آئین پارلیمنٹ اور ہمارا مستقبل

موجودہ پاکستان کا مستقبل بھی صرف 1973 کے وفاقی جمہوری آئین کی پاس داری اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے ذریعے ہی ممکن ہے

zahedahina@gmail.com

عام انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ چند ہفتوں کے اندر نومنتخب پارلیمنٹ کی جانب سے قائد ایوان کا انتخاب بھی عمل میں آجائے گا۔ گزشتہ کئی دنوں سے حالیہ انتخابات اور ان کے نتائج کے حوالے سے مختلف تجزیوں اور تبصروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

ان مباحثوں میں زیادہ توجہ چند سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر مرکوز کی گئی ہے۔ تاہم، یہ دیکھنے کی کوشش نہیں ہوئی کہ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے یہ انتخابات اور نومنتخب پارلیمنٹ کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔

یہ پارلیمنٹ 1973 کے آئین کے تحت وجود میں آ ئے گی۔ پہلے عام انتخابات 1970 میں منعقد ہوئے تھے جس میں پارلیمنٹ میں فیصلہ کن اکثریت رکھنے والی جماعت یا جماعتوں کے حق حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔

لہٰذا ضروری ہے کہ 1956 کے آئین کی پامالی کے نتائج پر ایک نظر ضرور ڈالی جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ پارلیمنٹ کی بے توقیری کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کا پہلا آئین 23مارچ 1956 میں نافذ کیا گیا۔اس آئین کے 13حصے تھے جن میں 234 آرٹیکلز شامل تھے ۔

اس آئین میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوگیا اور اس کی جگہ صدر نے لے لی ۔یہ فیصلہ کردیا گیا کہ ملک وفاقی پارلیمان کے تحت کام کرے گا ۔ اس آئین کے تحت دو سال بعد ملک میں پہلے عام انتخابات کا انعقاد کیا جانا تھا۔مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے سابقہ چھوٹے صوبوں کے اشتراک سے ایک ایسی منتخب جمہوری حکومت کا انتخاب تقریباً یقینی تھا جس میں اقتدار اعلیٰ پر بیوروکریسی کی بالادستی کا خاتمہ ہوجانا تھا۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے 7اکتوبر 1958کو ملک پر پہلا مارشل لاء نافذ کردیا گیا ۔

صدر اسکندر مرزا برطانیہ کی مشہور سینڈ ہرسٹ کے امپیر یل ملٹری اکیڈمی سے تربیت حاصل کرنے والے برصغیر ہندوستان کے پہلے فوجی افسر تھے جنھوں نے بعد ازاں سول بیورو کریسی میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔صدر اسکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کو پاکستان کا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنایا ۔مارشل لاء سے چند ماہ قبل جنرل ایوب خان کی مدت ملازمت ختم ہونے والی تھی جس میں صدر اسکندر مرزا نے 2سال کی توسیع کی تھی۔

اسی جنرل نے اپنے مارشل لاء کے صرف 20دنوں کے اندر ہی اپنے ''محسن''کا پتہ صاف کر دیا۔ انھیں پہلے کوئٹہ اور پھر برطانیہ روانہ کردیا گیا ۔ جنرل ایوب خان نے جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں ایک آئینی کمیٹی قائم کی جس میں منظور قادر اور ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے ۔مئی 1961 میں آئینی رپورٹ جنرل ایوب کو پیش کی گئی اور یکم مارچ 1962 کو آئین کی منظوری دے دی گئی۔

یہ صدارتی آئین تھا ، قومی اسمبلی کی 156نشستیں تھیں ، 6نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کی گئی تھیں۔انتخابی کالج80ہزار بی ڈی ارکان پر مشتمل تھا۔صدر کے لیے مسلمان ہونا لازمی تھا لیکن اسپیکر کے لیے ایسی کوئی شرط نہیںتھی جو قائم مقام صدر بھی بن سکتا تھا۔ صدر ملک کا چیف ایگزیکٹو تھا جسے وزراء نامزد کرنے کا اختیار تھا ۔

آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی مارشل لاء ختم کردیا گیا لیکن جنرل ایوب خان خطرناک آمر کی طرح ملک پر مسلط ہوگئے ۔ ان کے آمرانہ دور میں جو صنعتی ترقی ہوئی اس کا فائدہ 24خاندانوں اورملک کے بعض مخصوص علاقوں کو پہنچا۔ عوام افراط زر ، مہنگائی اور اشیائے صرف کی قلت کا شکار رہے ۔

معروف صحافی اور دانش ور ایم ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ ''ایوب خان کے دور سے ہی ہمیں بیرونی قرضوں پر انحصار کی عادت پڑگئی ہے ۔امریکا اور یورپ کے ساتھ سیٹو اور سینٹو معاہدوں کے بعد ہمیں مفت میں اسلحہ ملا کرتا تھا ، انھوں نے ہمارے کنٹونمنٹ بھی بناکر دیے اس وجہ سے ہمارے ڈیفنس بجٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا اسی طرح امریکا ہمیں تقریباً مفت گیہوں دیتا تھا جسے ہم بیچ کر سویلین بجٹ کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔


ایوب خان کو اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے جاگیرداروں اور کاروباری لوگوں کی حمایت درکار تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کو جس طرح ہرایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔مشرقی پاکستان کا پٹ سن بیچ کر ہم مغربی پاکستان پر خرچ کرتے تھے۔مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جراثیم ایوب خان کے دور میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ ایوب خان کے ذریعے پاکستان پر مخصوص طبقات قابض تھے۔

ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ مذہبی جماعتوں کو سیاست میں بھی استعمال کیا جائے لیکن انھیں غالب نہ ہونے دیا جائے اور ایک دائمی دشمن کا خوف پیدا کرکے پاکستان کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنادیا جائے،جو سیاسی جماعتیں یا قومیتیں ان کی مخالفت کریں انھیں پاکستان دشمن اور ہندوستان کا ایجنٹ کہا جائے۔

اس کے ساتھ انھوں نے پاکستان کے تمام اہم سیاستدانوں کو راہ سے ہٹانے کے لیے ایبڈو اور پروڈو جیسے قانون بناکر تقریباً سات ہزار سے زیادہ سیاسی مخالفین کو سات سال کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔ 1962کے آئین کے بعد صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔

جنرل ایوب خان کو کسی بڑی مخالفت کا سامنا نہیں تھا لیکن سیاستدانوں نے فاطمہ جناح کو ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے پر آمادہ کر لیا۔ فاطمہ جناح کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہوئی لیکن انھیں زبردست دھاندلی کے ذریعے ہر وادیا گیا جس سے شدید عوامی ناراضی پیدا ہوگئی ۔

جنرل ایوب خان نے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے آپریشن جبرالٹر کیا جس سے 1965کی جنگ شروع ہوگئی ۔ اس جنگ سے معاشی طور پر ملک کو غیر معمولی نقصان پہنچا ۔امریکا نے اس بنیاد پر پاکستان پر پابندیاں عائد کردیں کہ اس نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے امریکی اسلحے کو اس جنگ میں ہندوستان کے خلاف استعمال کیا تھا۔اس جنگ نے جنرل ایوب خان کو بے حد کمزور کردیا۔

انھیں تاشقند معاہدہ کرنا پڑا، فوج کے اندر ان کی مخالفت بڑھی، ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے الگ ہوکرپاکستان پیپلز پارٹی بناکر جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جو معاشی مسائل کی وجہ سے زور پکڑ گئی۔ بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق پر پابندیوں کی وجہ سے طلباء اور مزدور بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے۔مشرقی پاکستان میں بھی احتجاج زور پکڑ گیا اور 68 اور 69 کے درمیان پورا پاکستان مسلسل مظاہروں اور ہڑتالوں کی زد میں رہا ۔

آمرانہ نظام کے حامیوںنے کچھ پسپائی اختیار کی اور ایوب خان کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خان نے انھیں معزول کرکے 1962کے آئین کو منسوخ کرکے ون یونٹ اور مساوی نمایندگی کے نظام کو ختم کرکے بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر 1970 میں عام انتخابات کرائے ۔عوامی لیگ کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوگئی ۔

پاکستان پیپلز پارٹی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ۔یحییٰ خان اور ان کے حامی جرنیلوں اور سیاستدانوں نے اقتدار پارلیمنٹ کو منتقل نہیں کیا ۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کیا گیا جس کے بعد مشرقی پاکستان ، پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا ۔ شکست کے بعد فوج نے ہتھیار ڈال دیے ۔

1970 میں بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان میں منعقد ہونے والے پہلے عام انتخاب میں مشرقی پاکستان میںبنگالی قوم پرست اور سیکولر جماعتوں کی مقبولیت اور عوامی لیگ کی حیرت انگیز کامیابی اس امر کا مظہر تھی کہ متحدہ بنگال کے مسلمانوں نے 1945 اور 1946 کے انتخابات میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلم لیگ کی جو غیر معمولی حمایت کی تھی۔

اس کے مقابلے میں 1970کے عام انتخابات میں عوامی لیگ کی کہیں زیادہ حمایت کرکے اس امر کی تصدیق کردی کہ کثیر القومی ریاستیں ایک وفاقی جمہوری نظام کے اندر ہی برقرار رہ سکتی ہیں اور مذہب کے نام پر قومیتوں کے حقوق کو دبانا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ آج بنگلہ دیش کے مسلم عوام مکمل آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی عقائد پر کاربند ہیں ۔

تاریخ کا تجزیہ ہمیں باور کراتا ہے کہ موجودہ پاکستان کا مستقبل بھی صرف 1973 کے وفاقی جمہوری آئین کی پاس داری اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
Load Next Story