کندن لال سہگل برصغیر کا پہلا سپر اسٹار دوسرا حصہ
لتا بچپن ہی سے سہگل کی دیوانی تھیں وہ کہا کرتی تھیں ’’جب میں بڑی ہو جاؤں گی تو سہگل جی سے شادی کروں گی۔‘‘
ریڈیو سیلون سے صبح 7 بج کر 57 منٹ پر روزانہ سہگل کا ایک گیت بجتا تھا، برسوں یہ سلسلہ جاری رہا۔ رفیع، مکیش اور اشوک کمار سہگل کے بہت بڑے مداح تھے، لوگ سہگل کی کاپی کیا کرتے تھے، ان میں مکیش اور سی ایچ آتما سر فہرست تھے، خاص کر مکیش نے سہگل کی کاپی اس طرح کی کہ مدتوں لوگ ان کے ''پہلی نظر'' کے گیت:
دل جلتا ہے تو جلنے دے
آنسو نہ بہا فریاد نہ کر
بہت مقبول ہوا، اس کی موسیقی نوشاد صاحب نے دی تھی۔ سہگل نے خوش ہو کر اپنا ہارمونیم تحفے میں مکیش کو دے دیا۔ فلم ''پہلی نظر '' کے علاوہ فلم ''شاہ جہاں'' کی موسیقی بھی نوشاد صاحب نے دی تھی، یہ فلم بھی بہت مقبول ہوئی، خاص کر اپنے گیتوں کی وجہ سے جنھیں سہگل نے گایا تھا اور ایکٹنگ بھی کی تھی، یہ فلم 1946 میں بنی تھی:
غم دیے مستقل اتنا نازک ہے دل
یہ نہ جانا ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
دل کے ہاتھوں سے دامن چھڑا کر
غم کی نظروں سے نظریں بچا کر
اٹھ کے وہ چل دیے کہتے ہی رہ گئے ہم فسانہ
ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
اور یہ گیت تو سہگل کا ماسٹر پیس تھا، جو آج تک بھی موسیقی کے متوالوں کے دلوں میں گونجتا ہے۔ میں اکثر اس گیت کو تنہائی میں سنتی ہوں، میرے والد کو بھی سہگل کی گائیکی بہت پسند تھی، وہ ہمیشہ رات کو سہگل کے گیت سنتے تھے اور سنتے سنتے سو جاتے تھے، بعد میں والدہ ریڈیو گرام بند کرتی تھیں۔
جب دل ہی ٹوٹ گیا
ہم جی کے کیا کریں گے
الفت کا دیا ہم نے اس دل میں جلایا تھا
امید کے پھولوں سے اس گھر کو سجایا تھا
ایک بھیدی لوٹ گیا
ہم جی کے کیا کریں گے
معلوم نہ تھا اتنی مشکل میں میری راہیں
ارماں کے بہے آنسو حسرت نے بھری آہیں
ہر ساتھی چھوٹ گیا
ہم جی کے کیا کریں گے
جب دل ہی ٹوٹ گیا
پہلے ہر گانا تین منٹ کا ہوتا تھا، لیکن تین منٹ میں سروں کا رچاؤ، ہارمونیم کی آمیزش دیگر سازوں کی سنگت اور مدھر آوازوں کے سنگم سے ایسا سماں بندھتا تھا کہ انسان اس نغمے کی فضا میں کھو جاتا تھا، آج بھی سہگل، امیربائی کرناٹکی، زیرہ بائی انبالے والی، پنکج ملک، کملا جھریا، شمشاد بیگم، سی ایچ آتما کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔ یہ سدابہار گلوکار آج بھی اپنی آواز میں زندہ ہیں اور جب تک موسیقی زندہ رہے گی سہگل بھی زندہ رہے گا۔ ایک اور بات بتاؤں وہ یہ کہ فلم ''شاہ جہاں'' میں ایک کورس ہے۔
مست امنگیں لہرائی ہیں
بادل آیا جھوم جھوم کے
بہت مدھر اور دلکش سنگیت سے بھرپور کورس ہے۔ اس میں جب کورس شروع ہوتا ہے تو ایک گلوکارہ گا رہی ہے، شاہ جہاں کا دربار ہے، کورس شروع ہوتے ہی بہت ساری لڑکیوں کے درمیان سے ایک رقاصہ ناچتی ہوئی سامنے آتی ہے اور پورے کورس میں وہ بار بار اکیلی دکھائی جاتی ہے۔
وہ ہے میڈم آزوری، جو تقسیم کے بعد ایک فوجی جوان سے شادی کرکے کراچی آگئی تھیں، یہ لکس صابن کی سب سے پہلی ماڈل تھیں، بہت اچھی رقاصہ تھیں، ماڑی پور میں رہا کرتی تھیں، شوہر کے انتقال کے بعد نرسری پہ واقع قائدین اسکول میں بچوں کو ٹیبلو سکھاتی تھیں۔
ہمارا گھر وہیں قریب ہل پارک کے پاس تھا، میرے والد میڈم آزوری سے انڈیا سے واقف تھے اور ان کا ملنا جلنا تھا، جب انھیں میری بھتیجی افروز نے جو اس اسکول میں پڑھتی تھی میڈم آزوری کے بارے میں بتایا تو والد خود ملنے گئے اور انھیں گھر پر بلایا۔ وہ اکثر ہمارے گھر آتی تھیں، بہت سادہ مزاج کی حامل تھیں، غرور نام کو نہ تھا۔ فلم شاہ جہاں میں ممتاز محل کا کردار آہو چشم راگنی نے ادا کیا تھا۔ ''شاہ جہاں'' کے سبھی گیت بہت مقبول ہوئے جیسے یہ گیت:
روحی، روحی، روحی، میرے سپنوں کی رانی
آنکھیں امیدوں کے خزانے جو الفت کے پیمانے ہیں
سہگل کی مشہور فلموں میں شاہ جہاں، مائی سسٹر، دیوداس، مرزا غالب، تان سین، روپ لیکھا، کاروان حیات اور یہودی کی لڑکی سرفہرست ہیں۔ فلم ''مائی سسٹر'' کا یہ گیت بھی ان کے مقبول عام گیتوں میں سے ہے فلم مائی سسٹر 1944 میں بنی تھی۔
اے کاتب تقدیر مجھے اتنا بتا دے
کیوں مجھ سے خفا ہے تو کیا میں نے کیا ہے
اوروں کو خوشی مجھ کو فقط درد رنج و غم
دنیا کو ہنسی اور مجھے رونا دیا ہے
حصے میں سب کے آئی ہیں رنگین بہاریں
بدبختیاں لیکن مجھے شیشے میں اتاریں
پیتے ہیں روز، روز و شب مسرتوں کی میں
میں ہوں کہ سدا خون جگر میں نے پیا ہے
تھا جن کے دم قدم سے یہ آباد آشیاں
وہ چہچہاتی بلبلیں جانے گئی کہاں
جگنو کی چمک ہے نہ ستاروں کی روشنی
اس گھپ اندھیرے میں ہے میری جان پر بنی
کیا تھی خطا کہ جس کی سزا تو نے مجھ کو دی
کیا تھا گناہ کہ جس کا بدلہ مجھ سے لیا ہے
لتا بچپن ہی سے سہگل کی دیوانی تھیں وہ کہا کرتی تھیں ''جب میں بڑی ہو جاؤں گی تو سہگل جی سے شادی کروں گی۔'' انھیں سہگل کی فلم ''چنڈی داس'' بہت پسند تھی۔
تب ان کے والد کہتے کہ ''جب تم شادی کے قابل ہوگی تو اس وقت پہلے سے سہگل صاحب شادی شدہ ہوں گے اور شادی کی عمر پار کر چکے ہوں گے۔'' لیکن لتا کی ملاقات کبھی کے ایل سہگل سے نہ ہو سکی جس کا انھیں ہمیشہ بہت افسوس رہا۔ سہگل کو خدا نے ایسا گلا دیا تھا کہ جو ان کے گیت سنتا تھا ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ آج بھی جب ان کا کوئی بھی گیت سنیے وہی سحر طاری ہو جاتا ہے۔ ان کی آواز زماں و مکاں سے آزاد تھی۔
(جاری ہے)