دانے سے دیگ کا اندازہ لگانا

سیاست اور شوبز میں تو نیک نامی اور بدنامی دو جڑواں بہنیں ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq September 19, 2012
[email protected]

دیکھے تو آپ نے بھی ہوں گے کیونکہ سڑکوں کے کنارے یہ بڑے بڑے ہورڈنگز لگائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ گزرنے والے اگر اندھے بھی ہوں تو انھیں دیکھ سکیں کیونکہ اپنے سائز اور رنگوں میں یہ اتنے ''جارح'' ہوتے ہیں کہ ''جوتوں سمیت'' آنکھوں میں گھسنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن دیکھنے کے باوجود کبھی آپ نے غور نہیں کیا ہو گا کہ اپنا سب کچھ کمرشل اور اشتہاری ہو گیا ہے حالانکہ اگلے زمانوں میں اشتہاری ہونا ایک ناپسندیدہ بات ہوتی تھی۔

خیر یہ توکوئی خاص بات نہیں، اس کا پتہ کسی کو نہیں ہوتا کہ کون سی چیز کب پسندیدہ ہو جائے اور کب ناپسندیدہ بن جائے اور پھر سیاست اور شوبز میں تو نیک نامی اور بدنامی دو جڑواں بہنیں ہیں ۔جڑواں بہنیں بھی ایسی کہ کمر سے دونوں جڑی ہوئی ہیں، سامنے اگر آپ بدنامی کو دیکھ رہے ہوں تو اس کے پیچھے ''نیک نامی'' کا چہرہ بھی ہوتا ہے۔ کسی کو پتہ نہیں ہو گا لیکن ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کیوں کہ ہم دور کسی شہر کے دفتر میں نہیں براہ راست عوام میں رہتے ہیں بلکہ خود بھی وہی ہیں اس لیے حق الیقین کی حد تک جانتے ہیں کہ اب کے ''برسات کی رت'' میں کیا انقلاب رونما ہوا ہے۔

انقلاب یہ ہے کہ پہلے جن باتوں کو چھپایا جاتا تھا اب اس کے باقاعدہ اشتہار دیے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر کونسلر، ایم پی اے، ایم این اے، سینیٹر اور وزیر لوگ اپنی کمائیوں کو چھپاتے تھے لیکن اب فخریہ بیان کرتے ہیں کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ آیندہ الیکشن میں جیتنے کا انحصار ایمانداری پر نہیں بلکہ بے ایمانی پر ہو گا۔ اگر کوئی ایماندار ہے، صرف فرض کر لیجیے ورنہ حقیقت میں ہوتے نہیں ہیں جو ہوتے تھے وہ کب کے بھوکے مر چکے ہیں یا تھک ہار کر فنا ہو چکے ہیں۔

لیکن پھر بھی فرض کر لیجیے کہ کوئی اگر ایماندار ہے تو اس نے کمایا نہیں ہو گا اور جس نے کمایا نہیں وہ الیکشن میں کیا خاک خرچ کرے گا ۔۔۔۔ چنانچہ آج کل پیشہ ور لیڈروں کے پیشہ ور چمچے اپنے ممدوحوں کی صفائیاں نہیں دیتے بلکہ ان کی آلودگیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تا کہ عوام کو پتہ چلے کہ پیڑ پھلدار ہے، قریب جانے والا خالی ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس کے برعکس اگر کوئی ''فرضی'' ایماندار ہو اور اس کے حواری اس کی ایمانداری کے قصے بیان کریں گے تو یہ گویا اس کی نااہلی کا ڈھنڈورہ پیٹنا ہوا۔ لوگ لامحالہ سوچیں گے کہ ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔

چنانچہ ہم نے بہ چشم خود دیکھا اور بگوش خود سنا ہے کہ لیڈروں کے خاص خاص چمچے، خاص خاص طریقوں پر لوگوں کو باور کرا رہے ہیں کہ ممدوح نے اتنے اتنے فنڈ خرد برد کیے ہیں، اتنا اتنا کمایا ہے اور اتنا اتنا بینکوں میں پہنچایا ہے تاکہ پیڑ زیادہ سے زیادہ پھلدار اور ثمر بار لگے۔ کوئی پاگل ہی ہو گا جو کسی بانجھ اور کانٹے دار پیڑ کے پاس جائے گا۔

گویا جو جتنا بدنام ہوا اتنا ہی نیک نام ہوا، اور جو نیک نام ہوا اس کا کام تمام ہوا۔ یہی نکتہ ان ہورڈنگز اور دیوقامت اشتہاروں میں بھی ہے۔ جس کا جتنا بڑا ہورڈنگ ہو گا اتنا ہی اسے ''ثمر دار'' مانا جائے گا جس کی جتنی بڑی تصویر ہو گی اتنی ہی بڑی اس کی ''جیب'' بھی ہو گی۔

رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی میں ہم
لیکن طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے

بلکہ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ہوشیار لوگ اپنی ہی بے ایمانیوں کی تفصیلات خود ہی جان بوجھ کر اپنے مخالفوں کو پہنچاتے ہیں تاکہ وہ ان تفصیلات کو زیادہ سے زیادہ مشتہر کر سکیں۔ اور دیکھا جائے تو یہ تکنیک سب سے کامیاب ہے۔ مخالف ان تفصیلات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور ان کی بدنامی + نیک نامی ثمر دار ہوتی جاتی ہے۔

