آزادوں کی حکومت یا پی ڈی ایم 2
سادہ اکثریت حاصل کرنے کی سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور تنہا حکومت بنانے کے سارے خواب بکھر گئے
8فروری کے عام انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ایک سیاسی جماعت کو اس کے اندازے سے خاصی کم نشستیں ملی ہیں۔
سادہ اکثریت حاصل کرنے کی سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور تنہا حکومت بنانے کے سارے خواب بکھر گئے۔ نون لیگ پریشان ہے ۔ اُس کا تو خیال تھا کہ 8فروری کے انتخابات کی فتح اُسے پلیٹ میں رکھی مل جائے گی ۔
شاید اِسی خوش فہمی یا خوش گمانی کا نتیجہ تھا کہ نون لیگی قیادت سب سے آخر میں انتخابی کمپین میں اُتری ۔ اور اُس نے سب سے آخر میں اپنا انتخابی منشور پیش کیا۔ انتخابی جلسوں کے انعقاد میں نون لیگ نے کے پی کے، بلوچستان اور سندھ کو تو بالکل ہی نظر انداز کیے رکھا ۔
نتیجہ بھی تو پھر اِسی تناسب سے نکلنا تھا اور وہ اِسی اسلوب میں نکلا بھی۔نون لیگ نے انتخابی توجہ صرف پنجاب تک محدود اور مرتکز رکھی۔ پنجاب میں بھی مگر نتائج حسبِ منشا نہیں نکلے۔ یوں نون لیگی قیادت پر مایوسی اور اُداسی چھائی ہے ۔ اب یہ پنجاب اور مرکز میں حکومت سازی کے لیے دوستوں کی دستگیری اور تعاون کی محتاج بن کر رہ گئی ہے ۔
نون لیگ کو 8فروری کے انتخابات میں اپنی قطعی فتح کا اسقدر یقین تھا کہ میڈیا میں ، کئی اطراف سے، یہ خبرسامنے آئی کہ نون لیگ کو پنجاب میں 115سے 130 تک سیٹیں ملیں گی ۔ اِس خبر کو مستند ثابت کرنے کے لیے کہا گیا کہ یہ ایک معتبر ادارے کا سروے ہے ۔ ساتھ ہی چند قلم کاروں نے لکھا کہ نون لیگ اِس بار جیت سے ہمکنار ہو کر اگلے دس سال تک حکمرانی کرے گی ۔ اور یہ کہ پاکستان میں بنگلہ دیش ماڈل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ مگر یہ سب غلط ثابت ہُوا ۔
9فروری کا دن طلوع ہُوا تو انتخابی نتائج دیکھ کر خوش فہمیوں میں مبتلا نون لیگ کے ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے ۔ ہر طرف آزادوں کی فتح کا طبل بج رہا تھا۔ یعنی پی ٹی آئی کے حمائت یافتہ اُمیدوار کامیابیوں سے ہمکنار ہُوئے تھے۔ آج جب کہ انتخابات کو گزرے پانچواں دن ہے، یہ حقیقت کہ قومی اسمبلی میں آزاد منتخب ارکان نمبر گیم میں تاحال سب سے بڑا گروپ ہے۔
دیکھا جائے تو انتخابات میں اصل شکست نون لیگ کو ہُوئی ہے ، لیکن اِس کے باوجود نون لیگ پنجاب اور مرکز میں اتحادی اور مخلوط حکومت بنانے پر بضد ہے ۔ پنجاب میں فتحیاب نون لیگی صوبائی ارکان کی تعداد کے آزادوں کے تقریباً برابر ہے ۔ کے پی کے میں آزادوں کی اکثریت اتنی ہے کہ وہ سیاسی جماعت میں شامل ہوئے بغیر ہی حکومت بنا لیں گے۔
بلوچستان میں کامیاب ہونے والے صوبائی اُمیدوار پیپلز پارٹی کے جھنڈے تلے جمع ہیں ۔ سندھ میں بھی کامیاب ہونے والے اکثریتی ارکان پیپلز پارٹی کے وابستگان ہیں ۔ اور یوں جناب آصف علی زرداری تنہا ہی سندھ میں ، ایک بار پھر ، حکومت بنانے جا رہے ہیں ۔
پنجاب میں صوبائی حکومت سازی کے لیے نون لیگ کو اتحادیوں کی ضرورت پڑ رہی ہے ۔ اور اگر وہ مرکز میں بھی حکومت بناتی ہے تو وہاں بھی اُسے کئی کندھے تلاش کرنا پڑیں گے ۔ اور اِس کے لیے جوڑ توڑ ، ترلا منت اور گزارشات کا ایک لامتناہی سلسلہ لاہور ، اسلام آباد میں جاری ہے جہاں میاں نواز شریف و شہباز شریف سے پی پی پی پی کے چیئرمین بھی ملاقاتیں کررہے ہیں اور ایم کیو ایم پاکستان کے فتحیاب ارکانِ اسمبلی کے لیڈروں سے بھی نون لیگی قیادت کا سلسلہ جنبانی جاری ہے ۔
اصول اور میرٹ تو ہماری قومی زندگی میں عنقا ہے؛ چنانچہ تازہ ترین انتخابی نتائج کے پیش منظر میں بھی کہیں اصول یا میرٹ دکھائی نہیں دے رہا ۔ اگر اصول یا میرٹ کو مدِ نظر رکھا جاتا تو مرکز میں آزادوں کی اکثریت ہے' انھیں بھی حکومت بنانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔
مرکز میں آزادوں پر اقتدار کے راستے مسدود کرنے کے لیے کم از کم ، فی الحال، چار جماعتوں کا اتحاد اور اختلاط بنتا نظر آ رہا ہے : نون لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ایف اور ایم کیو ایم ۔ ابھی اِس ''مخلوط پارٹی'' میں نَو مولود ''آئی پی پی '' کو بھی شامل کیا جانا ہے ( جس کے دو ارکان ایم این اے منتخب ہُوئے ہیں )اگر یہ بیل منڈھے چڑھتی ہے تو گویا یہ نئی حکومت ''پی ڈی ایم ٹُو'' ہو گی۔
پاکستان کے 24کروڑ عوام پہلے ہی پی ڈی ایم اوّل کے دوراقتدار کے ڈسے ہُوئے ہیں ۔ اور اگر اب پی ڈی ایم 2تشکیل پاتی ہے تو اِس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کو ایک نئی کمر شکن مہنگائی' بے روزگاری کا سامنا اور مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کر لینا چاہیے۔ نئے انداز سے پاکستان کے 24کروڑ عوام کو اپنی کمر کس لینی چاہیے ۔
آزادوں سے کئی لوگ خائف ہیں ۔ اب وہ مگر ایک بڑی سیاسی حقیقت بن چکے ہیں ۔کامیاب آزادوں( جن کی تعداد92تک پہنچ چکی ہے) اگر پنجاب میںنون لیگ حکومت بناتی ہے تو کیا سوا سو سے زائد انڈی پینڈنٹ صوبائی ارکانِ اسمبلی نئی صوبائی حکومت کو امن چَین سے کام کرنے دیں گے ؟ یہی سوال مرکزی حکومت بارے بھی کیا جا سکتا ہے ۔
گویا پنجاب اور مرکز کی مخلوط حکومتیں سکون سے محروم ہو جائیں گی ۔شہباز شریف کو 16مہینوں کی حکومت کا ''صلہ'' مل گیا ہے جب کہ نواز شریف نے لندن میں چار سال گزارے اور عوام کے دکھوں سے دُور رہے ہیں اور اسی لیے وہ توقعات سے کم سیٹیں جیت سکے۔
نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری ، مولانا فضل الرحمن ، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ، جہانگیر خان ترین کی طرز سیاست عوام کی دیکھی بھالی ہے۔ پی ڈی ایم اتحادی حکومت انھی پر مشتمل تھی۔ اگر عوامی آدرشوں کے برعکس ایک بار پھر یہی چہرے ''پی ڈی ایم 2'' بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو بیوقوفی ہو گی' پی ڈی ایم وَن کی اتحادی اور اختلاطی حکومت نے 16ماہ عوام پر جینا حرام کیے رکھا تھا، اِس بار ''پی ڈی ایم ٹُو'' نے بھی وہی ظلم و استحصال کا راستہ اختیار کیاتو عوام کا ردِ عمل شدید ہوگا ۔
آزادوں کا لشکر نون لیگ اور پی پی پی کے 60سے زائد کامیابوں کو عدالتوں میں لے جانے کی منصوبہ بندی بھی کررہے ہیں: انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے کے لیے !
