معاشی کامیابی کے تین اصول

دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ قلم بند نہیں ہے کہ کسی اشرافیہ حکومت نے اپنی غریب، مفلوک الحال اور غربت...


آئی ایچ سید June 07, 2014
[email protected]

شاید حکمران جماعت کو قوم میں پائی جانیوالی شدید مایوسی اور بے اطمینانی کا پوری طرح ادراک ہی نہیں، اپنی معاشی بقا کی جنگ میں مصروف عمل اس عام آدمی کی اقتصادی دشواریوں کا اندازہ ہی نہیں، تبھی تو قوم کو اقتصادی اور معاشی لحاظ سے بے فیض اور بے ثمر بجٹ دیا گیا جس میں لفظوں کے گورکھ دھندے کے سوا عام آدمی کی فلاح اور بہبود سے متعلق کوئی واضح ریلیف دینے سے مکمل اجتناب کیا گیا، وجہ وہی پرانی اور بوسیدہ کہ '' آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں''۔

موجودہ بد ترین اقتصادی اور معاشی حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش نہیں کیا جاسکتا اور پچھلے 60 سالوں سے حکمران طبقہ انھیں دو بنیادی وجوہات کو بیان کرکے ہر سال پوری قوم کے 95% فیصد لوگوں کی بجٹ سے وابستہ جائز آرزوئوں اور توقعات کا خاتمہ کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے یعنی پاکستانی قوم کتنی بھی محنت ومشقت کرلے چاہے اپنی آمدنی کا نصف حصہ بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس کی شکل میں قومی خزانے میں جمع کروادے مگر اس کے بدلے اسے کسی بھی بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا جائے گا، غربت و افلاس اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کی مشکلات کا خاتمہ کبھی بھی نہیں کیا جائے گا اور گمان غالب ہے کہ آنیوالے سالوں میں بھی مذکورہ بالا دونوں بنیادی وجوہات کا ذکر کرکے بجٹ بنانے کی روش کو برقرار رکھا جائے۔

ثابت ہوا کہ موجودہ ظالم اور عوامی احساس سے عاری اشرافیہ جب تک پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہیںگے پاکستانی قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار لیے ہوئے ہونگے اس وقت تک پاکستانی قوم کو لاحق انتہائی پریشان کن معاشی حالات سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ حقیقت ہے کہ ایک بھوکے شخص کا حقیقی احساس ایک بھوکا شخص ہی کرسکتا ہے، ایک بیمار شخص ہی دوسرے بیمار شخص کی تکلیف کو محسوس کرسکتا ہے، ایک پیاسا شخص ہی پانی سے محروم دوسرے شخص کی پیاس کو محسوس کرسکتا ہے۔ زندگی کو میسر تمام اعلیٰ ترین سہولیات حاصل کیے ہوئے حکمران بھلا کس طرح بھوکی، پیاسی، بیمار، بیروزگار قوم کے درد کو محسوس کرسکتے ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ قلم بند نہیں ہے کہ کسی اشرافیہ حکومت نے اپنی غریب، مفلوک الحال اور غربت اور پسماندگی میں مبتلا قوم کی فلاح و بہبود، ان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کے انقلابی اقدامات اٹھائے ہوں ان کی اچھی صحت اور علم سے متعلق کسی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی مخلصانہ کوشش کی ہو، یہ ممکن ہی نہیں چوں کہ اشرافیہ حکومتیں غربا، محنت کشوں اور مزدوروں کے استحصال پر ہی اپنا وجود قائم رکھتی ہیں، ان کا تخت حکمرانی انھی مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کے خون پسینے سے حاصل شدہ معاشی وسائل کے انتہائی غیر منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر ہی اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہوتا ہے۔

ملک میں انقلابی تبدیلیاں رونما کرنے کے نام پر قائم ہونے والی حکومت جو اپنے آپ کو جمہوری انداز سے منتخب ہونے کا راگ الاپتے ہوئے نہیں تھکتی اسے اس بجٹ کو بناتے وقت اپنے ان وعدوں اور عوام سے کیے گئے عہد و پیمان کو ضرور یاد رکھنا چاہیے تھا جس میں اس نے عوام کو مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے فوری خاتمے کا یقین دلایا تھا، ان کے بہتر مستقبل کی نوید سنائی تھی۔ ان کی آرزوئوں اور تمنائوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے دعوے کیے تھے، ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے ناقابل تنسیخ عہد وپیمان کیے تھے۔ جمہوری حکمران صرف جمہور کو مطمئن اور آسودہ کرکے ہی اپنی حکمرانی کو جاری رکھتے ہیں اور جمہور کے غیض و غضب اور ناراضگی کے نتیجے میں جمہوری حکومت کا قائم رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا۔

کسی بھی کامیاب جمہوری حکومت کی اقتصادی اور معاشی کامیابی تین بنیادی اصولوں میں پنہاں ہوتی ہے۔ (1) کہ حکومت نے اپنے پچھلے مالی سال میں رکھے ہوئے اہداف کو حاصل کیا یا نہیں یعنی اپنے وسائل میں کتنا اضافہ کیا۔ (2) ملکی جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس نیٹ کو کتنا بڑھایا اور (3) وہ حکومت وقت Tax Exemption کا خاتمہ کرنے میں کس حد کامیاب ہوئی۔ موجودہ حکومت اپنے پچھلے بجٹ میں رکھے ہوئے ان اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ حکومت وقت موجودہ بجٹ میں رکھے ہوئے اپنے اقتصادی اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔

ایک عوامی حکومت سب سے پہلے اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرتی ہے اور ڈائریکٹ ٹیکس کی پالیسی پر گامزن ہوتے ہوئے آمدنی کے مطابق ٹیکس میں اضافہ کرتی ہے اور ان اربوں پتی اور کروڑ پتی لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی حکمت عملی وضع کرتی ہے جو اپنی آمدنی اور اثاثوں کو جعلی ناموں پر منتقل کرکے کسی نہ کسی طور ٹیکس ادا کرنے سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہیں۔ ایک عوامی حکومت ملک میں موجود اپنے قدرتی وسائل کو ہر قیمت پر بڑھانے کے جنون میں مبتلا ہوتی ہے۔

معاشرے میں موجود استحصال کی بوسیدہ روایت یعنی Tax Exemption کا خاتمہ کرنا اپنا اولین فرض سمجھتی ہے اور وہ حکومت قوم کی بہتری اور ترقی کی خاطر مذکورہ بالا مقاصد کو حاصل کرلے تو پھر وہ قوم اقتصادی پسماندگی سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے، پھر اس قوم کو ترقی کرنے سے دنیا کی کوئی قوت روک نہیں سکتی مگر افسوس موجودہ حکومت ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، ٹیکس مستثنیات کا خاتمہ کرنے اور قومی وسائل میں اضافہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے اور اسی وجہ سے حکومت وقت پہلے سے پسے ہوئے مہنگائی کے ستائے ہوئے ٹیکس دہندہ عوام پر مزید بوجھ ڈال کر اپنے اخراجات کو پورا کرنے کی روش پر گامزن ہے۔

بین الاقوامی اداروں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی بینک،یوروبانڈز، سعودی عربیہ اور اندرونی بینکوں سے اربوں ڈالرز حاصل کرتے وقت یہ جواز پیدا کیا گیا کہ ان اربوں ڈالرز سے افراط زر کا خاتمہ کرکے معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرینگے، ملک میں عوام کو لاحق معاشی بد حالی کو فوری ختم کرنے کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا، عوام کو بیروزگاری، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ سے فوری نجات دلائی جائے گی مگر یہ تمام وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، خدا جانے وہ اربوں ڈالرز کہاں گئے، انھیں کس مقصد کے لیے استعمال کیا جارہاہے، کچھ پتا نہیں، مہنگائی ہے کہ دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے، عوام غربت اور افلاس کی دبیز چادر میں لپٹے جارہے ہیں۔

اقتصادی امور سے منسلک وفاقی وزیر صاحب اور ان کی ٹیم عوام سے متعلق اس حساس ترین معاملے پر انگریزی زبان کے مشکل ترین لفظوں پر مبنی اقتصادی زبان میں Inflation کم ہوجانے Debt Servicing اور Physical Deficit کم ہونے PSDPکو بڑھانے اور Foreign Exchange کے اضافے اور ڈالر کو Consolidated رکھنے کے وعدے کرکے اپنی بجٹ تقریر ختم کرنے کو ہی اپنی کامیابی سمجھے بیٹھے ہیں، وہ قوم کو یہ بتانے پر تیار نہیں کہ بجٹ میں بیان کیے ہوئے اعداد و شمار سے پاکستانی قوم کو اگلے سال کس قسم کے فوائد حاصل ہوںگے، بجلی کی قیمت کو کیسے کم کیا جائے گا؟ اس کی مستقل ترسیل کو کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ ہر مہینے بڑھنے والی اشیا خورونوش کی قیمتوں کو کیسے کم نہ سہی بڑھنے سے روکا جائے گا؟

اس سال 2800 ارب روپے ٹیکس کی شکل میں عوام سے وصول کرنے کے عوض انھیں کس قسم کی سہولیات میسر ہوںگی۔ پٹرول اور ڈیزل پر کتنی سبسڈی دے کر عوام کو ارزاں سفری سہولت مہیا کی جائیںگی، زمینداروں، کارخانہ داروں پر ان کے وسائل کے اور آمدنی کے مطابق کتنا ٹیکس وصول کیا جائے گا، عام آدمی کو معیاری صحت اور سستی تعلیم کے حصول کو کس طرح ممکن بنایا جائے گا؟ عام آدمی کے لیے گھر کے حصول کو کس طرح ممکن بنایا جائے گا۔

یہ سوالات ہیں جو پاکستان کی غربت و افلاس کے چنگل میں پسی ہوئی عوام اپنے ذہنوں میں لیے بیٹھے ہیں مگر افسوس پچھلے 66 سالوں سے تمام پاکستانی حکمران ان سوالوں کے جواب دینے سے گریزاں ہیں اور شاید ان سوالوں کے جواب کبھی نہ مل پائیں چوں کہ اشرافیہ طبقات پر مشتمل حکمران طبقہ کسی کو بھی جواب دہ ہونا گوارہ نہیں کرتے وہ صرف حکم چلاتے ہیں اور عوام سے صرف فرماں برداری کی متمنی ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں