سراج الحق اور جہانگیر ترین کے استعفے
ارکان یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اب انھوں نے جب خود ہی استعفیٰ دیدیا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں
انتخابی نتائج کے بعد ملک کی دو سیاسی جماعتوں کے سربراہان جہانگیر ترین اور سراج الحق نے اپنی اپنی جماعتو ں کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
جہانگیر ترین نے استحکام پاکستان پارٹی اور سراج الحق نے جماعت اسلامی کی سربراہی سے استعفیٰ دیا ہے۔ اس سے پہلے اے این پی کے صوبائی سربراہ امیر حیدر ہوتی نے بھی عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد کیا سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے مستعفی ہونے کا رحجان جمہوری ہے کہ نہیں۔ جہاں تک جہانگیر ترین کے استعفیٰ کا تعلق ہے، مجھے لگتا ہے کہ ان کا استعفیٰ قبول ہو گیا ہے، اسی لیے آئی پی پی کے صدر علیم خان نے ان کے استعفیٰ کو ایک طرح سے قبول کرنے اور ان کے فیصلے کا احترام کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
جہانگیر ترین نے تو سیاست چھوڑنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ تاہم سراج الحق نے سیاست چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ جہانگیر ترین کا سیاسی کیرئیر عجیب نشیب و فراز کا شکار رہا ہے۔ ان کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
2018کے انتخابات سے قبل جب میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نا اہل کیا گیا تھا تو تحریک انصاف سے جہانگیر ترین کو بھی تاحیات نا اہل کر دیا گیا تھا۔ حقیقتاً اس تاحیات نا اہلی کے بعد ہی جہانگیر ترین کا سیاسی کیرئیر ختم ہو گیا تھا۔ عمران خان کے اقتدار کے پہلے سال وہ کچھ متحرک تھے لیکن عمران خان سے ناراضی اور مقدمات کے اندراج کے بعد انھوں نے مکمل خاموشی اختیار کر لی تھی۔
ایک طرح سے انھوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ جب عمران خان نے ان پر اور ان کے خاندان پر مقدمات قائم کیے تھے تو انھوں نے تب ہی عمران خان کو چیلنج کر دیا تھا یا اسی وقت عمران خان کے مقابلے پر اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔ بلکہ وہ چپ کر کے گھر بیٹھ گئے تھے۔
انھوں نے عمران خان کی طاقت کو اس وقت چیلنج نہ کر نے کا ہی فیصلہ کیا بلکہ بیک چینل سے عمران خان سے سیز فائر کیا۔ انھوں نے لڑنے کے بجائے صلح کا راستہ اپنایا اور اسی بیک چینل سے ہم نے سیز فائر دیکھا بھی۔نتیجتاً مقدمات کا شور یک دم ختم ہو گیا اور ایک خاموشی ہو گئی۔
اس کے بعد جہانگیر ترین لمبا عرصہ خاموش رہے۔ لیکن عمران خان کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد وہ متحرک ہوئے ، نو مئی کے بعد جب عمران خان کی جماعت کے بڑے بڑے ناموں نے تحریک انصاف کو چھوڑنے کا اعلان کیا تو اس وقت جہانگیر ترین نے ایک سیاسی جماعت بنائی اور عمران خان کو چھوڑنے والے پنجاب میں بڑے نام اس میں شامل ہو گئے۔
لیکن کے پی سے پرویز خٹک نے جہانگیر ترین کی اس جماعت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا، بلکہ انھوں نے کے پی میں الگ جماعت بنا لی۔ میں سمجھتا ہوں یہ جہانگیر ترین کی سیاست اور ساکھ کے لیے پہلا جھٹکا تھا۔
اگر پرویز خٹک آئی پی پی میں شامل ہو جاتے تو اس سیاسی جماعت کی ایک وفاقی شکل بن جاتی۔ لیکن لڑتے لڑتے ہو گئی گم، ایک کی چونچ، ایک کی دم کے مصداق جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی تقسیم نے دونوں کو تباہ کر دیا۔ اگر وہ اکٹھے ہوتے تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آسکتے تھے۔دونوں نے باقاعدہ الیکشن مہم بھی نہیں چلائی۔
ووٹرز کو اپنے وجود کی دلیل بھی نہیں دی اور انھیں قائل نہیں کر سکے۔ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے اور کچھ انھیں مرنے کا شوق بھی نظر آیا۔ البتہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو جہانگیر ترین اور ان کے دوست کا میاب بھی رہے ہیں۔
عمران خان کی جماعت پنجاب میں الیکشن ہار گئی ہے، اس میں آئی پی پی کا ایک کردار ہے۔ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جہاںتک سراج الحق کے استعفیٰ کا تعلق ہے تو جماعت اسلامی میں یہ کلچر پہلے سے موجود ہے۔
اس سے پہلے پاکستان اسلامک فرنٹ کی شکست کے بعد قاضی حسین احمد نے بھی جماعت اسلامی کی امارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ لیکن وہ دوبارہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو گے تھے۔ وہاں ایک مکمل جمہوری نظام ہے۔ امیر جماعت سیکرٹ بیلٹ سے منتخب ہوتا ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی کے ملک بھر میں 45ہزار ارکان ہیں۔ جو امیر جماعت کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس لیے جماعت اسلامی میں یہ کوئی بحران نہیں ہے۔ وہاں یہ ممکن ہے ارکان دوبارہ سراج الحق کو ہی منتخب کر لیں۔ لیکن آئی پی پی میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔
جماعت اسلامی میں ویسے بھی امیر کا انتخاب شروع ہو چکا ہے۔ سراج الحق کی مدت مارچ میں ختم ہو رہی ہے۔ نئے بیلٹ پیپر چھپ چکے ہیں، ان کی ترسیل کا عمل بھی چند دن میں شروع ہونے و الا ہے۔ اس لیے ایسا نہیں تھا کہ سراج الحق کی کوئی بڑی مدت پڑی تھی تو انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن پھر بھی یہ استعفیٰ ایک دلیرانہ فیصلہ ہے۔
ویسے تو جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے نئے امیر کے انتخاب کے لیے سراج الحق، حافظ نعیم الرحمٰن اور لیاقت بلوچ کے نام تجویز کیے ہیں۔ سراج الحق کو علم ہے کہ جماعت کے ارکا ن چند دن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والے ہیں۔
اس لیے ان کے استعفے کا ارکان کیا اثر لیں گے ، یہ ایک الگ سوال ہے۔ قاضی حسین احمد کے استعفیٰ کے بعد ارکان نے بڑی اکثریت کے ساتھ انھیں دوبارہ منتخب کر لیاتھا۔ کیا سراج الحق کے استعفیٰ کے بعد ارکان انھیں پھر بھاری اکثریت سے منتخب کر لیں گے؟ کیا حافظ نعیم الرحمٰن ارکان کی نئی چوائس بن سکتے ہیں؟ لیکن اگر سراج الحق جماعت اسلامی کو الیکشن میں اندازوں کے مطابق کامیابی نہیں دلا سکے تو حافظ نعیم الرحمٰن بھی ناکام رہے ہیں۔
دونوں ہی ہار گئے ہیں،ا س لیے شاید ہار جیت کا کوئی مواز نہ نہیں۔ لیاقت بلوچ بھی ہار گئے ہیں۔ اس لیے یہ استعفیٰ کیا سراج الحق کو دوبارہ امیر منتخب کرانے میں مدد گار ہوگا یا نقصان دہ ہوگا۔
ارکان یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اب انھوں نے جب خود ہی استعفیٰ دیدیا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اس لیے اب دیکھنے کی بات ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان کیا فیصلہ کر ستے ہیں؟ سراج الحق کے استعفیٰ کی توثیق کے لیے جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
