اصل زوال اخلاقی ہے

دراصل ہمارے نظام میں مہیب خرابیاں ہیں، اس کی غلطیاں بھی مہیب ہیں جو مسلسل جاری ہیں

raomanzarhayat@gmail.com

ہنگری' یورپ کاایک چھوٹا سا ملک ہے۔ نوے لاکھ لوگوں پر مشتمل خوبصوت خطہ' ای یو کا ممبر بھی ہے۔ یورپ کی روایات کے مطابق حکومت یہاں بچوں کے لیے بے پناہ سہولیات مہیا کرتی ہے۔ ریاست نے جگہ جگہ چلڈرن ہومز کھول رکھے ہیں۔ جہاں ان بچوں کے لیے معیاری تعلیم اوراعلیٰ تربیت کے تمام مواقع مہیا کیے جاتے ہیں۔

ان درسگاہوں کا انچارج حکومتی نمایندہ ہوتا ہے۔ یہ نظام بہت کامیابی سے ہنگری میں جاری و ساری ہے۔ ہنگری کا موجودہ وزیراعظم وکٹر اوربن Virtor Orban نے ا پنی سیاسی جدوجہد میں خاندانی روایات کو بحال کرنے کے دعوے اور نعرے پر الیکشن لڑا تھا۔ اس کی نامزد خاتون صدر' katalin Novak بھی خاندان کی اکائی کو برقرار رکھنے کی ہردم بات کرتی نظر آتی تھی۔اپریل 2023میں پوپ فرانسس نے ہنگری آنے کا اعلان کیا۔

پوپ نے اس ملک میں آ کر اپنا روایتی بیانیہ قائم رکھا کہ چرچ اور حکومت سے منسلک بچوں کے اداروں میں ان کے ساتھ جسمانی اور جنسی زیادتی ناقابل قبول ہے۔ اور چرچ اس طرح کے واقعات پر معافی کا طلبگار ہے۔

تین ہفتہ پہلے 444نیوز چینل نے خبر دی کہ پوپ کے دورے سے پہلے صدر ناوک نے' ایک ایسے سرکاری مجرم کو معافی دی ہے' جو بچوں کے ایک ادارے میں کام کرتا تھا۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ 2004اور 2011کے درمیان ' بچوں کے ایک فلاحی گھر میں اس کا سربراہ' بچوں سے زیادتی کرتا رہا۔ جب اس بات کا حکومتی اداروں کو علم ہوا تو نہ صرف اسے گرفتار کیا گیا بلکہ آٹھ سال قید کا حکم بھی دیا گیا۔ مگر کچھ دن پہلے معلوم ہوا کہ اس ڈائریکٹر کے ماتحت ایک سرکاری اہلکار' بچوں پر دباؤ ڈالتا رہا کہ وہ اپنے ساتھ زیادتی کے بیانات سے پیچھے ہٹ جائیں۔

اس معاملے کا بھی حکومت کو معلوم پڑ گیا۔ اس جونیئر اہلکار کو برطرف کر کے تین برس کی قید کا حکم سنایا گیا۔یہ شخص بذات خود کسی بچے کے ساتھ زیادتی میں ملوث نہیں تھا۔ پوپ کے دورہ سے پہلے ' صدر Novak نے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ' اس شخص کی بقیہ قید معاف کر دی۔ یہ تمام کارروائی ضابطہ کے مطابق کی گئی۔ سمری وزارت انصاف کی طرف سے آئی تھی۔ منسٹری کی وزیر Judit vargaنے باقاعدہ اس پر دستخط کیے تھے۔

یہ معاملہ صد فیصد انسانی جرم کی سطح کا تھا۔بڑے ملزم کو سزا ہو چکی تھی۔ اور اس کی معاونت کرنے والا اہلکار بھی قید کاٹ رہا تھا۔ دیکھا جائے تو قانونی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ جب چینل 444نے یہ خبر عام لوگوں تک نشر کی کہ ہنگری کی صدر نے ایک مجرم کو معافی دے دی ہے جب کہ وہ خود اٹھتے بیٹھتے عائلی قوانین اور خاندان کی اہمیت پر تقاریر کرتی ہے۔ اس قول و فعل کے تضاد پر پورے ہنگری میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔

عام لوگوں اور اپوزیشن نے فوری طور پر صدر کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ Novakاس وقت قطر کے سرکاری دورے پر تھی۔ لوگوں نے قصر صدارت کے باہر احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ کہ حکومتی صدر کو اس منافقت کی سزا ملنی چاہیے۔ صدر فوری طور پر قطر سے واپس آئی اور آتے ہی اپنے سرکاری اختیار کو استعمال کرنے پر معافی مانگی اور استعفیٰ دے دیا۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ صدر کے تین مشیروں نے بھی فوری طور پر استعفیٰ دے ڈالا کہ ان کی سربراہ نے اخلاقی طور پر غیر معقول فیصلہ کیا ہے۔ ساتھ ساتھ وزیر انصاف ورگانے بھی وزارت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اور ہمیشہ کے لیے سیاست کو خیر آباد کہہ ڈالا۔ ہنگری کی تمام حکومت ہل کر رہ گئی اور وزیراعظم بھی اب استعفیٰ پر غور کر رہا ہے۔


ایک ایسا معاملہ جس میں سیاسی حکمرانوں نے اپنا جائز قانونی اختیار استعمال کیا ہو۔ جو آئین کے تحت بالکل درست تھا۔ اس کی کوئی عدالتی سزا بھی نہیں تھی۔ مگر پھر بھی ہنگری کی صدر اور وزیر انصاف نے اپنا احتساب خود کیا۔ سیاست اور عہدہ' دونوں کو خیر باد کہہ ڈالا۔ ایک ایسے ملک کی مثال دے رہا ہوں۔جس کا نظام مکمل جمہوری اصولوں پر قائم ہے۔

