ڈالر کی قدر میں معمولی اضافہ
انتخابات کے بعد سیاسی افق پر غیریقینی صورتحال ڈالر کی طلب میں اضافے کا باعث بنی ہے
آئی ایم ایف مذاکرات اگلے جائزے کے لیے نئی حکومت کے قیام کے ساتھ مشروط کیے جانے اور انتخابات کے بعد سیاسی افق پر غیریقینی صورتحال ڈالر کی طلب میں اضافے کا باعث بن گئی، زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالر کی قدر میں اتارچڑھائو کے بعد معمولی نوعیت کا اضافہ ہوگیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق نئی متوقع مخلوط حکومت کی جانب سے نگراں حکومت کی معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھنے کے امکانات اور ممکنہ طور پر نئے انفلوز کی آمد جیسے عوامل کے باعث پیر کو انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے بیشتر دورانیے میں ڈالر تنزلی سے دوچار رہا۔
ایک موقع پر ڈالر کی قدر 28 پیسے کی کمی سے 279 روپے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن بعد دوپہر درآمدی نوعیت کی ڈیمانڈ آنے سے ڈالر کی قدر میں اضافے کا رجحان غالب ہوا جس کے نتیجے میں کاروبار کے اختتام پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 4پیسے کے اضافے سے 279روپے 32پیسے کی سطح پر بند ہوئی، اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر 18پیسے کے اضافے سے 281روپے 19پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔
ریسرچ ادارے ٹریس مارک کے مطابق اگلے 15 دنوں میں ڈالر کی قدر محدود پیمانے پر اتار چڑھائو کے ساتھ مستحکم رہنے کی امید ہے، ٹریس مارک نے یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ مختصر دورانیے کے لیے ڈالر کی قدر گھٹ کر 272 روپے کی سطح پر آسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر قائم ہونے والی مخلوط حکومت میں سیاسی اختلافات ہوسکتے ہیں اور اس مخلوط حکومت کو مختلف نوعیت کے معاشی چیلنجز کا سامنا ہوگا جن میں رواں مالی سال کے اختتام تک 5 ارب ڈالر مالیت کے بیرونی قرضوں ادائیگیوں سمیت آئی ایم ایف سے قرضے کا اگلا پروگرام حاصل کرنے مہنگائی پر قابو پانے جیسے عوامل شامل ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ریٹنگ ایجنسی ایس اینڈ پی نے انتخابات کے بعد پاکستان کی ریٹنگ اپ گریڈ ہونے کے علاوہ دیگر مثبت توقعات کی بھی پیش گوئی کی تھی جن میں معیشت کی بحالی، فارن انویسٹمنٹس پر توجہ مرکوز ہونے جیسی توقعات بھی شامل ہیں جس سے روپے کی قدر میں استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق نئی متوقع مخلوط حکومت کی جانب سے نگراں حکومت کی معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھنے کے امکانات اور ممکنہ طور پر نئے انفلوز کی آمد جیسے عوامل کے باعث پیر کو انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے بیشتر دورانیے میں ڈالر تنزلی سے دوچار رہا۔
ایک موقع پر ڈالر کی قدر 28 پیسے کی کمی سے 279 روپے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن بعد دوپہر درآمدی نوعیت کی ڈیمانڈ آنے سے ڈالر کی قدر میں اضافے کا رجحان غالب ہوا جس کے نتیجے میں کاروبار کے اختتام پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 4پیسے کے اضافے سے 279روپے 32پیسے کی سطح پر بند ہوئی، اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر 18پیسے کے اضافے سے 281روپے 19پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔
ریسرچ ادارے ٹریس مارک کے مطابق اگلے 15 دنوں میں ڈالر کی قدر محدود پیمانے پر اتار چڑھائو کے ساتھ مستحکم رہنے کی امید ہے، ٹریس مارک نے یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ مختصر دورانیے کے لیے ڈالر کی قدر گھٹ کر 272 روپے کی سطح پر آسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر قائم ہونے والی مخلوط حکومت میں سیاسی اختلافات ہوسکتے ہیں اور اس مخلوط حکومت کو مختلف نوعیت کے معاشی چیلنجز کا سامنا ہوگا جن میں رواں مالی سال کے اختتام تک 5 ارب ڈالر مالیت کے بیرونی قرضوں ادائیگیوں سمیت آئی ایم ایف سے قرضے کا اگلا پروگرام حاصل کرنے مہنگائی پر قابو پانے جیسے عوامل شامل ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ریٹنگ ایجنسی ایس اینڈ پی نے انتخابات کے بعد پاکستان کی ریٹنگ اپ گریڈ ہونے کے علاوہ دیگر مثبت توقعات کی بھی پیش گوئی کی تھی جن میں معیشت کی بحالی، فارن انویسٹمنٹس پر توجہ مرکوز ہونے جیسی توقعات بھی شامل ہیں جس سے روپے کی قدر میں استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