وہاں نیا عبوی امیر آجائے گا۔پھر امیر کا انتخاب جاری رہے گا۔ ایک جمہوری جماعت کی یہ بہترین شکل ہے۔ لیکن ہمارے ووٹرز کے لیے جماعت اسلامی کا جمہوری کلچر ووٹ دینے کے لیے کافی نہیں، یہاں جمہوریت کے نام پر آمریت والی جماعتیں ووٹ لے لیتی ہیں۔
جہانگیر ترین نے استحکام پاکستان پارٹی اور سراج الحق نے جماعت اسلامی کی سربراہی سے استعفیٰ دیا ہے۔ اس سے پہلے اے این پی کے صوبائی سربراہ امیر حیدر ہوتی نے بھی عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد کیا سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے مستعفی ہونے کا رحجان جمہوری ہے کہ نہیں۔ جہاں تک جہانگیر ترین کے استعفیٰ کا تعلق ہے، مجھے لگتا ہے کہ ان کا استعفیٰ قبول ہو گیا ہے، اسی لیے آئی پی پی کے صدر علیم خان نے ان کے استعفیٰ کو ایک طرح سے قبول کرنے اور ان کے فیصلے کا احترام کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
جہانگیر ترین نے تو سیاست چھوڑنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ تاہم سراج الحق نے سیاست چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ جہانگیر ترین کا سیاسی کیرئیر عجیب نشیب و فراز کا شکار رہا ہے۔ ان کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
2018کے انتخابات سے قبل جب میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نا اہل کیا گیا تھا تو تحریک انصاف سے جہانگیر ترین کو بھی تاحیات نا اہل کر دیا گیا تھا۔ حقیقتاً اس تاحیات نا اہلی کے بعد ہی جہانگیر ترین کا سیاسی کیرئیر ختم ہو گیا تھا۔ عمران خان کے اقتدار کے پہلے سال وہ کچھ متحرک تھے لیکن عمران خان سے ناراضی اور مقدمات کے اندراج کے بعد انھوں نے مکمل خاموشی اختیار کر لی تھی۔
ایک طرح سے انھوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ جب عمران خان نے ان پر اور ان کے خاندان پر مقدمات قائم کیے تھے تو انھوں نے تب ہی عمران خان کو چیلنج کر دیا تھا یا اسی وقت عمران خان کے مقابلے پر اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔ بلکہ وہ چپ کر کے گھر بیٹھ گئے تھے۔
انھوں نے عمران خان کی طاقت کو اس وقت چیلنج نہ کر نے کا ہی فیصلہ کیا بلکہ بیک چینل سے عمران خان سے سیز فائر کیا۔ انھوں نے لڑنے کے بجائے صلح کا راستہ اپنایا اور اسی بیک چینل سے ہم نے سیز فائر دیکھا بھی۔نتیجتاً مقدمات کا شور یک دم ختم ہو گیا اور ایک خاموشی ہو گئی۔
اس کے بعد جہانگیر ترین لمبا عرصہ خاموش رہے۔ لیکن عمران خان کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد وہ متحرک ہوئے ، نو مئی کے بعد جب عمران خان کی جماعت کے بڑے بڑے ناموں نے تحریک انصاف کو چھوڑنے کا اعلان کیا تو اس وقت جہانگیر ترین نے ایک سیاسی جماعت بنائی اور عمران خان کو چھوڑنے والے پنجاب میں بڑے نام اس میں شامل ہو گئے۔
لیکن کے پی سے پرویز خٹک نے جہانگیر ترین کی اس جماعت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا، بلکہ انھوں نے کے پی میں الگ جماعت بنا لی۔ میں سمجھتا ہوں یہ جہانگیر ترین کی سیاست اور ساکھ کے لیے پہلا جھٹکا تھا۔
اگر پرویز خٹک آئی پی پی میں شامل ہو جاتے تو اس سیاسی جماعت کی ایک وفاقی شکل بن جاتی۔ لیکن لڑتے لڑتے ہو گئی گم، ایک کی چونچ، ایک کی دم کے مصداق جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی تقسیم نے دونوں کو تباہ کر دیا۔ اگر وہ اکٹھے ہوتے تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آسکتے تھے۔دونوں نے باقاعدہ الیکشن مہم بھی نہیں چلائی۔
