تخلص بیتی

اردو کے معروف شعراء کے انتخابِ تخلص کی دل چسپ داستاں

فوٹو : فائل

(حصہ اول)

انسانی جذبات و احساسات کے منظوم لفظی اظہار کو شاعری کہا جاتا ہے۔ معیاری شاعری کے عمومی لوازمات میں صنفی تخصیص، بلند فکری، فنی پختگی، زبان کی مہارت، فصاحت و بلاغت، عروض، صنائع و بدائع کا شمار کیا جاتا ہے ِ۔ ان لوازمات کے پہلو بہ پہلو ایک ایسا شعری لازمہ بھی ہے جسے خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی وہ ہے شاعر کا ''تخلص''، جو شاعر کو مقبول عام بنانے اور اسے لاثانی و لافانی شناخت بخشنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

تخلص عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا مادہ ''لخص'' ہے، جس کے معنی اختصار کے ہیں، جب کہ اس کے لغوی معنی ہیں ''چھٹکارا پانا'' اور ''نجات حاصل کرنا''۔ ''خلاصہ ''بھی اسی قبیل کا لفظ ہے جس کے معنی ''مغز یا جوہر'' کے ہیں۔ اردو گرائمر کی رو سے ''تخلص کا شمار اسم معرفہ کی شاخ اسم علم کی ذیلی اقسام میں کیا جاتا ہے۔

اصطلاحی معنوں میں تخلص سے مراد وہ مختصر نام ہے جو شاعر اپنے حقیقی نام کی بجائے شاعری میں استعمال کرتا ہے۔'' اس کا استعمال غزل کے آخری شعر میں کیا جاتا ہے، جسے مقطع کہتے ہیں۔ اگرچہ یہ لازمی نہیں، پھر بھی غزل کا آخری شعر اگر تخلص سے خالی ہے تو وہ ''مقطع'' کی بجائے آخری شعر ہی کہلائے گا۔

تخلص کے استعمال کا اولین تجربہ ایرانی شعراء کے ہاں کیا گیا، جو بعد ازآں فارسی زبان کی بدولت غزل کی طرح اردو شاعری کا ناگزیر حصہ بن گیا۔ تخلص نہ صرف شاعر کے نفسی مزاج کی نشان دہی کرتا ہے بلکہ شاعر کے سراپے اور شخصیت کی علامتی شبیہ کی صورت میں جلوہ نمائی بھی کرتا ہے۔ اسی لیے انتخابِ تخلص میں چند درج ذیل امور کو ضرور پیشِ نظر رکھا جاتا ہے:

1۔ تخلص تین حروف سے لے کر پانچ حروف تک کے مختصر ترین لفظ پر مشتمل ہو۔

2 ۔ تخلص بامعنی، معقول اور موزوں ہو تاکہ بوقت ضرورت اسے بطور اسم، صفت یا فعل کے استعمال کیا جاسکے۔

3۔ تخلص چوںکہ اپنے منتخب کنندہ کی شعری جمالیات کا مظہر ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ شاعر کے شخصی و فکری رجحانات سے مطابقت رکھتا ہو ۔

4۔ تخلص میں انفرادیت اور ندرت ہونی چاہیے تاکہ سامعین و قارئین کو اپنی جانب متوجہ کر سکے بقول غوث محی الدین احمد کے:

