گدلا پانی اور اندھی مچھلیاں
بے ایمانی کے درخت سے ایمانداری کا پھل کس نے توڑا ہے؟ چور چورہی رہے گا چاہے آپ اسے قاضی ہی کیوں نہ کہیں
ہمارے کالم نگاروں میں جناب جاوید چوہدری ایسے کہنہ مشق،تجربہ کار،صاحب بصیرت اور سینئر کالم نگار ہیں۔جو صرف کالم کا پیٹ نہیں بھرتے بلکہ ایسا کچھ لکھتے ہیں کہ پڑھنے والے کو نہ صرف پڑھنے۔بلکہ سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں ان کے کالم بعنون''کسی نے تو'' میں کچھ ایسے سوال اٹھائے ہیں جنھیں پڑھ کر بے اختیار منہ سے ایک آہ کے ساتھ یہ مصرع نکل گیا، ''میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔'' بلکہ تھا،ہے،اور رہے گا۔
یہ گزشتہ چھہتر سال سے پاکستانی سیاست، جمہوریت اور نظام عدل کا وہ آئینہ ہے جس میں بے شمار بڑے بڑے بدنما دھبے اور داغ ہیں، ایسے فیصلے جو بعد میں غلط ثابت ہوئے، ہم ان فیصلوں کی تفصیل میں نہیں جائیں گے کیونکہ نہ صرف جاوید صاحب نے ان کا ذکر کیاہے بلکہ پاکستان کے عوام کے ذہن میں بھی ہیں۔کہ ایک عدالتی فیصلہ کسی کو پھانسی دیتاہے تو بعد میں اسے عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔
اس قسم کے عدل وانصاف پر مبنی فیصلوں کی تازہ ترین مثالیں نواز شریف اور عمران خان ہیں۔پاکستان کی سیاسی،جمہوری اور سرکاری تاریخ میں ایسا اور بھی بہت کچھ ہے جنھیں سیاہ داغوں کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔وزیراعظم قتل ہوجاتے ہیں، مدتوں تحقیقات ہوتی ہیں، مقدمے چلتے ہیں، کاغذ سیاہ ہوتے ہیں لیکن نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ انداھیرا اندھیرے میں غائب ہوجاتا ہے۔ سیاہ دامن پر ایک اور سیاہ داغ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ خون نکلا
وہی روایتی ناپرساں کے ''نقب زن''کا مقدمہ بن جاتا ہے۔ اندھیرنگری میں چوپٹ راج چلتا رہتا ہے، مجرم برسراقتدار آجاتے ہیں، ہیرو زیرو ہوجاتے ہیں اور عوام کے منتخب نمایندوں کو چند لوگ ''بیک جنبش قلم'' عوام دشمن قرار دیاجاتا ہے۔اور تو اور پورا ملک دونیم ہوجاتا ہے، اقلیت اکثریت کو دور پھینک دیتی ہے۔اسی تمام باتوں کے بعد جو واحد سوال ابھرتا ہے۔
وہ یہی ہے جو جاوید چوہدری نے اٹھایا۔کیوںَکیسے اور کب تک؟ کیا اس بدنصیب ملک کے 25کروڑ عوام بلکہ ''مجرم'' کبھی انصاف کا منہ دیکھیں گے؟ ویسے جاوید صاحب کے ایک سوال کا جواب تو ہمارے پاس موجود ہے،انھوں نے پوچھا ہے،کسی نے تو؟ اور اس کا جواب ہے ''کسی نے بھی نہیں''۔کیونکہ یہاں مجرم کوئی''کسی'' نہیں، بلکہ پورا نظام ہے۔
جب کسی نظام میں کوئی بھی بھرتی میرٹ پر نہیں ہوتی۔بظاہر کوئی مانے نہ مانے جب کسی عہدے پر بھرتی ہی کرپشن بلکہ فروخت کے ذریعے ہوتی ہو۔وہاں اس بھرتی ہونے والے سے آپ کیا توقع کرسکتے ہیں؟جس کے لیے آتے ہیں ، اس کے لیے کرکے چلے جاتے ہیں۔ ابھی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک منتخب وزیراعظم کو کالا چور ثابت کیا گیا، پھر جو آیا پورے ملک پر کابوس کی طرح مسلط رہا ، ہر ادارے اور محکمے میں بھونچال برپا کیا۔ہر اس کام میں دخل دیا۔جو اس کا نہیں تھا۔بلکہ خدا بن کر ریاست مدینہ بھی تخلیق کی، صادق اور امین کے فتوے بھی مفتی اعظم بن کردیے گئے ۔یعنی
''جس لیے آئے تھے وہ سب کر چلے''
اور اب آرام سے کہیں بیٹھ کر اپنے ضمیر کے ساتھ گفت وشنید میں مصروف ہوں گے۔ذرہ بھر بھی احساس نہیں ہوگا کہ کیا کیا کرکے آئے ہیں، پرایا کھیت تھا، فصل اٹھا کر چل دیے ۔لیکن تعجب کی بات یہ بھی نہیں بلکہ یہ ہے کہ اسی کے جیسے سب کے سب اس کے ساتھ ہوگئے تھے۔کوئی ایک بھی فرد ایسا نہ تھا جو اس کے ساتھ نہیں تھا۔بلکہ مزے سے جی ڈی پی،جی ڈی پی کھلیتے رہے، اس لیے کہ سب کی بنیادیں اور جڑیں ''ایک''ہی ہوتی ہیں۔ ایک ہی طریقے سے آتے ہیں، ایک ہی جیسا کام کرتے ہیں اور ایک ہی رہتے ہیں۔
جس ملک میں پولیس کا سپاہی اور کسی دفتر کا کلاس فور ملازم بھی کرپشن کے بغیر نہیں آسکتا، اس ملک میں آپ کرپشن سے خالی جگہ کہاں ڈھونڈیں گے؟ بے ایمانی کے درخت سے ایمانداری کا پھل کس نے توڑا ہے؟ چور چورہی رہے گا چاہے آپ اسے قاضی ہی کیوں نہ کہیں۔ پشتو کی ایک کہاوت ہے۔
گدلا پانی اور اندھی مچھلیاں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ہمارے ہاں بھی بن چکی ہے ،اس کی ابتدا بہت پہلے جسٹس منیر کے ایک فیصلے سے ہوئی تھی اور اسے ایک خوبصورت نام بھی دیا گیا تھا ''نظریہ ضرورت'' موم کی ناک کی طرح اسے کسی بھی طرف موڑا جاسکتا ہے۔کافی عرصہ ہوا، شہر کا ایک ڈاکٹر اپنی فیملی کے ساتھ کسی پہاڑی تفریحی مقام پر چلا گیا۔پیچھے اس کے چوکیدار نے گھر کا صفایا کر دیا۔ جتنا قیمتی سامان ہاتھ لگا، باقاعدہ گاڑی بھر کر لے آیا۔
کچھ سامان تو اس نے رشتہ داروں میں بانٹا اور باقی گھر میں یہاں وہاں چھپا دیا۔ڈاکٹر واپس آیا تو اس نے رپورٹ درج کرائی۔شہری تھانے کی پولیس نے ایکشن لیا اور اس چوکیدار کے گھر چھاپہ مار کر اکثر سامان برآمد کرلیا۔ ٹی وی، فریج، گھڑیاں، زیورات اور ایک باقاعدہ لائسنس دار پستول بھی۔ مقدمہ چلا اور ملزم صاف بری ہوگیا۔
صرف پستول والے جرم میں اسے ایک سال کی سزا دی جاسکی تھی جو مقدمے کے اختتام اور حیرت انگیز فیصلے تک پوری ہوچکی تھی۔ بریت کی وجہ یہ ہوئی کہ شہری تھانے کی پولیس نے ملزم کے دیہاتی پولیس تھانے سے اجازت لیے بغیر چھاپہ مارا تھا۔باقی سب کچھ اس ''ٹیکنیکل وجہ''سے اڑگیا۔ سامان کی برآمدی، ملزم کے اعتراف اور جس گاڑی میں سامان لایا گیا تھا، اس کے ڈرائیور کی گواہی، سب ختم ہوگیا، اسے کہتے ہیں،گدلا پانی ، اندھی مچھلیاں۔
