مرحوم جواد نذیر کی کچھ یادیں

بڑی خوشی ہوئی کہ ہم دونوں نئے نئے ’’کاروبار‘‘ کرنے اور ان کو بڑی کامیابی سے ’’ناکام‘‘ بنانے کے کامیاب ماہرین ہیں

barq@email.com

مرحوم جواد نذیر، اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، سے جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تو پہلی ہی نظر میں ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا بقول کسے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ولی را ولی می شناسد۔البتہ یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ پاگل را پاگل می شناسد۔ایسے لگا جیسے ہم بھی وہ دو بھائی ہیں جو ''کنبھ'' کے میلے میں بچھڑ گئے تھے اور''ایکسپریس''نے ہمیں ملادیا۔

یہ معلوم کرکے بڑی خوشی ہوئی کہ ہم دونوں نئے نئے ''کاروبار'' کرنے اور ان کو بڑی کامیابی سے ''ناکام'' بنانے کے کامیاب ماہرین ہیں۔پتہ لگا کہ وہ بھی ہماری طرح پانچ کاروباروں کو نہایت کامیابی سے شروع کرکے زندہ درگور کرچکے ہیں اور ہمارا اسکور بھی اتنا ہی تھا۔

ظاہر ہے کہ اتنے گونا گوں کاروباروں کو ناکام کرنے کی کامیابی حاصل کرکے ہمارا تجربہ بے پناہ ہوگیا تھا۔ زیادہ میل جول بڑھا تو پتہ چلا کہ ان کا ایک اور پارٹنر بھی یہی پیشہ کرتا ہے یعنی کاروبار شروع کرکے ان میں کامیابی سے ناکامی حاصل کرنا۔غالباً میاں عمرفاروق نام ہے چونکہ کافی مالدار اور بہت بڑی جائداد کا مالک ہے۔

اس لیے کاروبار بھی بڑے بڑے شروع کرتا ہے اور ناکامیاں بھی بڑی بڑی حاصل کرتا ہے۔ جن دنوں ہماری شناسائی ہوئی ان دنوں ایک بہت بڑا ڈیری فارم شروع کرکے سارے لاہور کو خالص دودھ پلاتے رہے تھے۔ لاہور والے تو خالص دودھ پی گئے اور ان کے فارم کی بھینسیں کم ہوتے ہوتے دوچار رہ گئیں۔

وہ مردان کے ایک شخص نے سنا کہ باجوڑ میں ''نمک'' کی بڑی مانگ ہے چنانچہ اس نے مردان سے گدھوں پر نمک لادا اور باجوڑ لے گیا۔ لیکن باجوڑ میں ''نمک کی مانگ'' کی خبر اور بھی بہت سارے لوگوں نے سنی تھی اس لیے باجوڑ میں نمک کی اتنی بہتات ہوگئی کہ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں رہا چنانچہ اس نے نمک مفت تقسیم کیا اور واپس مردان پہنچا۔کوئی پوچھتا کہ بھئی وہ تم جو نمک باجوڑ لے گئے تھے اس کا کیا ہوا۔تو جواب دیتا، باجوڑ کے لوگوں نے نمک کھایا اور ''گدھوں'' نے باجوڑ کی سیر کرلی۔

ایسے کاروباروںکا ایک معروف طریقہ کار ہوتا ہے جسے ہم جیسے ایک کاروباری نے یوں بیان کیا ہے کہ میرے پاس سرمایہ تھا اور''اس''کے پاس ''تجربہ''تھا اب میرے پاس ''تجربہ'' آگیا اور ''سرمایہ'' اس کے پاس چلا گیا ۔ایک دن جواد نذیر اچانک آئے اور کہا چلو سوات چلتے ہیں عقیل یوسف زئی بھی اس کے ساتھ تھا،جو الگ ایک پوری چیز ہے، ایک ایسی چیز جس کے بارے میں ہم آج تک جان نہیں پائے کہ وہ''چیز''کیا ہے؟


خیر تو ہم سوات چل پڑے، راستے میں جواد نذیر نے بتایا کہ اسے سوات میں ایک ایسا قطعہ اراضی پٹے پر چاہیے جہاں اسٹرابیری کی پنیری تیار کی جاسکے اور جہاں کا درجہ حرارت(30.35) سے زیادہ (گرمی میں) نہ ہو ہم یہاں پنیری تیار کرکے لے جائیں گے اور پنجاب میں کاشت کریں گے غالباً میاں عمرفاروق کی زمینوں میں۔سارا دن سوات بھر پھر کر بہت ساری زمینیں دیکھیں اور آخر مٹہ کے قریب ایک جگہ پسند آگئی۔

وہ میرے دوست اور فین تھے، اس لیے کہہ دیا کہ جب چاہے آؤ اور اپنا کاروبار شروع کرو بلکہ ایک دو کھیت بھی دکھائے جن میں اسٹرابیری کی پنیری پنپ رہی تھی۔جواد صاحب چلے گئے اس منصوبے کا تو کچھ پتہ نہیں لگا۔لیکن کچھ عرصے کے بعد آئے تو اس سے بھی بڑا منصوبہ ساتھ لائے تھے۔یونان کا کوئی مشہور پھول وہ یہاں کاشت کرنا چاہتے تھے جو ان کے بقول بہت ہی منافع بخش کاروبار تھا اور اس کے لیے زیادہ زمین چاہیے تھی۔

سوات میں میرے ٹی وی ڈراموں کی وجہ سے قدم قدم پر میرے فین تھے چنانچہ مٹہ سے اوپر معروف سیاست دان مرحوم افضل خان لالا کے ایک بھتیجے کی زمین پر ہمیں کچھ بھی کرنے کی اجازت مل گئی اس مقام کا نام ''دارمے''ہے۔لیکن یونانی پھول کا یہ منصوبہ بھی بن کھلے مرجھا گیا۔میں سمجھ گیا کہ یہ بھی ایک ناکام کاروبار ہے۔

کافی عرصہ گزر گیا۔اس دوران ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں اور نئے نئے کاروباروں کے منصوبے بنتے رہے جن کی ناکامی کے امکانات خاصے روشن تھے۔شہد کا کاروبار، شترمرغ پالنے کا پروگرام، اخروٹ کے درخت کی چھال ''دنداسہ''کی مدد سے ایک ایسا تیل جو گرتے بالوں کے لیے تیربہدف۔ ہم سمجھ گئے بلکہ ان کو جان گئے پہچان گئے۔

اس لیے صرف سن لیتے تھے۔ پھر وفات سے سال بھر پہلے کیا دیکھتے ہیں کہ جواد صاحب اکیلے گاڑی چلاتے ہوئے آ پہنچے اور خوشخبری سنائی کہ انھوں نے ایک زبردست کاروبار کا فیصلہ کر لیا۔چارسدہ کے ایک مقام''رجڑ'' جس کی مٹھائی بھی مشہور ہے لیکن یہاں کھڈی پر بنا ہوا ''کھدر'' بھی اچھا خاصا مشہور ہے۔اگلے زمانے میں ان دونوں چیزوں کی ابتدا ایک گھرانے سے ہوئی تھی۔لیکن آج دونوں کاروبار پورے چارسدہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ساری دکانوں پر اصلی رجڑ کی اور اصلی رجڑ کا کھدر لکھا ہوتا ہے خود رجڑ کے بازار میں ان دونوں چیزوں کی بے شمار دکانیں ہیں۔

مٹھائی تو خیر وہیں بنتی ہے لیکن کپڑا سارے کا سارا لاہور اور فیصل آباد سے لے جاکر اصلی کھدر کا بیچا جاتا ہے۔ ہم جواد صاحب کو یہ حقیقت بتانے والے تھے کہ آپ الٹے بانس بریلی کو لے جانے کا منصوبہ بنارہے ہیں کہ اتنے میں انھوں نے کار کی ڈکی کھولی تو کپڑوں کے بنڈل پڑے تھے پچھلی سیٹ پر بھی بنڈل ہی بنڈل تھے چنانچہ ہم نے کچھ بھی نہیں کہا کہ ویسے بھی وہ کاروبار کو کامیابی کے لیے نہیں بلکہ ناکامی کے لیے کرتے تھے۔
Load Next Story