قومی و صوبائی اسمبلی کی مزید 27نشستوں کے حتمی نتائج روک دیے گئے
الیکش کمیشن نے انتخابی عذرداریوں سے متعلق درخواستوں پر سماعت کیلیے دو بینچز تشکیل دے دیے
الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کل 27 نشستوں کے حتمی نتائج جاری کرنے سے روک دیا۔
الیکشن کمیشن میں انتخابی عذرداریوں سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی جس دو بینچز تشکیل دیے گئے۔ بینچ نمبر ایک میں ممبر سندھ نثار درانی اور ممبر بلوچستان شاہ محمد جتوئی جبکہ بینچ نمبر دو میں ممبر پنجاب بابر حسن بھروانہ اور ممبر خیبرپختونخوا اکرام اللہ خان شامل ہیں۔
ممبر نثار درانی نے کہا کہ جو ہار گیا وہ جشن منا رہا ہے اور جو جیت گیا وہ دھاندلی کے الزامات لگا رہا ہے، ایسا رویہ کب تک چلے گا؟ ہار اور جیت جمہوریت کا حسن ہے۔
اسپیشل سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ریٹرننگ افسران زیادہ تر حلقوں میں حتمی نتائج جاری کر چکے ہیں، اس موقع پر نتائج روکنے سے اگلے مراحل تاخیر کا شکار ہوں گے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ 8 فروری والا الیکشن ٹھیک کرایا گیا لیکن 9 فروری کو جو ہوا اس کی الیکشن کمیشن سے شکایت نہیں کر رہا، الیکشن کمیشن ڈسکہ کیس میں ریٹرننگ افسران کو سخت سزائیں دے چکا ہے، صرف نتائج روکنا کافی نہیں، جس ریٹرننگ افسر نے حلف کی خلاف ورزی کی اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
بابر اعوان نے این اے 106 ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا، جس پر الیکشن کمیشن نے این اے 106 ٹوبہ ٹیک سنگھ میں حتمی نتائج روکتے ہوئے ریٹرننگ افسر سے رپورٹ مانگ لی۔
این اے 71 سیالکوٹ سے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ امیدوار ریحانہ ڈار کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے این اے 71 کا نتیجہ روکتے ہوئے متعلقہ آر او سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 14 فروری تک ملتوی کر دی۔
الیکشن کمیشن نے پی بی 14 نصیر آباد، پی بی 44 کوئٹہ، پی پی 33 گجرات، پی پی 126 جھنگ اور پی پی 128 جھنگ، پی پی 7 سرگودھا، پی پی 133 ننکانہ صاحب، پی پی 15 راولپنڈی، پی پی 43 منڈی بہاوالدین، پی پی 12 راولپنڈی، پی پی 53، پی پی 4 اٹک، پی پی 121 ٹوبہ ٹیک سنگھ، پی پی 279 لیہ، پی پی 17 راولپنڈی اور پی پی 6 مری میں حتمی نتیجہ جاری کرنے سے روک دیا۔
اسی طرح، این اے 56 راولپنڈی، این اے 53 راولپنڈی، این اے 60 جہلم، این اے 69 منڈی بہاوالدین، این اے 57 راولپنڈی، این اے 52 راولپنڈی، این اے 126 لاہور، این اے 127 لاہور، این اے 71 اور این اے 87 خوشاب کے حتمی نتائج جاری کرنے سے بھی روک دیا گیا۔
الیکشن کمیشن میں انتخابی عذرداریوں سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی جس دو بینچز تشکیل دیے گئے۔ بینچ نمبر ایک میں ممبر سندھ نثار درانی اور ممبر بلوچستان شاہ محمد جتوئی جبکہ بینچ نمبر دو میں ممبر پنجاب بابر حسن بھروانہ اور ممبر خیبرپختونخوا اکرام اللہ خان شامل ہیں۔
ممبر نثار درانی نے کہا کہ جو ہار گیا وہ جشن منا رہا ہے اور جو جیت گیا وہ دھاندلی کے الزامات لگا رہا ہے، ایسا رویہ کب تک چلے گا؟ ہار اور جیت جمہوریت کا حسن ہے۔
اسپیشل سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ریٹرننگ افسران زیادہ تر حلقوں میں حتمی نتائج جاری کر چکے ہیں، اس موقع پر نتائج روکنے سے اگلے مراحل تاخیر کا شکار ہوں گے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ 8 فروری والا الیکشن ٹھیک کرایا گیا لیکن 9 فروری کو جو ہوا اس کی الیکشن کمیشن سے شکایت نہیں کر رہا، الیکشن کمیشن ڈسکہ کیس میں ریٹرننگ افسران کو سخت سزائیں دے چکا ہے، صرف نتائج روکنا کافی نہیں، جس ریٹرننگ افسر نے حلف کی خلاف ورزی کی اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
بابر اعوان نے این اے 106 ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا، جس پر الیکشن کمیشن نے این اے 106 ٹوبہ ٹیک سنگھ میں حتمی نتائج روکتے ہوئے ریٹرننگ افسر سے رپورٹ مانگ لی۔
این اے 71 سیالکوٹ سے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ امیدوار ریحانہ ڈار کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے این اے 71 کا نتیجہ روکتے ہوئے متعلقہ آر او سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 14 فروری تک ملتوی کر دی۔
الیکشن کمیشن نے پی بی 14 نصیر آباد، پی بی 44 کوئٹہ، پی پی 33 گجرات، پی پی 126 جھنگ اور پی پی 128 جھنگ، پی پی 7 سرگودھا، پی پی 133 ننکانہ صاحب، پی پی 15 راولپنڈی، پی پی 43 منڈی بہاوالدین، پی پی 12 راولپنڈی، پی پی 53، پی پی 4 اٹک، پی پی 121 ٹوبہ ٹیک سنگھ، پی پی 279 لیہ، پی پی 17 راولپنڈی اور پی پی 6 مری میں حتمی نتیجہ جاری کرنے سے روک دیا۔
اسی طرح، این اے 56 راولپنڈی، این اے 53 راولپنڈی، این اے 60 جہلم، این اے 69 منڈی بہاوالدین، این اے 57 راولپنڈی، این اے 52 راولپنڈی، این اے 126 لاہور، این اے 127 لاہور، این اے 71 اور این اے 87 خوشاب کے حتمی نتائج جاری کرنے سے بھی روک دیا گیا۔