عالم کی پذیرائی
ڈاکٹر شکیل اوج کی کتاب ’’نسائیت، چند فکری و نظری مباحث‘‘ گزشتہ سال شایع ہوئی ہے۔ ...
محمد شکیل اوج دنیائے اسلام کے پہلے استاد ہیں جنھیں اسلامیات میں دنیا کی سب سے بڑی سند ڈی لیٹ تفویض کی گئی ہے۔ شکیل اوج کے والدین کا تعلق ہندوستان کی ریاست اتر پردیش (UP) کے شہر کان پور سے تھا، ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہ خاندان لاہور آ گیا۔ یہ لوگ کچھ عرصے بعد حیدرآباد میں قیام کے بعد کراچی میں بننے والی نئی بستی ڈرگ کالونی میں آباد ہوئے۔ 70ء کی دھائی میں ڈرگ کالونی کا نام شاہ فیصل کالونی رکھ دیا گیا۔ شکیل اوج نچلے متوسط طبقے کے اسی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ایگروٹیکنیکل ہائی اسکول شاہ فیصل کالونی سے حاصل کی۔
شکیل اوج نے جدید تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے مذہبی تعلیم کے لیے ممتاز عالم دین اور فلسفے کے استاد ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری کے قائم کردہ مدرسہ المرکز اسلامی کا انتخاب کیا۔ ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری مولانا شاہ احمد نورانی کے بہنوئی تھے اور انھوں نے فلسفے میں پی ایچ ڈی (Ph.D) کی سند حاصل کی ہوئی تھی۔ حفظِ قرآن حافظ صالح محمد سے کیا۔ تجوید و قرأت قاری طالب حسین المدنی سے پڑھا۔ سندِ حدیث و تفسیر علامہ ابو فہیم انوار اﷲ سے حاصل کی۔ دارالعلوم قادریہ سبحانیہ سے سندالفارغ حاصل کی۔ محمد شکیل اوج صرف مذہبی اداروں میں ہی علم کی جستجو نہیں کرتے رہے بلکہ انھوں نے جدید تعلیم بھی حاصل کی۔
شکیل اوج نے علامہ اقبال کالج شاہراہِ فیصل سے بی اے کی سند لی اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے کلیہ معارف اسلامیہ سے ایم اے کیا۔ انھوں نے میٹرک کے بعد زندگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے مختلف ملازمتیں کیں۔ وہ ملٹری اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں کلرک رہے۔ اس دوران انھوں نے صحافت میں ایم اے کیا اور قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ جب انھوں نے اردو کالج کے اسلامیات کے شعبے میں اول پوزیشن حاصل کی تو انھیں اس ادارے میں لیکچرار کی پیشکش ہوئی ۔ وہ تعلیم کے ابتدائی دور میں قرآن مجید حفظ بھی کر چکے تھے۔ ایک دن شکیل اوج کا کراچی یونیورسٹی کے کلیہ معارف اسلامیہ میں لیکچرار کی حیثیت سے تقرر ہو گیا۔
کراچی یونیورسٹی کی کلیہ معارف اسلامیہ فرقہ وارانہ گروہ بندیوں کا شکار تھی۔ کسی فرد کا میرٹ کی بنیاد پر لیکچرار کی حیثیت سے تقرر ایک حیرت انگیز خبر تھی۔ اس وقت معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر عبدالوہاب کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ انھوں نے بحیثیت وائس چانسلر اپنے دور کے پہلے سال میں اساتذہ کی تقرری میں میرٹ پر خاصا زو ر دیا تھا، یوں حافظ شکیل اوج کراچی یونیورسٹی میں لیکچرار بھرتی ہوئے۔ جب شکیل اوج اردو کالج میں لیکچرار تھے تو ان کی ایک کتاب اصول حدیث اور تاریخ حدیث شایع ہو چکی تھی ۔ یہ مذہبی حلقوں کے لیے چونکا دینے والی کتاب تھی۔ کراچی یونیورسٹی میں تحقیق کا میدان خالی تھا۔
انھوں نے اس وقت کے ڈین کلیہ معارف اسلامیہ ڈاکٹر اختر سعید کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے لیے تحقیق شروع کی۔ ایک دن پتہ چلا کہ شکیل اوج نے اپنا تحقیقی کام روک دیا ہے کیونکہ وہ اپنے گائیڈ کی ہدایات سے متفق نہیں ہیں مگر پھر مختلف علمی اور مذہبی اسکالرز سے طویل بحث و مباحثے کے بعد وہ اپنی تحقیق مکمل کرنے پر آمادہ ہوئے۔ یوں اب شکیل اوج پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹر ہو گئے۔ مگر اس تحقیق کے دوران شکیل اوج کے خیالات میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ وہ فرقہ بندی کی حدود کو پامال کرنے لگے۔ طلاق کے بارے میں ان کا مقالہ حیرت انگیز ہے۔ عمومی طور پر اساتذہ پی ایچ ڈی کی سند کے بعد تحقیق پر مزید توجہ نہیں دے پاتے مگر ڈاکٹر صاحب کی توجہ تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق پر رہی۔
ان کے تحقیقی مضامین دنیا بھر کے ریسرچ جرنلز میں شایع ہونے لگے اور ہر سال دو سال بعد کتابیں شایع ہونے لگیں۔ ڈاکٹر شکیل اوج کی اب تک 14 کتابیں، 82 تحقیقی مضامین اور 72 علمی مضامین شایع ہو چکے ہیں۔ ان کے تحقیقی مضامین کو کراچی یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی سند کے لیے منتخب کیا۔ ڈاکٹر آف لٹریچر (DLE) دنیا کی سب سے بڑی سند ہے، اس سند کے لیے متعلقہ یونیورسٹی اس شعبے کے 5 بین الاقوامی ماہرین کو ممتحن مقرر کرتی ہے۔ تمام ممتحن کی مثبت رپورٹ پر ڈی لیٹ کی سند دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج دنیائے اسلا م کے پہلے استاد ہیں جنھیں اسلامیات میں یہ سند دی گئی ہے۔ کراچی یونیورسٹی سے اس سے پہلے ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر اسلم فرخی کو یہ اعزاز حاصل ہو چکا ہے مگر ان دونوں حضرات کو اردو میں ڈی لٹ کی سند ملی تھی۔
ڈاکٹر شکیل اوج کی کتاب ''نسائیت، چند فکری و نظری مباحث'' گزشتہ سال شایع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں خواتین کے اسلام میں حقوق کو ایک نئے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ کم سن بچیوں کی شادی کسی صورت جائز نہیں، اسی طرح لڑکی کو اپنی پسند سے شادی کا حق ہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج کا کہنا ہے کہ عدالت جب عورت کو طلاق کے مقدمے میں خلع کا حق دیتی ہے تو یہ عدالتی فیصلہ درست ہوتا ہے۔ اس کتاب کی تقریبِ رونما ئی کراچی یونیورسٹی میں ہونی تھی مگر رجعت پسندوں کو یہ تحقیق پسند نہیں آئی۔ یوں یہ تقریب شکیل اوج کی مادرِ علمی میں منعقد نہیں ہوئی مگر اس تحقیق نے بہت سے نوجوانوں کے ذہنوں کو جلا بخشی۔
ڈاکٹر شکیل مذہبی انتہا پسندی اور خودکش حملوں کو مسلمانوں کے لیے ایک خطرناک رجحان سمجھتے ہیں۔ وہ طالبان کے موقف کے حامی نہیں۔ وہ کسی بھی انسان کے قتل کو خواہ وہ قتل مذہبی فرقہ وارانہ پالیسی اور بنیاد پرستی پر ہو، قابلِ مذمت سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانوں کا قتل کسی مسئلے کا حل نہیں، انسانوں کے قتل سے مسائل مزید گمبھیر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر شکیل اوج خودکش حملوں کو انتہائی خطرناک رجحان جانتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل اوج کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ کرنے والا ایک خطرناک جرم کا مرتکب ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر شکیل اوج بار بار لکھتے ہیں کہ ہر عالم کو فرقہ واریت سے بلند ہو کر سوچنا چاہیے، جب عالم اپنے فرقے کے دائرے میں محدود ہو جاتا ہے تو اس کا علم بھی محدود ہو جاتا ہے۔ شکیل اوج کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے۔ انھوں نے سخت محنت کر کے دنیا کی سب سے بڑی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کے تمام خیالات سے اتفا ق نہیں کیا جا سکتا مگر اسلامیات میں تحقیق کے نئے زاویے پیش کر کے انھوں نے قابلِ ستائش کارنامہ انجام دیا ہے۔ مجھ جیسے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طالب علم شکیل اوج کی دوستی پر فخر کر سکتے ہیں۔
شکیل اوج نے جدید تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے مذہبی تعلیم کے لیے ممتاز عالم دین اور فلسفے کے استاد ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری کے قائم کردہ مدرسہ المرکز اسلامی کا انتخاب کیا۔ ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری مولانا شاہ احمد نورانی کے بہنوئی تھے اور انھوں نے فلسفے میں پی ایچ ڈی (Ph.D) کی سند حاصل کی ہوئی تھی۔ حفظِ قرآن حافظ صالح محمد سے کیا۔ تجوید و قرأت قاری طالب حسین المدنی سے پڑھا۔ سندِ حدیث و تفسیر علامہ ابو فہیم انوار اﷲ سے حاصل کی۔ دارالعلوم قادریہ سبحانیہ سے سندالفارغ حاصل کی۔ محمد شکیل اوج صرف مذہبی اداروں میں ہی علم کی جستجو نہیں کرتے رہے بلکہ انھوں نے جدید تعلیم بھی حاصل کی۔
شکیل اوج نے علامہ اقبال کالج شاہراہِ فیصل سے بی اے کی سند لی اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے کلیہ معارف اسلامیہ سے ایم اے کیا۔ انھوں نے میٹرک کے بعد زندگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے مختلف ملازمتیں کیں۔ وہ ملٹری اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں کلرک رہے۔ اس دوران انھوں نے صحافت میں ایم اے کیا اور قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ جب انھوں نے اردو کالج کے اسلامیات کے شعبے میں اول پوزیشن حاصل کی تو انھیں اس ادارے میں لیکچرار کی پیشکش ہوئی ۔ وہ تعلیم کے ابتدائی دور میں قرآن مجید حفظ بھی کر چکے تھے۔ ایک دن شکیل اوج کا کراچی یونیورسٹی کے کلیہ معارف اسلامیہ میں لیکچرار کی حیثیت سے تقرر ہو گیا۔
کراچی یونیورسٹی کی کلیہ معارف اسلامیہ فرقہ وارانہ گروہ بندیوں کا شکار تھی۔ کسی فرد کا میرٹ کی بنیاد پر لیکچرار کی حیثیت سے تقرر ایک حیرت انگیز خبر تھی۔ اس وقت معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر عبدالوہاب کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ انھوں نے بحیثیت وائس چانسلر اپنے دور کے پہلے سال میں اساتذہ کی تقرری میں میرٹ پر خاصا زو ر دیا تھا، یوں حافظ شکیل اوج کراچی یونیورسٹی میں لیکچرار بھرتی ہوئے۔ جب شکیل اوج اردو کالج میں لیکچرار تھے تو ان کی ایک کتاب اصول حدیث اور تاریخ حدیث شایع ہو چکی تھی ۔ یہ مذہبی حلقوں کے لیے چونکا دینے والی کتاب تھی۔ کراچی یونیورسٹی میں تحقیق کا میدان خالی تھا۔
انھوں نے اس وقت کے ڈین کلیہ معارف اسلامیہ ڈاکٹر اختر سعید کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے لیے تحقیق شروع کی۔ ایک دن پتہ چلا کہ شکیل اوج نے اپنا تحقیقی کام روک دیا ہے کیونکہ وہ اپنے گائیڈ کی ہدایات سے متفق نہیں ہیں مگر پھر مختلف علمی اور مذہبی اسکالرز سے طویل بحث و مباحثے کے بعد وہ اپنی تحقیق مکمل کرنے پر آمادہ ہوئے۔ یوں اب شکیل اوج پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹر ہو گئے۔ مگر اس تحقیق کے دوران شکیل اوج کے خیالات میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ وہ فرقہ بندی کی حدود کو پامال کرنے لگے۔ طلاق کے بارے میں ان کا مقالہ حیرت انگیز ہے۔ عمومی طور پر اساتذہ پی ایچ ڈی کی سند کے بعد تحقیق پر مزید توجہ نہیں دے پاتے مگر ڈاکٹر صاحب کی توجہ تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق پر رہی۔
