عام انتخابات کا کامیاب انعقاد
پاکستان کے عوام نے آئین پاکستان پر اپنا مشترکہ اعتماد ظاہر کیا ہے
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے عام انتخابات 2024کے کامیاب انعقاد پر پوری پاکستانی قوم، نگران حکومت، سیاسی جماعتوں اور تمام جیتنے والے امیدواروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی عوام کی اپنے حق رائے دہی کے استعمال کے لیے آزادانہ اور بلاروک ٹوک شرکت، جمہوریت کے لیے ان کے عزم کا ثبوت ہے، اللہ کرے یہ انتخابات سیاسی اور معاشی استحکام لائیں اور ہمارے پیارے پاکستان کے لیے امن اور خوشحالی کا مرکز ثابت ہوں۔
قوم کے نام اپنے پیغام میں آرمی چیف نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قیادت اور اہلکار بے تحاشا مشکلات کے باوجود انتخابی عمل کے لیے محفوظ ماحول بنانے کے لیے ہماری سب سے زیادہ تعریف کے مستحق ہیں، قومی میڈیا، سول سوسائٹی، سول انتظامیہ اور عدلیہ کے ارکان کے تعمیری کردار نے قومی تاریخ کی سب سے بڑی انتخابی مشق کے کامیاب انعقاد کو ممکن بنایا۔
تمام جمہوری قوتوں کی نمایندہ حکومت، پاکستان کی متنوع سیاست اور تکثیریت کو قومی مقصد کے ساتھ بہتر طریقے سے پیش کریگی، انتخابات اور جمہوریت پاکستان کے عوام کی خدمت کا ذریعہ ہیں، قوم کو انتشار اور تقسیم کی سیاست سے آگے بڑھنے کے لیے مستحکم ہاتھوں اور ایک صحت بخش عمل کی ضرورت ہے۔
تقسیم کی سیاست اور انتشار 25کروڑ آبادی والے ترقی پسند ملک کے لیے موزوں نہیں ہے۔ انھوں نے کہا انتخابات جیتنے اور ہارنے کا مقابلہ نہیں بلکہ عوام کے مینڈیٹ کا تعین کرنے کی مشق ہے، سیاسی قیادت اور ان کے کارکنوں کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر حکومت اور عوام کی خدمت کرنے کی کوششوں کو ہم آہنگ کرنا چاہیے جو جمہوریت کو فعال اور بامقصد بنانے کا واحد راستہ ہے۔
پاکستان کے عوام نے آئین پاکستان پر اپنا مشترکہ اعتماد ظاہر کیا ہے، اب تمام سیاسی جماعتوں پر فرض ہے کہ وہ سیاسی پختگی اور اتحاد کے ساتھ اس کا جواب دیں، جب ہم اس قومی سنگ میل سے آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آج ملک کہاں کھڑا ہے اور باقی اقوام میں ہمارا صحیح مقام کہاں ہونا چاہیے۔ آرمی چیف نے خواہش کا اظہار کیا کہ یہ انتخابات سیاسی اور معاشی استحکام لائیں اور ہمارے پیارے پاکستان کے لیے امن اور خوشحالی کا مرکز ثابت ہوں۔
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد یقیناً ایک اہم پیشرفت ہے کیونکہ ووٹرز نے اگلے پانچ برس کے لیے اپنے نمایندے چن کر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھیج دیے ہیں' پاکستان میں ایسی قوتیں بھی مسلسل سرگرم عمل رہی ہیں جن کا مقصد اول تو انتخابات کو ہونے ہی نہ دینا تھا 'دوسرا اگر انتخابات کا انعقاد ممکن ہو جاتا ہے تو ان قوتوں کا ایجنڈا پولنگ ڈے تک کو متنازعہ بناناتھا' دہشت گردی کی وارداتوں کا تسلسل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
بلاشبہ پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے غیرجمہوری قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے انتھک جدوجہد کی اور جس کا نتیجہ انتخابات کے انعقاد کی صورت میں نکلا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں عام انتخابات کا پرامن انعقاد کرانا معمولی کام نہیں ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی برس سے دہشت گردی کا شکار چلا آ رہا ہے' پاکستان کے اندر بھی ایسی قوتیں موجود ہیں جن کے مالی مفادات دہشت گردی سے وابستہ ہو چکے ہیں۔
