الیکشن 24 اور مستقبل کا سیاسی منظرنامہ

غیر ملکی مبصرین نے بھی انتخابی عمل کی شفافیت اور الیکشن کمیشن پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں

mjgoher@yahoo.com

دنیا کے باوقار اور مہذب جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتوں کے وجود اور ان کے مثبت و تعمیری کردار سے انکار ممکن نہیں ہے۔

سیاسی جماعتوں کو عوام کی حمایت اور ان کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ رائے دہندگان کو متاثر کرکے انھیں اپنا ووٹر اور سپورٹر بنانے کے لیے سیاسی جماعتیں اپنا منشور ان کے سامنے رکھتی ہیں جس میں وہ یہ بتاتی ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ عوام کی فلاح و بہبود کے کیا کیا منصوبے بنائیں گی۔

عوام سیاسی جماعتوں کے منشور و کارکردگی سے متاثر ہو کر اپنی من پسند جماعت کے امیدواروں کو کامیاب کروا کے ایوان حکومت میں بھیجتے ہیں۔ایک مہذب جمہوری معاشرے میں استحکام کے لیے سیاسی جماعتیں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہیں ان سے نہ صرف معاشرتی و معاشی نظام کو تقویت ملتی ہے بلکہ سیاسی نظام کو جمہوری طریقے سے آگے بڑھا کر ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

ترقی پذیر ممالک میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت اور ضرورت اس لیے بھی مزید بڑھ جاتی ہے کیوں کہ ترقی پذیر ممالک میں ترقی و خوشحالی اور معاشی و معاشرتی استحکام کا دار و مدار عوام کے اطمینان اور متحرک سیاسی سرگرمیوں پر منحصر ہوتا ہے، سیاسی جماعتیں ہی عوام میں سیاسی شعور بیدار کرتی ہیں اور انھی سرگرمیوں کی بدولت سیاسی نظام میں نظم و ضبط اور آگے بڑھنے اور قیادت کرنے کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔

اسی طرح سیاسی جماعتوں کے ذریعے قیادت کا عروج، پختہ نظریات کا تصور، نظم و ضبط، مستحکم حکومت کی تشکیل، اقتدار میں عوام کی واضح شمولیت، رہنماؤں کا عوام سے بلاواسطہ رابطہ اور اس کا تسلسل اور حزب اختلاف کا کردار سامنے آتا ہے۔

پاکستان کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کے کردار و عمل اور قیادت، نظریات، اصول، منشور اور انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح اور پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے اصول، نظریات، منشور، عوامی خدمت، آئین و قانون کی پاسداری اور منصفانہ، شفاف جمہوری نظام حکومت کا جو فلسفہ پیش کیا اور خود عمل کرکے دکھایا تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان کے بعد آنے والے سیاستدان اپنے قائد کے نظریہ سیاست کی پیروی کرتے، تو یقیناً یہ ملک صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوتا۔


اس کے ماتھے پر سقوط کے کلنک کا ٹیکہ نہ لگتا، غیر جمہوری قوتوں کو شب خون مارنے کی جسارت نہ ہوتی، ملک چار بار مارشل لا کے پنجہ آشوب میں نہ جکڑتا، آئین کو بازیچہ اطفال نہ بنایا جاتا، معیشت مستحکم ہوتی، لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ ہمارے سیاستدانوں نے بالغ نظری، اصولوں، نظریات، آئین اور قانون کی حکمرانی کا خواب چکنا چور کر دیا۔ ملک کا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔ ایٹمی ملک ہونے کے باوجود ہم رسوائیوں کی دلدل میں اترتے جا رہے ہیں۔

ہمارے ارباب سیاست ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتے رہے۔ نتیجتاً جمہوریت کمزور اور عوام مایوس و بددل ہوتے رہے ۔ اسی باعث ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹوں کا تناسب کبھی بھی سو فی صد نہیں رہا۔ آپ گزشتہ تین چار دہائیوں کے انتخابی نتائج دیکھ لیجیے۔ ٹرن آؤٹ 35 سے 55 فی صد کے درمیان رہا۔ نتیجتاً ملک میں مخلوط حکومتیں قائم ہوتی رہیں جو چھوٹی جماعتوں اور پریشر گروپوں کے ہاتھوں باآسانی بلیک میل ہو جاتی ہیں اور ملکی استحکام کے حوالے سے بڑے فیصلے کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔

ملک میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں بھی پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں سے کسی جماعت کو سادہ اکثریت نہ مل سکی۔ سب سے زیادہ تقریباً 100 کے لگ بھگ آزاد ارکان منتخب ہوئے جن میں اکثریت پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ ہے۔میاں نواز شریف نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تمام جماعتوں کو حکومت سازی کی دعوت دے رہے ہیں تاکہ مخلوط حکومت بنا کر ملک کو بحرانوں سے نکالا جائے۔ اس ضمن میں انھوں نے شہباز شریف کو ذمے داری دی ہے کہ وہ آصف زرداری، فضل الرحمن اور خالد مقبول صدیقی سے بات کرکے مخلوط حکومت کا خاکہ تیار کریں۔

شہباز شریف آصف زرداری سے ابتدائی ملاقات کرچکے ہیں۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی ، چھوٹی جماعتیں اور کچھ آزاد ارکان کو ملا کر حکومت سازی کریں گی۔ جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں مخلوط حکومت بنائی جائے گی جب کہ خیبر پختونخوا میں آزاد ارکان حکومت بنائیں گے ۔

پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پی پی پی اور کے پی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ وزرائے اعلیٰ کا انتخاب یقینی ہے جب کہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کی مشاورت سے وزیر اعلیٰ بنے گا، البتہ وفاق میں وزیر اعظم کے لیے (ن) لیگ سے نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو مضبوط امیدوار ہیں۔

صدر عارف علوی رخصت ہونے والے ہیں۔ لہٰذا صدر کے منصب کے لیے بھی (ن) لیگ اور پی پی پی میں سے کسی ایک کو یہ عہدہ ملے گا۔ سابق صدر زرداری اس کے مضبوط امیدوار ہیں۔ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے بھی انھی دو بڑی جماعتوں کے امیدوار مدمقابل ہوں گے۔ ایم کیو ایم کو وزارتوں سے بہلا لیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔

8 فروری 2024 کے الیکشن میں الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج میں حد درجہ تاخیر کی، ہارنے والے امیدوار دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں اور انتخابی نتائج کو عدالتوں میں چیلنج کیے جانے کے اشارے مل رہے ہیں جس سے ایک نیا پنڈورا باکس کھلے گا۔ غیر ملکی مبصرین نے بھی انتخابی عمل کی شفافیت اور الیکشن کمیشن پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔بدقسمتی یہ کہ ہمیشہ کی طرح الیکشن 2024 کو بھی دھاندلی زدہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
Load Next Story