پچھلے دنوں ان کے کالم بعنون''کسی نے تو'' میں کچھ ایسے سوال اٹھائے ہیں جنھیں پڑھ کر بے اختیار منہ سے ایک آہ کے ساتھ یہ مصرع نکل گیا، ''میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔'' بلکہ تھا،ہے،اور رہے گا۔
یہ گزشتہ چھہتر سال سے پاکستانی سیاست، جمہوریت اور نظام عدل کا وہ آئینہ ہے جس میں بے شمار بڑے بڑے بدنما دھبے اور داغ ہیں، ایسے فیصلے جو بعد میں غلط ثابت ہوئے، ہم ان فیصلوں کی تفصیل میں نہیں جائیں گے کیونکہ نہ صرف جاوید صاحب نے ان کا ذکر کیاہے بلکہ پاکستان کے عوام کے ذہن میں بھی ہیں۔کہ ایک عدالتی فیصلہ کسی کو پھانسی دیتاہے تو بعد میں اسے عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔
اس قسم کے عدل وانصاف پر مبنی فیصلوں کی تازہ ترین مثالیں نواز شریف اور عمران خان ہیں۔پاکستان کی سیاسی،جمہوری اور سرکاری تاریخ میں ایسا اور بھی بہت کچھ ہے جنھیں سیاہ داغوں کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔وزیراعظم قتل ہوجاتے ہیں، مدتوں تحقیقات ہوتی ہیں، مقدمے چلتے ہیں، کاغذ سیاہ ہوتے ہیں لیکن نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ انداھیرا اندھیرے میں غائب ہوجاتا ہے۔ سیاہ دامن پر ایک اور سیاہ داغ کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ خون نکلا
وہی روایتی ناپرساں کے ''نقب زن''کا مقدمہ بن جاتا ہے۔ اندھیرنگری میں چوپٹ راج چلتا رہتا ہے، مجرم برسراقتدار آجاتے ہیں، ہیرو زیرو ہوجاتے ہیں اور عوام کے منتخب نمایندوں کو چند لوگ ''بیک جنبش قلم'' عوام دشمن قرار دیاجاتا ہے۔اور تو اور پورا ملک دونیم ہوجاتا ہے، اقلیت اکثریت کو دور پھینک دیتی ہے۔اسی تمام باتوں کے بعد جو واحد سوال ابھرتا ہے۔
وہ یہی ہے جو جاوید چوہدری نے اٹھایا۔کیوںَکیسے اور کب تک؟ کیا اس بدنصیب ملک کے 25کروڑ عوام بلکہ ''مجرم'' کبھی انصاف کا منہ دیکھیں گے؟ ویسے جاوید صاحب کے ایک سوال کا جواب تو ہمارے پاس موجود ہے،انھوں نے پوچھا ہے،کسی نے تو؟ اور اس کا جواب ہے ''کسی نے بھی نہیں''۔کیونکہ یہاں مجرم کوئی''کسی'' نہیں، بلکہ پورا نظام ہے۔
