ماضی پرستی اسٹیٹس کو اور میڈیا
اگر عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ملک کے روشن مستقبل کے لیے مذہبی انتہا پسندی کا رخ موڑنے کی کوشش کی جائے...
2007ء کے بعد ناقابل تصور حد تک طاقتور ہونے والا میڈیا اگرچہ آج کل ایک خود ساختہ بحران کی وجہ سے کچھ کمزور ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارا میڈیا اب بھی بہت طاقتور ہے جو سوال آج ہمارے سامنے کھڑا ہے وہ یہ ہے کہ میڈیا کی طاقت کا استعمال کیسے ہونا چاہیے؟ میڈیا کی روایتی ذمے داری اطلاعات تک رسائی اور عوام تک درست اطلاعات پہنچانا ہے۔ یہ ذمے داری ہمارا میڈیا پوری طرح سر انجام تو دے رہا ہے لیکن سرمایہ دارانہ سماج میں مقابلے کی جو علت پائی جاتی ہے اس سے میڈیا کسی حد تک غیر متوازن ہو جاتا ہے آج کل ہمارا میڈیا اسی صورت حال سے گزر رہا ہے۔ دور جدید کے میڈیا کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نیوز کے ساتھ عوام تک ویوز بھی پہنچاتا ہے۔
ہمارا معاشرہ پسماندگی سے نکل کر ترقی کی طرف پیشرفت کرنے کی جو کوشش کر رہا ہے اس میں ویوز کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ ویوز کی ذمے داری پوری کرنے والے چونکہ مختلف الخیال لوگ ہوتے ہیں لہٰذا ویوز میں اختلاف رائے ایک فطری بات ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو ماضی میں زندہ ہے اور عوام تک جو ویوز وہ پہنچاتا ہے وہ حال پر ماضی کی برتری پر مشتمل ہوتی ہیں، یہ طبقہ فکر اپنی نظر میں کتنا ہی برحق اور محترم کیوں نہ ہو وہ عوام کو فکری پسماندگی کی طرف ہی دھکیلتا ہے اور نان ایشوز کو ملک کے اہم ترین ایشوز کے طور پر پیش کر کے عوام میں ذہنی پسماندگی اور ذہنی انتشار کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اس طبقے کی ایمانداری پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا لیکن ہماری دنیا میں بے ایمانی بھی بڑی ایمانداری سے کرنے کا رواج ہے۔
میڈیا کا دوسرا طبقہ فکر وہ ہے جو نہ ماضی پرست ہے نہ مستقبل سے اسے کوئی دلچسپی ہوتی ہے وہ اپنے اور ملک کے حال میں مگن رہتا ہے اس طبقے کی فکری پہچان Status Quo کی حمایت ہے۔ اس خوبی کی وجہ سے وہ نہال رہتا ہے لیکن اس کا کردار بھی معاشرتی پیشرفت میں رکاوٹ ہی بنا رہتا ہے، ہو سکتا ہے Status Quo کے حامیوں میں ایماندار لوگ بھی ہوں لیکن یہ ایمانداری معاشرتی پیشرفت کو روکنے کا سبب ہی بنتی ہے، موقع پرست مڈل کلاس اس طرز فکر کی زبردست حمایت کرتی ہے۔
تیسرا طبقہ وہ ہے جو ماضی کے تجربات حال کی ضروریات کے پیش منظر میں مستقبل کی تعمیر پر یقین رکھتا ہے۔ یہ طبقہ فکر چونکہ صدیوں سے جمے جمائے معاشرے میں تبدیلی چاہتا ہے اس لیے وہ تمام قوتیں جو تبدیلی کی مخالف ہوتی ہیں اس طبقے کی مزاحمت کرتی ہیں۔ خاص طور پر وہ داخلی طاقتیں جن کے مفادات ماضی پرست اور اسٹیٹس کو سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ خارجی طاقتیں جن کے مفادات کا تقاضا تبدیلیوں کی مخالفت کرنا ہوتا ہے وہ نہ صرف تبدیلیوں کے علمبرداروں کی سختی سے مزاحمت کرتی ہیں بلکہ محض اپنے مفادات کی خاطر ماضی پرستوں اور Status Quo کے حامیوں کی دامے درمے سخنے ہر طرح مدد کرتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ماضی پرستوں اور اسٹیٹس کو کے حامیوں کو مالی وسائل کی کوئی تنگی نہیں رہتی اس کی ایک زندہ مثال ماضی پرستوں اور اسٹیٹس کو کے حامیوں کے وہ بڑے بڑے جلسے جلوس اور پروپیگنڈہ مشنری ہے جس پر کروڑوں روپے پانی کی طرح بہا دیے جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف روشن مستقبل کے لیے کام کرنے والے وسائل کے حوالے سے بہت تہی دست ہوتے ہیں ان کی تہی دستی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ پمفلٹ چھپوانے ، بینر بنوانے تک سے معذور ہوتے ہیں۔
کسی بھی فرسودہ اور لوٹ مار پر مبنی سیٹ اپ کو تبدیل کرنے کا مطلب ان تمام طبقات کے مفادات پر ضرب لگانا ہوتا ہے جو ماضی اور حال کو اپنی لوٹ مار کے لیے استعمال کرتے ہیں تبدیلی کے اس عمل کو سیاسی اصطلاح میں ''انقلاب'' کہا جاتا ہے۔ ایک تشویشناک بات اس حوالے سے یہ ہے کہ روسی بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد لفظ انقلاب کو اس قدر مشکوک اور متنازعہ بنا دیا گیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی اور سرپرستوں نے سوشلسٹ بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کو انقلابات کی ناکامی کا نام دے کر لفظ انقلاب کو اس قدر بدنام کر دیا ہے کہ عام آدمی ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس بھی ایک زبردست ذہنی انتشار کا شکار ہو کر رہ گئی ہے، لیکن اس ناامیدی میں امید کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ Status Quo سے بیزار اور مایوس ہر شخص تبدیلی یعنی انقلاب چاہتا ہے۔ عوام کی یہ ایک ایسی اجتماعی خواہش ہے جس سے بڑے سے بڑا بے ضمیر بھی انکار نہیں کر سکتا۔
