الیکشن اور الیکشن
ڈریں اس وقت سے جب حشر بپا ہوگا، میدان عدل سجایا جائے گا، پوری فلم دکھائی جائے گی
کسی مفکر نے کیا خوب کہا تھا کہ لولی، لنگڑی جمہوریت آمریت سے ہزار درجہ بہتر ہے، لیکن گزشتہ ماہ و سال میں ہمیں یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ آمریت اور جمہوریت دونوں ایک ماں باپ کی اولاد اور سگی بہنیں ہیں، وہ ہی شکل و صورت اور عادات و اطوار، اپنی رعایا سے ناروا سلوک ہمارے اپنے سیاستدانوں کا تحفہ ہے، علامہ نے ایسے ہی حالات کی عکاسی کی ہے کہ اچھے برے حالات و واقعات ہر دور میں جنم لیتے رہے ہیں۔
امید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے
یہ خاکباز ہیں رکھتے ہیں خاک سے پیوند
ہمیشہ مورو مگسں پر نگاہ ہے ان کی
جہاں میں ہے صفتِ عنکبوت ان کی کمند
خوشا وہ قافلہ جس کے امیر کی ہے متاع
تخیل ملکوتی و جذبہ ہائے بلند
اقبال کا تخیل ملکوتی اور جذبہ ہائے بلند کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے، حرص و ہوس دولت، عیش و عشرت سب کچھ پانے کی تمنا نے خودی کا جنازہ نکال دیا ہے، محض اقتدار کے حصول کے لیے رنگین خوابوں کی نمائش تو ہورہی ہے، یہ وہ خواب ہیں جن کی کوئی تعبیر نہیں، لیکن جلسے جلوس اس حقیقت کو نظر انداز کر کے اعتماد اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے ہوئے خوب ہوئے، ساتھ میں بڑے بڑے اشتہارات کی اشاعت قابل دید رہی، کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ یہ ہی لاکھوں کی رقم مرنے والوں کے لواحقین کو دے دیتے، ان کے زخموں پر مرہم رکھتے۔
مرحومین آپ ہی کی وجہ سے بارش اور نالوں میں ڈوب گئے، اپنی مدد آپ کے تحت ان کی لاشوں کو غلیظ اور گندے پانی سے نکالا گیا، ایمبولینس بھی انھیں میسر نہیں تھی، لٰہذا انھوں نے چارپائی پر لاش کو ڈال کر کسی نہ کسی طرح گھروں تک پہنچایا، قتل و غارت گری بھی خوب ہوئی، طرح طرح کی باتیں اور حقائق سامنے آتے رہے، عوام سے ووٹ بھی مانگتے ہیں اور جان بھی، ان پر بربریت کی داستان بھی رقم کی جاتی ہے، لیکن ظلم سہنے کے باوجود عوام عقل و شعور سے بے گانہ اور مذہب اسلام سے ناواقف جو چاہے وہ کرتے ہیں یا ان سے کروایا جاتا ہے۔
معاشرہ کا زوال، تعلیم کا فقدان، تربیت کی کمی اور طرہ امتیاز یہ کہ حکومت وقت تعلیمی استحصال کے لیے نوجوانوں اور بچوں سے کتابیں چھین کر اسکول بند کردیتے ہیں، آج سندھ میں سیکڑوں اسکول بند پڑے ہیں اور گھوسٹ اساتذہ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بیرون ممالک کی راہ پکڑی ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں پر جوں بھی نہیں رینگی کہ وہ اپنے ملک کا سرمایہ ملک میں رہنے دیں، ان کی حفاظت کریں اور خوشحالی و قدر دانی کے مواقع فراہم کریں۔
روشن مستقبل کے لیے حالات کو بہتر کریں تاکہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ملک کو خوشحال بنایا جائے، کیسے کیسے نگینے مٹی میں مل گئے، ہر روز طالب علموں کا قتل ہوتا ہے، اس سر زمین پر ڈاکو چھوڑ دیے گئے ہیں، خصوصا کراچی میں ہر موڑ پر، ہر گلی و شاہراہ پر اور گھروں پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں، قتل کیا جاتا ہے، گویا اپنا مال و اسباب ڈاکوؤں سے بچانا، اپنی موت کو دعوت دینا ہے، کوئی بچانے نہیں آتا ہے، قاتلوں اور ڈاکوؤں کو کھلی چھوٹ ہے، لیکن اقتدار میں آنے کے لیے وقت ہی وقت ہے۔
ڈریں اس وقت سے جب حشر بپا ہوگا، میدان عدل سجایا جائے گا، پوری فلم دکھائی جائے گی، اس وقت کوئی مدد گار نہیں ہوگا سوائے جہنم کی آگ کے جو اپنے پاس بلانے کے لیے بیتاب ہوگی، اب مسلمان نام کے مسلمان ہیں، حمیت، عزت، غیرت سب کچھ ختم بس گوشت کے چلتے پھرتے لوتھڑے ہیں، جنھیں انسان کہا جاتا ہے یا جو صرف اور صرف کھانے، پینے اور کمانے کے لیے زندہ ہیں، علامہ نے کیا خوب ترجمانی کی ہے۔
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاری، تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
