بات کچھ اِدھر اُدھر کی پھولوں کی حفاظت
کاش مشرق کا وہ خاندانی سسٹم جو ہمارا خاصہ تھا واپس آجائے تو یہ تمام مسائل ہی ختم ہوجائیں۔
جب خدا نے مجھے بیٹی کی نعمت سے نوازا تو میں نے اس کا نام عیشل تجویز کیا، یعنی جنت کا پھول۔ کیونکہ صاحب اولاد ہونے کے بعد مجھے ایسا ہی محسوس ہورہا تھا جیسے خدا نے میرا دامن پھولوں سے بھردیا ہو۔ اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے اسے لفظوں میں بیان کرنا شاید ممکن نہیں، اور پھر بچے کسے اچھے نہیں لگتے، خوش رنگ غنچوں کی طرح، جن کی قلقاریاں آپ کے دن بھر کی تھکن کو لمحوں میں غائب کردیتی ہیں، جن کی بے ریا مسکراہٹ آپ کی تمام پریشانیوں کو کافور کردیتی ہے۔ صاحب اولاد ہونے کے بعد آپ کو یہ خوشیاں تو ملتی ہی ہیں لیکن ایک اور احساس بھی پیدا ہوتا ہے، ایک احساس ذمے داری، اپنی اولاد کو تحفظ دینے کا احساس۔ اپنی اولاد کی خوشیاں، ان کی حفاظت ہر چیز پر مقدم محسوس ہوتی ہے۔ اپنی اولاد کو پہنچنے والی چھوٹی سی تکلیف آپ کو بے کل کردیتی ہے۔ تو پھر ایسا کس طرح ہوسکتا ہے کہ اس قدر محبت کے باوجود آپ اپنی اولاد کو غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ گزشتہ دنوں میرے فیس بک پیج پر ایک ساتھی نے ایسی ویڈیو شیئر کی جسے دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ ویڈیو میں ایک عورت چند ماہ کے بچے کو بری طرح جھلا رہی تھی، مار رہی تھی، یہاں تک کہ اٹھا کر بیگ پر پٹخ رہی تھی۔
یہ واقعہ بھارت کی ریاست پونے میں پیش آیا، جہاں گیارہ ماہ کے بچے ہمیش کمار عرف ہیپی کو اس کی آیا (care-taker) نے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ یاحیرت! آپ ایک عورت کو اس لیے ملازمہ رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے بچے کا خیال رکھے، اسے غذا دے اور سکون کی نیند سلا دے اور اس کے بدلے آپ اس عورت کو ایک اچھی خاصی رقم ماہانہ معاوضہ کے طور پر دیتے ہیں لیکن جب وہی عورت آپ کے بچے پر تشدد کرتی نظر آئے تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی؟ ایک باپ ہونے کی حیثیت سے اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے تو میرا جواب یہی ہوگا کہ کوئی غیر کیا میں بچے کی حقیقی ماں کو بھی اس پر تشدد کی اجازت نہیں دوں گا۔ بچے فرشتوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں، ان کے نابالغ ذہن ابھی دنیا کو صحیح طرح سے سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہوتے اس پر مستزاد وہ آپ کی ہدایات صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتے۔ ایسے میں اگر وہ کھانے پینے میں ضد کریں، سونے کے بجائے کھیلنے پر مصر رہیں تو جھنجھلا کر ان پر تشدد کرنا یا مارپیٹ کر اپنی بات منوانا بچے کی شخصیت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ نفسیات کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسے واقعات بچے کی نفسیات کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کے ذہن میں وہ کجی پیدا کردیتے ہیں جس سے تمام عمر چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ہیپی کے والدین سنتا اور نوین کمار دونوں نائٹ شفٹ میں کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں ہاؤس میڈ رکھنے کی ضرورت پیش آئی تاکہ وہ ان کی غیر موجودگی میں بچے کا خیال رکھ سکے۔ نوین کمار کا کہنا ہے کہ وہ بچے کی آیا بے بی لکشمن پٹولے کو ساڑھے بارہ ہزار روپے ماہانہ معاوضہ دے رہے تھے جسے پلس سلوشن پلیسمنٹ سروسز نرسنگ بیورو ادارے کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ ملازم فراہم کرنے والے اداروں کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے توسط سے بھیجے جانے والے افراد کی تمام انکوائری کریں، اس کے بیک گرائونڈ اور خاص کر نفسیاتی کیفیت کا بھی تجزیہ کریں جبکہ بات کسی بچے کی پرورش کی ہو۔ خاندانی سسٹم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد بچوں کی پرورش و تربیت کے مسائل حد سے زیادہ سر اٹھانے لگے ہیں۔
پہلے دور میں جبکہ خاندانی سسٹم اپنی صحیح حالت میں رائج تھا اور تمام فیملیز اکٹھی رہا کرتی تھی، بچوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری بڑے اٹھا لیا کرتے تھے۔ ایسے میں کام پر جانے والوں کو اپنے بچوں کی فکر نہیں ستاتی تھی کہ بچے اپنے دادا، دادی یا دیگر رشتوں کے ساتھ مصروف رہتے تھے۔ جیسے جیسے خاندانی سسٹم کو مغرب کی نظر لگتی گئی اور الگ رہنے کا رجحان بڑھا، وہاں معاشی و معاشرتی مسائل بھی سر اٹھانے لگے۔ اب معاش اور روزگار کے سلسلے میں گھر سے باہر رہنے والے والدین کو اپنے بچوں کی دیکھ بھال کی فکر ستانے لگی اور نتیجتاً بے بی ڈے کیئر سینٹر اور ہائوس میڈز کا کاروبار چمک اٹھا۔ یقیناً شہر میں کئی اچھے ڈے کیئر سینٹر ہیں اور بچوں کی پرورش کے لیے مخلص ملازمائیں بھی مل جاتی ہیں لیکن سوال یہی ہے کہ آپ ایک اجنبی پر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کس حد تک بھروسہ کرسکتے ہیں؟
ہیپی کے والدین نے اپنے گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگا رکھے تھے جس کی مانیٹرنگ موبائل پر بھی کی جاسکتی ہے۔ نوین کمار نے پولیس میں رپورٹ کی کہ بچے کی آیا نے کمرے کی لائٹس بند کردی تھیں کہ شاید کیمرہ اس کی حرکت نہیں دیکھ پائے گا لیکن نہ صرف اس کی یہ مذموم کارروائی ریکارڈ ہوگئی بلکہ اب انٹرنیٹ کے ذریعے لاکھوں لوگ بھی دیکھ چکے ہیں۔
گھریلو ملازماوں کی جانب سے بچوں پر تشدد کے مزید واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں جن میں بچوں کو نہ صرف مارا پیٹا گیا بلکہ لائٹر یا اگربتی سے جلایا بھی گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے لیے آیا رکھتے وقت اس سے متعلق اچھی طرح معلومات حاصل کی جائے، بغیر چھان بین کیے ملازم رکھنا کئی حوالوں سے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ ملازمین کے ساتھ گھر میں کوئی نہ کوئی سگا رشتہ موجود ہو۔ لیکن ایک حسرت جو دل میں جاگزیں ہے کہ کاش مشرق کا وہ خاندانی سسٹم جو ہمارا خاصہ تھا واپس آجائے تو یہ تمام مسائل ہی ختم ہوجائیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ واقعہ بھارت کی ریاست پونے میں پیش آیا، جہاں گیارہ ماہ کے بچے ہمیش کمار عرف ہیپی کو اس کی آیا (care-taker) نے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ یاحیرت! آپ ایک عورت کو اس لیے ملازمہ رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے بچے کا خیال رکھے، اسے غذا دے اور سکون کی نیند سلا دے اور اس کے بدلے آپ اس عورت کو ایک اچھی خاصی رقم ماہانہ معاوضہ کے طور پر دیتے ہیں لیکن جب وہی عورت آپ کے بچے پر تشدد کرتی نظر آئے تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی؟ ایک باپ ہونے کی حیثیت سے اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے تو میرا جواب یہی ہوگا کہ کوئی غیر کیا میں بچے کی حقیقی ماں کو بھی اس پر تشدد کی اجازت نہیں دوں گا۔ بچے فرشتوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں، ان کے نابالغ ذہن ابھی دنیا کو صحیح طرح سے سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہوتے اس پر مستزاد وہ آپ کی ہدایات صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتے۔ ایسے میں اگر وہ کھانے پینے میں ضد کریں، سونے کے بجائے کھیلنے پر مصر رہیں تو جھنجھلا کر ان پر تشدد کرنا یا مارپیٹ کر اپنی بات منوانا بچے کی شخصیت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ نفسیات کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسے واقعات بچے کی نفسیات کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کے ذہن میں وہ کجی پیدا کردیتے ہیں جس سے تمام عمر چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ہیپی کے والدین سنتا اور نوین کمار دونوں نائٹ شفٹ میں کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں ہاؤس میڈ رکھنے کی ضرورت پیش آئی تاکہ وہ ان کی غیر موجودگی میں بچے کا خیال رکھ سکے۔ نوین کمار کا کہنا ہے کہ وہ بچے کی آیا بے بی لکشمن پٹولے کو ساڑھے بارہ ہزار روپے ماہانہ معاوضہ دے رہے تھے جسے پلس سلوشن پلیسمنٹ سروسز نرسنگ بیورو ادارے کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ ملازم فراہم کرنے والے اداروں کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے توسط سے بھیجے جانے والے افراد کی تمام انکوائری کریں، اس کے بیک گرائونڈ اور خاص کر نفسیاتی کیفیت کا بھی تجزیہ کریں جبکہ بات کسی بچے کی پرورش کی ہو۔ خاندانی سسٹم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد بچوں کی پرورش و تربیت کے مسائل حد سے زیادہ سر اٹھانے لگے ہیں۔
پہلے دور میں جبکہ خاندانی سسٹم اپنی صحیح حالت میں رائج تھا اور تمام فیملیز اکٹھی رہا کرتی تھی، بچوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری بڑے اٹھا لیا کرتے تھے۔ ایسے میں کام پر جانے والوں کو اپنے بچوں کی فکر نہیں ستاتی تھی کہ بچے اپنے دادا، دادی یا دیگر رشتوں کے ساتھ مصروف رہتے تھے۔ جیسے جیسے خاندانی سسٹم کو مغرب کی نظر لگتی گئی اور الگ رہنے کا رجحان بڑھا، وہاں معاشی و معاشرتی مسائل بھی سر اٹھانے لگے۔ اب معاش اور روزگار کے سلسلے میں گھر سے باہر رہنے والے والدین کو اپنے بچوں کی دیکھ بھال کی فکر ستانے لگی اور نتیجتاً بے بی ڈے کیئر سینٹر اور ہائوس میڈز کا کاروبار چمک اٹھا۔ یقیناً شہر میں کئی اچھے ڈے کیئر سینٹر ہیں اور بچوں کی پرورش کے لیے مخلص ملازمائیں بھی مل جاتی ہیں لیکن سوال یہی ہے کہ آپ ایک اجنبی پر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کس حد تک بھروسہ کرسکتے ہیں؟
ہیپی کے والدین نے اپنے گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگا رکھے تھے جس کی مانیٹرنگ موبائل پر بھی کی جاسکتی ہے۔ نوین کمار نے پولیس میں رپورٹ کی کہ بچے کی آیا نے کمرے کی لائٹس بند کردی تھیں کہ شاید کیمرہ اس کی حرکت نہیں دیکھ پائے گا لیکن نہ صرف اس کی یہ مذموم کارروائی ریکارڈ ہوگئی بلکہ اب انٹرنیٹ کے ذریعے لاکھوں لوگ بھی دیکھ چکے ہیں۔
گھریلو ملازماوں کی جانب سے بچوں پر تشدد کے مزید واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں جن میں بچوں کو نہ صرف مارا پیٹا گیا بلکہ لائٹر یا اگربتی سے جلایا بھی گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے لیے آیا رکھتے وقت اس سے متعلق اچھی طرح معلومات حاصل کی جائے، بغیر چھان بین کیے ملازم رکھنا کئی حوالوں سے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ ملازمین کے ساتھ گھر میں کوئی نہ کوئی سگا رشتہ موجود ہو۔ لیکن ایک حسرت جو دل میں جاگزیں ہے کہ کاش مشرق کا وہ خاندانی سسٹم جو ہمارا خاصہ تھا واپس آجائے تو یہ تمام مسائل ہی ختم ہوجائیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