سادہ اکثریت حاصل کرنے کی سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور تنہا حکومت بنانے کے سارے خواب بکھر گئے۔ نون لیگ پریشان ہے ۔ اُس کا تو خیال تھا کہ 8فروری کے انتخابات کی فتح اُسے پلیٹ میں رکھی مل جائے گی ۔
شاید اِسی خوش فہمی یا خوش گمانی کا نتیجہ تھا کہ نون لیگی قیادت سب سے آخر میں انتخابی کمپین میں اُتری ۔ اور اُس نے سب سے آخر میں اپنا انتخابی منشور پیش کیا۔ انتخابی جلسوں کے انعقاد میں نون لیگ نے کے پی کے، بلوچستان اور سندھ کو تو بالکل ہی نظر انداز کیے رکھا ۔
نتیجہ بھی تو پھر اِسی تناسب سے نکلنا تھا اور وہ اِسی اسلوب میں نکلا بھی۔نون لیگ نے انتخابی توجہ صرف پنجاب تک محدود اور مرتکز رکھی۔ پنجاب میں بھی مگر نتائج حسبِ منشا نہیں نکلے۔ یوں نون لیگی قیادت پر مایوسی اور اُداسی چھائی ہے ۔ اب یہ پنجاب اور مرکز میں حکومت سازی کے لیے دوستوں کی دستگیری اور تعاون کی محتاج بن کر رہ گئی ہے ۔
نون لیگ کو 8فروری کے انتخابات میں اپنی قطعی فتح کا اسقدر یقین تھا کہ میڈیا میں ، کئی اطراف سے، یہ خبرسامنے آئی کہ نون لیگ کو پنجاب میں 115سے 130 تک سیٹیں ملیں گی ۔ اِس خبر کو مستند ثابت کرنے کے لیے کہا گیا کہ یہ ایک معتبر ادارے کا سروے ہے ۔ ساتھ ہی چند قلم کاروں نے لکھا کہ نون لیگ اِس بار جیت سے ہمکنار ہو کر اگلے دس سال تک حکمرانی کرے گی ۔ اور یہ کہ پاکستان میں بنگلہ دیش ماڈل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ مگر یہ سب غلط ثابت ہُوا ۔
9فروری کا دن طلوع ہُوا تو انتخابی نتائج دیکھ کر خوش فہمیوں میں مبتلا نون لیگ کے ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے ۔ ہر طرف آزادوں کی فتح کا طبل بج رہا تھا۔ یعنی پی ٹی آئی کے حمائت یافتہ اُمیدوار کامیابیوں سے ہمکنار ہُوئے تھے۔ آج جب کہ انتخابات کو گزرے پانچواں دن ہے، یہ حقیقت کہ قومی اسمبلی میں آزاد منتخب ارکان نمبر گیم میں تاحال سب سے بڑا گروپ ہے۔
دیکھا جائے تو انتخابات میں اصل شکست نون لیگ کو ہُوئی ہے ، لیکن اِس کے باوجود نون لیگ پنجاب اور مرکز میں اتحادی اور مخلوط حکومت بنانے پر بضد ہے ۔ پنجاب میں فتحیاب نون لیگی صوبائی ارکان کی تعداد کے آزادوں کے تقریباً برابر ہے ۔ کے پی کے میں آزادوں کی اکثریت اتنی ہے کہ وہ سیاسی جماعت میں شامل ہوئے بغیر ہی حکومت بنا لیں گے۔
بلوچستان میں کامیاب ہونے والے صوبائی اُمیدوار پیپلز پارٹی کے جھنڈے تلے جمع ہیں ۔ سندھ میں بھی کامیاب ہونے والے اکثریتی ارکان پیپلز پارٹی کے وابستگان ہیں ۔ اور یوں جناب آصف علی زرداری تنہا ہی سندھ میں ، ایک بار پھر ، حکومت بنانے جا رہے ہیں ۔
پنجاب میں صوبائی حکومت سازی کے لیے نون لیگ کو اتحادیوں کی ضرورت پڑ رہی ہے ۔ اور اگر وہ مرکز میں بھی حکومت بناتی ہے تو وہاں بھی اُسے کئی کندھے تلاش کرنا پڑیں گے ۔ اور اِس کے لیے جوڑ توڑ ، ترلا منت اور گزارشات کا ایک لامتناہی سلسلہ لاہور ، اسلام آباد میں جاری ہے جہاں میاں نواز شریف و شہباز شریف سے پی پی پی پی کے چیئرمین بھی ملاقاتیں کررہے ہیں اور ایم کیو ایم پاکستان کے فتحیاب ارکانِ اسمبلی کے لیڈروں سے بھی نون لیگی قیادت کا سلسلہ جنبانی جاری ہے ۔
اصول اور میرٹ تو ہماری قومی زندگی میں عنقا ہے؛ چنانچہ تازہ ترین انتخابی نتائج کے پیش منظر میں بھی کہیں اصول یا میرٹ دکھائی نہیں دے رہا ۔ اگر اصول یا میرٹ کو مدِ نظر رکھا جاتا تو مرکز میں آزادوں کی اکثریت ہے' انھیں بھی حکومت بنانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔
مرکز میں آزادوں پر اقتدار کے راستے مسدود کرنے کے لیے کم از کم ، فی الحال، چار جماعتوں کا اتحاد اور اختلاط بنتا نظر آ رہا ہے : نون لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی ایف اور ایم کیو ایم ۔ ابھی اِس ''مخلوط پارٹی'' میں نَو مولود ''آئی پی پی '' کو بھی شامل کیا جانا ہے ( جس کے دو ارکان ایم این اے منتخب ہُوئے ہیں )اگر یہ بیل منڈھے چڑھتی ہے تو گویا یہ نئی حکومت ''پی ڈی ایم ٹُو'' ہو گی۔
پاکستان کے 24کروڑ عوام پہلے ہی پی ڈی ایم اوّل کے دوراقتدار کے ڈسے ہُوئے ہیں ۔ اور اگر اب پی ڈی ایم 2تشکیل پاتی ہے تو اِس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کو ایک نئی کمر شکن مہنگائی' بے روزگاری کا سامنا اور مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کر لینا چاہیے۔ نئے انداز سے پاکستان کے 24کروڑ عوام کو اپنی کمر کس لینی چاہیے ۔
آزادوں سے کئی لوگ خائف ہیں ۔ اب وہ مگر ایک بڑی سیاسی حقیقت بن چکے ہیں ۔کامیاب آزادوں( جن کی تعداد92تک پہنچ چکی ہے) اگر پنجاب میںنون لیگ حکومت بناتی ہے تو کیا سوا سو سے زائد انڈی پینڈنٹ صوبائی ارکانِ اسمبلی نئی صوبائی حکومت کو امن چَین سے کام کرنے دیں گے ؟ یہی سوال مرکزی حکومت بارے بھی کیا جا سکتا ہے ۔
گویا پنجاب اور مرکز کی مخلوط حکومتیں سکون سے محروم ہو جائیں گی ۔شہباز شریف کو 16مہینوں کی حکومت کا ''صلہ'' مل گیا ہے جب کہ نواز شریف نے لندن میں چار سال گزارے اور عوام کے دکھوں سے دُور رہے ہیں اور اسی لیے وہ توقعات سے کم سیٹیں جیت سکے۔
نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری ، مولانا فضل الرحمن ، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ، جہانگیر خان ترین کی طرز سیاست عوام کی دیکھی بھالی ہے۔ پی ڈی ایم اتحادی حکومت انھی پر مشتمل تھی۔ اگر عوامی آدرشوں کے برعکس ایک بار پھر یہی چہرے ''پی ڈی ایم 2'' بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو بیوقوفی ہو گی' پی ڈی ایم وَن کی اتحادی اور اختلاطی حکومت نے 16ماہ عوام پر جینا حرام کیے رکھا تھا، اِس بار ''پی ڈی ایم ٹُو'' نے بھی وہی ظلم و استحصال کا راستہ اختیار کیاتو عوام کا ردِ عمل شدید ہوگا ۔
آزادوں کا لشکر نون لیگ اور پی پی پی کے 60سے زائد کامیابوں کو عدالتوں میں لے جانے کی منصوبہ بندی بھی کررہے ہیں: انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے کے لیے !