ان کے تحقیقی مضامین دنیا بھر کے ریسرچ جرنلز میں شایع ہونے لگے اور ہر سال دو سال بعد کتابیں شایع ہونے لگیں۔ ڈاکٹر شکیل اوج کی اب تک 14 کتابیں، 82 تحقیقی مضامین اور 72 علمی مضامین شایع ہو چکے ہیں۔ ان کے تحقیقی مضامین کو کراچی یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی سند کے لیے منتخب کیا۔ ڈاکٹر آف لٹریچر (DLE) دنیا کی سب سے بڑی سند ہے، اس سند کے لیے متعلقہ یونیورسٹی اس شعبے کے 5 بین الاقوامی ماہرین کو ممتحن مقرر کرتی ہے۔ تمام ممتحن کی مثبت رپورٹ پر ڈی لیٹ کی سند دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج دنیائے اسلا م کے پہلے استاد ہیں جنھیں اسلامیات میں یہ سند دی گئی ہے۔ کراچی یونیورسٹی سے اس سے پہلے ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر اسلم فرخی کو یہ اعزاز حاصل ہو چکا ہے مگر ان دونوں حضرات کو اردو میں ڈی لٹ کی سند ملی تھی۔
ڈاکٹر شکیل اوج کی کتاب ''نسائیت، چند فکری و نظری مباحث'' گزشتہ سال شایع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں خواتین کے اسلام میں حقوق کو ایک نئے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ کم سن بچیوں کی شادی کسی صورت جائز نہیں، اسی طرح لڑکی کو اپنی پسند سے شادی کا حق ہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج کا کہنا ہے کہ عدالت جب عورت کو طلاق کے مقدمے میں خلع کا حق دیتی ہے تو یہ عدالتی فیصلہ درست ہوتا ہے۔ اس کتاب کی تقریبِ رونما ئی کراچی یونیورسٹی میں ہونی تھی مگر رجعت پسندوں کو یہ تحقیق پسند نہیں آئی۔ یوں یہ تقریب شکیل اوج کی مادرِ علمی میں منعقد نہیں ہوئی مگر اس تحقیق نے بہت سے نوجوانوں کے ذہنوں کو جلا بخشی۔
ڈاکٹر شکیل مذہبی انتہا پسندی اور خودکش حملوں کو مسلمانوں کے لیے ایک خطرناک رجحان سمجھتے ہیں۔ وہ طالبان کے موقف کے حامی نہیں۔ وہ کسی بھی انسان کے قتل کو خواہ وہ قتل مذہبی فرقہ وارانہ پالیسی اور بنیاد پرستی پر ہو، قابلِ مذمت سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانوں کا قتل کسی مسئلے کا حل نہیں، انسانوں کے قتل سے مسائل مزید گمبھیر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر شکیل اوج خودکش حملوں کو انتہائی خطرناک رجحان جانتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل اوج کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ کرنے والا ایک خطرناک جرم کا مرتکب ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر شکیل اوج بار بار لکھتے ہیں کہ ہر عالم کو فرقہ واریت سے بلند ہو کر سوچنا چاہیے، جب عالم اپنے فرقے کے دائرے میں محدود ہو جاتا ہے تو اس کا علم بھی محدود ہو جاتا ہے۔ شکیل اوج کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے۔ انھوں نے سخت محنت کر کے دنیا کی سب سے بڑی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کے تمام خیالات سے اتفا ق نہیں کیا جا سکتا مگر اسلامیات میں تحقیق کے نئے زاویے پیش کر کے انھوں نے قابلِ ستائش کارنامہ انجام دیا ہے۔ مجھ جیسے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طالب علم شکیل اوج کی دوستی پر فخر کر سکتے ہیں۔