اتحادی جماعتوں کا اقتدار میں آنے کے بعد عوام کیلیے ریلیف پیکج کا اعلان
معاشی ماہرین کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے پیکج کی تیاری ممکنہ وفاقی حکومت کا اولین ایجنڈا ہوگا، ذرائع
نئی مخلوط وفاقی حکومت میں جماعتوں کی قیادت نے طے کیا ہے کہ برسراقتدار میں آنے کے بعد فوری طور پر عوام کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا جائے گا۔
ممکنہ طور پر پی ڈی ایم ٹو طرز پر بنے والی نئی مخلوط وفاقی حکومت میں جماعتوں کی قیادت نے طے کیا ہے کہ برسراقتدار میں آنے کے بعد فوری طور پر عوام کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا جائے گا۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے پیکج کی تیاری ممکنہ وفاقی حکومت کا اولین ایجنڈا ہوگا۔
اس اتحاد میں شامل باخبر ذرائع نے ایکسپریس ٹریبون نے بتایا کہ اتحادی جماعتوں کی قیادت نے حکومت سازی کا عمل ہونے کے بعد اپنی ترجیحات کا باقاعدہ اعلان کرے گی۔ ممکنہ وفاقی حکومت کی پہلی ترجیح معاشی ایجنڈا کی تیاری ہوگی جس کے لیے متوقع وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ٹاسک دیا جائے گا جو اپنی سفارشات مرتب کرے گی۔
ممکنہ وفاقی حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات کرے گی اور ایک نیا معاشی پیکج حاصل کیا جائے گا۔ بیرونی قرضوں کی واپسی کے لیے ڈیڈ لائن میں توسیع کرائی جائے گی۔ حالات کے مطابق مزید قرضے کے حصول کے لیے چین سعودی عرب اور دیگر ممالک سے بات کی جائے گی۔ دوست ممالک کو مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی جس کے لیے ایک پلان کا اعلان کیا جائے گا۔
ملک میں برنس کمیونٹی کے لیے بھی ریلیف پیکج کا اعلان متوقع ہے۔ ایف بی آر میں اصلاحات لائی جائیں گی، ٹیکس نیٹ ورک کے دائرہ کار کو بڑھایا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خارجہ پالیسی برابری کی سطح کے تعلقات پر رکھی جائے گی۔ افغان پالیسی کو ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاستی اداروں کی مشاورت سے طے کیا جائے گا، حکومت کی کوشش ہوگی کہ امریکا سمیت تمام ممالک سے بہتر تعلقات ہوں۔تجارتی روابط کو بڑھایا جائے گا۔
معاشی امور پرفیصلےاسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کی مشاورت سے ہوں گے۔ ممکنہ وفاقی حکومت کی تشکیل کے بعد متوقع وزیراعظم شہباز شریف تمام قومی ومعاشی امور پر فیصلے عسکری قیادت کی مشاورت سے کریں گے۔
متوقع وفاق حکومت ملک سے دہشت گردی کےخاتمے کے لیے ریاستی پالیسی کو جاری رکھے گی۔ریاست کی عمل داری کو تسلیم کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات موجودہ صورتحال کے مطابق کیے جاسکتے ہیں۔
موجودہ عسکری قیادت کی پالیسی ملک میں جمہوریت کی مضبوطی اور معاشی استحکام ہے جس کے لیے وہ نئی متوقع حکومت کے ساتھ ہوگی۔ سیاسی ماحول کی بہتری کے لیے تمام جماعتوں سے بات کا عمل بڑھایا جائے گا۔امن وامان خراب کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق نمٹاجائے گا۔
ممکنہ طور پر پی ڈی ایم ٹو طرز پر بنے والی نئی مخلوط وفاقی حکومت میں جماعتوں کی قیادت نے طے کیا ہے کہ برسراقتدار میں آنے کے بعد فوری طور پر عوام کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا جائے گا۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے پیکج کی تیاری ممکنہ وفاقی حکومت کا اولین ایجنڈا ہوگا۔
اس اتحاد میں شامل باخبر ذرائع نے ایکسپریس ٹریبون نے بتایا کہ اتحادی جماعتوں کی قیادت نے حکومت سازی کا عمل ہونے کے بعد اپنی ترجیحات کا باقاعدہ اعلان کرے گی۔ ممکنہ وفاقی حکومت کی پہلی ترجیح معاشی ایجنڈا کی تیاری ہوگی جس کے لیے متوقع وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ٹاسک دیا جائے گا جو اپنی سفارشات مرتب کرے گی۔
ممکنہ وفاقی حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات کرے گی اور ایک نیا معاشی پیکج حاصل کیا جائے گا۔ بیرونی قرضوں کی واپسی کے لیے ڈیڈ لائن میں توسیع کرائی جائے گی۔ حالات کے مطابق مزید قرضے کے حصول کے لیے چین سعودی عرب اور دیگر ممالک سے بات کی جائے گی۔ دوست ممالک کو مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی جس کے لیے ایک پلان کا اعلان کیا جائے گا۔
ملک میں برنس کمیونٹی کے لیے بھی ریلیف پیکج کا اعلان متوقع ہے۔ ایف بی آر میں اصلاحات لائی جائیں گی، ٹیکس نیٹ ورک کے دائرہ کار کو بڑھایا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خارجہ پالیسی برابری کی سطح کے تعلقات پر رکھی جائے گی۔ افغان پالیسی کو ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاستی اداروں کی مشاورت سے طے کیا جائے گا، حکومت کی کوشش ہوگی کہ امریکا سمیت تمام ممالک سے بہتر تعلقات ہوں۔تجارتی روابط کو بڑھایا جائے گا۔
معاشی امور پرفیصلےاسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کی مشاورت سے ہوں گے۔ ممکنہ وفاقی حکومت کی تشکیل کے بعد متوقع وزیراعظم شہباز شریف تمام قومی ومعاشی امور پر فیصلے عسکری قیادت کی مشاورت سے کریں گے۔
متوقع وفاق حکومت ملک سے دہشت گردی کےخاتمے کے لیے ریاستی پالیسی کو جاری رکھے گی۔ریاست کی عمل داری کو تسلیم کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات موجودہ صورتحال کے مطابق کیے جاسکتے ہیں۔
موجودہ عسکری قیادت کی پالیسی ملک میں جمہوریت کی مضبوطی اور معاشی استحکام ہے جس کے لیے وہ نئی متوقع حکومت کے ساتھ ہوگی۔ سیاسی ماحول کی بہتری کے لیے تمام جماعتوں سے بات کا عمل بڑھایا جائے گا۔امن وامان خراب کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق نمٹاجائے گا۔