لوگ بھولیں نہ کبھی ایسا تخلص رکھیے

نام تو نام ہے بس نام میں کیا رکھا ہے

اردو شاعری میں مختلف شعراء نے تخلص کو مختلف طریقوں سے اپنایا ہے۔ بعض شعراء نے کسی اضافی نام کے بجائے اپنے حقیقی نام کے کسی ایک حصے کو ہی اپنے تخلص کے طور پر استعمال کیا، جیسا کہ علامہ اقبال، انشاء اللہ خان، فیض احمد نے بالترتیب اقبالؔ، انشاء ؔاور فیض ؔکے ناموں کو بطور تخلص برتا ہے، جب کہ کچھ شعراء اپنے نام کے پہلے حصے کو اپنے حقیقی نام کے ساتھ اضافی صورت میں جوڑ کر تخلص کا کام لیتے ہیں، مثلاً میر تقی میرؔ، امجد اسلام امجدؔ، واصف علی واصفؔ اور شوکت رضا شوکتؔ۔ چند شعراء اپنے حقیقی نام کی بجائے مکمل طور پر ایک نیا ادبی نام اختیار کرلیتے ہیں جس کی شہرت کے نتیجے میں وہ نام ہی ان کی مستقل پہچان بن جاتا ہے، جیسے محسن ؔنقوی سے تو سب واقف ہیں مگر ان کے اصلی نام غلام عباس کے بارے کوئی نہیں جانتا۔

ابن انشاء ؔکے چاہنے والوں کو کیا خبر کہ شیر محمد خان کون ہے؟ یہی معاملہ نواب میرزا خان، شبیر حسن خان اور سید احمد کا ہے جو صاحبان ذوق میں داغؔ، جوش ؔاور فراز ؔکے نام سے مشہور ہیں۔ ایسے شعراء بھی موجود ہیں جنہوں نے شاعری کی ابتدا میں تخلص کی زحمت گوارا کی مگر کچھ عرصے بعد وہ اپنے اصلی نام کی طرف لوٹ آئے۔ مشہور شاعرمصطفی ؔزیدی، سخن وری کی ابتدا میں اپنے لیے تیغؔ الہ آبادی کا تخلص استعمال کرتے تھے۔ جوش ؔملیح آبادی سے متاثر ہو کر انہوں نے درج ذیل شعر کہا:

منعم کا تو خدا بھی امیں، بت بھی پاسباں

مفلس کے صرف تیغ ؔعلیہ السلام ہیں

لیکن بعد کی اپنی تمام شاعری میں اپنے اصلی نام کو ہی بطور تخلص استعمال کیا۔ اردو شاعری میں کبھی تو یوں بھی ہوا کہ ایک شاعر نے ایک سے زیادہ تخلص استعمال کیے جیسا کہ دکنی اردو کے پہلے شاعر قلی ؔقطب شاہ نے اپنے کلام میں 16 کے قریب ناموں کو ازراہ تخلص استعمال کیا جو اردو شاعری میں ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے، جب کہ دوسری جانب کثرت ِشعراء کے سبب ایک ایسا دور بھی آیا کہ ایک ہی تخلص کو بہت سے شعراء نے استعمال کیا۔

بقول مزاح نگار سہیل احمد،''از روئے حدیث، قیامت کے دن جس طرح ایک ہی قبر سے ستر ستر مردے کفن جھاڑتے ہوئے اٹھیں گے، عین ممکن ہے کہ ایک ہی تخلص کی آڑ سے ستر ستر شعراء برآمد ہوں۔'' یعنی اگر صرف یہ کہا جائے کہ یہ شعر آزادؔ کا ہے تو سننے والا سوچے گا کہ ابوالکلام آزاد ؔکا یا محمد حسین آزادؔ کا؟ جگن ناتھ آزادؔ کا یا محی الدین آزادؔ کا؟ آزاد حسین آزادؔ کاشمیری کا یا آزادؔ بلگرامی کا؟

اس طرح سرورؔ صاحب کا نام ذہن میں آتے ہی رجب علی بیگ سرورؔ سے لے کر سرور ؔبارہ بنکوی تک شعراء کی ایک طویل فہرست سامنے آتی ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوا کہ کسی ایک شاعر کے مشہور ہونے پر اس کے خاندان یا اس کے دبستان سے سے تعلق کھنے والے دیگر شعراء اس کی شہرت یا اس سے والہانہ عقیدت کے پیشِ نظر اس کے نام کے ہم قافیہ الفاظ کو بطور تخلص اختیار کرنا ترجیح قرار دیتے ہیں۔ چاہے وہ خانوادہ میرانیسؔ کے میر نفیسؔ، سلیس ؔ، جلیسؔ، رئیسؔ تخلص کے شعراء ہوں یا پھر، نسیمؔ امروہوی کے دبستان میں قسیمؔ، عظیمؔ، فہیمؔ، شمیمؔ، رقیم ؔنام کے شعراء ہوں۔

اردو کی سنجیدہ شاعری سے ہٹ کر اگر اردو کی مزاحیہ شاعری کا جائزہ لیا جائے تو ''تخلصاتی''صورت حال خاصی مضحکہ خیز نظرآتی ہے، کیوںکہ مزاحیہ شاعری میں تخلص کے انتخاب کی کوئی حدود و قیود مقرر نہیں۔ مزاح گو شعراء کے تخلص کی فہرست میں ایسے ایسے نام سامنے آتے ہیں کہ بقول غالبؔ:

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مزاحیہ شاعری کی دنیا میں آپ کا سابقہ احمق ؔپھپھوندوی سے لے کر خوامخواہؔ حیدرآبادی تک اور پاگلؔ عادل آبادی سے لے کر ماچس ؔلکھنوی تک کے تخلص والے شعراء سے پڑ سکتا ہے۔


الغرض اردو شاعری کے عمیق مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اب تک اردو روزمرہ کا کوئی ایسا معقول یا غیرمعقول قابل استعمال لفظ نہیں بچا جو شعراء کی ''تخلصاتی دسترس'' سے محفوظ رہا ہو۔ مضمونِ ہٰذا میں اردو کی سنجیدہ شاعری کے چند معرو ف شعراء کے انتخاب تخلص کی داستان کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ پہلی تحقیقاتی تحریر مذکورہ شعراء کے چاہنے والوں کے لیے دل چسپی کا باعث ہونے کے ساتھ تحقیق و تدوین سے شغف رکھنے والے یاران نکتہ داں کے لیے صلائے عام ہے کہ:

اس کو نہ چند حروف کا مجموعہ جانیے

اک پوری داستاں ہے ''تخلص'' کے باب میں

مرزا محمد رفیع سوداؔ

ڈاکٹر خلیق انجم، مرزا محمد رفیع سوداؔ کی شاعری اور ان کی حیات پر تحریر کردہ اپنی کتاب میں ان کے تخلص سے متعلق لکھتے ہیں کہ تذکرہ یادگارِشعراء کے مصنف ڈاکٹر اسپرنگر کے مطابق، مرزا رفیع نے سودا ؔ تخلص اپنے والد کے پیشہ سوداگری کے حوالے سے اختیار کیا، جب کہ قائم چاند پوری کے مطابق شعراء کی دیوانگی پسندی اور عشق پرستی کے جذبے کے تحت مرزا نے اپنے لیے اس تخلص کو منتخب کیا۔ تذکرہ ''خوش معرکہ زیبا'' کے مصنف سعادت خان ناصرؔ کہتے ہیں،''مرزا کی اوائل عمری میں ان کا واسطہ ایک ولی اللہ سے پڑا، جس سے انہوں نے شاعری میں اپنی نام وری کی دعا کی درخواست کی جس پر انہوں نے مرزا رفیع کو دعاؤں کے ساتھ سودا ؔتخلص سے بھی نوازا، اور یہ تاکید بھی کی کہ اس تخلص پر اگر قائم رہو گے تو بے حد و بے حساب شہرت پاؤ گے اور تمہاری عمر بھی اسی تخلص کے اعداد کے قریب ہو گی۔'' تاہم اس روایت کو سعادت خان ناصر کے علاوہ کسی اور تذکرہ نویس نے نقل نہیں کیا، لیکن مرزا رفیع کے تخلص سے متعلق سب سے پہلی دلیل زیادہ مضبوط اور قرین قیاس شمار کی جاتی ہے۔

مرزا اسد اللہ خان غالبؔ

استاد الشعراء مرزا اسداللہ خان غالبؔ اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے میں اپنا اصلی نام اسد ؔہی تخلص کرتے تھے۔ اس تخلص کی یادگار کتنی ہی غزلیں آج بھی ان کے دیوان کا حصہ ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک روز مرزا کے سامنے کسی نے یہ شعر پڑھا:

؎اسدؔ اس جفا پہ بتوں سے وفا کی

میرے شیر شاباش رحمت خدا کی

اور اسے مرزا سے منسوب کرتے ہوئے داد دے ڈالی۔ مرزا نے فوراً اس شعر سے اعلان برات کرتے ہوئے فرمایا،''اگر یہ مطلع میرا ہے تو مجھ پر لعنت۔'' بات یہ ہے کہ شاعر میر مانی اسدؔ گزرے ہیں یہ ان کا کلام ہے۔ اس واقعے کے بعد مرزا کو یہ احساس ہوا کہ ایسے کتنے ہی نامعقول اشعار ان کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور وہ کتنوں کی توضیح و تصحیح کر سکیں گے؟۔ لہٰذا اس صورتحال سے بچنے کے لیے انہوںنے اسدؔ ترک کے غالبؔ تخلص اختیار کیا جو انہیں ایسا راس آیا کہ وہ فخریہ کہتے ہیں کہ:۔

؎ایسا بھی کوئی ہو گا جو غالب ؔکو نہ جانے؟؟

مرزا محمد تقی ہوس ؔلکھنوی

سید محمد آقا حیدر علی اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے''ہوسؔ لکھنوی فن اور شخصیت'' میں لکھتے ہیں،''مرزا محمد تقی کا پہلا تخلص میرؔ تھا، مگر جب ان کے دور میں میر تقی میرؔ کی شاعری کا چرچا ہوا تو انہوں ازروئے ادب اپنا تخلص بدل کر ہوسؔ لکھنوی رکھ لیا۔'' اس تخلص کی وجہ بیان کرتے ہوئے خواجہ عبدالرؤف عشرت لکھنوی کہتے ہیں،''مرزا تقی کے زمانے میں لکھنوی ماحول میں رچی بسی سرمستی اور تعیش پسندی ان کے اس تخلص کے اختیار کرنے کا سبب بنی، جب کہ انفرادیت پسندی کا حصول کا جذبہ بھی اس تخلص کے پس پردہ کار فرما نظر آتا ہے۔

تیسری وجہ شاعر کے عمیق مشاہدے پر مبنی عمل ہے کہ فطری طور پر انسان ہوس و ہوا کا پتلا ہے۔ لہٰذا انسانی طینت اور اس کے فطری رجحان کو اجاگر کرنے کی غرض سے ایسے تخلص کو منتخب کیا گیا'' جب کہ مرزا کی شخصیت، ان کے تخلص کے بر عکس تھی، جس کا اظہار کرتے ہوئے وہ خود کہتے ہیں:

تخلص گو ہوس ؔہے، پر ہوس سے دور ہوں کوسوں

ابوالکلام آزادؔ

شورش کاشمیری اپنی کتاب''ابوالکلام آزاد'' میں لکھتے ہیں،''ابو الکلام آزاد ؔکا نام پیدائش کے وقت 'محی الدین' رکھا گیا جب کہ ان کا تاریخی نام 'فیروز بخت' تھا (جس کے اعداد کا مجموعہ ان کے سنِ پیدائش کی ترجمانی کرتا ہے) ابوالکلام کی کنیت اور ان کا تخلص مولوی فاروق چریاکوٹی کے غریب مگر مستعد شاگرد عبدالواحد خان سہسرامی کا تجویز کردہ ہے۔'' ابوالکلام آزاد ؔکی حیات اور شاعری پر تحقیقی کام کرنے والے ڈاکٹر مظفر عباس نیپنی کتاب 'ابوالکلام آزاد کی شاعری' میں ان کے آزادؔ تخلص کے انتخاب کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔ لکھتے ہیں،''چوںکہ وہ آب حیات کا مطالعہ انتہائی کم سنی کے زمانے میں کرچکے تھے لہٰذا وہ محمد حسین آزادؔ کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر تھے۔

