سماجی انصاف
ڈار صاحب کہتے ہیں 2015-16 کے بعد شرح نمو اوسط سات فیصد کو پہنچ جائے گی اور 2025 تک بجلی ...
جب بھی جون آیا ہم اعداد و شمار کی نذر ہوجاتے ہیں۔ پہلے تو ایک بار مہنگائی کے نشتر ٹوٹتے تھے اب کی بار تو منی بجٹوں کی بوندا باندی کسی وقت بھی ہوسکتی ہے۔ غریبوں کی جیبوں کو رفو چاک در چاک لگتے رہے۔ مفلسوں کی قبا پر پیوندوں پر پیوند جڑنے لگے۔ خیر بجٹ آگیا اور ماہ رمضان بس کچھ دن بعد آن پڑا ہے۔ پھر ہوگا خورونوش کی چیزوں کا بازار گرم اور غریبوں کی جیب کو لگیں گے پھر اور رفو۔ آئین کے آرٹیکل 3 کے ساتھ پڑھیے آرٹیکل 56 اور پڑھیے پھر پرنسپل آف پالیسی یعنی باب دوئم، حصہ دوم آئین کا۔ یوں لگے گا کہ ہمارا آئین مساوات کی بات کرتا ہے۔ کرتا تو ہے، مگر ہوتا نہیں۔ اب کی بار تو کچھ یوں ہے کہ ہم حکمرانوں کی نااہلی کا ٹیکس دیتے ہیں۔ 1400 ارب سے بھی زائد واپڈا وغیرہ کو سبسڈی ملتی ہے۔
اتنے پیسے کے بدلے واپڈا وغیرہ دیتی ہے لگ بھگ 40 فیصد کا شارٹ فال۔ اور دنیا کی مہنگی ترین بجلی۔ دیہاتوں پر تو فالج گرا ہے، زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے اور حکمرانوں کو شرح نمو کی پڑی ہے۔ نو مہینے کے اعداد و شمار جوکہ بیوروآف اسٹیٹکس نے شایع کیے تھے یعنی مارچ تک 4.1 فیصد شرح نمو تھی۔ کچھ ہفتے پہلے اسی بیورو آف اسٹیٹکس کی اپریل تک شرح نمو آگئی تھی جو کم ہوکر 3.8 فیصد ہوگئی تھی ۔ اس کو کہتے ہیں اعداد و شمار سے کھیلنا۔ پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اعداد و شمار میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے۔ ایک پروگرام ورلڈ ڈونرز کا یہ بھی ہے کہ پاکستان کو اپنے اعداد و شمار میں شفافیت لانا ہوگی اور اس کے لیے بھی وہ فنڈ دینے کے لیے تیار ہیں۔
بجٹ قانونی طور پر آئین کے 156 سے نکلتا ہے یعنی نیشنل اکنامک کاؤنسل NEC وضع کرتی ہے کہ کس طرح آمدنیوں اور اخراجات کے مساوی تخمینہ ہوگا۔ یہ ادارہ اپنی نوعیت کا فیڈرل ادارہ ہے۔ جس طرح CCI ہے، سینیٹ ہے وغیرہ۔ اس بجٹ کے ایک ہفتہ پہلے اس ادارے کا اجلاس ہوا جس میں 1175 ارب سالانہ ترقیاتی منصوبے کا اعلان ہوا۔ جو نہ ہوا،مگر اصل بات یہ ہے کہ سماجی انصاف کا بنیادی اصول جس کے لیے یہ ادارہ آئین میں معنی رکھتا ہے پرنسپل آف پالیسی کی تشریح چاہتا ہے، اس پر ہمیشہ کی طرح ہونٹ سلے رہے، اور اگر کسی نے ڈاکٹر مالک کی طرح کھولے بھی تو اس سسٹم میں ایسی باتیں سننے کے لیے وہ کان بھی تو نہیں ۔
یہ بجٹ کیا آیا کہ جیسے خزاں آئی، جینا اور تنگ ہوا۔ گیس مہنگی ہوئی ان کارخانوں کی جن کی کھپت ہم کرتے ہیں وہ اس مہنگی گیس کو اپنی چیزوں کی قیمت میں جذب کریں گے۔ CNG لگ بھگ دگنی مہنگی ہونے کو جا رہی ہے۔ اس سے 65 ارب اور جمع ہوں گے۔ یہ پیسے اتنے ہی ہیں جتنے GST کو ایک فیصد بڑھانے سے پچھلے سال جمع ہوئے تھے۔ گھریلو صارفین پر GIDC والا Cess جو گیس پر لگا ہے اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ گیس ہمارے پاس مروج دنیا کے ریٹس سے کم تھی۔ ہر طرف خسارہ ہی خسارہ ہے اور ان خساروں کو کم کرنے کے لیے غریبوں کا معاشی قتل لازم ہے۔
ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9.5 فیصد ہے۔ ہندوستان کی یہ شرح ہم سے دگنی ہے۔ ہم دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں اس حوالے سے شمار رکھتے ہیں۔ فنانشل خسارہ GDP کے 5 فیصد کے برابر ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں عدم توازن 18 ارب ڈالر کا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ وہ ٹیکس بڑھائے جس سے غریبوں کی قوت خرید متاثر ہوئی اور امیروں پر براہ راست ٹیکس نہیں لگاسکے، ان ایوانوں میں بیٹھے شرفا نے جب اپنے ریٹرنز داخل کیے تو پتا چلا کہ ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو ٹیکس ہی نہیں ادا کرتے۔ اور ایسے ٹیکس چوروں کی بھی بڑی فہرست ہے۔ بجٹ کا سب سے بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی لگ بھگ 1325 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔
یہ اخراجات اس لیے بڑھے کیوں کہ ہم امیروں پر ٹیکس نہیں لگاسکے، اور اس لیے بھی بڑھے کہ ہم غیر ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرسکے۔ یعنی FBR سے ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ 2800 ارب ہمیں دے گی، اس کے آدھے تو جائیں گے سود و قرضوں کی ادائیگی میں۔ جو آمدنی ہوگی اس سے چلے گی حکومت، ترقیاتی کاموں کے لیے بہت سارا حصہ نئے قرضوں سے پورا ہوگا۔ یہ بھی ہمت افزا بات ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر حیران کن انداز میں واپس بحال ہوئے۔ لیکن بیرونی قرضے لینے میں بھی اس حکومت نے پچھلی حکومتوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔
حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ آیندہ سال شرح نمو کو 5.1 فیصد تک لے کر جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر رواں سال شرح نمو 4.1 فیصد ہے تو پورا ایک فیصد آگے بڑھ بھی سکتی ہے جس کی خبر جون گزرنے کے بعد آئے گی اور ساتھ اگلے سال تک اگر 3000 میگاواٹ نئی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرجاتے ہیں تو کچھ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا ہوجائے۔ باتیں کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، دس سالہ پلان بنایا ہے، کہ ایکسپورٹ 2025 تک 130 ارب ڈالر ہوجائے گی۔ دس سال پہلے ہماری ایکسپورٹ 112 ارب ڈالر تھی، جوکہ دگنی ہوکر 24 ارب ڈالر ہوگئی ہے لیکن 9/11 سے جو معجزہ ہوا وہ Remittance میں تقریباً ساڑھے تین گنا اضافہ ہوا۔
ڈار صاحب کہتے ہیں 2015-16 کے بعد شرح نمو اوسط سات فیصد کو پہنچ جائے گی اور 2025 تک بجلی کی پیداوار 45000 میگاواٹ ہوجائے گی۔ یہ ساری باتیں کاغذی شہروں والی ہیں۔ ہم تب کچھ بہتر سمجھیں گے کہ جب حکمراں ڈائریکٹ ٹیکس میں وصولیاں بڑھائیں اور ترقیاتی کاموں کے لیے جتنے پیسے رکھیں اس میں کٹوتی نہ کریں اور ان کاموں کے اندر کرپشن کو ختم کرائیں۔
اول تو GDP میں اضافہ نہیں ہوا اور اگر ہوا ہے تو اس کی تصدیق کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے روزگار پانے والوں کے بیورو آف اسٹیٹکس کے اعداد و شمار رواں سال کے لیے کیا کہتے ہیں اور اگر سال شرح نمو بڑھی اور اس کا فائدہ روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہوئے غریبوں کی زندگی میں کچھ تبدیلی لاسکا ہے تو ایسے شرح نمو کو سراہا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی معاشی بدحالی کا تعلق پاکستان کی برسوں میں بنائی اس بیانیےNarrative کا بھی ہے جس سے موقع پرستوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور لوٹ کھسوٹ کی ہے۔ یہ اس کا ثمر ہے جو آج ملک کی نصف آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہتی ہے۔ ان کو پینے کے صاف پانی، ان کے بچوں کو مفت تعلیم، مفت صحت کے مواقعے اور روزگار کے مواقع چاہئیں۔ جب تک یہ ملک سماجی انصاف کی طرف رواں نہیں ہوگا کوئی نہ کوئی دہشت گردی وہ طالبان کی صورت میں ہو یا بلوچستان میں شورش کی شکل میں یا کوئی اور صورت میں سول وار کو جنم دیتا رہے گا۔