ایسا ہم نے ایک جلسے میں خود دیکھاہے کہ ایک امیدوار نے اپنے مخالف کی بے ایمانیوں کے قصے بیان کرنا شروع کیے کہ اس نے اپنے دور اقتدار میں اتنے کروڑ فلاں بے ایمانی میں کمائے، اتنے کروڑ بھائی کو دلوائے، اتنے کروڑ کے ٹھیکے اپنے دوستوں کو دیے اور ان سب کے ساتھ ساجھے داری میں اتنے اتنے کمائے۔ کروڑوں کے بڑے بڑے پہاڑ بنا کر اس نے گویا اپنے مخالف پر گرائے، ساتھ ہی وہ اپنے دور کی ایمانداریوں کے قصے بھی بیان کرتا رہا۔

ہمارے قریب بیٹھے ہوئے دو لوگوں کے درمیان اس وقت ایک مکالمہ ہوا جس نے ہماری بھی آنکھیں کھول دیں ورنہ ہم تو اس ایماندار لیڈر پر ایمان لا ہی چکے تھے۔ وہ مکالمہ شاید آپ کے لیے بھی خضرِ راہ ثابت ہو جائے، اس لیے پیش خدمت ہے۔

ایک نے کہا ۔۔۔۔ ارے یہ تو بانجھ درخت ہے۔ یہ الیکشن میں کھڑا ہو کر جیتے گا کیسے؟

دوسرے نے کہا، بانجھ درخت بھی اچھا ہوتا ہے، کم از کم پتے تو اس میں ہوتے ہیں۔ یہ تو ''پوہ ماگھ'' (مہینے) کا توت ہے۔ یہ ''پوہ ماگھ'' کا توت دراصل سردیوں کے اس موسم کا اشارہ ہے جب توت اور اس طرح کے سارے درخت ٹنڈ منڈ ہو جاتے ہیں۔ انتہائی غریب اور بے فیض آدمی کو ''پوہ ماگھ'' کا توت کہا جاتا ہے۔

وہ دونوں باہمی مکالمہ کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ شخص اگر آیندہ بھی منتخب ہو گا تو خود بھی بھوکا مرے گا اور ہمیں بھی بھوکا مارے گا۔ اس کے ساتھ صرف ''ایمانداری'' چاٹنا پڑے گی۔ اس لیے اس پر تین حرف ۔۔۔۔ چلو اس دوسرے کے پاس چلتے ہیں جس کے بارے میں یہ پتہ ہے کہ خود بھی کماتا ہے اور دوسروں کو بھی ''کمواتا'' ہے۔ اور پھر وہ دونوں اٹھ کر چلے گئے۔

ہم نے تھوڑی دیر سوچا اور ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے ہوئے۔ اس ''ثمر دار'' بدنام کے ہاں پہنچے تو دیگیں چل رہی تھیں اور لوگوں کو زبردستی پکڑ پکڑ کر کھلایا پلایا جا رہا تھا، جب کہ ایماندار کے ہاں پانی بھی دستیاب نہیں تھا۔ اس طرح گویا وہ ایماندار اپنی نا اہلی اور مخالف کی اہلیت کا ڈھنڈورہ خود ہی پیٹے چلے جا رہا تھا۔

پبلسٹی کے ان طرح طرح کے طریقوں میں ایک طریقہ یہ سراہ ہورڈنگز بھی ہیں جن کے سب سے زیادہ بڑے بڑے ہورڈنگز ہوتے ہیں اور بہت سارے ہوتے ہیں لوگ ان ہورڈنگز، ان پر لگی ہوئی تصویروں، ان کے سائزوں اور رنگ و روغن سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کون کتنا ''مرغن'' ہے۔ آپ سے کیا چھپانا ہم خود بھی اس کوچے سے گزر چکے ہیں اور خوب اچھی طرح رسوا ہو چکے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ ہم ماسٹر ہو کر آپ کو یہ سبق پڑھا رہے ہیں

یاد کرو ماسٹر کا سبق
روشن ہوں گے چودہ طبق

بات کوئی لمبی چوڑی نہیں، کچھ لوگوں کے اور کچھ اپنے بہکاوے میں آ کر ہم بھی الیکشن میں کھڑے ہو گئے تھے اور بڑے آرام سے نہایت ہی شاندار طریقے سے فیل ہو گئے اور اس لیے فیل ہو گئے کہ ہم ''کامیاب'' ہو گئے تھے۔

لوگوں کو یہ یقین دلانے میں کہ ہم ''ایماندار'' ہیں اور ہمارا مخالف سخت کرپٹ، بے ایمان اور جرائم پیشہ ہے اور ادھر وہ بھی ووٹروں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا کہ ہم ایماندار ہیں اور وہ بے ایمان۔ یوں سمجھئے کہ ہم نے خود کو ایماندار ثابت کر کے ووٹروں کو یقین دلایا کہ ہم کسی ''کام'' کے نہیں ہیں اور اس نے خود کو کام کا ثابت کر دیا۔

ظاہر ہے پھر ووٹروں نے وہی فیصلہ کیا جو خود ان ہی کے مفاد میں تھا۔ بہرحال جس طرح علامہ بریانی کسی کے جمعہ، جمعرات، چہلم اور برسی کے چاولوں سے مرحوم کی بخشش یا نہ بخشش کا اندازہ لگاتے ہیں، اسی طرح ان ہورڈنگز وغیرہ سے لیڈر کے کارآمد یا نہ کارآمد ہونے کا اندازہ اچھی طرح ہو جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں