کراچی کے 40 حلقوں کے انتخابی نتائج کیخلاف درخواستوں پرالیکشن کمیشن اور وفاق کو نوٹس
اگر فارم 45 اور فارم 47 میں تضاد ہے تو اس کا جائزہ لیں، ہائی کورٹ کی وکیل الیکشن کمیشن کو ہدایت
سندھ ہائیکورٹ نے کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے 40 حلقوں کے انتخابی نتائج کیخلاف درخواستوں پر تمام درخواستوں پر الیکشن کمیشن اور وفاق کو 13 فروری کیلیے نوٹس جاری کردیے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے 40 حلقوں کے انتخابی نتائج کیخلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔
ایم کیو ایم کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف دیا کہ پہلے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کیا جائے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اپنایا کہ ہم نے فارم 45 کے مطابق نتائج کو دیکھنے کی استدعا کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں یہ بتائیں آپ کے پاس الیکشن کمیشن میں کوئی آپشن ہے درخواست دائر کرنے کا یا نہیں؟ الیکشن کمیشن تو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ بھی کراسکتا ہے۔ حتمی نوٹیفیکیشن نہیں آیا ہے آپ الیکشن کمیشن کے پاس کیوں نہیں جاتے؟ الیکشن کمیشن بہت بااختیار ہے، ماضی میں ری پولنگ کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ اس مرحلے پر سارے عمل کو متاثر کرنا مناسب نہیں ، نوٹیفیکیشن کے بعد الیکشن ٹریبونل بھی بن جائیں گے۔
فروغ نسیم نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ اس حوالے سے آر دڑ کرچکی ہے یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اس پر لاہور ہائی کورٹ میں کیا ہوا ہے؟ وہاں بھی درخواستیں آئی ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے موقف دیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے اسٹے دیا ہے۔ ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ آر او امیدوار کے سامنے فارم 45 شمار کرلے۔ ہم نے انتخابی عمل کو چیلنج نہیں کیا، نتائج کی تیاری کا عمل مشکوک ہے، ہمارے پاس مکمل نتیجہ موجود ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ میرے پاس پریزائڈنگ افسران اور مخالف امیدوار کے پولنگ ایجنٹس کے دستخط شدہ نتائج موجود ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ فارم 45 خود بنالیے اصل فارم 45 کچھ اور ہے، تو آر او امیدواروں کے سامنے رزلٹ بنالے۔ آر او پریزائڈنگ افسران کے فارم 45 کی روشنی میں نتائج تیار کرنے کا پابند ہے جس کا پیشگی نوٹس دیا جاتا ہے۔ امیدوار کو نوٹس ملنا تو دور کی بات درخواست کے باوجود آر او نے رسپانس نہیں دیا۔
چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ ہمارا الیکشن کمیشن پر اعتماد شائد نہیں رہا مگر ہمیں ان سے ہی کام لینا ہے، تاکہ کچھ اور بھی کرنا چاہ رہے ہیں تو سامنے آجائے۔ الیکشن کمیشن ہر طرح کی شکایت سن سکتا ہے مکمل با اختیار ہے ، آپ اس عمل سے گریز کیوں کررہے ہیں؟
بیرسٹر صلاح الدین نے موقف دیا کہ آپ الیکشن کمیشن کو ہدایت کردیں کہ ہماری درخواستوں کو سن کر فیصلہ کردے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ہدایات نہ دی جائیں الیکشن کمیشن خود اپنا کام کرسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن والے کیوں بیٹھے ہوئے ہیں ان کی ڈیوٹی ہے، وہ نہ کریں پھر دیکھ لیں کیا کرنا ہے۔
سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ درخواستگزاروں کو حکم دیں الیکشن کمیشن سے رجوع کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ لوگ کچھ نہیں کریں گے تو لوگ کہاں جائیں گے؟ سارے راستے بند کردیں گے، لوگ احتجاج کرتے ہیں تو انہیں ڈنڈے مارے جاتے ہیں، گرفتار کرلیا جاتا ہے، لوگ نا انصافیوں کے خلاف عدالت نہ آئیں تو پھر کہاں جائیں؟
افسر الیکشن کمیشن عبداللہ ہنجرہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن میں شکایتی سیل قائم کردیا گیا ہے وہاں درخواستیں موصول ہورہی ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اپنایا کہ آپ کم از کم نوٹیفکیشن روک کر الیکشن کمیشن کو ہماری درخواست سننے کا فیصلہ کرنے کا حکم دے دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے ہی اسٹے دے دیں اور اپنی راۓ کے مطابق فیصلہ سنا دیں تو بعد میں کیا ہوگا؟ الیکشن کے حوالے سے کئی معاملات بعد میں بھی آئیں گے، ٹریبونل بھی بنے گا۔ ایک امیدوار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہماری تو دوبارہ گنتی کی درخواست بھی نہیں سنی جارہی۔ طارق حسین نے فارم 45 میں 11 ہزار اور شیخ عبداللہ 6 ہزار ووٹ لیے ہیں۔ فارم 47 میں نتیجہ بدل دیا گیا۔
سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ جیتے ہوئے امیدوار کے پاس بھی فارم 45 ہے وہ بھی چیلنج کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہارنے والے خود بنارہے ہیں فارم 45؟ عالمگیر کے وکیل حیدر وحید ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ جیتنے والے اپنے فارم 45 خود بنارہے ہیں۔
عدالت نے درخواستگزاروں کو درخواست اور فارم 45 ای میل کے ذریعے بھی الیکشن کمیشن کو بھیجنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ ہم کوئی حکم جاری نہیں کررہے مگر آپ اسمارٹ بننے کی کوشش نہ کیجیے گا، اگر اسمارٹ بننے کی کوشش کریں گے تو نتائج کیلیے بھی تیار رہیے گا۔
عدالت نے تمام درخواستوں پر الیکشن کمیشن اور وفاق کو 13 فروری کیلیے نوٹس جاری کردیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج جواب دیں آپ نے کیا کارروائی کی؟ چیف جسٹس نے ہدایت کی اگر فارم 45 اور فارم 47 میں تضاد ہے تو اس کا جائزہ لیں۔
چیلنج کیے گئے حلقے
حلقہ این اے 242 سے مصطفیٰ کمال کی کامیابی کو دوا خان صابر، حلقہ این اے 244 سے فاروق ستار کی کامیابی کو آفتاب جہانگیر، حلقہ این اے 237 سے پی پی کے اسد عالم نیازی کی کامیابی کو ظہور محسود نے چلینج کیا۔
اسی طرح حلقہ این اے 243 سے قادر پٹیل کی کامیابی کو شجاعت علی، این اے 245 سے حفیظ الدین کی کامیابی کو عطا اللہ، این اے 234 سے عامر معین، حلقہ این اے 239 سے نبیل گبول، 240 سے ارشد وہرا، 241 سے مرزا اختیار بیگ کی کامیابی کو پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے چلینج کیا ہے۔
حلقہ این اے 247 سے ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار سمیت مزید 2 امیدواروں کی کامیابی سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا۔
حلقہ پی ایس 101 سے ایم کیو ایم کے معید انور، پی ایس 104 سے ایم کیو ایم کے امیدوار دانیال، پی ایس 124 سے جماعت اسلامی کے امیدوار محمد احمد نے متحدہ امیدوار عبدالباسط، پی ایس 123 سے ایم کیو ایم کے عبدالوسیم، پی ایس 126 سے افتخار عالم، پی ایس 116 سے پی پی کے علی احمد، پی ایس 120 پر ایم کیو ایم امیدوار مظاہر عامر، پی ایس 101 سے ایم کیو ایم امیدوار کی کامیابی کو آزاد امیدوار آغا ارسلان نے چلینج کیا ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے 40 حلقوں کے انتخابی نتائج کیخلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔
ایم کیو ایم کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف دیا کہ پہلے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کیا جائے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اپنایا کہ ہم نے فارم 45 کے مطابق نتائج کو دیکھنے کی استدعا کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں یہ بتائیں آپ کے پاس الیکشن کمیشن میں کوئی آپشن ہے درخواست دائر کرنے کا یا نہیں؟ الیکشن کمیشن تو پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ بھی کراسکتا ہے۔ حتمی نوٹیفیکیشن نہیں آیا ہے آپ الیکشن کمیشن کے پاس کیوں نہیں جاتے؟ الیکشن کمیشن بہت بااختیار ہے، ماضی میں ری پولنگ کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ اس مرحلے پر سارے عمل کو متاثر کرنا مناسب نہیں ، نوٹیفیکیشن کے بعد الیکشن ٹریبونل بھی بن جائیں گے۔
فروغ نسیم نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ اس حوالے سے آر دڑ کرچکی ہے یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اس پر لاہور ہائی کورٹ میں کیا ہوا ہے؟ وہاں بھی درخواستیں آئی ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے موقف دیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے اسٹے دیا ہے۔ ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ آر او امیدوار کے سامنے فارم 45 شمار کرلے۔ ہم نے انتخابی عمل کو چیلنج نہیں کیا، نتائج کی تیاری کا عمل مشکوک ہے، ہمارے پاس مکمل نتیجہ موجود ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ میرے پاس پریزائڈنگ افسران اور مخالف امیدوار کے پولنگ ایجنٹس کے دستخط شدہ نتائج موجود ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ فارم 45 خود بنالیے اصل فارم 45 کچھ اور ہے، تو آر او امیدواروں کے سامنے رزلٹ بنالے۔ آر او پریزائڈنگ افسران کے فارم 45 کی روشنی میں نتائج تیار کرنے کا پابند ہے جس کا پیشگی نوٹس دیا جاتا ہے۔ امیدوار کو نوٹس ملنا تو دور کی بات درخواست کے باوجود آر او نے رسپانس نہیں دیا۔
چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ ہمارا الیکشن کمیشن پر اعتماد شائد نہیں رہا مگر ہمیں ان سے ہی کام لینا ہے، تاکہ کچھ اور بھی کرنا چاہ رہے ہیں تو سامنے آجائے۔ الیکشن کمیشن ہر طرح کی شکایت سن سکتا ہے مکمل با اختیار ہے ، آپ اس عمل سے گریز کیوں کررہے ہیں؟
بیرسٹر صلاح الدین نے موقف دیا کہ آپ الیکشن کمیشن کو ہدایت کردیں کہ ہماری درخواستوں کو سن کر فیصلہ کردے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ہدایات نہ دی جائیں الیکشن کمیشن خود اپنا کام کرسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن والے کیوں بیٹھے ہوئے ہیں ان کی ڈیوٹی ہے، وہ نہ کریں پھر دیکھ لیں کیا کرنا ہے۔
سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ درخواستگزاروں کو حکم دیں الیکشن کمیشن سے رجوع کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب آپ لوگ کچھ نہیں کریں گے تو لوگ کہاں جائیں گے؟ سارے راستے بند کردیں گے، لوگ احتجاج کرتے ہیں تو انہیں ڈنڈے مارے جاتے ہیں، گرفتار کرلیا جاتا ہے، لوگ نا انصافیوں کے خلاف عدالت نہ آئیں تو پھر کہاں جائیں؟
افسر الیکشن کمیشن عبداللہ ہنجرہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن میں شکایتی سیل قائم کردیا گیا ہے وہاں درخواستیں موصول ہورہی ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اپنایا کہ آپ کم از کم نوٹیفکیشن روک کر الیکشن کمیشن کو ہماری درخواست سننے کا فیصلہ کرنے کا حکم دے دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے ہی اسٹے دے دیں اور اپنی راۓ کے مطابق فیصلہ سنا دیں تو بعد میں کیا ہوگا؟ الیکشن کے حوالے سے کئی معاملات بعد میں بھی آئیں گے، ٹریبونل بھی بنے گا۔ ایک امیدوار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہماری تو دوبارہ گنتی کی درخواست بھی نہیں سنی جارہی۔ طارق حسین نے فارم 45 میں 11 ہزار اور شیخ عبداللہ 6 ہزار ووٹ لیے ہیں۔ فارم 47 میں نتیجہ بدل دیا گیا۔
سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ جیتے ہوئے امیدوار کے پاس بھی فارم 45 ہے وہ بھی چیلنج کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہارنے والے خود بنارہے ہیں فارم 45؟ عالمگیر کے وکیل حیدر وحید ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ جیتنے والے اپنے فارم 45 خود بنارہے ہیں۔
عدالت نے درخواستگزاروں کو درخواست اور فارم 45 ای میل کے ذریعے بھی الیکشن کمیشن کو بھیجنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ ہم کوئی حکم جاری نہیں کررہے مگر آپ اسمارٹ بننے کی کوشش نہ کیجیے گا، اگر اسمارٹ بننے کی کوشش کریں گے تو نتائج کیلیے بھی تیار رہیے گا۔
عدالت نے تمام درخواستوں پر الیکشن کمیشن اور وفاق کو 13 فروری کیلیے نوٹس جاری کردیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج جواب دیں آپ نے کیا کارروائی کی؟ چیف جسٹس نے ہدایت کی اگر فارم 45 اور فارم 47 میں تضاد ہے تو اس کا جائزہ لیں۔
چیلنج کیے گئے حلقے
حلقہ این اے 242 سے مصطفیٰ کمال کی کامیابی کو دوا خان صابر، حلقہ این اے 244 سے فاروق ستار کی کامیابی کو آفتاب جہانگیر، حلقہ این اے 237 سے پی پی کے اسد عالم نیازی کی کامیابی کو ظہور محسود نے چلینج کیا۔
اسی طرح حلقہ این اے 243 سے قادر پٹیل کی کامیابی کو شجاعت علی، این اے 245 سے حفیظ الدین کی کامیابی کو عطا اللہ، این اے 234 سے عامر معین، حلقہ این اے 239 سے نبیل گبول، 240 سے ارشد وہرا، 241 سے مرزا اختیار بیگ کی کامیابی کو پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے چلینج کیا ہے۔
حلقہ این اے 247 سے ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار سمیت مزید 2 امیدواروں کی کامیابی سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا۔
حلقہ پی ایس 101 سے ایم کیو ایم کے معید انور، پی ایس 104 سے ایم کیو ایم کے امیدوار دانیال، پی ایس 124 سے جماعت اسلامی کے امیدوار محمد احمد نے متحدہ امیدوار عبدالباسط، پی ایس 123 سے ایم کیو ایم کے عبدالوسیم، پی ایس 126 سے افتخار عالم، پی ایس 116 سے پی پی کے علی احمد، پی ایس 120 پر ایم کیو ایم امیدوار مظاہر عامر، پی ایس 101 سے ایم کیو ایم امیدوار کی کامیابی کو آزاد امیدوار آغا ارسلان نے چلینج کیا ہے۔