جب کسی نظام میں کوئی بھی بھرتی میرٹ پر نہیں ہوتی۔بظاہر کوئی مانے نہ مانے جب کسی عہدے پر بھرتی ہی کرپشن بلکہ فروخت کے ذریعے ہوتی ہو۔وہاں اس بھرتی ہونے والے سے آپ کیا توقع کرسکتے ہیں؟جس کے لیے آتے ہیں ، اس کے لیے کرکے چلے جاتے ہیں۔ ابھی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک منتخب وزیراعظم کو کالا چور ثابت کیا گیا، پھر جو آیا پورے ملک پر کابوس کی طرح مسلط رہا ، ہر ادارے اور محکمے میں بھونچال برپا کیا۔ہر اس کام میں دخل دیا۔جو اس کا نہیں تھا۔بلکہ خدا بن کر ریاست مدینہ بھی تخلیق کی، صادق اور امین کے فتوے بھی مفتی اعظم بن کردیے گئے ۔یعنی
''جس لیے آئے تھے وہ سب کر چلے''
اور اب آرام سے کہیں بیٹھ کر اپنے ضمیر کے ساتھ گفت وشنید میں مصروف ہوں گے۔ذرہ بھر بھی احساس نہیں ہوگا کہ کیا کیا کرکے آئے ہیں، پرایا کھیت تھا، فصل اٹھا کر چل دیے ۔لیکن تعجب کی بات یہ بھی نہیں بلکہ یہ ہے کہ اسی کے جیسے سب کے سب اس کے ساتھ ہوگئے تھے۔کوئی ایک بھی فرد ایسا نہ تھا جو اس کے ساتھ نہیں تھا۔بلکہ مزے سے جی ڈی پی،جی ڈی پی کھلیتے رہے، اس لیے کہ سب کی بنیادیں اور جڑیں ''ایک''ہی ہوتی ہیں۔ ایک ہی طریقے سے آتے ہیں، ایک ہی جیسا کام کرتے ہیں اور ایک ہی رہتے ہیں۔
جس ملک میں پولیس کا سپاہی اور کسی دفتر کا کلاس فور ملازم بھی کرپشن کے بغیر نہیں آسکتا، اس ملک میں آپ کرپشن سے خالی جگہ کہاں ڈھونڈیں گے؟ بے ایمانی کے درخت سے ایمانداری کا پھل کس نے توڑا ہے؟ چور چورہی رہے گا چاہے آپ اسے قاضی ہی کیوں نہ کہیں۔ پشتو کی ایک کہاوت ہے۔
گدلا پانی اور اندھی مچھلیاں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ہمارے ہاں بھی بن چکی ہے ،اس کی ابتدا بہت پہلے جسٹس منیر کے ایک فیصلے سے ہوئی تھی اور اسے ایک خوبصورت نام بھی دیا گیا تھا ''نظریہ ضرورت'' موم کی ناک کی طرح اسے کسی بھی طرف موڑا جاسکتا ہے۔کافی عرصہ ہوا، شہر کا ایک ڈاکٹر اپنی فیملی کے ساتھ کسی پہاڑی تفریحی مقام پر چلا گیا۔پیچھے اس کے چوکیدار نے گھر کا صفایا کر دیا۔ جتنا قیمتی سامان ہاتھ لگا، باقاعدہ گاڑی بھر کر لے آیا۔
کچھ سامان تو اس نے رشتہ داروں میں بانٹا اور باقی گھر میں یہاں وہاں چھپا دیا۔ڈاکٹر واپس آیا تو اس نے رپورٹ درج کرائی۔شہری تھانے کی پولیس نے ایکشن لیا اور اس چوکیدار کے گھر چھاپہ مار کر اکثر سامان برآمد کرلیا۔ ٹی وی، فریج، گھڑیاں، زیورات اور ایک باقاعدہ لائسنس دار پستول بھی۔ مقدمہ چلا اور ملزم صاف بری ہوگیا۔
صرف پستول والے جرم میں اسے ایک سال کی سزا دی جاسکی تھی جو مقدمے کے اختتام اور حیرت انگیز فیصلے تک پوری ہوچکی تھی۔ بریت کی وجہ یہ ہوئی کہ شہری تھانے کی پولیس نے ملزم کے دیہاتی پولیس تھانے سے اجازت لیے بغیر چھاپہ مارا تھا۔باقی سب کچھ اس ''ٹیکنیکل وجہ''سے اڑگیا۔ سامان کی برآمدی، ملزم کے اعتراف اور جس گاڑی میں سامان لایا گیا تھا، اس کے ڈرائیور کی گواہی، سب ختم ہوگیا، اسے کہتے ہیں،گدلا پانی ، اندھی مچھلیاں۔