منصوبہ بندی اور بجٹ

موجودہ حکومت نے پنجاب میں ترقی کے لیے بہتر اقدامات کیے ہیں خصوصاً صوبائی حکومت نے

anisbaqar@hotmail.com

دنیا میں جمہوریت کی آمد اور آمریت کے بت تو اٹھارویں صدی کے وسط اور انیسویں صدی کے ابتدائی دور میں ٹوٹتے رہے مگر انقلاب روس ایک ایسا انقلابی اور عوامی جمہوری انقلاب تھا جس پر علامہ اقبال بھی لینن کے حضور جا کھڑے ہوئے اور فرماتے ہیں کہ

انقلاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا

آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک

زمین کی کوکھ سے غریب عوام کا یہ انقلاب جس کو بالشویک انقلاب کہا جاتا ہے بادشاہت اور آمریت کے خلاف پہلی فتح تھی۔ اس انقلاب کی جس قدر پذیرائی دنیا میں ہوئی کسی اور انقلاب کی نہ ہوئی۔ اس دور کے نوجوانوں کو اس انقلاب نے اس قدر متاثر کیا کہ ایک دور ایسا تھا کہ جو بھی جواں فکر کا مالک اس سے متاثر نہ ہوتا اس کو صاحب عقل نہ سمجھا جاتا تھا۔ بہرحال اب اس انقلاب کے خدوخال بدلتے جا رہے ہیں کہ آلات پیداوار اور حصول روزگار میں بھی تبدیلی رونما ہورہی ہے اور یہ صاحبان فکر زر اور محنت کے رشتوں کو نئے نئے انداز سے مربوط کرتے رہیں گے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ غریبی مٹاؤ کا نعرہ ہر حکومت لگاتی ہے کیونکہ یہ نفیس نعرہ عوام کو گمراہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ بقول علامہ کے وہ زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکے قند، مگر نام نہاد جمہوریتوں میں زہر ہلاہل پر قند کی کوٹنگ کرکے پیش کی جاتی ہے۔

اگر ذاتی ملکیت کی حد پر کوئی قدغن نہ بھی لگائی جائے تو بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت بھارت میں جس کو ٹاٹا، برلا جیسے کاروباری پروان چڑھاتے ہیں ، لہٰذا وہ نمایندے کب، کیوں اور کیسے عوامی مفادات کا کام کرسکتے ہیں۔ یہ حکومتیں محض عوام کے اندرونی جذبات کے نکاس کا ذریعہ ہیں، جہاں غریب کا خون اس قدر سستا نچوڑا جاتا ہے کہ جھونپڑ پٹی یا گاؤں گوٹھ میں ان کے خستہ مکانات مقدر بن جاتے ہیں۔ سوویت یونین میں پہلا 5 سالہ منصوبہ دنیا کی پہلی عوامی جمہوری یونین نے پیش کیا، ایک مرتبہ نظام کو نئی بنیادوں پر استوار کرنا ضروری ہے۔

ذرا غور کیجیے چین کے انقلاب پر آریوں کی آبادی والے ملک پہلے سائیکل کا انقلاب جہاں ماؤزے تنگ اور چو این لائی، لیو شاوچی سائیکل پر آفس جاتے تھے، پھر آیا دور موٹر کار اور ٹریکٹروں اور پھر دور آیا ہیوی مشینری، اور اب ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں، یہ ہے منصوبہ بندی، قانون کی پاسداری اور عوام کو محنت کا ثمر۔ جہاں ایسی حکومت متحرک ہوتی ہے، جہاں سائنس، آرٹس اور معیشت کا تکون وجود میں آتا ہے، سائنس فنی ندرت،، آرٹس حسن و جمال اور کامرس قیمت کا تعین، تب جاکر پروڈکٹ کی پذیرائی دنیا میں ہوتی ہے مگر حسن و جمال کے لیے لطافت کی تعلیم ضروری ہے، جس کو ڈیزائن کی شکل میں مرصع کیا جاتا ہے مگر اس کے لیے خصوصی تعلیمی ماحول اور ثقافتی ورثہ ضروری ہے، جس میں چین مالا مال تھا اور آج دنیا کی بڑی کمپنیوں نے اپنے برانڈ چین میں تیار کرانے شروع کردیے۔

اس کے لیے نفاست اور صفائی جو ہمارے لیے نصف ایمان کا درجہ رکھتی ہے، ہماری ٹیکسٹائل فیکٹریوں کے شٹل لیس (Shuttle Less) لومز کے مزدوروں کو حاصل نہیں، نہ سر پر ٹوپی، نہ ہاتھ میں گلف اور نہ ہاتھ صاف اور فیکٹری مالکان کی غفلت کے نتیجے میں دس فیصد سے زائد مال بی کوالٹی بن جاتا ہے۔ ایک تو انرجی بحران، مال مہنگا اور پھر دس پندرہ فیصد مال کا بی کوالٹی بن جانا جس سے عالمی منڈی میں مال مسابقت سے محروم، مہنگا مال کس طرح وہ عالمی منڈی میں مقابلے کی سکت رکھ سکتا ہے۔


اگر آپ غور کریں تو موجودہ بجٹ کے 3 حصے ہیں، ایک مفروضہ معاشی آمدورفت کا ہے کہ جس طرح حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر کو وقتی طور پر بڑھایا ہے اسی طرح وہ ترقیاتی اخراجات کو بھی پورا کرے گی، پہلی بار جو زرمبادلہ کے ذخائر ہیں ان میں سب سے بڑی قوت وہ لوگ ہیں جو بیرون ملک سے اپنی رقوم بھیج رہے ہیں۔ اگر آپ ان کی رقم کا تجزیہ کریں تو پاکستان کی تمام گارمنٹس اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں کی کارکردگی ان سمندر پار پاکستانیوں کے قریب تر ہے، اس پر سے ان کی ایکسپورٹ کو بروئے کار لانے کے لیے خطیر اخراجات، ایکسپورٹ پروموشن بیورو، ڈیوٹی ڈرا بیک، ایکسپورٹ ری فنانس وغیرہ وغیرہ، اداروں کے اخراجات، ملازمین پھر مالکان کو مختلف مراعات (Incentive) مگر سمندر پار پاکستانیوں کو کیا مراعات حاصل ہیں؟

وہ ووٹ کے حق سے بھی محروم ہیں، چہ جائیکہ انتخابات یا ملکی سیاست میں حصہ لینا سمندر پار پاکستانیوں سے، البتہ ڈار صاحب نے مگر وعدہ فردا تو کرلیا ہے۔ دیکھیں یہ وعدہ کس قسم کا ہے کیونکہ اس کی کوئی شکل نہیں۔ اب آئیے تنخواہ کے معاملے پر، یقیناً گورنمنٹ ملازمین پر تو مراعات کے دروازے باآسانی کھل جائیں گے مگر پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین کو کون تنخواہ نافذ کرائے گا جہاں جعلی تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ کا عمل جاری ہے، اور ان گورنمنٹ ملازمین کا کیا ہوگا جو گزشتہ 3 یا 4 برس کے کنٹریکٹ سسٹم پر ملازمتیں کررہے ہیں اور ہر قسم کی مراعات سے محروم ہیں، اس پر طرفہ تماشا کہ 240 ارب روپوں کے نئے ٹیکس۔ کیا یہ واقعی عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔

ہاں موجودہ بجٹ کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس بجٹ میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے یقینی طور پر غوروفکر کی گئی ہے اور عملی اقدامات کیے گئے ہیں، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹیکسٹائل کی کاروباری انجمنوں اپٹما اور ٹی ایم اے کی کوششیں قابل ستائش ہیں اور انھوں نے اپنا کیس حکومت کو نہایت مثبت طریقے سے پیش کیا۔ رہ گیا ٹیکسوں کا نظام نہایت ناقص ہے اگر آپ این ٹی این حاصل کرنے جائیں تو پھر اتنے چکر لگانے پڑیں گے کہ آپ پریشان ہوجائیں گے۔ ارے بھائی کوئی آپ کے پاس ٹیکس دینے جا رہا ہے پھر بھی اس کو کئی بار چکر لگانا کیا معنی۔

