آئیں نئے سفر کا آغاز کریں
کیا ان انتخابات کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی ہے اس کی خود مختاری قبول کی جائے گی؟
یہ امر انتہائی خوش آیند ہے کہ تمام تر خدشات اور افواہوں کے باوجود عام انتخابات کا پر امن انعقاد عمل میں آچکا ہے اور دہشت گردی کے دو واقعات کے علاوہ پورے ملک میں لوگوں نے پرامن ماحول میں اپنا ووٹ دینے کے حق کا بھرپور استعمال کیا ہے۔
آیندہ چند ہفتوں کے دوران سیاسی منظر نامہ مکمل حد تک واضح ہوجائے گا اور نو منتخب پارلیمنٹ اپنی ذمے داریاں سنبھال لے گی اور عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل ایک جمہوری حکومت اپنے کام کا آغاز کردے گی۔
یہی وقت ہے کہ لوگوں پر پارلیمنٹ کی اہمیت، آزادی اور خود مختاری کے معاملات کو اجاگرکیا جائے، اگر پارلیمنٹ نے آنے والے دنوں میں اپنا کردار موثر طور پر ادا نہیں کیا یا اگر اسے یہ کردار ادا کرنے سے روکا گیا تو جمہوری نظام سنگین بحران سے دوچار ہوجائے گا۔
آج یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ75 برس بعد بھی جمہوریت اگر پاکستان میں پروان نہیں چڑھ سکی تو اس کی بنیادی وجہ پارلیمنٹ کی بے توقیری ہے۔ قیام پاکستان کے چند مہینوں بعد سے ہی صوبائی اسمبلیاں، قانون ساز اسمبلی اور قومی اسمبلی کا ٹوٹنا ایک مستقل معمول بن چکا ہے۔
پاکستان میں مقننہ کے سوا دیگر تمام ریاستی اداروں کے خلاف زبان کھولنا نہ صرف توہین بلکہ عموماً غداری کے زمرے میں آتا ہے لیکن پارلیمنٹ کی توہین کرنے اور اس معزز ادارے کا مضحکہ اڑانے والوں کی کبھی گرفت نہیں کی گئی جس سے دوسرے تمام ریاستی ادارے وجود میں آئے ہیں۔
پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمنٹ کی حیثیت '' ماں'' کی ہوتی ہے، لہٰذا اس کی عزت و تکریم سب ہی پر لازم ہے۔ پاکستان میں پارلیمنٹ کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا، وہی سب کچھ دنیا کے ان ملکوں میں کسی نہ کسی وقت ہوا ہے جہاں پارلیمانی جمہوریت رائج ہے۔ برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جدید دنیا کی سب سے پرانی پارلیمنٹ کو بھی اپنی بالادستی تسلیم کرانے کی خاطر ایک طویل جنگ لڑنی پڑی تھی۔
آج سے کئی صدیوں پہلے برطانیہ کی پارلیمنٹ نے مسلسل دباؤ، توہین اور تضحیک سے تنگ آکر ایک '' احتجاج نامہ'' تیارکیا تھا اور اپنے حقوق، آزادی اور جائز استحقاق کے لیے آواز بلند کی تھی۔ اس وقت جیمز اول برطانیہ کا بادشاہ تھا۔ اسے پارلیمنٹ کی اس جسارت پر غصہ آیا اور اس نے پارلیمنٹ کو توڑ کر ان ارکان پارلیمنٹ کو قید کر دیا جو اس '' احتجاج نامے'' کی تیاری میں پیش پیش تھے۔
اس واقعے کے 27 سال بعد پارلیمنٹ نے ایک مرتبہ پھر اپنی آزادی کی بحالی کے لیے آواز اٹھائی اور مشہور زمانہ '' عرض داشت حقوق'' پیش کی۔ جس کے ذریعے پارلیمنٹ نے اصرار کیا کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی ٹیکس نہ لگایا جائے، فوج کی بالادستی ختم کی جائے اور کسی بھی شہری کو بغیر قانونی ثبوت کے حراست میں نہ رکھا جائے۔
