چاروں صوبائی اسمبلیوں میں کیا رہا شمار

منتخب صوبائی ایوانوں کے لیے کم وبیش گذشتہ انتخابی نتائج ہی دُہرائے گئے ہیں

منتخب صوبائی ایوانوں کے لیے کم وبیش گذشتہ انتخابی نتائج ہی دُہرائے گئے ہیں ۔ فوٹو : فائل

خدا خدا کر کے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے چناؤ کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔۔۔ اور اب انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد حکومت سازی کے لیے رابطوں اور بیٹھکوں کے سلسلے شروع ہوچکے ہیں۔

ایک طرف مرکزی حکومت کی طرف سب کی نگاہیں مرکوز ہیں، تو دوسری طرف چاروں صوبوں میں بھی حکومت سازی کے لیے ساری منتخب جماعتوں نے اپنی اپنی کمر کس لی ہے۔ جس طرح قومی اسمبلی میں کچھ جماعتوں کو نمائندگی ملی ہے، ایسے ہی بہت سی صوبائی نشستوں کی بھی صورت حال بھی ہوئی ہے، لیکن بہت سی جگہوں پر گنتی کے کھیل میں بازی کسی کے حق اور کسی کی مخالفت میں پلٹی ہے اور ارکان کی 'تعداد' کا ماجرا دل چسپ ہوگیا ہے۔

پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کو دیکھا جائے تو ہم بہ آسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا رجحان تقریباً پچھلے عام انتخابات جیسا ہی نکلا ہے۔ چند ایک جگہوں پر کسی کے نمبر کم یا زیادہ ضرور ہوگئے ہیں، کچھ سیاسی جماعتیں آگے ہوگئیں، تو کچھ پس پا۔ لیکن سوائے بلوچستان کے کہیں بھی بہت زیادہ تبدیلی سامنے نہیں آئی، اور بلوچستان میں بھی 2018ء میں 'باپ' جیسی پارٹی نے 'اکثریت' لی تھی اور اس بار اس کے ارکان کے آگے پیچھے ہوجانے سے اس کی حالت ہوا ہوگئی اور اس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نمبر بڑھ گئے ہیں۔

باقی سندھ میں ویسے ہی پیپلزپارٹی اور خیبر پختونخوا میں بحرانوں اور روایتی اور ایک جیسا انتخابی نشان نہ ملنے کے باوجود 'پاکستان تحریک انصاف' نے بازی جیت لی ہے، اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی نمائندگی نمایاں دکھائی دے رہی ہے، اور اس بار بھی حکومت سازی کا مرحلہ بہت واضح نہیں ہے۔ آئیے، باری باری ایک نظر ڈالتے ہیں چاروں صوبائی ایوانوں کی موجودہ صورت حال پر۔

مسلسل چوتھی بار 'پیپلزپارٹی سرکار'

عام انتخابات میں سندھ اسمبلی کیلئے 130 نشستوں میں سے 83 نشستیں جیت کر مسلسل چوتھی بار حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ دیگر نمایاں ارکان میں متحدہ قومی موومنٹ (بہادر آباد) کو 28 اور آزاد ارکان کو11، جب کہ جی ڈی اے اور جماعت اسلامی کو دو، دو نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ صوبائی حکومت بنانے کیلئے 130 میں سے 66 نشستیں درکار ہوتی ہیں اور اس وقت اس سے کہیں زیادہ نشستیں پیپلزپارٹی کے پاس موجود ہیں۔

گذشتہ عام انتخابات منعقدہ 2018ء کا جائزہ لیا جائے، تو پیپلزپارٹی نے اس سے مزید آٹھ نشستیں زیادہ حاصل کرلی ہیں، گذشتہ انتخابات میں ان کے پاس 76 نشستیں تھیں۔ البتہ تحریک انصاف کی 23 میں سے اب صرف 11 نشستیں رہ گئی ہیں، جب کہ 'ایم کیو ایم' (بہادرآباد) کو اس وقت 16 نشستیں ملی تھیں، جو اب بڑھ کر 28 ہوچکی ہیں۔ 'تحریک لبیک' کی دو نشستیں اب صفر اور جماعت اسلامی (متحدہ مجلس عمل) کی ایک نشست بڑھ کر دو میں تبدیل ہوگئی ہے۔

