قومی کھیل اور قومی کردار

1986 میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا کہ وعدے کے مطابق اعلان کیے گئے انعامات تمام کھلاڑیوں کو نہ مل سکے ....


Dr Naveed Iqbal Ansari June 07, 2014
[email protected]

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جناب دور حاضر کے ''آزاد میڈیا'' کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ عموماً ایک آدھ خبر اصل عوامی ایشوز پر بھی مل جاتی ہے، ان کا یہ طنز اپنی جگہ وزن رکھتا ہے، بہر کیف ہمیں ان کا یہ طنز چند روز قبل بھرپور طریقے سے یاد آیا کہ جب ہماری نظر اخبار میں ایک ایسی اسٹوری (خبر) پر پڑی جو واقعی اس ملک کا ایک اہم ایشو بھی ہے اور ہماری قوم کے ہمدرد رہنمائوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔

یہ خبر پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کے کھلاڑیوں سے متعلق ہے، خبر کے مطابق 20 سال گزر گئے، ہاکی ورلڈ کپ 1994 کی فاتح ٹیم کو انعامات نہ مل سکے، فاتح ٹیم کی وطن واپسی پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کھلاڑیوں کو پرکشش انعامات دینے کا وعدہ کیا تھا، 1995 اوائل میں اس وقت کے وزیراعلیٰ میاں منظور احمد وٹو نے قومی ہاکی ٹیم کو وزیراعلیٰ ہائوس مدعو کیا تھا اور ایک پر وقار تقریب میں ان کے لیے ملتان روڈ لاہور کے قریب ایک ایک کنال کے پلاٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔

1986 میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا کہ وعدے کے مطابق اعلان کیے گئے انعامات تمام کھلاڑیوں کو نہ مل سکے جس پر قومی ٹیم کے عظیم اور نامور کھلاڑیوں نے احتجاجاً پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ ان نامور کھلاڑیوں میں حسن سردار اور رشیدالحسن جیسے عالمی شہرت یافتہ ہاکی کے کھلاڑی بھی شامل تھے، یہ کس قدر افسوس ناک اور شرم ناک پہلو ہے کہ 1994 میں شہباز سینئر عالمی ہاکی کپ لے کر وطن پہنچتے ہیں اور ان کی شان میں (اپنی شان بڑھانے کے لیے حکومتی ذمے دار) انعامات دینے کا اعلان بھی کرتے ہیں اور پھر یہ کھلاڑی ان انعامات کے لیے ایسے کوشش کرتے سرگرداں پھرتے ہیں جیسے کوئی بیوہ اپنی پنشن کے حصول کے لیے سرکاری دفاتر کے چکر لگاتی ہو۔

بات صرف اتنی نہیں ہے کہ کھلاڑیوں کو انعامات نہیں ملے بلکہ بات قومی غیرت اور ہمارے سیاسی رہنمائوں کی بے حسی کی ہے جو اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر قوم کے ہیروز کے ساتھ بھی مذاق کرتے ہیں کہ عوام کے دلوں سے وطن کی مٹی کی محبت بی ختم ہوجائے۔

قومی کھیل کے ساتھ ایسا رویہ کیوں؟ حالانکہ ہاکی کی تاریخ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی وہ کارکردگی ہے کہ جس کے بغیر ہاکی کی تاریخ کبھی مکمل ہی نہیں ہوسکتی، وہ تو گوروں نے جدید ٹیکنالوجی کا بہانہ بناکر کھیل کے میدان میں آسٹرو ٹرف متعارف کراکے اس کھیل کے میدان کو اپنے حق میں کرلیا ورنہ تو گھاس کے میدان پر فتح حاصل کرنا ان کا خواب ہی رہتا۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہاکی یا فٹ بال کے مقابلے میں کرکٹ حکومتوں کی ترجیحات میں کیوں رہتا ہے اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کو اس قدر پیسہ کیوں ملتاہے؟ 12 جون سے پوری دنیا کے کروڑوں شائقین فیفا کے عالمی فٹ بال کپ کے مقابلے دیکھیں گے لیکن پاکستان کی فٹبال ٹیم انھیں ان مقابلوں میں نظر نہیں آئیگی ۔ کیوں؟ کیا پاکستان فٹ بال میں اتنا یتیم ہے ، قحط الرجال ہے، جی نہیں ۔ اسپورٹس کے تنگ نظر مسیحائوں، بیوروکریٹس اور سیاسی پنڈتوں نے کھیلوں کی اپنی مفاد پرستانہ ترجیحات مرتب کی ہیں اور کھیلوں کا بیڑا غرق کردیا ہے۔

بظاہر اس کی مزید دو وجوہات سامنے نظر آتی ہیں۔ (1) یہ کہ کرکٹ کھیل چوں کہ طویل زیادہ ہوتا ہے یعنی پورے پورے دن اور اگر ٹیسٹ کرکٹ ہو تو پھر پورا ہفتہ ہی اس کی نذر ہوجاتاہے، چنانچہ میڈیا پر اس کو وقت بھی زیادہ ملتاہے۔ (2) یہ کہ چونکہ یہ میڈیا پر زیادہ وقت چھایا رہتا ہے لہٰذا اسپانسر بھی اس کھیل کو زیادہ مل جاتے ہیں، ظاہر ہے کہ ایسی سپورٹ اس کھیل کے کھیلنے والوں کو بھی مالی طور پر فائدہ پہنچاتی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کرکٹ کا ایڈونٹیج نہیں مگر ہم اپنے قومی کھیل کو سرکاری سطح پر پروموٹ کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہمارے حکمران اس کے مجرم نہیں؟ ایک جانب روپے پیسے کی ایسی بارش کہ ایک چھکے پر کھلاڑی لکھ پتی، کروڑ پتی بن جائے دوسری جانب قومی کھیل کے کھلاڑی ورلڈ کپ جیتنے کے بعد وعدے کے مطابق محض ایک کنال کا پلاٹ بھی نہ دیا جائے۔