اللہ سے امید ہے کہ وہ حق کی فتح کو یقینی بنائے گا، مظلوموں کی داد رسی کرنے والا وہ ہی ہمارا رب ہے، اللہ کو معجزے دکھاتے دیر نہیں لگتی، تمام سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لیے یہ ہی دعا ہے کہ اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ اس حقیقت کو سمجھیں کہ دنیا دو روزہ ہے، کل کے ڈکٹیٹر مٹی میں مل کر خاک ہوچکے ہیں، کبھی وہ غرور و تکبر میں مبتلا ہو کر انصاف کو مٹی میں رول رہے تھے، ان کا کیا انجام ہوا، یہ ہی انجام سب کا ہے، ایک دن سانسوں کی ڈوری کو ٹوٹنا ہی ہوتا ہے۔
امید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے
یہ خاکباز ہیں رکھتے ہیں خاک سے پیوند
ہمیشہ مورو مگسں پر نگاہ ہے ان کی
جہاں میں ہے صفتِ عنکبوت ان کی کمند
خوشا وہ قافلہ جس کے امیر کی ہے متاع
تخیل ملکوتی و جذبہ ہائے بلند
اقبال کا تخیل ملکوتی اور جذبہ ہائے بلند کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے، حرص و ہوس دولت، عیش و عشرت سب کچھ پانے کی تمنا نے خودی کا جنازہ نکال دیا ہے، محض اقتدار کے حصول کے لیے رنگین خوابوں کی نمائش تو ہورہی ہے، یہ وہ خواب ہیں جن کی کوئی تعبیر نہیں، لیکن جلسے جلوس اس حقیقت کو نظر انداز کر کے اعتماد اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے ہوئے خوب ہوئے، ساتھ میں بڑے بڑے اشتہارات کی اشاعت قابل دید رہی، کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ یہ ہی لاکھوں کی رقم مرنے والوں کے لواحقین کو دے دیتے، ان کے زخموں پر مرہم رکھتے۔
مرحومین آپ ہی کی وجہ سے بارش اور نالوں میں ڈوب گئے، اپنی مدد آپ کے تحت ان کی لاشوں کو غلیظ اور گندے پانی سے نکالا گیا، ایمبولینس بھی انھیں میسر نہیں تھی، لٰہذا انھوں نے چارپائی پر لاش کو ڈال کر کسی نہ کسی طرح گھروں تک پہنچایا، قتل و غارت گری بھی خوب ہوئی، طرح طرح کی باتیں اور حقائق سامنے آتے رہے، عوام سے ووٹ بھی مانگتے ہیں اور جان بھی، ان پر بربریت کی داستان بھی رقم کی جاتی ہے، لیکن ظلم سہنے کے باوجود عوام عقل و شعور سے بے گانہ اور مذہب اسلام سے ناواقف جو چاہے وہ کرتے ہیں یا ان سے کروایا جاتا ہے۔
معاشرہ کا زوال، تعلیم کا فقدان، تربیت کی کمی اور طرہ امتیاز یہ کہ حکومت وقت تعلیمی استحصال کے لیے نوجوانوں اور بچوں سے کتابیں چھین کر اسکول بند کردیتے ہیں، آج سندھ میں سیکڑوں اسکول بند پڑے ہیں اور گھوسٹ اساتذہ کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بیرون ممالک کی راہ پکڑی ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں پر جوں بھی نہیں رینگی کہ وہ اپنے ملک کا سرمایہ ملک میں رہنے دیں، ان کی حفاظت کریں اور خوشحالی و قدر دانی کے مواقع فراہم کریں۔
روشن مستقبل کے لیے حالات کو بہتر کریں تاکہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ملک کو خوشحال بنایا جائے، کیسے کیسے نگینے مٹی میں مل گئے، ہر روز طالب علموں کا قتل ہوتا ہے، اس سر زمین پر ڈاکو چھوڑ دیے گئے ہیں، خصوصا کراچی میں ہر موڑ پر، ہر گلی و شاہراہ پر اور گھروں پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں، قتل کیا جاتا ہے، گویا اپنا مال و اسباب ڈاکوؤں سے بچانا، اپنی موت کو دعوت دینا ہے، کوئی بچانے نہیں آتا ہے، قاتلوں اور ڈاکوؤں کو کھلی چھوٹ ہے، لیکن اقتدار میں آنے کے لیے وقت ہی وقت ہے۔
ڈریں اس وقت سے جب حشر بپا ہوگا، میدان عدل سجایا جائے گا، پوری فلم دکھائی جائے گی، اس وقت کوئی مدد گار نہیں ہوگا سوائے جہنم کی آگ کے جو اپنے پاس بلانے کے لیے بیتاب ہوگی، اب مسلمان نام کے مسلمان ہیں، حمیت، عزت، غیرت سب کچھ ختم بس گوشت کے چلتے پھرتے لوتھڑے ہیں، جنھیں انسان کہا جاتا ہے یا جو صرف اور صرف کھانے، پینے اور کمانے کے لیے زندہ ہیں، علامہ نے کیا خوب ترجمانی کی ہے۔
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاری، تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
اللہ سے امید ہے کہ وہ حق کی فتح کو یقینی بنائے گا، مظلوموں کی داد رسی کرنے والا وہ ہی ہمارا رب ہے، اللہ کو معجزے دکھاتے دیر نہیں لگتی، تمام سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لیے یہ ہی دعا ہے کہ اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ اس حقیقت کو سمجھیں کہ دنیا دو روزہ ہے، کل کے ڈکٹیٹر مٹی میں مل کر خاک ہوچکے ہیں، کبھی وہ غرور و تکبر میں مبتلا ہو کر انصاف کو مٹی میں رول رہے تھے، ان کا کیا انجام ہوا، یہ ہی انجام سب کا ہے، ایک دن سانسوں کی ڈوری کو ٹوٹنا ہی ہوتا ہے۔