ان قوتوں کا ایجنڈا بھی ملک میں انتشار پھیلانا' افواہوں کا بازار گرم کرنا 'غیریقینی کی صورت حال کو گہرے سے گہرا کرنا اور اس ماحول میں الیکشن کی ٹرین کو پٹڑی سے اتارنا تھا۔پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں اور سیکیورٹی اداروں کے جوانوں نے ان قوتوں کا مسلسل تعاقب جاری رکھا'انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کا دائرہ کار وسیع ہوتا رہا' دہشت گردوں کو دہشت گردی کی واردات سے پہلے ہی قابو کرنے کے لیے کامیاب آپریشن کیے گئے۔
اس کے باوجود دہشت گرد پاک ایران سرحد کے قریب بلوچستان کے علاقوں میں اور پاک افغان سرحدکے ساتھ علاقوں میں کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کر کے ثابت کر دیا کہ پاکستان کے لوگ انتہا پسندوں کے نظریات اور طرز زندگی کے حق میںنہیں ہیں'پاکستان کے لوگ ثقافتی تکثیریت کے حامی ہیں اور اسی تکثیریت کو ہی قومی وحدت کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں جو قوتیں مخصوص نظریات پر مبنی طرز حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں' وہ جمہوریت کے حق میں نہیں ہیں' یہ قوتیں پاکستان کے اندر موجود مقامی زبانوں' مقامی کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے سخت خلاف ہیں'ایسے گروہ طاقت اور قوت کی بنیاد پر پاکستان کے اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کے عوام نے حالیہ عام انتخابات کے دوران جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا اور جس طرح پولنگ ڈے پر جوق در جوق اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے پولنگ سینٹرز پہنچے اور اپنا جمہوری حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال کیا۔
اس نے ثابت کر دیا کہ پاکستان میں دہشت گردی' گن کلچر اور خوف و دہشت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا ' پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کی شکل میں پاکستان کے پاس ایک مضبوط اور جارحانہ فورس موجود ہے' جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہے' یہ فورس ہتھیار بند دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کے مشن پر کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا سب سے پہلا نشانہ یہی فورس ہے' انھیں پتہ ہے کہ جب تک پاکستان کی مسلح افواج موجود ہیں' دہشت گرد کسی بھی صورت پاکستان کے اقتدار پر طاقت کے زور پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ پاک فوج نے حالیہ انتخابات میں بھی اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے ' اسی طرح پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں' انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں نے بھی اپنا پورا کردار ادا کیا ہے ' تبھی جا کر عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا ہے۔
اس میں میڈیا پرسنز نے بھی خاصا مثبت رول ادا کیا ہے' ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی بڑے صبر و تحمل کے ساتھ انتخابی مہم چلائی ہے اور انتخابی نتائج کے بعد بھی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے ذمے داری کا ثبوت دیا ہے اورانتخابی نتائج پر اپنے تحفظات بھی ظاہر کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اسی شعور کا مظاہرہ کرنا چاہیے' عام انتخابات میں کسی کی ہار ہوتی ہے اور کسی کی جیت ہوتی ہے' بالکل ایسے ہی جیسے کرکٹ میچ کھیلنے والی دو ٹیموں میں سے ایک کی ہار ہوتی ہے اور ایک کی جیت ہوتی ہے' کبھی کبھی میچ انتہائی سخت ہوتا ہے اور کبھی کسی ٹیم کے لیے بہت آسان میچ ثابت ہوتا ہے' میچ کے دوران کھلاڑیوں سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں اور بعض اوقات امپائر کے فیصلے بھی متنازعہ ہو جاتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود اسپورٹس مین اسپرٹ یہی کہتی ہے کہ میچ کا نتیجہ تسلیم کیا جائے اور تمام ٹیمیں ایسا ہی کرتی ہیں۔
پاکستان میں الیکشن کمیشن کے انتظامات میںخامیاں ہو سکتی ہیں' پولنگ اسٹاف سے بھی غلطی ہو سکتی ہے'سیاسی جماعتوں کے امیدوار الیکشن جیتنے کے لیے منفی ہتھکنڈے بھی استعمال کرتے ہیں' جعلی ووٹ بھی بھگتائے جاتے ہیں' ووٹرز کو پیسے دے کر ووٹ خریدے بھی جاتے ہیں'بااثر اور طاقتور امیدواردھونس دھاندلی سے کام لینے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام خامیوں اور برائیوں کے باوجود ایسا ممکن نہیں ہوتا کہ سارے ووٹ جعلی پڑ جائیں یا سارے ووٹر زاپنا ووٹ فروخت کر دیں'ایسا بھی نہیں ہوتا کہ ہر پولنگ بوتھ پر دھونس دھاندلی ہوتی ہے۔
ووٹوں کی گنتی کے عمل میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ سارے پولنگ اسٹیشنوں میں گنتی کا عمل غلط ہو 'پاکستان کی سیاسی قیادت کو الیکشن نتائج کے حوالے سے ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے' پولنگ کے دوران ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی کرنے اور ریلیف لینے کے لیے آئین اور قانون میں راستے موجود ہیں ' الیکشن ٹربیونلز اسی لیے قائم ہوتے ہیں 'عدالتوں میں بھی درخواستیں دائر کرنے کا راستہ موجود ہے۔
اگر کسی سیاسی جماعت یا امیدوار کو الیکشن میں دھاندلی وغیرہ کا یقین ہے اور اس کے پاس اس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں تو اسے آئین اور قانون کا راستہ اختیارکرنا چاہیے' اگر آئین اور قانون پیچیدہ ہے' اس میں ابہام ہیں' یہ عمل طویل ہے تو اس کی ذمے داری بھی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور پارلیمنٹیرینز پر عائد ہوتی ہے۔
وہ پارلیمنٹ میں ان قوانین میں اصلاح کر سکتے ہیں 'اس میں ترمیم کر سکتے ہیں کیونکہ عوام انھیں اسی مقصد کے لیے اسمبلی میں بھیجتے ہیں۔لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی بنیادی ذمے داری اور فرائض کو سمجھیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
قوم کے نام اپنے پیغام میں آرمی چیف نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قیادت اور اہلکار بے تحاشا مشکلات کے باوجود انتخابی عمل کے لیے محفوظ ماحول بنانے کے لیے ہماری سب سے زیادہ تعریف کے مستحق ہیں، قومی میڈیا، سول سوسائٹی، سول انتظامیہ اور عدلیہ کے ارکان کے تعمیری کردار نے قومی تاریخ کی سب سے بڑی انتخابی مشق کے کامیاب انعقاد کو ممکن بنایا۔
تمام جمہوری قوتوں کی نمایندہ حکومت، پاکستان کی متنوع سیاست اور تکثیریت کو قومی مقصد کے ساتھ بہتر طریقے سے پیش کریگی، انتخابات اور جمہوریت پاکستان کے عوام کی خدمت کا ذریعہ ہیں، قوم کو انتشار اور تقسیم کی سیاست سے آگے بڑھنے کے لیے مستحکم ہاتھوں اور ایک صحت بخش عمل کی ضرورت ہے۔
تقسیم کی سیاست اور انتشار 25کروڑ آبادی والے ترقی پسند ملک کے لیے موزوں نہیں ہے۔ انھوں نے کہا انتخابات جیتنے اور ہارنے کا مقابلہ نہیں بلکہ عوام کے مینڈیٹ کا تعین کرنے کی مشق ہے، سیاسی قیادت اور ان کے کارکنوں کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر حکومت اور عوام کی خدمت کرنے کی کوششوں کو ہم آہنگ کرنا چاہیے جو جمہوریت کو فعال اور بامقصد بنانے کا واحد راستہ ہے۔
پاکستان کے عوام نے آئین پاکستان پر اپنا مشترکہ اعتماد ظاہر کیا ہے، اب تمام سیاسی جماعتوں پر فرض ہے کہ وہ سیاسی پختگی اور اتحاد کے ساتھ اس کا جواب دیں، جب ہم اس قومی سنگ میل سے آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آج ملک کہاں کھڑا ہے اور باقی اقوام میں ہمارا صحیح مقام کہاں ہونا چاہیے۔ آرمی چیف نے خواہش کا اظہار کیا کہ یہ انتخابات سیاسی اور معاشی استحکام لائیں اور ہمارے پیارے پاکستان کے لیے امن اور خوشحالی کا مرکز ثابت ہوں۔
