ہیرو اصلی اور نقلی

تعلیم اور کھیل دونوں جس تنزلی کا شکار ہیں اس کا براہ راست تعلق بڑھتی ہوئی مادہ پرستی اور کتابوں سے دوری سے ہے ...


Syed Talat Hussain June 07, 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

ماجد خان کو میں اُس دن سے ستائش اور تعریف کی نظر سے دیکھ رہا ہوں جب انھوں نے آسٹریلیا کے خوفناک حد تک تیزرفتار بائولر ڈینس للی کو بائونسر پر چھکا لگا یا تھا۔ جب تک جاوید میانداد نے چیتن شرما کو بائونڈری کے اُس پار پھینک کر شارجہ کا یادگار میچ نہیں جتوایا تب تک کرکٹ کے تمام شائقین کو اگر کوئی ایک لمحہ اجتماعی طور پر یاد تھا تو ماجد خان کا شاٹ۔

اس پرانے قصے سے لے کر اب تک ماجد خان ریٹا ئرمنٹ کی خاموشی میں گم ہونے کے باوجود اپنی بہترین تصویر قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی کرکٹ میں مہارت یا شہرت نہیں۔ اس کھیل میں آپ اتنے رنگ بھر چکے ہیں کہ پرانے ہیروز کے اول درجے کے کارنامے بھی عام سے محسوس ہوتے ہیں۔ ماجد خان کی قدر و منزلت کی وجہ اُن کی ذہانت اور وہ طرح داری ہے جوہر کسی میں نہیں ہوتی۔ سادگی اور کھرا پن جب مطالعے اور نئی معلومات کے حصول کی نہ ختم ہونے والی کوشش کے ساتھ مل جائے تو انسان میں ایک خاموش گہرائی پیدا کر دیتا ہے۔

ماجد خان کو خداوند تعالی نے نہ صرف عزت دی بلکہ عزت کو سنبھالنے کا طرز عمل بھی دیا ہے۔ وہ آج بھی اسلام آباد کے کرکٹ گرائونڈ میں اپنی پرانی اسپورٹس کٹ میں تیز تیز 40-45 منٹ چکر لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی سلام کرے تو پر خلو ص جواب دے دیتے ہیں ورنہ اپنی ورزش کر کے گھر واپس چلے جاتے ہیں۔ مشہور ہونے کے بعد کھلا ڑی اور شوبز کے نما یندگان خود کو ہمیشہ اہم ثابت کرنے کے لیے جو پاپڑ بیلتے ہیں وہ کسی سے چھپے ہوئے نہیں۔ کوئی گالوں میں ٹیکے لگوا رہا ہوتا ہے اور کوئی نقلی بال لگا کر خود کو تاحیات جوان رکھنے کی جدوجہد میں مصروف نظر آتا ہے۔ کچھ ماہر بن جاتے ہیں۔ اور کچھ نوکریوں کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے خود کو جگ ہنسائی کا ہد ف بناتے ہیں۔

ماجد خان جیسے لوگ بہت کم ہیں جن کو خودداری اور وضع داری کی اہمیت کا احساس ہر وقت ہوتا ہے۔ جبھی تو وہ خود کو درخت پر آویزاں حکیم کی دوائی کے اُس اشتہار میں تبدیل نہیں کرتا جو گلا پھاڑ پھاڑ کر ہر کسی کو اپنی افادیت کی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے۔ خان صاحب سے چند دن پہلے طویل عرصے کے بعد ملاقات میں بھی میں نے انھیں ویسا ہی پایا، جیسے وہ 25 سال پہلے تھے۔ 3یا 4 برس پہلے بھی ان کے گھر میں جو سامان پڑا تھا اُس میں سے بیشتر ابھی وہیں پر تھا۔ گھر کا دروازہ کھلا اور گارڈ و چوکیدار کی سہولت محروم۔ بیٹھک میں حضرت عیسی ؑ پر لکھی جانے والی معرکتہ لآراء کتاب آدھی کھلی ہوئی تھی۔ میں نے اتفاق سے اس کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔ چند ایک جملوں کے تبادلے سے بھی پتہ چل گیا کہ خان صاحب اس کو کیسی گہری نظر سے پڑھ رہے ہیں۔

اچھی کتاب قدرت کے رازوں کی طرح ہوتی ہے۔ ہر شخص کے سامنے کھل کر نہیں آتی اور نہ اپنی مکمل دانش مندی بند ذہنوں پر آشکار کرتی ہے۔ ایک سابق کھلاڑی کی کتابوں سے یہ محبت انہونی لگتی اگر ماجد خان نہ ہوتے۔ اُن کے بارے میں تو یہ مشہور تھا کہ اپنی اننگز کے شروع اور اختتام کے علاوہ تقریباً تمام وقت کتابوں میں سر دیے رہتے تھے۔ ہوٹل میں واپس جانے کے بعد جب دوسرے ساتھی 'شکار' کرنے باہر کا رخ کرتے تو خان صاحب لکھے ہوئے کو پڑھ کر گزارا کرتے۔ اب بھی عادت ویسی ہی ہے اس لیے اُن کے ساتھ جب بھی نشست ہوتی ہے 'ہمیشہ کچھ سیکھ کر ہی اٹھتا ہوں۔ آج کل یہ تجربہ غیر معمولی محسوس ہوتا ہے۔ آپ جس کسی سے بھی مل لیں ہر کوئی تمام مسائل کا حل اپنی مٹھی میں تھامے بڑی بڑی باتیں کرتا نہیں تھکتا۔ مگر ان کے گھروں میں کتاب ڈھونڈے بھی نہیں ملتی۔

نہ کبھی کسی تحقیق کا حوالہ دینے کی زحمت کرتے ہیں۔ سیاسی قیادت میں تو یہ بیماری عام ہے۔ میڈیا میں تجزیہ نگار اور چند ایک میزبان بھی اس صفت سے مالامال ہیں۔ چند ماہ پہلے ایک پارٹی کے سربراہ کو لندن سے پاکستان واپسی کے سفر میں آٹھ گھنٹے سوتا اور 45 منٹ کھاتا دیکھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ موصوف انقلابی خیالات کا حصول کس ذریعہ سے کرتے ہوں گے؟ خواب سے؟ الہام سے؟ کیسے؟ نہ کتاب، نہ کمپیوٹر، نہ کوئی کاغذ نہ قلم۔ بیگ میں فائل بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس سائز میں تو ٹافیاں ہی پوری آ سکتی تھیں۔ اوروں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ زبانیں تیز ہو گئی ہیں اور دفاع کمزور۔ بناوٹ اور سجاوٹ نے ذہنی مشقت اور عادات کی سادگی کو معا شرتی کمزوری میں تبدیل کر دیا ہے۔ اسکولوں میں معلم اور طالب علم دونوں کتاب سے بھا گتے ہیں۔

ایک یو نیورسٹی میں کورس کو پڑھاتے ہوئے میں نے ہر موضوع کے لیے 4 کے قریب مختلف کتا بوں کے ابواب لازم قرار کیا دیے کہ ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ ایک جوان نے اپنی جوانی اور جہالت کا اکٹھا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو سراسر ظلم قرار دے کر فیس بک پر اس کو بطور اس الزام کے متعارف کروایا دیا کہ مجھے پڑھانے کے آداب سے آشنائی نہیں ہے۔ مگر پھر قصور ان طلباء اور طالبات کا بھی نہیں ہے۔ ہمارے یہا ں سیکھنے کی روایت دم توڑ رہی ہے۔ پڑھ کر سیکھنا تو ہین سمجھا جاتا ہے۔ بغیر محنت سے کمائے ہوئے پیسے نے دماغ خراب کر دیے ہیں۔ نودولتیوں کا یہ طبقہ سیاست میں بھی جڑیں پکڑ چکا ہے۔ کیونکہ طاقت ان کے پاس ہے لہذا ان کے طور طریقے قابل تقلید سمجھے جاتے ہیں۔ ان بیماروں کے ہاتھوں ہر اُس شعبے میں تباہی پھیل گئی ہے جس کا تعلق بہترین انسانی صلاحیتوں سے ہے۔

تعلیم اور کھیل دونوں جس تنزلی کا شکار ہیں اس کا براہ راست تعلق بڑھتی ہوئی مادہ پرستی اور کتابوں سے دوری سے ہے۔ سیاست میں چکر باز دیوانوں کی گڈی چڑھانے میں بھی یہی عنصر کار فرما ہے۔ سوچ سمجھ اور سوجھ بوجھ سے عاری، تعلیم سے نا آشنا، کھیلوں کے میدانوں سے دور رکھا ہوا طبقہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہر اُس فراڈیے کے پیچھے چل پڑتا ہے جو دور سے کھڑا ہو کر چارہ فراہم کرنے کا اشارہ دے دیتا ہے۔ کسی کو اپنے حقوق کا علم نہیں ہے اور نہ کسی کو ذمے داری کا۔ عجیب ہڑبونگ مچی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں ملک کیا ترقی کرے گا۔ کیا تبدیل ہو گا۔

ماجد خان جیسے لوگ عزت سے زندگی گزارنے سے زیادہ کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ وہ اپنے تمام تر علم اور تجربے سے حاصل کی ہوئی دانش مندی کو اپنے شعبے میں بھی استعمال نہیں کر سکتے۔ کیو ں کہ وہاں پر بیٹھے ہوئے مگر مچھ ان کا خون کر دیں گے۔ یہی ماجرا ہر جگہ نظر آتا ہے۔ قابلیت اور صاف کردار وہ سند ہے جس پر صرف تعریف ہوتی ہے اس کے استعمال کی اس نظام میں نہ صلا حیت ہے اور نہ کوئی خاص چاہت۔ پاکستان میں ظلم کا دورہے۔ مگر اس کے باوجود نجات کا راستہ علم کی مشعل تھامے بغیر نظر نہیں آئے گا۔ جہالت کی پھیلائی دہشت گردی کی تعلیم، تربیت کے نظام کو درست کیے بغیر پسپا نہیں کی جا سکے گی۔

قومی طمانیت درسگاہوں اور کھیل کے میدانوں سے پھو ٹتی ہے۔ ماجد خان اس حقیقت کی بہترین جیتی جاگتی مثال ہیں۔ وہ کتابیں پڑھتے اور سیکھتے ہیں ہیں۔ بے مغز فصاحت کے بجائے کھیل کی بات کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے بالوں کو رنگ کر خود کو مصنوعی جوان دکھلا نے کے بجائے گہر ی ہوتی چاندی کو سکون سے اپنا یا ہوا ہے۔ وہ ایک کھرے انسان ہیں۔ انھوں نے ریگ مال سے رگڑی ہوئی گیندوں سے اپنا کیرئیر نہیں چمکایا اور نہ وہ جھوٹے مسیحا کی طرح ایسی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں جس پر انھوں نے خود کچھ عمل نہیں کیا۔ اُن پر ہیرو کا ٹھپہ جچتا ہے۔ ان کو ملکی اثاثہ کہنا درست ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں