زیادہ بیٹھ کر بھلکڑ نہ بنیے
طبی سائنس نے حد سے زیادہ بیٹھنے کے ایسے مضر اثرات دریافت کر لیے جو پہلے پوشیدہ تھے
میری والدہ کی عمر اسّی سال ہے۔ گو وہ ہیپاٹائٹس سی کی مریضہ ہیں اور بڑھاپے کے دیگر عوارض کا شکار بھی مگر ان کی مجموعی صحت مناسب ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے وہ بھلکڑ پن میں مبتلا ہو چکیں۔ خاص طور پہ چند منٹ قبل ہوئی بات یا واقعہ بھول جاتی ہیں۔ ہم اہل خانہ حیران پریشان ہیں کہ وہ اس عجب کیفیت میں کیونکر مبتلا ہو گئیں۔ یہ راز آخر ایک جدید طبی تحقیق نے افشا کر دیا۔
ہوا یہ کہ امریکی یونیورسٹیوں، یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلی فورنیا اور یونیورسٹی آف اریزونا کے محققوں نے اس تحقیق کا جائزہ لیا جو سات برس کے دوران پچاس ہزار مرد و خواتین پر ہوئی ہے۔ یہ سبھی لوگ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔ ان لوگوں کی کلائیوں پہ ایک خصوصی طبی آلہ لگایا گیا تھا جو انھوں نے چھ ماہ تک ہر ہفتے چوبیس گھنٹے لگائے رکھا۔ کوئی بھی تب بھولنے کی کیفیت میں مبتلا نہیں تھا۔
یہ طبی آلہ یہ شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا کہ اُسے پہننے والا بیٹھا ہوا ہے یا حرکت کر رہا ہے۔ سو رہا ہے یا جاگتا ہے۔ یوں آلے نے پہننے والے پہ چوبیس گھنٹے نظر رکھی اور اس کی نقل وحرکت نوٹ کرتا رہا۔ اس کی مدد سے محققوں کو پتا چل گیا کہ کون ٹی وی زیادہ دیکھتا، وڈیو گیمز کھیلتا یا میز پہ بیٹھ کر کام کرتا ہے۔ اور کون زیادہ چلتا پھرتا ہے۔
پچاس ہزار مرد و خواتین چھ ماہ تک ہر ہفتے اس معمول سے گذرے۔ پھر محقق ان سبھی کی جسمانی و ذہنی صحت کی صورت حال ہر چھ ماہ بعد نوٹ کرنے لگے۔ اب چھ سال بعد اس انوکھی تحقیق کے ذریعے انکشاف ہوا ہے کہ جو مرد و خواتین دن کے بیشتر حصّے میں بیٹھے رہتے تھے، یعنی دس گھنٹے سے زیادہ، وہ بھولنے کی بیماری یا ڈیمنشیا (Dementia) کا نشانہ بن گئے۔
میری والدہ بھی پچھلے پانچ چھ سال سے دن کا بیشتر حصّہ بستر پہ گذارتی ہیں۔ یہ عرصہ روزانہ دس گھنٹے سے زیادہ بن جاتا ہے۔ گھٹنوں میں درد کی وجہ سے ان کا چلنا پھرنا بہت کم ہوچکا۔ اب اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ وہ کیوں بتدریج بھلکڑ ہو گئیں۔ ان کی نقل وحرکت بہت کم ہے اور وہ چوبیس گھنٹے میں سے بارہ تیرہ گھنٹے بستر پہ لیٹے یا بیٹھے گذارتی ہیں۔ اسی امر نے انھیں ڈیمنشیا کا نشانہ بنا دیا۔ اب ہم اہل خانہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ دن میں زیادہ سے زیادہ نقل وحرکت کریں تاکہ بھول پن کی بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔
حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ ممتاز اداکار، طلعت حسین بھی ڈیمنشیا بیماری سے نبرد آزما ہیں۔ ان کی عمر تراسی برس ہو چکی۔ وہ عرصہ دراز سے غیر متحرک زندگی گذار رہے ہیں۔ اسی امر نے انھیں بھی بھولنے کی بیماری میں مبتلا کر دیا۔
بھلکڑ پن کے باعث ایک بوڑھے(اور نوجوان معذور کا بھی) اپنے اہل خانہ پہ انحصار مذید بڑھ جاتا ہے۔ اب ہر کسی کو چوبیس گھنٹے اس پہ نظر رکھنا پڑتی ہے کیونکہ انجانے میں وہ کوئی بھی خطرناک کام کر کے خود کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ تمام ضعیف اور معذور اہل پاکستان کو بھولنے کی بیماری سے محفوظ رکھے جو گھر والوں کی پریشانی و سرگرمی بڑھا دیتی ہے۔
بھولنے کے مرض کی مختلف اقسام ہیں۔ یہ تمام امراض دماغ میں دماغی خلیوں یا نیورونوں میں کوئی خرابی جنم لینے سے رونما ہوتے ہیں۔ ہمارا دماغ اسّی سے نوے ارب نیورون رکھتا ہے۔ یہی دماغی خلیے ہماری سوچ و شعور کو پیدا کرتے اور انسان سے تمام کام کراتے ہیں۔ ان کا صحت مند رہنا بہت ضروری ہے تاکہ انسان روزمرہ سرگرمیاں بخوبی انجام دے سکے۔ ان میں خرابی اسے بھلکڑ پن اور نقل و حرکت میں دشواری کا شکار بنا دیتی ہے۔
دماغی خلیوں میں خرابی سے پیدا شدہ مرض طبی اصطلاح میں ''نیوروڈی جینریٹیو مرض'' (Neurodegenerative disease) کہلاتا ہے۔ اور جس طریقے سے دماغی خلیے خراب یا ناکارہ ہوتے ہیں، اسے طب میں ''نیوروڈی جینریشن'' (Neurodegeneration) کہتے ہیں۔ نیوروڈی جینریٹیو مرض کی تین ذیلی اقسام ہیںِ: ڈیمنشیا، ایکسٹرا فائرامیڈل اینڈ موومنٹ ڈس آرڈرز disorders) movement (Extrapyramidal and اور مائٹوکونڈریل مرض (Mitochondrial disease)۔ ان ذیلی اقسام کی مزید چھوٹی قسمیں ہیں۔ مثلاً ڈیمنشیا کی ایک مشہور ذیلی قسم الزائمر مرض (Alzheimer's disease) ہے۔
یہ یاد رہے کہ باتیں اور واقعات بھول جانا ڈیمنشیا کی صرف ایک علامت ہے۔ اگر اس بیماری کا پھیلاؤ جاری رہے تو انسان میں بے چینی اور گھبراہٹ بھی جنم لیتی ہے۔ وہ صحیح طریقے سے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا۔ بعض مرد و خواتین ڈیمنشیا کا نشانہ بن کر جارح مزاج بن جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ غصّہ کرتے ہیں۔ عام طور پہ اس بیماری کے مریض ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس میں بھی مبتلا ہوتے ہیں۔
پچاس ہزار مرد وخواتین پہ سات برس تک طویل تحقیق کرنے والے طبی ماہرین نے اپنے تجربے سے یہ بھی جانا کہ جو انسان جتنا زیادہ وقت بیٹھ یا لیٹ کر گذارے، وہ اتنی ہی زیادہ تیزی اور شدت کے ساتھ ڈیمنشیا کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ گویا جو انسان کسی بھی وجہ سے پندرہ گھنٹے بیٹھا یا لیٹا رہے تو یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ بھلکڑ پن کا نشانہ بن جائے گا۔ خاص طور پہ اس وقت جب وہ بوڑھا اور ناتواں بھی ہو۔
طبی ماہرین نے اپنی تحقیق سے یہ بھی جانا کہ چوبیس گھنٹے میں بیٹھنے و لیٹنے کا کُل وقت سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ معنی یہ کہ ڈاکٹر اکثر کہتے ہیں کہ اگر آدھ ایک گھنٹے بعد اٹھ کر چند منٹ چہل قدمی کر لی جائے تو زیادہ بیٹھنے سے جنم لینے والے نقصان خاصی حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ لیکن درج بالا تحقیق کی رو سے یہ عمل اس وقت بے معنی ہو جاتا ہے جب انسان چوبیس گھنٹے میں سے گیارہ بارہ گھنٹے بیٹھ یا لیٹ کر گذارنے لگے۔ تب وہ جلد یا بدیر ڈیمنشیا کا نشانہ بن کر رہتا ہے۔
ماہرین ابھی تک سو فیصد حد تک نہیں جان سکے کہ زیادہ بیٹھنے یا لیٹنے سے انسان کیونکر بھلکڑ پن میں مبتلا ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرزعمل سے وزن بڑھ جاتا ہے۔ جسم میں سوزش پیدا ہوتی ہے۔ دماغ میں خون کم پہنچتا ہے۔ بلڈ پریشر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان تمام خرابیوں کے سبب دماغی خلیوں میں بھی خلل جنم لیتے ہیں اورانسان میں ڈیمنشیا کا آغاز ہو جاتا ہے۔ زیادہ بیٹھنے والوں کو ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے طرز زندگی کے باعث کینسر، کمر درد اور دیگر عوارض میں بھی مبتلا ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا خاص طور پہ پچاس سال سے بڑی عمر کے مرد وخواتین کو کوشش کرنا چاہیے کہ وہ دن بھر میں دس گھنٹے سے کم وقت بیٹھیں اور ورزش ضرور کریں تاکہ ڈیمنشیا اور دیگر موذی بیماریوں سے بچ سکیں۔ غیر قدرتی طرز زندگی آپ کو دنیا کی اہم ترین اور قیمتی ترین دولت ... عمدہ صحت سے محروم کر سکتا ہے۔
ہوا یہ کہ امریکی یونیورسٹیوں، یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلی فورنیا اور یونیورسٹی آف اریزونا کے محققوں نے اس تحقیق کا جائزہ لیا جو سات برس کے دوران پچاس ہزار مرد و خواتین پر ہوئی ہے۔ یہ سبھی لوگ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔ ان لوگوں کی کلائیوں پہ ایک خصوصی طبی آلہ لگایا گیا تھا جو انھوں نے چھ ماہ تک ہر ہفتے چوبیس گھنٹے لگائے رکھا۔ کوئی بھی تب بھولنے کی کیفیت میں مبتلا نہیں تھا۔
یہ طبی آلہ یہ شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا کہ اُسے پہننے والا بیٹھا ہوا ہے یا حرکت کر رہا ہے۔ سو رہا ہے یا جاگتا ہے۔ یوں آلے نے پہننے والے پہ چوبیس گھنٹے نظر رکھی اور اس کی نقل وحرکت نوٹ کرتا رہا۔ اس کی مدد سے محققوں کو پتا چل گیا کہ کون ٹی وی زیادہ دیکھتا، وڈیو گیمز کھیلتا یا میز پہ بیٹھ کر کام کرتا ہے۔ اور کون زیادہ چلتا پھرتا ہے۔
پچاس ہزار مرد و خواتین چھ ماہ تک ہر ہفتے اس معمول سے گذرے۔ پھر محقق ان سبھی کی جسمانی و ذہنی صحت کی صورت حال ہر چھ ماہ بعد نوٹ کرنے لگے۔ اب چھ سال بعد اس انوکھی تحقیق کے ذریعے انکشاف ہوا ہے کہ جو مرد و خواتین دن کے بیشتر حصّے میں بیٹھے رہتے تھے، یعنی دس گھنٹے سے زیادہ، وہ بھولنے کی بیماری یا ڈیمنشیا (Dementia) کا نشانہ بن گئے۔
میری والدہ بھی پچھلے پانچ چھ سال سے دن کا بیشتر حصّہ بستر پہ گذارتی ہیں۔ یہ عرصہ روزانہ دس گھنٹے سے زیادہ بن جاتا ہے۔ گھٹنوں میں درد کی وجہ سے ان کا چلنا پھرنا بہت کم ہوچکا۔ اب اس تحقیق سے پتا چلا ہے کہ وہ کیوں بتدریج بھلکڑ ہو گئیں۔ ان کی نقل وحرکت بہت کم ہے اور وہ چوبیس گھنٹے میں سے بارہ تیرہ گھنٹے بستر پہ لیٹے یا بیٹھے گذارتی ہیں۔ اسی امر نے انھیں ڈیمنشیا کا نشانہ بنا دیا۔ اب ہم اہل خانہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ دن میں زیادہ سے زیادہ نقل وحرکت کریں تاکہ بھول پن کی بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔
حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ ممتاز اداکار، طلعت حسین بھی ڈیمنشیا بیماری سے نبرد آزما ہیں۔ ان کی عمر تراسی برس ہو چکی۔ وہ عرصہ دراز سے غیر متحرک زندگی گذار رہے ہیں۔ اسی امر نے انھیں بھی بھولنے کی بیماری میں مبتلا کر دیا۔
بھلکڑ پن کے باعث ایک بوڑھے(اور نوجوان معذور کا بھی) اپنے اہل خانہ پہ انحصار مذید بڑھ جاتا ہے۔ اب ہر کسی کو چوبیس گھنٹے اس پہ نظر رکھنا پڑتی ہے کیونکہ انجانے میں وہ کوئی بھی خطرناک کام کر کے خود کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ تمام ضعیف اور معذور اہل پاکستان کو بھولنے کی بیماری سے محفوظ رکھے جو گھر والوں کی پریشانی و سرگرمی بڑھا دیتی ہے۔
بھولنے کے مرض کی مختلف اقسام ہیں۔ یہ تمام امراض دماغ میں دماغی خلیوں یا نیورونوں میں کوئی خرابی جنم لینے سے رونما ہوتے ہیں۔ ہمارا دماغ اسّی سے نوے ارب نیورون رکھتا ہے۔ یہی دماغی خلیے ہماری سوچ و شعور کو پیدا کرتے اور انسان سے تمام کام کراتے ہیں۔ ان کا صحت مند رہنا بہت ضروری ہے تاکہ انسان روزمرہ سرگرمیاں بخوبی انجام دے سکے۔ ان میں خرابی اسے بھلکڑ پن اور نقل و حرکت میں دشواری کا شکار بنا دیتی ہے۔
دماغی خلیوں میں خرابی سے پیدا شدہ مرض طبی اصطلاح میں ''نیوروڈی جینریٹیو مرض'' (Neurodegenerative disease) کہلاتا ہے۔ اور جس طریقے سے دماغی خلیے خراب یا ناکارہ ہوتے ہیں، اسے طب میں ''نیوروڈی جینریشن'' (Neurodegeneration) کہتے ہیں۔ نیوروڈی جینریٹیو مرض کی تین ذیلی اقسام ہیںِ: ڈیمنشیا، ایکسٹرا فائرامیڈل اینڈ موومنٹ ڈس آرڈرز disorders) movement (Extrapyramidal and اور مائٹوکونڈریل مرض (Mitochondrial disease)۔ ان ذیلی اقسام کی مزید چھوٹی قسمیں ہیں۔ مثلاً ڈیمنشیا کی ایک مشہور ذیلی قسم الزائمر مرض (Alzheimer's disease) ہے۔
یہ یاد رہے کہ باتیں اور واقعات بھول جانا ڈیمنشیا کی صرف ایک علامت ہے۔ اگر اس بیماری کا پھیلاؤ جاری رہے تو انسان میں بے چینی اور گھبراہٹ بھی جنم لیتی ہے۔ وہ صحیح طریقے سے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا۔ بعض مرد و خواتین ڈیمنشیا کا نشانہ بن کر جارح مزاج بن جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ غصّہ کرتے ہیں۔ عام طور پہ اس بیماری کے مریض ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس میں بھی مبتلا ہوتے ہیں۔
پچاس ہزار مرد وخواتین پہ سات برس تک طویل تحقیق کرنے والے طبی ماہرین نے اپنے تجربے سے یہ بھی جانا کہ جو انسان جتنا زیادہ وقت بیٹھ یا لیٹ کر گذارے، وہ اتنی ہی زیادہ تیزی اور شدت کے ساتھ ڈیمنشیا کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ گویا جو انسان کسی بھی وجہ سے پندرہ گھنٹے بیٹھا یا لیٹا رہے تو یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ بھلکڑ پن کا نشانہ بن جائے گا۔ خاص طور پہ اس وقت جب وہ بوڑھا اور ناتواں بھی ہو۔
طبی ماہرین نے اپنی تحقیق سے یہ بھی جانا کہ چوبیس گھنٹے میں بیٹھنے و لیٹنے کا کُل وقت سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ معنی یہ کہ ڈاکٹر اکثر کہتے ہیں کہ اگر آدھ ایک گھنٹے بعد اٹھ کر چند منٹ چہل قدمی کر لی جائے تو زیادہ بیٹھنے سے جنم لینے والے نقصان خاصی حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ لیکن درج بالا تحقیق کی رو سے یہ عمل اس وقت بے معنی ہو جاتا ہے جب انسان چوبیس گھنٹے میں سے گیارہ بارہ گھنٹے بیٹھ یا لیٹ کر گذارنے لگے۔ تب وہ جلد یا بدیر ڈیمنشیا کا نشانہ بن کر رہتا ہے۔
ماہرین ابھی تک سو فیصد حد تک نہیں جان سکے کہ زیادہ بیٹھنے یا لیٹنے سے انسان کیونکر بھلکڑ پن میں مبتلا ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرزعمل سے وزن بڑھ جاتا ہے۔ جسم میں سوزش پیدا ہوتی ہے۔ دماغ میں خون کم پہنچتا ہے۔ بلڈ پریشر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان تمام خرابیوں کے سبب دماغی خلیوں میں بھی خلل جنم لیتے ہیں اورانسان میں ڈیمنشیا کا آغاز ہو جاتا ہے۔ زیادہ بیٹھنے والوں کو ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے طرز زندگی کے باعث کینسر، کمر درد اور دیگر عوارض میں بھی مبتلا ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا خاص طور پہ پچاس سال سے بڑی عمر کے مرد وخواتین کو کوشش کرنا چاہیے کہ وہ دن بھر میں دس گھنٹے سے کم وقت بیٹھیں اور ورزش ضرور کریں تاکہ ڈیمنشیا اور دیگر موذی بیماریوں سے بچ سکیں۔ غیر قدرتی طرز زندگی آپ کو دنیا کی اہم ترین اور قیمتی ترین دولت ... عمدہ صحت سے محروم کر سکتا ہے۔