ہمارے حکمرانوں کو شاید قوم کے نام سے ہی چڑ ہے یا بقول سینیٹر عبدالحسیب خان کہ ہماری پارلیمنٹ میں پاکستانی کم اور غیر ملکی زیادہ ہیں یعنی وہ لوگ ایوانوں میں بیٹھے ہیں جن کے مفادات اس ملک سے وابستہ نہیں، جن کی شہریت، کاروبار، بینک بیلنس سب غیر ملکی سرحدوں میں محفوظ ہیں، اسی لیے ہر وہ کام جو اس ملک کے عوام کی بھلائی سے وابستہ ہو، سرخ فیتے کی نذر ہوجاتاہے، غور کیجیے قومی کھیل ہاکی کی طرح قومی زبان اردو کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

کیا اردو زبان کا سرکاری سطح پر نفاذ نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی؟ لیکن آئین کی اس خلاف ورزی پر کوئی ہمدرد اسلام و پاکستان دھرنا نہیں دیتا نہ ہی کوئی تحریک چلاتا ہے کیوں کہ اگر قومی زبان اردو سرکاری سطح پر رائج ہوگئی تو پھر ایک غریب کسان اور مزدور کا بچہ بھی سی ایس ایس امتحان پاس کرکے ان حکومتی اداروں کا حصہ بنتا ہے جہاں انگریزی ڈرافٹ میں عوام کے خلاف پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔

غریب عوام کو ایسے اداروں سے دور رکھنے کا بہترین اور کامیاب طریقہ یہی ہے کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دیاجائے ورنہ کل اس ملک کے اختیارات میں حصہ حاصل کرلیںگے۔ حال ہی میں ایک عدالتی فیصلے میں جسٹس کے یہ ریمارکس (ایک بار پھر) سننے کو ملے کہ عدالتی کارروائی کے فیصلے اردو میں تحریر کیے جائیں کیوں کہ عوام کی اکثریت انگریزی سے نابلد ہے اسے علم ہونا چاہیے کہ کیا فیصلے تحریر ہورہے ہیں۔ اس ملک میں کیا عجب تماشا لگا ہوا ہے کہ ایک چپڑاسی کو بھی تقرری اور تنزلی نیز ترقی کا خط بھی انگریزی میں جاری کیا جاتاہے اور وہ بے چارا چپڑاسی اپنا خط ہاتھ میں لیے لوگوں کی منتیں کرتا نظر آتا ہے کہ کوئی اسے بتادے کہ اس میں کیا لکھا ہے؟

قومی زبان سے ایک چھوٹا سا دلچسپ واقعہ یاد آیا کہ ایک مرتبہ ڈاکٹر کے پاس ایک مریض اپنا چیک اپ کرارہا تھا، ڈاکٹر نے پوچھا ''آپ کو صبح سے کوئی ''وو میٹنگ'' تو نہیں ہوئی؟ مریض نے حیرت سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور نفی میں سر ہلادیا۔ میں قریب ہی بیٹھا تھا اور محسوس کر رہا تھا کہ اس کی سمجھ میں بات نہیں آئی لہٰذا میں نے لقمہ دیتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر صاحب پوچھ رہے ہیں کہ تمہیں صبح سے کوئی الٹی تو نہیں ہوئی؟ اس پر اس مریض نے فوراً کہا جی ڈاکٹر صاحب تین الٹیاں ہوچکی ہیں۔ جب بھی کچھ کھاتاہوں ''الٹی'' ہوجاتی ہے۔

بس جناب! ہماری قوم کا بھی یہی مرض ہے کہ ہماری حاکموں کو یہی نہیں پتہ کہ قوم کو کیا بیماری ہے اس کی حالت کیا ہے، بھلا جس حاکم کو یہ ہی نہ پتہ ہو کہ مرض کیا ہے تو وہ اس کا علاج کیا کرے گا؟ بس یہی ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے باعث نہ تو خواہش کے باوجود اس قوم کی تقدیر بدلی جارہی ہے نہ ہی قومی زبان و قومی کھیل کا تقدس بحال ہورہا ہے، فٹ بال جیسے کھیل کو ترجیح دینا تو دور کی بات ہے حالاں کہ اس میں بھی کوئی مشکل نہیں تھی صرف کراچی کے علاقے لیاری میں ہی فٹ بال کی سرپرستی کی جاتی اور فٹ بال کے میدان بنادیے جاتے تو وہاں سے عالمی سطح کے فٹ بالر پیدا ہوتے، نہ بے روزگاری ہوتی نہ ہی گینگ وار کے کارندے پیدا ہوتے۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم غور و فکر کرلیں اور قوم اور قومی معاملات کا احساس کرلیں اور اپنا اپنا کردار ادا کرلیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