ووٹرز کو اپنے وجود کی دلیل بھی نہیں دی اور انھیں قائل نہیں کر سکے۔ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے اور کچھ انھیں مرنے کا شوق بھی نظر آیا۔ البتہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو جہانگیر ترین اور ان کے دوست کا میاب بھی رہے ہیں۔
عمران خان کی جماعت پنجاب میں الیکشن ہار گئی ہے، اس میں آئی پی پی کا ایک کردار ہے۔ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جہاںتک سراج الحق کے استعفیٰ کا تعلق ہے تو جماعت اسلامی میں یہ کلچر پہلے سے موجود ہے۔
اس سے پہلے پاکستان اسلامک فرنٹ کی شکست کے بعد قاضی حسین احمد نے بھی جماعت اسلامی کی امارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ لیکن وہ دوبارہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو گے تھے۔ وہاں ایک مکمل جمہوری نظام ہے۔ امیر جماعت سیکرٹ بیلٹ سے منتخب ہوتا ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی کے ملک بھر میں 45ہزار ارکان ہیں۔ جو امیر جماعت کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس لیے جماعت اسلامی میں یہ کوئی بحران نہیں ہے۔ وہاں یہ ممکن ہے ارکان دوبارہ سراج الحق کو ہی منتخب کر لیں۔ لیکن آئی پی پی میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔
جماعت اسلامی میں ویسے بھی امیر کا انتخاب شروع ہو چکا ہے۔ سراج الحق کی مدت مارچ میں ختم ہو رہی ہے۔ نئے بیلٹ پیپر چھپ چکے ہیں، ان کی ترسیل کا عمل بھی چند دن میں شروع ہونے و الا ہے۔ اس لیے ایسا نہیں تھا کہ سراج الحق کی کوئی بڑی مدت پڑی تھی تو انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن پھر بھی یہ استعفیٰ ایک دلیرانہ فیصلہ ہے۔
ویسے تو جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے نئے امیر کے انتخاب کے لیے سراج الحق، حافظ نعیم الرحمٰن اور لیاقت بلوچ کے نام تجویز کیے ہیں۔ سراج الحق کو علم ہے کہ جماعت کے ارکا ن چند دن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والے ہیں۔
اس لیے ان کے استعفے کا ارکان کیا اثر لیں گے ، یہ ایک الگ سوال ہے۔ قاضی حسین احمد کے استعفیٰ کے بعد ارکان نے بڑی اکثریت کے ساتھ انھیں دوبارہ منتخب کر لیاتھا۔ کیا سراج الحق کے استعفیٰ کے بعد ارکان انھیں پھر بھاری اکثریت سے منتخب کر لیں گے؟ کیا حافظ نعیم الرحمٰن ارکان کی نئی چوائس بن سکتے ہیں؟ لیکن اگر سراج الحق جماعت اسلامی کو الیکشن میں اندازوں کے مطابق کامیابی نہیں دلا سکے تو حافظ نعیم الرحمٰن بھی ناکام رہے ہیں۔
دونوں ہی ہار گئے ہیں،ا س لیے شاید ہار جیت کا کوئی مواز نہ نہیں۔ لیاقت بلوچ بھی ہار گئے ہیں۔ اس لیے یہ استعفیٰ کیا سراج الحق کو دوبارہ امیر منتخب کرانے میں مدد گار ہوگا یا نقصان دہ ہوگا۔
ارکان یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اب انھوں نے جب خود ہی استعفیٰ دیدیا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اس لیے اب دیکھنے کی بات ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان کیا فیصلہ کر ستے ہیں؟ سراج الحق کے استعفیٰ کی توثیق کے لیے جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔
وہاں نیا عبوی امیر آجائے گا۔پھر امیر کا انتخاب جاری رہے گا۔ ایک جمہوری جماعت کی یہ بہترین شکل ہے۔ لیکن ہمارے ووٹرز کے لیے جماعت اسلامی کا جمہوری کلچر ووٹ دینے کے لیے کافی نہیں، یہاں جمہوریت کے نام پر آمریت والی جماعتیں ووٹ لے لیتی ہیں۔