معاشی افق پر غیر یقینی صورتحال

عام انتخابات کے بعد عوام کی امیدوں کے برعکس مہنگائی کا نیا طوفان دستک دینے لگا ہے


Editorial February 16, 2024
عام انتخابات کے بعد عوام کی امیدوں کے برعکس مہنگائی کا نیا طوفان دستک دینے لگا ہے۔ فوٹو: فائل

نگران وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پر صارفین سے 242 ارب روپے حاصل کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں65 فی صد تک اضافہ کرنے کی اصولی منظوری دے دی، صارفین کے لیے گیس کی قیمت میں ایک سو روپے فی ایم ایم بی ٹی یو، نان پروٹیکیڈ صارفین کے لیے تین سو روپے فی ایم ایم بی ٹی یو، بلک میں گیس استعمال کرنے والوں کے لیے نو سو روپے فی ایم ایم بی ٹو یوکا اضافہ متوقع ہے۔

سی این جی سیکٹر کے لیے فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت میں ایک سو ستر روپے کا اضافہ ہوگا، جب کہ کھاد کے کارخانوں کے لیے بھی گیس کا ریٹ معمولی بڑھایا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی قرض دینے کی شرائط کا نتیجہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے حکومت کو توانائی کی سبسڈی ختم کرنا پڑی ہے۔ گیس مہنگی ہونے کے باوجود سردیوں میں گیس کی دستیابی کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور پائپ گیس کے کنکشن کے باوجود عوام ایل پی جی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

عام انتخابات کے بعد عوام کی امیدوں کے برعکس مہنگائی کا نیا طوفان دستک دینے لگا ہے، جب کہ معاشی مشکلات میں بھی مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ نئی حکومت آنے سے قبل نگران حکومت جاتے جاتے گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔

سولہ فروری سے پٹرول کی قیمت ممکنہ طور پر موجود سطح پر برقرار رکھی جائے گی، تاہم پٹرولیم مصنوعات مہنگی کی جا سکتی ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں روز بروز اضافے نے سفید پوش طبقے کی کمر توڑ دی ہے، لوگوں کی قوت خرید میں زبردست کمی آنے کی وجہ سے کاروبار نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ملک کو زیادہ خطرہ اندرونی مسائل سے ہے، جن میں کمزور ہوتی ہوئی معیشت اور دہشت گردی کے بڑھتے واقعات ہیں، جو نئی حکومت آتی ہے اس کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے، اب پاکستان کی معیشت مستحکم ہوگئی ہے، اب ہم نے مہنگائی پر کنٹرول شروع کردیا ہے لیکن عملی طور پر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ معیشت سنبھالنے کے جو بھی اقدامات اٹھائے گئے اس سے عوام پر معاشی بوجھ میں اضافہ ہوا، مگر آئی ایم ایف نے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور عوام پر پڑنے والے اضافی بوجھ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پاکستان کو معیشت کی بحالی کے سخت ترین معاشی پروگرام پر عملدرآمد کے لیے مجبور کیا۔

گندم کا آٹا، گوشت اور چاول جیسی ضروری اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کئی بار دگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے دور رس نتائج برآمد ہوئے ہیں، اگرچہ اس اضافے میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں لیکن بالآخر اس کا خمیازہ عام آدمی کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ضروری ہے کہ حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے اور جو لوگ اس اضافے سے متاثر ہوئے ہیں ان کو ریلیف فراہم کرے۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ بہت سے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہے۔ اگرچہ حکومت کے ایندھن پر ٹیکس بڑھانے کے فیصلے کی جائز وجوہات ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ شہریوں اور کاروبار پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر قسطوں کا کاروبار کرنے والوں پر پڑا ہے، کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے دکانوں کا کرایہ، بجلی اور فون کے بلز اور ملازمین کی تنخواہیں نہیں دی جا رہیں، بہت سے دکانوں نے اپنا اسٹاف آدھا کردیا ہے جس سے بیروزگاری نے سر اٹھا لیا ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تعلیم کا حصول بھی مشکل ہونے لگا ہے، ایک سال کے دوران کاغذ اور اسٹیشنری کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا، کاپیاں اور کتابیں مہنگی ہوئیں تو اب اسٹیشنری کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے، کسی چیز کی قیمت 100 فیصد تو کسی کی پچاس فیصد بڑھا دی گئی ہے، جس سے قیمتیں گزشتہ سال سے ڈبل ہوگئی ہیں۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور ٹرانسپورٹ کا گڑھ بھی ہے۔ صنعت کاروں نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت گیس کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے کو واپس نہیں لیتی تو وہ پیداوار مکمل طور پر بند کر دیں گے۔

نگران حکومت نے پٹرول کے نرخ بڑھائے تو غریب پس گیا، امیر کو کوئی فرق نہیں پڑا، مہنگائی آسمان کو چھونے لگی، ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے بلوں میں ٹیکس لگتا ہے۔ آج پاکستان کا بچہ بچہ قرض کے بوجھ تلے دب چکا ہے، بلکہ آنے والی نسلیں بھی قرض میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