آئیے نجکاری کی طرف چلیے، خدا نہ کرے کہ کسی گھر پر کوئی افتاد پڑے، جب کسی گھر کی آمدنی ختم ہوجاتی ہے تو پھر وہ ادھار مانگتا ہے اور اگر جب ایسا وقت آتا ہے کہ ادھار ملنا بھی بند ہوجاتا ہے تو پھر وہ اپنی پراپرٹی فروخت کرتا ہے اور اگر پراپرٹی نہ ہو تو پھر گھر کی چیزیں اونے پونے فروخت کرتا ہے۔ خیر جو بھی صورت حال ہو اس کی مثال اپنی منافع بخش پٹرولیم اور جہاز کی صنعت فروخت کرنا کسی بھی ملک کے لیے کیا معنی ہیں۔ البتہ 3G اور 4G یقیناً ایک اچھا قدم ہے لیکن نجکاری کمیشن ملک کی ساکھ کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

ایک اور قدم جو پورٹ قاسم پر (LMG) ایل ایم جی کا منصوبہ یقینی طور پر یہ ایک اچھی پیش رفت ہے اگر رسل و رسائل کے معاملات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ حکومت موٹروے پر زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ آپ خود غور کریں کہ موٹروے کی زیادتی ریلوے کی ترقی میں مانع ہوگی، ماسوائے جہاں ریلوے ٹریک لے جانا آسان نہ ہو ورنہ مال برداری کا عمل ریلوے سے بہتر کسی ذریعے سے ممکن نہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو جب سے این ایل سی (NLC)شروع ہوا اس نے ریلوے کی مال برداری پر منفی اثرات مرتب کیے لہٰذا ریلوے کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نیٹ ورک کو بہتر اور سگنل سسٹم کو جدید بنایا جائے اور ترقی یافتہ ممالک سے فنی تعاون لیا جائے۔

موجودہ حکومت نے پنجاب میں ترقی کے لیے بہتر اقدامات کیے ہیں خصوصاً صوبائی حکومت نے سندھ کی صوبائی حکومت نے نہ بسوں کا کوئی جال بچھایا اور نہ ہی ریلوے کا پروگرام پروان چڑھایا لہٰذا ڈیڑھ کروڑ والے اس شہر کو جو تجارت کی رو سے اس کو بے رحم و کرم چھوڑ دیا گیا البتہ لیاری کے حالات ذرا بہتر ہوئے ہیں، کچھ امن کی بحالی ہوئی ہے۔ یہاں نہ رکشہ ٹیکسی کا کوئی میٹر ہے، بسوں کا حال یہ کہ اگر آپ چڑھیں تو وہ ہر جگہ سے شکستہ، ہاتھ کٹنے، کپڑے پھٹنے کا خطرہ ہے، اس لیے (پرائیویٹ) ذاتی ٹرانسپورٹ میں اضافہ، پٹرول کا یہ بوجھ حکومت کو زبردست نقصان پہنچا رہا ہے۔

ایک طرف کراچی میں امن و امان کا مسئلہ دوسری جانب آفس فیکٹری یا دکان تک جانے میں وقت کا زیاں، انسانی اعصاب شکنی کے برابر ہے کیونکہ لوگ بس کی چھتوں پر سفر کر رہے ہیں۔ محض اگر صرف ایک ماہ اس انداز میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران کو بسوں میں منزل مقصود پر بھیجا جائے تو وہ اپنی بے بسی سے تنگ آکر خودکشی پر آمادہ ہوجائیں گے یا تقریر کا فن بھول جائیں گے، لہٰذا بجٹ کی تخلیق کے لیے ضروری ہے ملک کے مختلف طبقات کی زندگی کا جائزہ لیا جائے ورنہ یہ محض کاغذ کا پیٹ بھرنے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ پولٹری فارمنگ لائف اسٹاک پر خاصی بحث اور غور و فکر کی ضرورت تھی کیونکہ ٹیکسٹائل کے بعد سب سے زیادہ لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں عوام کے لیے رزق اور غذا کا ذریعہ ہیں۔
Load Next Story