پیپلزپارٹی کا ن لیگ کے وزیراعظم کے امیدوار کی حمایت اور وفاقی حکومت کا حصہ نہ بننے کا اعلان
پی پی پی حکومت میں وزارتیں نہیں لے گی،چیئرمین سینیٹ اوراسپیکر کیلئے امیدوارہوں گے، خواہش ہے زرداری صدر بنے، بلاول بھٹو
بلاول بھٹو نے کہا کہ آصف زرداری کو ملک کا صدر بننا چاہیے—فوٹو: اسکرین گریب
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ان کی جماعت وفاقی حکومت میں عہدے لینے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور خود کو وزیراعظم کی دوڑ میں شامل نہیں کرتا تاہم مسلم لیگ(ن) کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو ووٹ دیں گے۔
زرداری ہاؤس اسلام آباد میں پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس میڈیا بریفنگ میں چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پی پی پی کی سی ای سی کا دو روزہ اجلاس مکمل ہوا جہاں ملکی اور سیاسی صورت حال پر بات چیت کی گئی، پاکستان کے بحران پر بات کی گئی، پاکستان کا اصولی فیصلہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کا ساتھ دینا ہے اور ملک کو مستحکم کرنا اور اس بحران سے نکالنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ پھر وقت آگیا ہے کہ پی پی پی پاکستان کھپے کا نعرہ لگائے، حقیقت یہ ہے پی پی پی کے پاس وفاقی حکومت بنانے کے لیے مینڈیٹ نہیں ہے، اسی وجہ سے میں خود کو وزیراعظم پاکستان کے امیدوار کے طور پر شامل نہیں کر رہا ہوں۔
'پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کا حکومت بنانے کا امکان ختم ہوگیا'
ان کا کہنا تھا کہ آزاد امیدواروں اور مسلم لیگ (ن) کے پاس قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں ہیں لیکن پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ وہ پی پی پی کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے، اسی لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی حکومت کا امکان ختم ہوگیا ہے اور مسلم لیگ (ن) رہ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) نے ہمیں حکومت میں شمولیت کی دعوت دی تھی لیکن پی پی پی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وفاقی حکومت میں شامل ہوں اور وزارتیں لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور ہم ملک میں سیاسی افراتفری بھی نہیں دیکھنا چاہتے ہیں اور ملک میں بحران نہیں چاہتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نہیں بنا رہی ہے اور مسلم لیگ(ن) کے پاس مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے اور میں وزیراعظم کا امیدوار نہیں ہوں تو ایوان وزیراعظم منتخب نہیں کرپائے گا، جس کے نتیجے میں ہمیں واپس دوبارہ انتخابات میں جانا ہوگا، جس سے اس سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوگا اور سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے اثرات سے ملک کے عوام متاثر ہوں گے، جو اس وقت صرف سیاسی مسائل کا شکار نہیں بلکہ معاشی اور دہشت گردی کے بدترین خطرات اور موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے عوام کے مفاد پر مشتمل منشور پر انتخاب لڑا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ مختلف امور پر اہمیت کی بنیاد پر حمایت کریں گے تاکہ سیاسی استحکام کی بحالی یقینی بنائی جائے۔
'عوام کو مسائل سے نکالیں گے'
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اس کے لیے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ایک کمیٹی تشکیل دیں گے تاکہ دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطے کرے گی، حکومت سازی اور سیاسی استحکام کے لیے یہ کمیٹی کام کرے گی۔
ان کا کہنا تھا ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کو اس بحران سے نکالیں اور اس سمت پر لے جاسکیں جو عوام کا حق ہے، عوام مزید افراتفری نہیں چاہتے اور سیاست دانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ عوام کو اس بحران سے نکالیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اراکین نے اجلاس میں کئی مسائل پر بات کی ہے اور مسلم لیگ(ن) کے دوستوں کے حوالے سے مسائل پر بات کی، 18 مہینے حکومت میں رہیں اور سارے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے ساتھیوں نے شکایت کی ہے کہ ان کے کام نہیں ہوئے ہیں، اس لیے کمیٹی نے یقینی بنائے گی کہ پی پی پی کے اعتراضات دور کیے جائیں۔
'انتخابی نتائج کی خامیوں کو دور کریں'
انتخابات کے نتائج پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ بد قسمتی ماضی کی طرح ہر الیکشن میں 2018، 2013 اور دیگر کی طرح اس الیکشن میں بھی اعتراضات اٹھائے گئے، ہماری پارٹی کے اراکین نے اعتراضات کیے ہیں، لیول پلینگ فیلڈ، دھاندلی کے الزامات، بدانتظامی کے معاملے پر فیصلہ کیا ہے کہ ہم تمام شکایات پر شواہد اکٹھے کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ فیصلہ ہوا کہ پی پی پی ملک کے وسیع مفاد اور ملکی سیاسی استحکام کے لیے احتجاجاً ان نتخابات کے نتائج قبول کرے گی مگر ہم چاہیں گے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر اس دفعہ ان خامیوں کو ختم کریں تاکہ آنے والے انتخابات میں کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ عوام کے لیے پیغام ہے کہ ٹی وی اسکرینز پر جو افراتفری اور سیاسی عدم استحکام نظر آرہا ہے اس کے پیش نظر میں یقین دلاتا ہوں کہ پارلیمان بنے گا اور پارلیمان وہ فورم ہے جہاں آپ کے مسائل حل کروائے جائیں گے۔