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد یقیناً ایک اہم پیشرفت ہے کیونکہ ووٹرز نے اگلے پانچ برس کے لیے اپنے نمایندے چن کر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھیج دیے ہیں' پاکستان میں ایسی قوتیں بھی مسلسل سرگرم عمل رہی ہیں جن کا مقصد اول تو انتخابات کو ہونے ہی نہ دینا تھا 'دوسرا اگر انتخابات کا انعقاد ممکن ہو جاتا ہے تو ان قوتوں کا ایجنڈا پولنگ ڈے تک کو متنازعہ بناناتھا' دہشت گردی کی وارداتوں کا تسلسل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
بلاشبہ پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے غیرجمہوری قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے انتھک جدوجہد کی اور جس کا نتیجہ انتخابات کے انعقاد کی صورت میں نکلا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں عام انتخابات کا پرامن انعقاد کرانا معمولی کام نہیں ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی برس سے دہشت گردی کا شکار چلا آ رہا ہے' پاکستان کے اندر بھی ایسی قوتیں موجود ہیں جن کے مالی مفادات دہشت گردی سے وابستہ ہو چکے ہیں۔
ان قوتوں کا ایجنڈا بھی ملک میں انتشار پھیلانا' افواہوں کا بازار گرم کرنا 'غیریقینی کی صورت حال کو گہرے سے گہرا کرنا اور اس ماحول میں الیکشن کی ٹرین کو پٹڑی سے اتارنا تھا۔پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں اور سیکیورٹی اداروں کے جوانوں نے ان قوتوں کا مسلسل تعاقب جاری رکھا'انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کا دائرہ کار وسیع ہوتا رہا' دہشت گردوں کو دہشت گردی کی واردات سے پہلے ہی قابو کرنے کے لیے کامیاب آپریشن کیے گئے۔
اس کے باوجود دہشت گرد پاک ایران سرحد کے قریب بلوچستان کے علاقوں میں اور پاک افغان سرحدکے ساتھ علاقوں میں کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کر کے ثابت کر دیا کہ پاکستان کے لوگ انتہا پسندوں کے نظریات اور طرز زندگی کے حق میںنہیں ہیں'پاکستان کے لوگ ثقافتی تکثیریت کے حامی ہیں اور اسی تکثیریت کو ہی قومی وحدت کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں جو قوتیں مخصوص نظریات پر مبنی طرز حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں' وہ جمہوریت کے حق میں نہیں ہیں' یہ قوتیں پاکستان کے اندر موجود مقامی زبانوں' مقامی کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے سخت خلاف ہیں'ایسے گروہ طاقت اور قوت کی بنیاد پر پاکستان کے اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کے عوام نے حالیہ عام انتخابات کے دوران جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا اور جس طرح پولنگ ڈے پر جوق در جوق اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے پولنگ سینٹرز پہنچے اور اپنا جمہوری حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال کیا۔
اس نے ثابت کر دیا کہ پاکستان میں دہشت گردی' گن کلچر اور خوف و دہشت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا ' پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کی شکل میں پاکستان کے پاس ایک مضبوط اور جارحانہ فورس موجود ہے' جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہے' یہ فورس ہتھیار بند دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کے مشن پر کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا سب سے پہلا نشانہ یہی فورس ہے' انھیں پتہ ہے کہ جب تک پاکستان کی مسلح افواج موجود ہیں' دہشت گرد کسی بھی صورت پاکستان کے اقتدار پر طاقت کے زور پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ پاک فوج نے حالیہ انتخابات میں بھی اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے ' اسی طرح پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں' انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں نے بھی اپنا پورا کردار ادا کیا ہے ' تبھی جا کر عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا ہے۔
اس میں میڈیا پرسنز نے بھی خاصا مثبت رول ادا کیا ہے' ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی بڑے صبر و تحمل کے ساتھ انتخابی مہم چلائی ہے اور انتخابی نتائج کے بعد بھی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے ذمے داری کا ثبوت دیا ہے اورانتخابی نتائج پر اپنے تحفظات بھی ظاہر کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اسی شعور کا مظاہرہ کرنا چاہیے' عام انتخابات میں کسی کی ہار ہوتی ہے اور کسی کی جیت ہوتی ہے' بالکل ایسے ہی جیسے کرکٹ میچ کھیلنے والی دو ٹیموں میں سے ایک کی ہار ہوتی ہے اور ایک کی جیت ہوتی ہے' کبھی کبھی میچ انتہائی سخت ہوتا ہے اور کبھی کسی ٹیم کے لیے بہت آسان میچ ثابت ہوتا ہے' میچ کے دوران کھلاڑیوں سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں اور بعض اوقات امپائر کے فیصلے بھی متنازعہ ہو جاتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود اسپورٹس مین اسپرٹ یہی کہتی ہے کہ میچ کا نتیجہ تسلیم کیا جائے اور تمام ٹیمیں ایسا ہی کرتی ہیں۔
پاکستان میں الیکشن کمیشن کے انتظامات میںخامیاں ہو سکتی ہیں' پولنگ اسٹاف سے بھی غلطی ہو سکتی ہے'سیاسی جماعتوں کے امیدوار الیکشن جیتنے کے لیے منفی ہتھکنڈے بھی استعمال کرتے ہیں' جعلی ووٹ بھی بھگتائے جاتے ہیں' ووٹرز کو پیسے دے کر ووٹ خریدے بھی جاتے ہیں'بااثر اور طاقتور امیدواردھونس دھاندلی سے کام لینے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام خامیوں اور برائیوں کے باوجود ایسا ممکن نہیں ہوتا کہ سارے ووٹ جعلی پڑ جائیں یا سارے ووٹر زاپنا ووٹ فروخت کر دیں'ایسا بھی نہیں ہوتا کہ ہر پولنگ بوتھ پر دھونس دھاندلی ہوتی ہے۔
ووٹوں کی گنتی کے عمل میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ سارے پولنگ اسٹیشنوں میں گنتی کا عمل غلط ہو 'پاکستان کی سیاسی قیادت کو الیکشن نتائج کے حوالے سے ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے' پولنگ کے دوران ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی کرنے اور ریلیف لینے کے لیے آئین اور قانون میں راستے موجود ہیں ' الیکشن ٹربیونلز اسی لیے قائم ہوتے ہیں 'عدالتوں میں بھی درخواستیں دائر کرنے کا راستہ موجود ہے۔
اگر کسی سیاسی جماعت یا امیدوار کو الیکشن میں دھاندلی وغیرہ کا یقین ہے اور اس کے پاس اس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں تو اسے آئین اور قانون کا راستہ اختیارکرنا چاہیے' اگر آئین اور قانون پیچیدہ ہے' اس میں ابہام ہیں' یہ عمل طویل ہے تو اس کی ذمے داری بھی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور پارلیمنٹیرینز پر عائد ہوتی ہے۔
وہ پارلیمنٹ میں ان قوانین میں اصلاح کر سکتے ہیں 'اس میں ترمیم کر سکتے ہیں کیونکہ عوام انھیں اسی مقصد کے لیے اسمبلی میں بھیجتے ہیں۔لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی بنیادی ذمے داری اور فرائض کو سمجھیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