برطانوی پارلیمنٹ کی جس بری طرح توہین کی جاتی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب چارلس اول کو یہ معلوم ہوا کہ اس کی شدید مخالفت کرنے والے 5 ارکان پارلیمنٹ میں موجود ہیں تو وہ غصے سے بل کھاتا ہوا دارالعوام میں گھس گیا۔ اسپیکر کو کرسی سے اتار کر خود اس کی کرسی پر بیٹھ گیا اور اسپیکر کو حکم دیا کہ اس کے مخالف ارکان پارلیمنٹ کو فوراً اس کے حوالے کیا جائے۔
اسپیکر نے چارلس اول کو جواب دیا کہ ''حضور میں اس ایوان کا ایک ادنیٰ رکن ہوں۔ جب تک یہ ایوان مجھے کچھ دیکھنے یا سننے کا حکم نہ دے اس وقت تک نہ میں آنکھیں رکھتا ہوں کہ کچھ دیکھ سکوں اور نہ کان رکھتا ہوں کہ کچھ سن سکوں۔ ولیم کی برطانیہ آمد کے بعد جمہوری حکومت کے قیام اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا ایک روشن دور شروع ہوا۔
برطانوی تاریخ کی اس اہم تبدیلی کو '' شاندار انقلاب'' کا نام دیا جاتا ہے۔ 1688میں رونما ہونے والا یہ انقلاب پُر امن تھا۔ اس انقلاب نے بادشاہت کی بالادستی کو ختم کیا اور برطانیہ میں پارلیمانی جمہوریت کا آغاز ہوا اور بادشاہ کی حیثیت محض آئینی رہ گئی۔
قیام پاکستان کے بعد ملک میں آئین بنانے کی جتنی بھی کوششیں کی گئیں، انھیں ناکام بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا لیکن اس کے باوجود دستور ساز اسمبلی میں موجود مشرقی اور مغربی پاکستان کے نمایندوں نے آئین سازی کے عمل کو آگے بڑھایا۔ اس عمل میں تعطل پیدا کرنے کی غرض سے حکمران اشرافیہ کے نمایندے گورنر جنرل غلام محمد خان نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے 1953 میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کردی۔
جب خواجہ ناظم الدین کو ان کے منصب سے ہٹایا گیا تو ان کی حکومت کو ارکان پارلیمنٹ کی واضح حمایت حاصل تھی۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو کٹھ پتلی وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ ان کا انتخاب اس لیے بھی کیا گیا کہ وہ ایک بنگالی تھے اور امریکا بھی انھیں پسند کرتا تھا۔
وزیر اعظم محمد علی بوگرہ سے جوکابینہ بنوائی گئی اس میں ایک سابق جنرل اور سول سرونٹ اسکندر مرزا کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا اور باوردی آرمی چیف جنرل ایوب خان وزیر دفاع مقرر ہوئے اور بیوروکریسی کے اہم رکن چوہدری محمد علی کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ اس طرح پر امن جمہوری اور سیاسی جدوجہد سے معرض وجود میں آنے والے ملک پر غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کے غلبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ اس غلبے کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے۔
مشرقی پاکستان کے خلاف مغربی پاکستان کو متحد کرنے کے لیے نومبر 1954 میں چھوٹے صوبوں کی خواہش کے برعکس ون یونٹ کا نظام مسلط کیا گیا اور مشرقی پاکستان کی عدد ی برتری ختم کرنے کے لیے برابری ( پیرٹی) کا نظام بنا کر دونوں حصوں کی نمایندگی مساوی کر دی گئی۔ ان تمام غیر جمہوری اقدامات کے باوجود مغربی اور مشرقی پاکستان کے نمایندوں نے 1956 کا آئین منظور کر لیا جس کے مطابق 1958 میں عام انتخابات کا انعقاد طے پایا۔
اب مرحلہ یہ درپیش تھا کہ 1958 کے مجوزہ انتخابات کو کس طرح روکا جائے کیوں کہ اس وقت کی حکمران اشرافیہ یہ اچھی طرح جانتی تھی کہ مشرقی پاکستان کے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس غصے کا بڑا اظہار 1952 میں بنگالی زبان کے لیے شروع کی گئی تحریک کے دوران ہوا تھا جس کے بعد 1954 میں جگتو فرنٹ کی کامیابی نے یہ واضح کردیا تھا کہ مشرقی بازو کے پاکستانی کسی بھی صورت میں جمہوری نظام پر کوئی سودا نہیں کریں گے۔
1958 میں انتخابات ہوتے تو مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے عوام کے نمایندوں کی اکثریت پنجاب کے سیاسی حلیفوں سے مل کر جمہوری حکومت تشکیل دیتی اور پاکستان جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوجاتا۔ لیکن لوگوں نے اپنے مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دی اور مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ جنرل ایوب خان کی طویل آمریت کے بعد بالآخر 1970 میں عام انتخابات کرانا پڑے۔
ان انتخابات کے ذریعے عوام نے جو پارلیمنٹ منتخب کی اس کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو تخلیق پانے والا ملک محض 24 سال مکمل کرنے کے بعد 16 دسمبر 1971 کو دولخت ہوگیا۔ پاکستانیوں کی اکثریت اس ملک سے الگ ہوگئی جس کے لیے اس نے بے مثال جدوجہد کی تھی۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے پارلیمنٹ کی بالا دستی اور اس کے منتخب کردہ وزرائے اعظم کی حکمرانی کوکبھی قبول نہیں کیا ۔1947سے لے کر 2024 تک کل 25 وزیر اعظم بر سراقتدار آئے، ان میں سے 8 نگران تھے۔ 17 وزرائے اعظم مختصر مدت تک ہی برسراقتدار رہ سکے۔ اس افسوسناک صورتحال کی مختصر ترین تفصیل کچھ یوں ہے۔
لیاقت علی خان4 سال 2 ماہ 2 دن ۔ خواجہ ناظم الدین ایک سال 6 ماہ۔ محمد علی بوگرا2 سال 3 ماہ 26 دن۔ چوہدری محمد علی ایک سال ایک ماہ۔ حسین شہید سہروردی ایک سال ایک ماہ 5 دن ۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر، ایک ماہ 29 دن۔ فیروز خان نون،9 ماہ اور 21 دن ۔ نور الامین، (13 دن)۔ ذوالفقار علی بھٹو،3 سال 10 ماہ اور 21 دن۔ محمد خان جونیجو،3 سال 2 ماہ اور 5 دن۔ بینظیر بھٹو، ایک سال 8 ماہ 4 دن۔ نواز شریف،2 سال 5 ماہ 12 دن ۔نواز شریف،ایک ماہ 22 دن۔ بینظیر بھٹو،3 سال 17 دن۔ نواز شریف،2 سال 7 ماہ 25 دن ۔ ظفر اللہ خان جمالی، ایک سال 7 ماہ اور 3 دن۔ چوہدری شجاعت حسین،1 ماہ 27 دن ۔ شوکت عزیز،3 سال 2 ماہ اور 18 دن ۔ یوسف رضا گیلانی،4 سال 2 ماہ اور 25 دن۔ راجہ پرویز اشرف،9 ماہ اور 2 دن۔ نواز شریف،4 سال ایک ماہ اور 23 دن۔ شاہد خاقان عباسی،11 ماہ، عمران خان ، 3 سال 7 ماہ 22 دن۔ محمد شہباز شریف، ایک سال چار ماہ اقتدار میں رہے۔
ہم ایک بار پھر پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کو منتخب کرچکے ہیں۔ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی ہے اس کی خود مختاری قبول کی جائے گی؟ کیا پارلیمنٹ جس وزیر اعظم کا انتخاب کرے گی وہ اپنی آئینی میعاد پوری کرسکے گا؟ ہمارے مستقبل کا انحصار ان دو سوالوں کے جواب پر ہوگا۔
آیندہ چند ہفتوں کے دوران سیاسی منظر نامہ مکمل حد تک واضح ہوجائے گا اور نو منتخب پارلیمنٹ اپنی ذمے داریاں سنبھال لے گی اور عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل ایک جمہوری حکومت اپنے کام کا آغاز کردے گی۔
یہی وقت ہے کہ لوگوں پر پارلیمنٹ کی اہمیت، آزادی اور خود مختاری کے معاملات کو اجاگرکیا جائے، اگر پارلیمنٹ نے آنے والے دنوں میں اپنا کردار موثر طور پر ادا نہیں کیا یا اگر اسے یہ کردار ادا کرنے سے روکا گیا تو جمہوری نظام سنگین بحران سے دوچار ہوجائے گا۔
آج یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ75 برس بعد بھی جمہوریت اگر پاکستان میں پروان نہیں چڑھ سکی تو اس کی بنیادی وجہ پارلیمنٹ کی بے توقیری ہے۔ قیام پاکستان کے چند مہینوں بعد سے ہی صوبائی اسمبلیاں، قانون ساز اسمبلی اور قومی اسمبلی کا ٹوٹنا ایک مستقل معمول بن چکا ہے۔
پاکستان میں مقننہ کے سوا دیگر تمام ریاستی اداروں کے خلاف زبان کھولنا نہ صرف توہین بلکہ عموماً غداری کے زمرے میں آتا ہے لیکن پارلیمنٹ کی توہین کرنے اور اس معزز ادارے کا مضحکہ اڑانے والوں کی کبھی گرفت نہیں کی گئی جس سے دوسرے تمام ریاستی ادارے وجود میں آئے ہیں۔
پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمنٹ کی حیثیت '' ماں'' کی ہوتی ہے، لہٰذا اس کی عزت و تکریم سب ہی پر لازم ہے۔ پاکستان میں پارلیمنٹ کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا، وہی سب کچھ دنیا کے ان ملکوں میں کسی نہ کسی وقت ہوا ہے جہاں پارلیمانی جمہوریت رائج ہے۔ برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جدید دنیا کی سب سے پرانی پارلیمنٹ کو بھی اپنی بالادستی تسلیم کرانے کی خاطر ایک طویل جنگ لڑنی پڑی تھی۔
آج سے کئی صدیوں پہلے برطانیہ کی پارلیمنٹ نے مسلسل دباؤ، توہین اور تضحیک سے تنگ آکر ایک '' احتجاج نامہ'' تیارکیا تھا اور اپنے حقوق، آزادی اور جائز استحقاق کے لیے آواز بلند کی تھی۔ اس وقت جیمز اول برطانیہ کا بادشاہ تھا۔ اسے پارلیمنٹ کی اس جسارت پر غصہ آیا اور اس نے پارلیمنٹ کو توڑ کر ان ارکان پارلیمنٹ کو قید کر دیا جو اس '' احتجاج نامے'' کی تیاری میں پیش پیش تھے۔
اس واقعے کے 27 سال بعد پارلیمنٹ نے ایک مرتبہ پھر اپنی آزادی کی بحالی کے لیے آواز اٹھائی اور مشہور زمانہ '' عرض داشت حقوق'' پیش کی۔ جس کے ذریعے پارلیمنٹ نے اصرار کیا کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی ٹیکس نہ لگایا جائے، فوج کی بالادستی ختم کی جائے اور کسی بھی شہری کو بغیر قانونی ثبوت کے حراست میں نہ رکھا جائے۔
برطانوی پارلیمنٹ کی جس بری طرح توہین کی جاتی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب چارلس اول کو یہ معلوم ہوا کہ اس کی شدید مخالفت کرنے والے 5 ارکان پارلیمنٹ میں موجود ہیں تو وہ غصے سے بل کھاتا ہوا دارالعوام میں گھس گیا۔ اسپیکر کو کرسی سے اتار کر خود اس کی کرسی پر بیٹھ گیا اور اسپیکر کو حکم دیا کہ اس کے مخالف ارکان پارلیمنٹ کو فوراً اس کے حوالے کیا جائے۔
اسپیکر نے چارلس اول کو جواب دیا کہ ''حضور میں اس ایوان کا ایک ادنیٰ رکن ہوں۔ جب تک یہ ایوان مجھے کچھ دیکھنے یا سننے کا حکم نہ دے اس وقت تک نہ میں آنکھیں رکھتا ہوں کہ کچھ دیکھ سکوں اور نہ کان رکھتا ہوں کہ کچھ سن سکوں۔ ولیم کی برطانیہ آمد کے بعد جمہوری حکومت کے قیام اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا ایک روشن دور شروع ہوا۔
برطانوی تاریخ کی اس اہم تبدیلی کو '' شاندار انقلاب'' کا نام دیا جاتا ہے۔ 1688میں رونما ہونے والا یہ انقلاب پُر امن تھا۔ اس انقلاب نے بادشاہت کی بالادستی کو ختم کیا اور برطانیہ میں پارلیمانی جمہوریت کا آغاز ہوا اور بادشاہ کی حیثیت محض آئینی رہ گئی۔
قیام پاکستان کے بعد ملک میں آئین بنانے کی جتنی بھی کوششیں کی گئیں، انھیں ناکام بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا لیکن اس کے باوجود دستور ساز اسمبلی میں موجود مشرقی اور مغربی پاکستان کے نمایندوں نے آئین سازی کے عمل کو آگے بڑھایا۔ اس عمل میں تعطل پیدا کرنے کی غرض سے حکمران اشرافیہ کے نمایندے گورنر جنرل غلام محمد خان نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے 1953 میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کردی۔
جب خواجہ ناظم الدین کو ان کے منصب سے ہٹایا گیا تو ان کی حکومت کو ارکان پارلیمنٹ کی واضح حمایت حاصل تھی۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو کٹھ پتلی وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ ان کا انتخاب اس لیے بھی کیا گیا کہ وہ ایک بنگالی تھے اور امریکا بھی انھیں پسند کرتا تھا۔
وزیر اعظم محمد علی بوگرہ سے جوکابینہ بنوائی گئی اس میں ایک سابق جنرل اور سول سرونٹ اسکندر مرزا کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا اور باوردی آرمی چیف جنرل ایوب خان وزیر دفاع مقرر ہوئے اور بیوروکریسی کے اہم رکن چوہدری محمد علی کو وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ اس طرح پر امن جمہوری اور سیاسی جدوجہد سے معرض وجود میں آنے والے ملک پر غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کے غلبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ اس غلبے کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے۔
مشرقی پاکستان کے خلاف مغربی پاکستان کو متحد کرنے کے لیے نومبر 1954 میں چھوٹے صوبوں کی خواہش کے برعکس ون یونٹ کا نظام مسلط کیا گیا اور مشرقی پاکستان کی عدد ی برتری ختم کرنے کے لیے برابری ( پیرٹی) کا نظام بنا کر دونوں حصوں کی نمایندگی مساوی کر دی گئی۔ ان تمام غیر جمہوری اقدامات کے باوجود مغربی اور مشرقی پاکستان کے نمایندوں نے 1956 کا آئین منظور کر لیا جس کے مطابق 1958 میں عام انتخابات کا انعقاد طے پایا۔
اب مرحلہ یہ درپیش تھا کہ 1958 کے مجوزہ انتخابات کو کس طرح روکا جائے کیوں کہ اس وقت کی حکمران اشرافیہ یہ اچھی طرح جانتی تھی کہ مشرقی پاکستان کے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس غصے کا بڑا اظہار 1952 میں بنگالی زبان کے لیے شروع کی گئی تحریک کے دوران ہوا تھا جس کے بعد 1954 میں جگتو فرنٹ کی کامیابی نے یہ واضح کردیا تھا کہ مشرقی بازو کے پاکستانی کسی بھی صورت میں جمہوری نظام پر کوئی سودا نہیں کریں گے۔
1958 میں انتخابات ہوتے تو مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے عوام کے نمایندوں کی اکثریت پنجاب کے سیاسی حلیفوں سے مل کر جمہوری حکومت تشکیل دیتی اور پاکستان جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوجاتا۔ لیکن لوگوں نے اپنے مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دی اور مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ جنرل ایوب خان کی طویل آمریت کے بعد بالآخر 1970 میں عام انتخابات کرانا پڑے۔
ان انتخابات کے ذریعے عوام نے جو پارلیمنٹ منتخب کی اس کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو تخلیق پانے والا ملک محض 24 سال مکمل کرنے کے بعد 16 دسمبر 1971 کو دولخت ہوگیا۔ پاکستانیوں کی اکثریت اس ملک سے الگ ہوگئی جس کے لیے اس نے بے مثال جدوجہد کی تھی۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے پارلیمنٹ کی بالا دستی اور اس کے منتخب کردہ وزرائے اعظم کی حکمرانی کوکبھی قبول نہیں کیا ۔1947سے لے کر 2024 تک کل 25 وزیر اعظم بر سراقتدار آئے، ان میں سے 8 نگران تھے۔ 17 وزرائے اعظم مختصر مدت تک ہی برسراقتدار رہ سکے۔ اس افسوسناک صورتحال کی مختصر ترین تفصیل کچھ یوں ہے۔
لیاقت علی خان4 سال 2 ماہ 2 دن ۔ خواجہ ناظم الدین ایک سال 6 ماہ۔ محمد علی بوگرا2 سال 3 ماہ 26 دن۔ چوہدری محمد علی ایک سال ایک ماہ۔ حسین شہید سہروردی ایک سال ایک ماہ 5 دن ۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر، ایک ماہ 29 دن۔ فیروز خان نون،9 ماہ اور 21 دن ۔ نور الامین، (13 دن)۔ ذوالفقار علی بھٹو،3 سال 10 ماہ اور 21 دن۔ محمد خان جونیجو،3 سال 2 ماہ اور 5 دن۔ بینظیر بھٹو، ایک سال 8 ماہ 4 دن۔ نواز شریف،2 سال 5 ماہ 12 دن ۔نواز شریف،ایک ماہ 22 دن۔ بینظیر بھٹو،3 سال 17 دن۔ نواز شریف،2 سال 7 ماہ 25 دن ۔ ظفر اللہ خان جمالی، ایک سال 7 ماہ اور 3 دن۔ چوہدری شجاعت حسین،1 ماہ 27 دن ۔ شوکت عزیز،3 سال 2 ماہ اور 18 دن ۔ یوسف رضا گیلانی،4 سال 2 ماہ اور 25 دن۔ راجہ پرویز اشرف،9 ماہ اور 2 دن۔ نواز شریف،4 سال ایک ماہ اور 23 دن۔ شاہد خاقان عباسی،11 ماہ، عمران خان ، 3 سال 7 ماہ 22 دن۔ محمد شہباز شریف، ایک سال چار ماہ اقتدار میں رہے۔
ہم ایک بار پھر پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کو منتخب کرچکے ہیں۔ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی ہے اس کی خود مختاری قبول کی جائے گی؟ کیا پارلیمنٹ جس وزیر اعظم کا انتخاب کرے گی وہ اپنی آئینی میعاد پوری کرسکے گا؟ ہمارے مستقبل کا انحصار ان دو سوالوں کے جواب پر ہوگا۔