یہی وہ صورت حال ہے جہاں میڈیا کا کردار اور اہمیت واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ ہم نے ابتدا ہی میں نشان دہی کر دی تھی کہ میڈیا میں بھی مختلف الخیال لوگ موجود ہیں اور اپنی اپنی فکر اپنی اپنی ضرورتوں کے پس منظر میں عوام کو فکری غذا فراہم کر رہے ہیں یہ تو ممکن نہیں کہ ان میں سے کسی کی فکر پر پہرے بٹھا دیے جائیں، لیکن یہ بہرحال ممکن ہے کہ ملک و قوم کے روشن مستقبل کے لیے کام کرنے والوں کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس حوالے سے پہلی وضاحت یہ ضروری ہے کہ تبدیلی یا انقلاب کو محض انقلاب روس انقلاب چین انقلاب فرانس وغیرہ سے نہ جوڑا جائے کیونکہ انقلاب کا مقصد صرف 1917ء کا انقلاب روس 1949ء کا انقلاب چین یا 1789ء کا انقلاب فرانس ہی نہیں ہے۔
ہر ملک میں تبدیلی کا الگ الگ مقصد ہوتا ہے مثلاً پاکستان کو نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام سے نکال کر صنعتی ترقی کے دور میں لے جانا بڑی تبدیلی یا انقلاب ہے۔ پاکستان کا نظام تعلیم انتہائی فرسودہ ہے اسے تبدیل کرنا اور ملک میں جدید علوم سائنس و ٹیکنالوجی آئی ٹی فلائی سائنس وغیرہ کو فروغ دینا بھی انقلاب کی تعریف میں آتے ہیں۔ہمارا ملک مذہبی انتہا پسندی کے دلدل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے مذہبی انتہا پسندی اس شدت کو پہنچ گئی ہے کہ اس ملک کا ہر شہری اس سے پناہ مانگ رہا ہے کیونکہ یہ انتہا پسندی صرف عوام کے جان و مال کے لیے ہی عذاب نہیں بنی ہوئی ہے بلکہ فکری طور پر وہ ماضی کو حال پر مسلط کر کے ترقی کے راستے کو روکنا چاہتی ہے۔
اگر عوام کے جان و مال کے تحفظ اور ملک کے روشن مستقبل کے لیے مذہبی انتہا پسندی کا رخ موڑنے کی کوشش کی جائے تو یہ بھی ایک بالواسطہ انقلابی کوشش ہی کہلا سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں جو سیاسی نظام رائج ہے اگرچہ اسے جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے لیکن یہ نظام کسی حوالے سے بھی جمہوری نہیں ہے بلکہ ماضی کی بادشاہتوں کی ایک نئی برانڈ ہے۔ جہاں حکمران طبقات نہ صرف ڈنکے کی چوٹ پر ولی عہد شہزادے شہزادیاں تخلیق کر رہے ہیں بلکہ عوام کی دولت کو استعمال کر کے انھیں عوام میں مقبول کرانے کی جو عوام اور جمہوریت دشمن کوشش کر رہے ہیں ان کا راستہ روکنا بھی بالواسطہ انقلابی کوشش ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام، فرسودہ تعلیمی نظام، ولی عہدی جمہوریت، اقتدار مافیا، لوٹ مار کا بے شرمانہ کلچر، مذہبی انتہا پسندی کے خلاف میڈیا میں جو بھی آواز اٹھے اس کی پذیرائی اسے اہمیت دینا اسے عوام تک مکمل صورت میں پہنچانا یہ سب میڈیا کی ذمے داری ہے اگر میڈیا باشعور ہو تو وہ خبروں کا ڈسپلے بھی اس طرح کر سکتا ہے کہ خبر کے مثبت پہلو اجاگر ہو جاتے ہیں اور منفی پہلو دب جاتے ہیں۔ اگر ملک میں سیاسی جماعتیں ایماندار، محب عوام اور روشن خیال ہوں تو میڈیا کو وہ کردار ادا کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی جس کا ذکر ہم نے کیا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کی اولین ترجیح ان کے ذاتی اور جماعتی مفادات ہیں یہ جماعتیں باتیں تو تبدیلیوں اور انقلاب کی کرتی ہیں لیکن یہ ساری سازشیں یہ ساری باتیں عوام کو گمراہ کرنے انھیں ذہنی انتشار میں مبتلا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
میڈیا میں پسماندہ ذہنیت کے لوگ بھی قدم قدم پر موجود ہیں لیکن میڈیا روشن خیال لوگوں سے بھی خالی نہیں اب یہ ان دوستوں کی ذمے داری ہے کہ وہ وقت کے تقاضوں کو سمجھیں اور ان لوگوں کو زیادہ وقت زیادہ جگہ نہ دیں جو ماضی پرست ہیں یا پھر جوں کے توں Status Quo کے حامی ہیں ان خیالات کی بھرپور پذیرائی کریں جو معاشرے کو آگے ترقی کی طرف لے جانے کی مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں۔ یہی میڈیا کی ذمے داری میڈیا کی ترجیحات ہونی چاہیے۔