اب میں اپنے ملک کے اداروں' ان کے سربراہان اور اہلکاروں کے رویوں کی جانب آتا ہوں۔ اصول کی بات کر رہا ہوں۔ کسی سیاسی جماعت کے حق یا خلاف گزارش نہیں کر رہا۔ اس میںکوئی دو رائے نہیں کہ خان صاحب کا دور حکومت مجموعہ تضادات تھا۔ ان کے اچھے کام بھی ' ان کی ٹیم کی دو عملی اور غفلت سے گہنا گئے تھے۔

انھوں نے اپنے دور حکومت میں وہ تمام غلطیاں کی ' جو ان سے پہلے حکمران کرتے رہے تھے۔بطور وزیراعظم ان کی مقبولیت بھی بہت ابتر ہو چکی تھی۔ مگر عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہوئی تو اس کے بعد سیاسی حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔ خان صاحب کا بیانیہ لوگوں کو متاثر کرنے لگا۔ تحریک انصاف اور اس کے سربراہ تقریباً دو سال تک اقتدار سے باہر رہے، اس دوران وہ احتجاج بھی کرتے رہے اور ان پر مقدمات کی بھی بھرمار ہوگئی ۔

پی ڈی ایم حکومت اور اس کے بعد نگرانوں کے دور میں جو کچھ ہوا، اس نے خان صاحب کو اتنی سیاسی قوت اور پذیرائی بخش دی جس کااندازہ بہت ہی کم لوگوں کو تھا۔ اڈیالہ جیل میں ہی ان کا ٹرائل ہوا اور انھیں سزا سنادی گئی اور وہی سزا' اس کے لیے تحفہ ثابت ہونا شروع ہو گئی ۔

میں نے خان صاحب کے بدترین مخالفوں کو بھی ''عدت کیس'' میں ' ان کے موافق پایا۔ عمران خان کے مخالفین کا گمان تھا کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ نہیں پڑیں گے۔ مگر 8فروری کے الیکشن نے یہ اندازہ غلط ثابت کردیا۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو نامساعد حالات کے باوجود حد درجہ زیادہ ووٹ پڑے۔

بلاشبہ پیپلزپارٹی' مسلم لیگ' ایم کیو ایم اور دیگر چھوٹی جماعتوں کو ملا جلا کر مرکزی اور صوبائی حکومتیں تشکیل پا سکتی ہیں۔ مگر ان حکومتوں کا اعتماد' کارکردگی اور دورانیہ کتنا قلیل ہو سکتا ہے، یہ باخبر لوگوں کے علم میں ہے۔ کون وزیراعظم بنتا ہے؟ کون وزیراعلیٰ بنایا جاتا ہے؟ اس پر بحث کا فائدہ نہیں ہے، البتہ اتنا اندازہ ضرور ہے کہ معاملات اس قدر بگڑ جائیں گے کہ اگلا الیکشن جلد کرانا پڑ سکتا ہے۔ عوام کا خاموش ردعمل شاید فوری طور پر تو نہ ہو مگر لوگوں کا غم و غصہ بڑھتا چلا جائے گا جو کسی خاص نکتے پر پہنچ کر پھٹ سکتا ہے ۔

دراصل ہمارے نظام میں مہیب خرابیاں ہیں، اس کی غلطیاں بھی مہیب ہیں جو مسلسل جاری ہیں۔ نظام انصاف زوال پذیر ہے ۔ انتظامیہ مفلوج ہے۔ اب حل کیا ہے؟ بظاہر تو اس گھمبیر صورتحال کا کوئی حل نظر نہیں آتا تاہم اس کا غیر روایتی حل موجود ہے۔ اور وہ صرف اور صرف اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے۔ ملک کو اس خراب صورتحال میں لانے والے سیاست دان' بیوروکریٹس اور دیگر اداروں کے سربراہان اور کاروباری ، زرعی اور قبائلی اشرافیہ ' اپنے ضمیر کی عدالت میں خود پیش ہوں۔

اپنا احتساب خود کرنے کی کوشش کریں۔ اور اگر انھیں اپنا قصور نظر آئے تو جو سابق ہیں، وہ قوم سے معامی مانگیں اور جو موجودہ ہیں، وہ عزت اور خاموشی سے استعفیٰ دے کر گھروں کو چلے جائیں۔ اگر ہنگری کی صدر اور وزیر انصاف' صرف ایک سرکاری غلطی پر قوم سے معافی مانگ سکتے ہیں، عہدوں سے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔

تو ہمارے سابق اور موجودہ ارباب اختیار و سیاستدان بھی تو اپنا محاسبہ خود کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاںں سوچنے کی صلاحیت کس کے پاس ہے؟بھیانک غلطیوں پر استعفیٰ دینے کا رواج یہاں تو ہے ہی نہیں۔ ہم نے تو ملک دو لخت کر ڈالا' مگر ان کے کرداروں کو سزا نہ دلوا سکے۔ قیامت تو یہ ہے کہ ابھی قیامت آنے والی ہے۔ سب کو معلو م ہے۔ مگر ہر کوئی بے فکری کے سیلاب میں غوطے لگا رہا ہے۔مگر لگتا ہے کہ مہلت ختم ہو چکی ہے!
Load Next Story