتب کیں جس میں انھوں نے برملا قائد کے کرپشن سے پاک وطن کے تاریخی واقعات کو بیان کیا اور اس خواہش وعزم کا اظہار کیا کہ انھیں ویسا ہی پاکستان چاہیے جس کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کریں گئے ،ان خیالات نے مجھے بہت متاثر کیا جو بچے اپنے بڑوں سے اصلاح لیتے ہوئے چلے ( با ادب بانصیب) وہی کامیابی کے حقدار ٹھہرے، میں نے اپنے اس مستقبل میں ہر طرح کی خوبیاں دیکھیں بس صرف کمی ہے تو ان کی رہبری و رہنمائی کی جس کے وہ متمنی ہیں وہ سیکھنا چاہتے ہیں کچھ کرنا چاہتے ہیں ضرورت صرف ان کا ہاتھ تھامنے کی ہے۔
میوزک سوسائٹی کے بچوں نے ملی نغمہ '' ہیں ہم قائد کے سپاہی'' تخلیق کر کے سنایا اتنی کم عمری میں ملی نغمے کی شاعری ترتیب دینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں واقعی رب العزت نے الحمدللہ انگنت خوبیوں سے ہمیں نوازا ہے ضرورت صرف سمجھنے اور عمل کرنے کی ہے یہی نہیں بلکہ آرکیٹیکچرکے بچوں کے اسکیچز بھی قابل دید تھے۔ تقریب کے مہمان خصوصی سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عارف علی تھے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورننگ باڈی اے آئی ٹی فرخ احمد نظامی نے کہا کہ ' علی گڑھ سے قائد کو ایک خصوصی عقیدت رہی یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب مزار قائد پر علی گڑھ ایسوسی ایشن کا وفد جاتا ہے تو اس سے خصوصی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فنی تعلیم اور زبان کی فہم و فراست فکر سیدی کے دو اہم موضوع ہیں، جلد ہی سرسید ٹاور میں اے آئی ٹی کی دوسری شاخ قائم کی جائے گی اور Chat GPT کی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جائے گی، جس میں زمانہ قدیم میں ہونے والے تاریخی واقعات کی عکاس بندی آواز کے ساتھ دور حاضر میں دکھائی جائے گی۔
کسی بھی قوم کی ترقی و خوشحالی میں اس کے نوجوانوں کا کردار ہمیشہ اہم ہوتا ہے جیسے قیام پاکستان کے سلسلے میں علی گڑھ کے طلبا، جس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شہر کے بیچوں بیچ ہے، اسی طرح علی گڑھ اور سرسید بھی شہر کے سینٹر میں بنائے گئے تاکہ طلبا باآسانی پہنچ سکیں۔ قیام پاکستان کے بعد طلبا علی گڑھ کا یہ دونوں ادارے قائم کرنا ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے جس کے روح رواں ظل احمد نظامی اور ذاکر علی خان تھے۔ جامعہ سرسید و علی گڑھ اپنی مخصوص اقدار ثقافت سے جامعہ علی گڑھ کا آئینہ ہیں۔
زیڈ اے نظامی ایک علمی ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے جن کے جد امجد سرسیدکے عاشق تھے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے شہر عزیز میں تعلیمی ادارے قائم کیے خصوصا ٹیکنالوجی کے فروغ میں آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ نظامی صاحب کے پردادا منشی محمد ارشاد علی نے اپنے فرزند مولوی فرید احمد کو یہ نصیحت فرمائی کہ '' خاندان کی بنیاد پر اپنی عزت کروانے کے بجائے خود خاندان کے لیے باعث افتخار ہونا چاہیے۔''
بلاشبہ نظامی صاحب کے تمام بزرگوں نے بشمول خود انھوں نے اس نصیحت پر من و عن عمل کیا اور سب ہی اپنے خاندان کی توقیر کا باعث ہوئے۔ فرخ نظامی ان اداروں کے قیام سے ہی اپنے والد کی سر براہی میںان سے وابستہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان میں ان اداروں کی بھلائی، بہتری اور ترقی کی تڑپ راقم کو واضح طور پر نظر آئی کہ ان اداروں کے قیام کے پیچھے جو فکر سیدی کے اہم محرکات کار فرما رہے وہ پورے ہوں، ان کے والد کا اصل خواب کیا تھا، ان اداروں کی موجودہ شکل کتنی تگ و دو کے بعد سامنے آئی جس کو وہ واضح نصب العین کی صورت میں منظر عام پر لانے کے لیے بے تاب ہیں، جو ان اداروں اس کے تعلیم یافتگان اور وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوں۔
بحیثیت المنائی راقم خود بھی بانی چانسلر نظامی صاحب کے نظم و نسق کی کمی کو اداروں میں واضح طور پر محسوس کر رہا ہے۔ دور حاضر کے طالبعلموں کی تعلیم سے عدم دلچسپی جس کی اہم ترین وجہ وطن عزیز کی موجودہ صورت حال عملی مشقوں کے لیے آلات میسر نہ ہونا تحقیق کے رحجانات کا مخدوش ہونا جو ان کے حصول روزگار کے مواقعوں کو متاثر کررہا ہے جس کے نتیجے میں ہمارا آج کا نوجوان دیار غیر میں اپنوں سے دوری کی اذیت جھیل کر اپنے خوابوں کی جنت تلاش کررہا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ تخت نشینی کی جنگوں سے مسلمانوں کو فائدے کے بجائے ہمیشہ نقصان ہی ہوا، ہم اپنے فلاحی معاملات جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے کیا کیا قربانیاں دیں کیا کیا خواب دیکھے کیونکہ وہ مصلح قوم سرسید کے جانشین تھے اس لیے انھوں نے کبھی اقتدار کی ہوس نہ رکھی اور آج وہی معاملات کی دھجیاں ایوانوں میں بے مقصد اچھالی جارہی ہیں یہاں تک کہ وہ مشن جس کے زیر اثر ان نایاب اداروں کا قیام عمل میں آیاوہ اس بلاسبب نورا کشتی کی وجہ سے جمود کا شکار ہے۔
سرسید نے انگریزی تعلیم پر اس وقت اس لیے زور دیا کہ وہ وقت کی ضرورت تھی اور انگریز سامراجی قوتوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے رابطے کا موثر ذریعہ بھی یہی زبان تھی پر اس کا یہ مطلب ہر گز کبھی بھی یہ نہیں رہا جو آج کی نسل اور ان کے بعض بزرگ لے رہے ہیں کہ اردو کم تر زبان ہے جب کہ قائداعظم کے پاکستان میں اسی زبان کو مادری زبان قرار دیا گیا ہے۔ سرسید کی تحریک نے اردو زبان کو وسعت دی بلکہ اس کے موضوعات کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر بھی کیا۔
اردو صحافت میں سرسید کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اس تحریک کے لیے تدبر اور شعور کو پروان چڑھانا لازمی تھا اور اردو نثر ہی ان مقاصد کو پورا کرسکتی تھی چنانچہ ادبی سطح پر اس تحریک نے اردو نثر کا ایک باوقار، سنجیدہ اور متوازن معیار قائم کیا، جو سادگی اور متانت کا لبادہ پہنے ادب کی افادی اور مقصدی حیثیت کو ابھار سکی کیونکہ غلامی کی زبان کبھی بھی سر اٹھا کر آگئے بڑھنے میں معاون و مددگار نہیں ہوسکتی۔