یہاں تک کہ انہوں نے آب حیات کے حصہ اول کا دور دوم تک فارسی زبان میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ چناںچہ آزاد ؔکے نام سے ان کی دل چسپی یہیں سے شروع ہوچکی تھی۔ دوسرا، اس دور میں مختلف شعراء کی شاعری پر مبنی گل دستوں میں غزلیں حروفِ تہجی کے اعتبار سے شائع ہوا کرتی تھیں اور آزاد ؔجو فطرتاً انفرادیت پسند تھے اور ہر میدان میں ہراول دستے میں شامل رہنا ان کے مزاج میں شامل تھا، سو بقول خود ان کے اپنا تخلص آزادؔ رکھنے کی ایک قوی تر وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی غزلیں گل دستے کے ابتدائی صفحات میں شائع ہوں۔ تیسر ی اور آخری سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ وہ ایک آزادؔ فطرت لے کر آئے تھے، اور وہ اپنی خاندانی روایات اور رکاوٹوں سے یکسر آزاد ہونا چاہتے تھے، اس لیے ان کا یہ تخلص اختیار کرنا۔ ان کے اسی جذبے کی تسکین کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔''

مرزا یاس یگانہ ؔچنگیزی

تمثیل احمد اپنی کتاب ''مرزا یاس یگانہ ؔچنگیزی، حیات اور شاعری'' میں تحریر کرتے ہیں،''مرزا واجد علی خان یگانہ ؔشاعری میں پہلے پہل 'یاس' تخلص استعمال کرتے تھے، مگر بعد میں انہوں نے 'یگانہؔ' کا تخلص اختیار کرنا پسند کیا۔ میکشؔ اکبر آبادی سے اپنے تخلص کی تبدیلی کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، سفرِحیدرآباد کے دوران میں اپنے ایک دوست سے بہرملاقات ایسے وقت پہنچا کہ جب وہ اپنے بیٹوں کے ہم راہ عید کا چاند دیکھنے کے لیے گھر کی چھت پر چڑھے ہوئے تھے۔ میری آمد کی اطلاع پاکر سیڑھیاں اترتے ہوئے انہوں نے اپنے لڑکوں سے کہا،'چاند دیکھ کر یاسؔ کا منہ نہ دیکھنا' یہ فقرہ نیچے صحن میں میرے کانوں میں بھی پڑا، جس کے سبب طبیعت بیزار ہوگئی۔ اس بات کا مجھ پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ میں نے اسی روز اپنا تخلص بدل لیا اور یوں اپنی ادبی زندگی کا نصف حصہ گزارنے کے بعد میں یاسؔ سے یگانہ ؔہوگیا۔

جوشؔ ملیح آبادی

ادبی انٹرویوز پر مشتمل نثارا حمد صدیقی کی کتاب 'عکس'' میں شامل ایک انٹرویو میں جوشؔ ملیح آبادی اپنے تخلص کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں،''شاعری کے ابتدائی ایام میں بطور تخلص میں اپنا حقیقی نام شبیرؔ ہی استعمال کیا کرتا تھا۔ بعد ازآں ہوا کچھ یوں کہ ایک روز اپنے چند دوستوں کے ہم راہ تھیٹر دیکھ کے واپس آرہا تھا کہ دوران گفتگو تھیٹر کی ہیروئن کا حسن زیربحث آیا، جس پر میرا تبصرہ خاصا جوشیلا تھا۔ دوستوں میں موجود ایک دوست نے کہا 'شبیر خان! تم آج کیوں اتنے جوش میں ہو؟ بس اسی وقت ہم نے طے کرلیا ہمارا تخلص شبیر کی بجائے جوش ؔہونا چاہیے۔
Load Next Story