اتنے پیسے کے بدلے واپڈا وغیرہ دیتی ہے لگ بھگ 40 فیصد کا شارٹ فال۔ اور دنیا کی مہنگی ترین بجلی۔ دیہاتوں پر تو فالج گرا ہے، زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے اور حکمرانوں کو شرح نمو کی پڑی ہے۔ نو مہینے کے اعداد و شمار جوکہ بیوروآف اسٹیٹکس نے شایع کیے تھے یعنی مارچ تک 4.1 فیصد شرح نمو تھی۔ کچھ ہفتے پہلے اسی بیورو آف اسٹیٹکس کی اپریل تک شرح نمو آگئی تھی جو کم ہوکر 3.8 فیصد ہوگئی تھی ۔ اس کو کہتے ہیں اعداد و شمار سے کھیلنا۔ پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اعداد و شمار میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے۔ ایک پروگرام ورلڈ ڈونرز کا یہ بھی ہے کہ پاکستان کو اپنے اعداد و شمار میں شفافیت لانا ہوگی اور اس کے لیے بھی وہ فنڈ دینے کے لیے تیار ہیں۔
بجٹ قانونی طور پر آئین کے 156 سے نکلتا ہے یعنی نیشنل اکنامک کاؤنسل NEC وضع کرتی ہے کہ کس طرح آمدنیوں اور اخراجات کے مساوی تخمینہ ہوگا۔ یہ ادارہ اپنی نوعیت کا فیڈرل ادارہ ہے۔ جس طرح CCI ہے، سینیٹ ہے وغیرہ۔ اس بجٹ کے ایک ہفتہ پہلے اس ادارے کا اجلاس ہوا جس میں 1175 ارب سالانہ ترقیاتی منصوبے کا اعلان ہوا۔ جو نہ ہوا،مگر اصل بات یہ ہے کہ سماجی انصاف کا بنیادی اصول جس کے لیے یہ ادارہ آئین میں معنی رکھتا ہے پرنسپل آف پالیسی کی تشریح چاہتا ہے، اس پر ہمیشہ کی طرح ہونٹ سلے رہے، اور اگر کسی نے ڈاکٹر مالک کی طرح کھولے بھی تو اس سسٹم میں ایسی باتیں سننے کے لیے وہ کان بھی تو نہیں ۔
یہ بجٹ کیا آیا کہ جیسے خزاں آئی، جینا اور تنگ ہوا۔ گیس مہنگی ہوئی ان کارخانوں کی جن کی کھپت ہم کرتے ہیں وہ اس مہنگی گیس کو اپنی چیزوں کی قیمت میں جذب کریں گے۔ CNG لگ بھگ دگنی مہنگی ہونے کو جا رہی ہے۔ اس سے 65 ارب اور جمع ہوں گے۔ یہ پیسے اتنے ہی ہیں جتنے GST کو ایک فیصد بڑھانے سے پچھلے سال جمع ہوئے تھے۔ گھریلو صارفین پر GIDC والا Cess جو گیس پر لگا ہے اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ گیس ہمارے پاس مروج دنیا کے ریٹس سے کم تھی۔ ہر طرف خسارہ ہی خسارہ ہے اور ان خساروں کو کم کرنے کے لیے غریبوں کا معاشی قتل لازم ہے۔
ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9.5 فیصد ہے۔ ہندوستان کی یہ شرح ہم سے دگنی ہے۔ ہم دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں اس حوالے سے شمار رکھتے ہیں۔ فنانشل خسارہ GDP کے 5 فیصد کے برابر ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں عدم توازن 18 ارب ڈالر کا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ وہ ٹیکس بڑھائے جس سے غریبوں کی قوت خرید متاثر ہوئی اور امیروں پر براہ راست ٹیکس نہیں لگاسکے، ان ایوانوں میں بیٹھے شرفا نے جب اپنے ریٹرنز داخل کیے تو پتا چلا کہ ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو ٹیکس ہی نہیں ادا کرتے۔ اور ایسے ٹیکس چوروں کی بھی بڑی فہرست ہے۔ بجٹ کا سب سے بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی لگ بھگ 1325 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔
یہ اخراجات اس لیے بڑھے کیوں کہ ہم امیروں پر ٹیکس نہیں لگاسکے، اور اس لیے بھی بڑھے کہ ہم غیر ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرسکے۔ یعنی FBR سے ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ 2800 ارب ہمیں دے گی، اس کے آدھے تو جائیں گے سود و قرضوں کی ادائیگی میں۔ جو آمدنی ہوگی اس سے چلے گی حکومت، ترقیاتی کاموں کے لیے بہت سارا حصہ نئے قرضوں سے پورا ہوگا۔ یہ بھی ہمت افزا بات ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر حیران کن انداز میں واپس بحال ہوئے۔ لیکن بیرونی قرضے لینے میں بھی اس حکومت نے پچھلی حکومتوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔
حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ آیندہ سال شرح نمو کو 5.1 فیصد تک لے کر جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر رواں سال شرح نمو 4.1 فیصد ہے تو پورا ایک فیصد آگے بڑھ بھی سکتی ہے جس کی خبر جون گزرنے کے بعد آئے گی اور ساتھ اگلے سال تک اگر 3000 میگاواٹ نئی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرجاتے ہیں تو کچھ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا ہوجائے۔ باتیں کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، دس سالہ پلان بنایا ہے، کہ ایکسپورٹ 2025 تک 130 ارب ڈالر ہوجائے گی۔ دس سال پہلے ہماری ایکسپورٹ 112 ارب ڈالر تھی، جوکہ دگنی ہوکر 24 ارب ڈالر ہوگئی ہے لیکن 9/11 سے جو معجزہ ہوا وہ Remittance میں تقریباً ساڑھے تین گنا اضافہ ہوا۔
ڈار صاحب کہتے ہیں 2015-16 کے بعد شرح نمو اوسط سات فیصد کو پہنچ جائے گی اور 2025 تک بجلی کی پیداوار 45000 میگاواٹ ہوجائے گی۔ یہ ساری باتیں کاغذی شہروں والی ہیں۔ ہم تب کچھ بہتر سمجھیں گے کہ جب حکمراں ڈائریکٹ ٹیکس میں وصولیاں بڑھائیں اور ترقیاتی کاموں کے لیے جتنے پیسے رکھیں اس میں کٹوتی نہ کریں اور ان کاموں کے اندر کرپشن کو ختم کرائیں۔
اول تو GDP میں اضافہ نہیں ہوا اور اگر ہوا ہے تو اس کی تصدیق کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے روزگار پانے والوں کے بیورو آف اسٹیٹکس کے اعداد و شمار رواں سال کے لیے کیا کہتے ہیں اور اگر سال شرح نمو بڑھی اور اس کا فائدہ روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہوئے غریبوں کی زندگی میں کچھ تبدیلی لاسکا ہے تو ایسے شرح نمو کو سراہا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی معاشی بدحالی کا تعلق پاکستان کی برسوں میں بنائی اس بیانیےNarrative کا بھی ہے جس سے موقع پرستوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور لوٹ کھسوٹ کی ہے۔ یہ اس کا ثمر ہے جو آج ملک کی نصف آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہتی ہے۔ ان کو پینے کے صاف پانی، ان کے بچوں کو مفت تعلیم، مفت صحت کے مواقعے اور روزگار کے مواقع چاہئیں۔ جب تک یہ ملک سماجی انصاف کی طرف رواں نہیں ہوگا کوئی نہ کوئی دہشت گردی وہ طالبان کی صورت میں ہو یا بلوچستان میں شورش کی شکل میں یا کوئی اور صورت میں سول وار کو جنم دیتا رہے گا۔