سندھ کے شہری علاقوں میں اس بار ایک نیا عنصر 'ایم کیو ایم' (لندن) کی جانب سے اپنے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا اعلان تھا، جو انتخابی مہم ختم ہونے سے محض 48گھنٹے قبل کیا گیا، ان کے انتخابی نشانات مختلف تھے، جس کے بعد کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص وغیرہ میں ایک نئی سیاسی گہماگہمی دیکھی گئی۔

اعلانیہ بہت سے رائے دہندگان بھی 'لندن گروپ' کی حمایت کرتے ہوئے نظر آئے، لیکن جب پولنگ ختم ہوئی اور گنتی شروع ہوئی تو 2018ء کی طرح ایک بار پھر پراسرار طور پر نتائج آنا رک گئے اور لگ بھگ 24 گھنٹوں کے بعد نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس طرح نتائج کی بندش سے عوام میں شکوک وشبہات بھی پیدا ہوئے اور اسے گذشتہ انتخابات کے مشکوک نتائج کا ایسا تسلسل بھی کہا گیا، جہاں 'تحریک انصاف' کی جگہ 'متحدہ' (بہادر آباد) سامنے آگئی ہے۔

بہرحال، انتخابی نتائج کے مطابق اکثر حلقوں میں 'ایم کیو ایم' (لندن) کے امیدواروں کے قومی اسمبلی میں ووٹ چار ہزار اور صوبائی نشستوں پر دو ہزار کے حساب سے سامنے آئے ہیں۔

تاہم بہت سی صوبائی نشستوں پر نزدیکی صورت حال بھی دیکھی گئی۔ دوسری طرف نہایت منظم اور متحرک جماعت اسلامی کو صرف دو صوبائی نشستیں مل سکی ہیں، جو عام رجحان، تجزیوں اور توقعات کے نہایت خلاف امر ہے، اسی طرح تحریک انصاف کے ووٹر ملک بھر کی طرح یہاں بھی کافی متحرک دکھائی دیے، لیکن ان کی نشستیں بھی اس قدر سامنے نہیں آئیں، جو اچنبھے کی بات قرار دی جا رہی ہے۔ اس صورت حال پر جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور تحریک لبیک الیکشن کمیشن سے احتجاج بھی کر رہے ہیں۔

دوسری طرف اندرون سندھ کے لیے ہمیشہ کی طرح پیپلزپارٹی کے خلاف ایک مضبوط اتحاد 'جی ڈی اے' یا 'گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس' بنا، لیکن وہ اپنی سابقہ کارکردگی بھی برقرار نہیں رکھ سکا اور سندھ میں کسی بھی قسم کی سیاسی تبدیلی اس انتخابات میں بھی ممکن نہ ہو سکی۔

پنجاب اسمبلی، اس باربھی جوڑ توڑ کا مرکز


ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی میں 296نشستوں میں سے مسلم لیگ (ن) نے 136نشستیں حاصل کرلی ہیں، جب کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کا شمار 115، پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب ارکان کی تعداد 10، جب کہ 22 ارکان آزاد منتخب ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نومولود 'استحکام پاکستان پارٹی، تحریک لبیک اور مسلم لیگ (ضیا) کے ایک، ایک امیدوار کام یابی کا مزہ چکھ سکے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے 296 نشستوں کے ایوان میں برتری کے لیے 149 ارکان حاصل ہونا ضروری ہیں۔

گذشتہ چناؤ کو دیکھیے، تو پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو سب سے زیادہ 129 نشستیں ملی تھیں، لیکن دوسرے نمبر پر آنے والی تحریک انصاف نے اپنے 123، ارکان، مسلم لیگ (ق) کے 7 اور دیگر ارکان کی حمایت لے کر صوبائی حکومت بنا لی تھی۔ کمی بیشی دیکھیے تو پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے گذشتہ انتخابات سے زیادہ نشستیں حاصل کرلی ہیں، پیپلز پارٹی کی تب کی 6 نشستوں کی تعداد بھی اب10 ہوچکی ہے۔

اس طرح پنجاب حکومت مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے بین بین رہنے کے زیادہ امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ گذشتہ 'پنجاب حکومت' تحریک انصاف نے اور اس سے پیش تر دو بار لگاتار مسلم لیگ (ن) نے بنائی تھی۔ اس طرح پنجاب اسمبلی میں حکم رانوں کی تبدیلی کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح رواں ہے اور حکومت کوئی بھی قائم ہو، اسے ہمیشہ ایک متحرک اور بھرپور 'حزب اختلاف' کا سامنا رہا ہے اور حالیہ انتخابات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔

بلوچستان میں بھی پیپلزپارٹی آگے آگے!

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے منتخب صوبائی ایوان میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی 11 نشستوں کے ساتھ سب سے آگے ہے، اس کے بعد مسلم لیگ (ن) سے وابستہ 9 امیدوار فتح یاب ٹھیرے ہیں، جب کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کام یاب امیدوار بھی 9 ہی ہیں، سابق حکم راں جماعت 'بلوچستان عوامی پارٹی' المعروف 'باپ' کو اس مرتبہ محض چار نشستیں ہی مل سکی ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان کے 51 رکنی ایوان میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے 26 نشستیں اکثریت بناتی ہیں۔

گذشتہ انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی نے 19 نشستوں کے ساتھ اکثریت حاصل کی تھی، جب کہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد 'متحدہ مجلس عمل' کو 8، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، مینگل گروپ کو 7، پاکستان تحریک انصاف کو 5، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو 3، جب کہ مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کو 2، 2، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کو ایک، ایک نشست حاصل ہوئی تھیں۔

2018ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو کوئی نشست نہیں ملی تھی اور اس بار وہ 11 نشستوں کے ساتھ سب سے آگے ہے، جب کہ 19 نشستوں کی 'باپ' کو محض چار نشستیں مل سکی ہیں۔

تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھ گئی

خیبر پختونخوا کے صوبائی ایوان میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اس بار بھی سر فہرست ہیں اور ان کا اسکور 80 ہے، جب کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 7، مسلم لیگ (ن) کے 5 امیدوار اس انتخابی دنگل میں سرخرو ہوئے ہیں، جب کہ آزاد امیدواروں کی تعداد 8 ہے۔

خیبر پختونخوا کے 113 نشستوں کے منتخب ایوان میں سے 57 نشستیں ہونا ضروری ہیں، موجودہ انتخابی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو ایک بار پھر صوبے میں اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔

اس طرح 2013ء اور 2018ء کے بعد اب یہ مسلسل تیسرا موقع ہے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کا امکان ہے، جب کہ اس سے قبل صوبے میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، متحدہ مجلس عمل، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتیں اپنی اپنی حکومتیں بناتی رہی ہیں۔

خیبر پختونخوا اس اعتبار سے ملک کا منفرد صوبہ ہے کہ 2013ء سے پہلے تک یہ ہر مرتبہ کسی دوسری جماعت کو حکم رانی کا حق دیتا تھا، لیکن یہ ایک نئی تبدیلی ہے کہ یہاں مسلسل ایک ہی جماعت تیسری بار واضح اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

گذشتہ انتخابات 2018ء کو دیکھیے تو خیبر کی صوبائی مقننہ میں اُس وقت تحریک انصاف کے 65، متحدہ مجلس عمل کے 10، عوامی نیشنل پارٹی کے 7، اور مسلم لیگ (ن) کے 5 امیدوار فتح یاب ہوئے تھے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں یہاں تحریک انصاف کی مقبولیت میں واضح اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
Load Next Story