ڈالرز کی کمی کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں کا توازن منفی ہونے، روپے کی قدر کو مستحکم نہ رکھ پانے اور بنیادی شرح سود کو موجودہ صدی کی بلند ترین سطح پر لے جانے کی وجہ سے معیشت میں عدم استحکام رہا اور نگران حکومت کڑی تنقید کی زد میں رہی۔ افراطِ زر میں تیزی سے اضافے سے ملکی معیشت کا ہر شعبہ، صنعت، تجارت اور خدمات سب متاثر ہوئے اور معاشی ترقی کی شرح یعنی مقامی پیداوار (جی ڈی پی) منفی زون میں چلی گئی۔

آئی ایم ایف کا اسٹینڈ بائی پروگرام تین اقساط پر مشتمل ہے ، تیسری قسط انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو ملے گی مگر ملکی معیشت اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ پاکستان کو ایک طویل مدتی اور زیادہ گہرے اصلاحات کے منصوبے کے ساتھ آئی ایم ایف سے قرض کا پروگرام بھی لینا ہوگا۔ آئی ایم ایف پاکستان کو 23 سے زائد پروگرام دے چکا ہے اور اس کے باوجود پاکستانی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکی ہے۔

اس لیے اب آئی ایم ایف پاکستان کو معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کی سفارش پر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا تو آئی ایم ایف نے شرائط پوری ہونے کے بعد مزید شرائط عائد کردی ہیں۔ عالمی فنڈ نے سرکاری کاروباری اداروں جیسا کہ پی آئی اے اسٹیل ملز اور دیگر کی نجکاری، رئیل اسٹیٹ اور زراعت پر ٹیکس عائد کرنے اور دیگر اصلاحات کرنے کی شرط بھی عائد کردی ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر صنعتیں ایسی ہیں جو مقامی خام مال کے بجائے درآمدی خام مال پر کام کرتی ہیں۔ ان میں آٹو موبائیل، کیمیکلز، ادویات سازی، پیٹرولیم، فولاد سازی اور ٹیکسٹائل کی صنعت شامل ہیں۔ سابقہ حکومت کے دور میں زرِمبادلہ کی قلت کی وجہ سے ایل سیز کھولنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

اس عمل نے درآمدی خام مال پر کام کرنے والی صنعتوں کو بری طرح متاثرکیا اور انھوں نے اپنے پیداواری یونٹس کو عارضی طور پر بند کیا جس سے صنعتی ترقی متاثر ہوئی۔ اشیا خورونوش اور خدمات کی نقل و حمل، درآمدات جن پر پیداواری شعبہ انحصار کرتا ہے اور کھانا پکانے کا تیل اور چائے جیسی ضروریات ڈالر کی قدر سے براہ راست متاثر ہوتی ہیں۔

پاکستان کی بہت سی باہر بھجوائی جانے والی مصنوعات میں باہر سے درآمد کیے جانے والے خام مال کا استعمال ہوتا ہے اور اس وجہ سے روپے کی قدر میں محض 1 فیصد کمی کا اثر بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

قرضوں، تجارتی خسارے اور افراط زر کے اردگرد مرکوز رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ادائیگیوں کے توازن کا جو بحران دکھائی دے رہا ہے وہ دراصل حکمرانی کا بحران ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ہنر مند، صحت مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت تیار کرنے میں درکار سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کے بجائے انھوں نے طاقتور گروہوں کی حمایت جاری رکھی، اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ٹیکس دہندگان کے ایما پر مشکوک لابیاں پھلتی پھولتی رہیں۔

موجودہ بحرانوں کا تریاق سب کو معلوم ہے، ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا جوکہ جی ڈی پی کے 15 فیصد حصے سے بھی کم ہو چکی ہے اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کو خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری پر توجہ دینا ہو گی جن کی وجہ سے ہر سال 1 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ جھیلنا پڑتا ہے۔

اشرافیہ سے وصولی اور عوام پر خرچ کرکے محرومیوں میں کمی لائی جا سکتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کی وصولی پر کلیتاً انحصار نہ کیا جائے بلکہ براہ راست ٹیکس لگانے کی ضرورت ہے۔

ٹیکس اصلاحات میں تاخیر نہ کی جائے حکومت کی کم آمدنی والے طبقے کو مراعات اور سہولیات صرف اس تک محدود نہیں کر پارہی ہے بلکہ ان مراعات سے اشرافیہ بھی مستفید ہو رہی ہے ان مسائل نے سماج میں عدم توازن کی کیفیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے، چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ محصولات کے نظام کی اصلاح کی جائے اور حقدار طبقہ ہی کو سبسڈی ملنی چاہیے محصولات کے نظام میں اصلاح اور معقول اصلاحات ہی ڈوبتی معیشت کی نیا پار لگانے کا نسخہ کار گر ہے جسے اپنانے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔

نئی آنے والی اتحادی حکومت کو سب سے پہلے میثاق معیشت کے لیے پیشرفت کرنی چاہیے، مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے معیشت کو پاؤں پرکھڑا کرنا ہوگا، سیاسی جماعتیں اس وقت اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک و قوم کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