عدالت نے کراچی آپریشن کی قانونی حیثیت اور طریقے کی تفصیلات طلب کر لیں
آپریشن میں شہریوں کی گمشدگی اور غیرقانونی حراست پرہائیکورٹ کا تشویش کا اظہار
لاہور:
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے امن وامان کے سلسلے میں شہر میں جاری آپریشن کے دوران شہریوں کی گمشدگی اور غیرقانونی حراست پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جاری اس آپریشن کی قانونی حیثیت اور تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ غیرقانونی حراست میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے ملوث ہونے کے الزامات اور لاپتہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے،عدالت نے ہدایت کی کہ کراچی میں جاری آپریشن سے متعلق جاری نوٹیفکیشن کی قانونی حیثیت اور کارروائی کا طریقہ کار بتایا جائے اور کارروائی میں حصہ لینے والے رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں کی تفصیلات بھی بتائی جائیں کہ کون سے اہلکاران کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں اور گرفتار ہونے والوں کے ساتھ کیا قانونی طریقہ کار اختیار کیاجاتا ہے، عدالت نے ڈی جی رینجرز اور ایڈیشنل آئی جی کراچی کوہدایت کی کہ لاپتہ افراد کا معاملہ خود دیکھیں کیوں کہ اس ضمن میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے خلاف شکایات بڑھ رہی ہیں۔
جمعرات کو متعدد لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت ہوئی ،گارڈن کے رہائشی فخرالدین کی درخواست کی سماعت کے موقع پرمتعلقہ پولیس ہلکار پیش ہوئے،درخواست گزار کے مطابق اس کے بیٹے ارشد کو 10 مارچ 2013کو گھر کے سامنے سے رینجرز نے حراست میں لیاتھا وہ تاحال لاپتہ ہے،پولیس افسران نے بتایا کہ ارشد کی گمشدگی کا مقدمہ 121/2013درج کرلیا گیا تھا،قانون نافذکرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کے خلاف درج مقدمہ میں شواہد نہیں ملے جس پرمقدمہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ173 کے تحت ''اے''کلاس (ختم)کرنے کیلیے رپورٹ متعلقہ مجسٹریٹ اور حکام بالا کو بھیج دی گئی ہے،عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر ارشد کو بازیاب کراکر عدالت میں پیش کیا جائے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ24جون کوکراچی آپریشن سے متعلق تفصیلات پیش کی جائیں اور قانون نافذکرنے والے اداروں کامقرر کردہ فوکل پرسن خود پیش ہو، مسمات عشرت جہاں کی درخواست کی سماعت کے موقع پرمتعلقہ پولیس افسرن پیش ہوئے ،انھوں نے بتایا کہ درخواست گزار کے بیٹے محمد زبیراعظم کی گمشدگی کامقدمہ 196/14 گلشن اقبال تھانہ میں درج کرلیا گیا،درخواست گزار کے وکیل نے پولیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کااظہار کیا جس پرعدالت نے ایس ایس پی ایسٹ کو خود تفتیش کی نگرانی کی ہدایت کرتے ہوئے قانون نافذکرنے والے اداروں کوحکم دیا کہ محمد زبیراعظم کو آئندہ سماعت تک بازیاب کراکرعدالت میں پیش کریں، عدالت نے دونوں مقدمات کی سماعت24جون تک ملتوی کردی۔
عدالت نے عامر رشید کی گمشدگی سے متعلق مسمات نائلہ عامر کی درخواست پر محکمہ داخلہ آئی جی سندھ اور دیگر کو11جون کیلیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا،درخواست گزار نے موقف اختیارکیا ہے کہ درخواست گزار کے شوہر عامر رشید جو کہ تھانہ سائٹ اے میں درج مقدمہ 323/2014کے مدعی ہیں،مذکورہ پولیس نے مطلع کیا کہ عامر رشید کو مقدمہ کی سماعت کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کیلیے طلب کیاجس پر پولیس عامر رشید کواپنے ہمراہ30مئی2014کوسٹی کورٹ لے گئی اور بعد میں پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ سٹی کورٹ کے گیٹ نمبر3سے سادہ لباس والے افراد عامر رشید کو زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے ہیں،عدالت نے مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایس ایچ اوسٹی کورٹ کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے امن وامان کے سلسلے میں شہر میں جاری آپریشن کے دوران شہریوں کی گمشدگی اور غیرقانونی حراست پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جاری اس آپریشن کی قانونی حیثیت اور تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ غیرقانونی حراست میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے ملوث ہونے کے الزامات اور لاپتہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے،عدالت نے ہدایت کی کہ کراچی میں جاری آپریشن سے متعلق جاری نوٹیفکیشن کی قانونی حیثیت اور کارروائی کا طریقہ کار بتایا جائے اور کارروائی میں حصہ لینے والے رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں کی تفصیلات بھی بتائی جائیں کہ کون سے اہلکاران کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں اور گرفتار ہونے والوں کے ساتھ کیا قانونی طریقہ کار اختیار کیاجاتا ہے، عدالت نے ڈی جی رینجرز اور ایڈیشنل آئی جی کراچی کوہدایت کی کہ لاپتہ افراد کا معاملہ خود دیکھیں کیوں کہ اس ضمن میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے خلاف شکایات بڑھ رہی ہیں۔
جمعرات کو متعدد لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت ہوئی ،گارڈن کے رہائشی فخرالدین کی درخواست کی سماعت کے موقع پرمتعلقہ پولیس ہلکار پیش ہوئے،درخواست گزار کے مطابق اس کے بیٹے ارشد کو 10 مارچ 2013کو گھر کے سامنے سے رینجرز نے حراست میں لیاتھا وہ تاحال لاپتہ ہے،پولیس افسران نے بتایا کہ ارشد کی گمشدگی کا مقدمہ 121/2013درج کرلیا گیا تھا،قانون نافذکرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کے خلاف درج مقدمہ میں شواہد نہیں ملے جس پرمقدمہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ173 کے تحت ''اے''کلاس (ختم)کرنے کیلیے رپورٹ متعلقہ مجسٹریٹ اور حکام بالا کو بھیج دی گئی ہے،عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر ارشد کو بازیاب کراکر عدالت میں پیش کیا جائے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ24جون کوکراچی آپریشن سے متعلق تفصیلات پیش کی جائیں اور قانون نافذکرنے والے اداروں کامقرر کردہ فوکل پرسن خود پیش ہو، مسمات عشرت جہاں کی درخواست کی سماعت کے موقع پرمتعلقہ پولیس افسرن پیش ہوئے ،انھوں نے بتایا کہ درخواست گزار کے بیٹے محمد زبیراعظم کی گمشدگی کامقدمہ 196/14 گلشن اقبال تھانہ میں درج کرلیا گیا،درخواست گزار کے وکیل نے پولیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کااظہار کیا جس پرعدالت نے ایس ایس پی ایسٹ کو خود تفتیش کی نگرانی کی ہدایت کرتے ہوئے قانون نافذکرنے والے اداروں کوحکم دیا کہ محمد زبیراعظم کو آئندہ سماعت تک بازیاب کراکرعدالت میں پیش کریں، عدالت نے دونوں مقدمات کی سماعت24جون تک ملتوی کردی۔
عدالت نے عامر رشید کی گمشدگی سے متعلق مسمات نائلہ عامر کی درخواست پر محکمہ داخلہ آئی جی سندھ اور دیگر کو11جون کیلیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا،درخواست گزار نے موقف اختیارکیا ہے کہ درخواست گزار کے شوہر عامر رشید جو کہ تھانہ سائٹ اے میں درج مقدمہ 323/2014کے مدعی ہیں،مذکورہ پولیس نے مطلع کیا کہ عامر رشید کو مقدمہ کی سماعت کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کیلیے طلب کیاجس پر پولیس عامر رشید کواپنے ہمراہ30مئی2014کوسٹی کورٹ لے گئی اور بعد میں پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ سٹی کورٹ کے گیٹ نمبر3سے سادہ لباس والے افراد عامر رشید کو زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے ہیں،عدالت نے مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایس ایچ اوسٹی کورٹ کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