'دوبارہ انتخابات کی صورت میں مزید افراتفری ہوگی'
ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی اپنے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے حکومت سازی کا عمل مکمل ہو، اس سے سیاسی استحکام ہو اور حکومت چل پڑے، ایسا نہ وہ کہ ہمیں نئے انتخابات کی طرف جانا پڑے اور ایک بار اس سلسلے میں دھکیلا جائے، جس کے نتیجے میں سیاسی افراتفری ہو۔
دوبارہ انتخابات کے حوالے سے سوال پر بلاول نے کہا کہ واضح مینڈیٹ کیسے ملے گا پتا نہیں، ابھی ہم اتنے بڑے عمل سے گزرے ہیں حالانکہ سب کا خیال تھا کہ واضح مینڈیٹ آئے گا لیکن واضح مینڈیٹ نہیں آئے، نہ پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار اس پوزیشن میں ہیں وہ اپنے طور پر حکومت بنائیں اور نہ مسلم لیگ (ن) اور نہ ہی میں اس پوزیشن میں ہوں کہ اپنے طور پر حکومت بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم دوبارہ انتخابات کی طرف جائیں گے تو یہ آسان کام نہیں ہے، اس میں ہمارا خون پسینہ شامل ہوتا، ہمارے لوگ شہید ہوتے ہیں اور کارکنوں پر قاتلانہ حملے ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ انتخابات آسانی سے ہوں گے، دوبارہ انتخابات کی صورت میں مجھے سیاسی افراتفری نظر آرہی ہے اور استحکام نظر نہیں آرہا ہے۔
'عوام نے مینڈیٹ کے ذریعے سیاستدانوں کو ساتھ بیٹھنے کا پیغام دیا ہے'
انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں جو انتخابی نتائج ہوں گے میرا نہیں خیال کہ کوئی سیاسی جماعت ان نتائج کو قبول کرے گی، پاکستان کے عوام جو پیغام بھیج رہے ہیں اس کو سیاست دان سن نہیں رہے ہیں، عوام چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر بات کریں اور کام کریں، اگر کسی ایک جماعت کو چاہتے تو اس جماعت کو چاروں صوبوں میں مینڈیٹ مل جاتا۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے منقسم مینڈیٹ اس لیے دیا تاکہ کسی ایک کے زور زبردستی پر نہ چلے بلکہ پارلیمان میں بات کرکے مسائل کا حل نکالا جائے، لیکن افسوس ہے کہ اس سب کے باوجود پی ٹی آئی آج بھی ایسے فیصلے کر رہی ہے جو جمہوریت کے حق میں نہیں ہے، یہ کہنا ہم کسی سے بات نہیں کریں گے تو نہ کریں لیکن لوگوں نے آپ کو ووٹ کیوں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی طاقت بات کرنے کو تیار نہیں ہے، دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ بھی بات تو کرتے ہیں مگر سننا بھی پڑے گا، اگر سنے بغیر اپنا کام کریں گے تو بسم اللہ کریں لیکن اس کا نقصان پاکستان اور جمہوریت کا ہوگا تو عوم کا نقصان ہوگا۔
'وزارت عظمیٰ، بجٹ اور قانونی سازی پر حکومت کی حمایت کریں گے'
انہوں نے کہا کہ پی پی پی حکومت میں وزارتیں نہیں لے گی، ایشو ٹو ایشو، ہمارے منشور اور اہم ووٹس پر حکومت کا ساتھ دے گی، لیکن ہماری مذاکرات کی ٹیم موجود ہوگی، جو بھی ہمارے اعتراضات ہیں وہ طے کیے جاسکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ میں اپوزیشن لیڈر بن سکوں گا۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی جماعت کا وزارتوں کی صورت میں حصہ بنے بغیر تعاون کریں گے، جس طرح پی ڈی ایم ٹو کی بات کی جارہی ہے اس طرح ہم حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جہاں تک وزارت عظمیٰ کے لیے ووٹ ہے، بجٹ، قانون سازی پر ایشو ٹو ایشو تعاون کریں گے اور آئینی عہدوں پر پی پی پی اپنے امیدوار کھڑے کرے گی اور یہ ہمارا حق ہے کیونکہ ہم انتخابات لڑ کر آئے ہیں، اس لیے ہم صدارت، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر شپ کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کرے گی۔
'میری خواہش ہے آصف زرداری ملک کے صدر بنیں'
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) یا کسی دوسری جماعت کے وزیراعظم کا امیدوار کا فیصلہ ان کا اپنا ہوگا، پی پی پی کا آئینی عہدوں پر کون امیدوار ہوں گے وہ پارٹی کا فیصلہ ہوگا لیکن میری خواہش ہوگی کہ جب صدارتی انتخاب کا موقع آئے تو صدر زرداری اس میں حصہ لے اور اس ملک کا صدر بنے۔
انہوں نے کہا کہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ زرداری میرا والد ہے تو وہ صدر بنے بلکہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ملک میں اس وقت آگ پھیل رہی ہے، پاکستان جل رہا ہے اور اگر کوئی اس آگ کو بجھانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ صدر آصف علی زرداری صاحب ہیں، اس لیے ملک کے لیے ضروری ہے کہ زرداری صاحب ایک مرتبہ پھر یہ عہدہ سنبھالیں۔