انتخابات 2024
سیاست جو کبھی عبادت اور خدمت کا درجہ رکھتی تھی اب تجارت بن چکی ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے
2024 الیکشن کا سال ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں عام انتخابات کا سلسلہ جاری ہے جو مئی 2024 میں اختتام پذیر ہوگا۔
بھارت کیونکہ رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے اس لیے وہاں الیکشن کے انعقاد کے لیے طویل عرصہ درکار ہے جب کہ وطن عزیز میں ایسا نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھارت کے آئین کے تحت عام انتخابات کا ایک مقررہ مدت کے بعد ہونا طے بات ہے۔
عام انتخابات جمہوریت کے لیے آکسیجن کی طرح ناگزیر ہیں کیونکہ عوام کے مینڈیٹ کے بغیر جمہوریت کا زندہ رہنا محال ہے۔ جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت کے لیے مساوی مواقعے مہیا کیے جائیں، لیکن بوجہ وطن ِ عزیز میں ایسا نہیں ہوسکا۔ وطن ِ عزیز میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک طویل عرصے سے چرچے ہورہے تھے لیکن کیونکہ اِس سلسلے میں کسی حتمی تاریخ کا تعین نہیں ہوسکا ، اس لیے افواہوں کا سلسلہ جاری تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
کوئی کچھ کہتا تھا اور کوئی کچھ غرضیکہ جتنے منہ اُتنی باتیں۔ بالآخر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ فیصلہ دیا کہ عام انتخابات 8 فروری کو منعقد ہوں گے اور اِس معاملہ میں کسی حیلہ بہانے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔
الحمدللہ عام انتخابات معینہ تاریخ کو ہی ہوئے۔انتخابات کے انعقاد سے پہلے یہ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ خدانخواستہ نقص امن کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ متعلقہ اداروں کے معقول انتظامات کی وجہ سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔
حالیہ انتخابات کے اعلان اور حتمی تاریخ کے درمیان بہت کم وقفہ تھا لیکن اِس کے باوجود رائے دہندگان نے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں نہ صرف نوجوانوں کی خاصی بڑی تعداد شامل تھی بلکہ خواتین سمیت بزرگ شہریوں نے بھی گہری دلچسپی کا اظہار کیا جس میں ایسے بزرگ شہری بھی شامل تھے جو ویل چیئر پر آئے تھے۔
انتخابات میں ووٹرز کی غیر معمولی دلچسپی سے صاف ظاہر ہوگیا کہ شہریوں کا شعور بہت بیدار ہوچکا ہے اور وطن عزیز کی بقا، سلامتی اور ترقی اُنہیں تہہ دل سے عزیز ہے اور اُنہیں قومی مسائل اور اُن کے حل کی بہت فکر ہے۔
حالیہ انتخابات میں میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا نے کلیدی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے انتخابی عمل میں شریک کسی بھی فرد یا فریق کے لیے یہ ممکن نہیں ہوسکا کہ جھوٹ، فریب یا چالبازی کے ذریعے عوام الناس کو گمراہ کرسکے یا اُن کی آنکھوں میں دھول جھونک سکے۔
ماضی میں سرکاری اجارہ داری کی وجہ سے غلط پروپیگنڈے کے بل پر حقائق کو چھپانا آسان تھا لیکن اب سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے اِس کے امکانات کو بالکل ختم کردیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اُسے لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں کیونکہ سرکاری ذرائع ابلاغ کے مقابلے میں نجی شعبے میں بہت سے چینلز موجود ہیں اور اُن سب میں بھی بڑی زوردار مسابقت موجود ہے تو کسی ہیرا پھیری کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ نتیجہ اِس کا یہ ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی۔
زیادہ وقت نہیں گزرا کہ جب ٹی وی چینلز کے اینکر پرسنز اپنی پسند کے لوگوں کی تحسین کے ذریعے عوام الناس کو اپنی پسندیدہ شخصیت یا شخصیتوں کی جانب راغب کرسکتے تھے یا اپنے ناپسندیدہ لوگوں کی شخصیات کو مسخ کرسکتے تھے مگر اب یہ بھی ممکن نہیں رہا۔باالفاظ دیگر موجودہ دور شفافیت کا دور ہے۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔ کوئی عجب نہیں کہ ایکسرے اور الٹراساؤنڈ کی ایجادات کے بعد وہ دور بھی آجائے کہ جب سائنس اور ٹیکنالوجی کوئی ایسا آلہ بھی ایجاد کرلے جب انسان کے دل و دماغ میں چھپی ہوئی بات باآسانی نظر آسکے۔
سیاست جو کبھی عبادت اور خدمت کا درجہ رکھتی تھی اب تجارت بن چکی ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوستی اور موقع پرستی بکاؤ مال ہوچکی ہے۔ سیاست کی منڈی میں بھاؤ تاؤ کا چلن ہے اور قول و فعل کا تضاد سکہ رائج الوقت ہے۔ جھوٹے وعدے کرنا اور پل بھر میں اُن سے مکر جانا سیاستدانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
لوگ اقرارِ وفا کرکے بھلا دیتے ہیں
یہ نہیں کوئی نئی بات چلو سو جائیں
انتخابات کے انتظامات کے لیے خطیر رقم درکار تھی جو حکومت کی مالی مشکلات کے باوجود مہیا کردی گئی۔ وطن عزیز کے سیاسی اور مالی بحران کے خاتمے کے لیے انتخابات کا آزادانہ، غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف انعقاد لازمی تھا جس کے لیے الیکشن کمیشن کو تمام ہدایات جاری کردی گئی تھیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اِس سلسلے میں فول پروف انتظامات کر لیے گئے ہیں لیکن جو کچھ ہوا وہ اظہر من الشمس ہے جس پر کوئی تبصرہ کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی گنجائش۔
بھارت کیونکہ رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے اس لیے وہاں الیکشن کے انعقاد کے لیے طویل عرصہ درکار ہے جب کہ وطن عزیز میں ایسا نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھارت کے آئین کے تحت عام انتخابات کا ایک مقررہ مدت کے بعد ہونا طے بات ہے۔
عام انتخابات جمہوریت کے لیے آکسیجن کی طرح ناگزیر ہیں کیونکہ عوام کے مینڈیٹ کے بغیر جمہوریت کا زندہ رہنا محال ہے۔ جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت کے لیے مساوی مواقعے مہیا کیے جائیں، لیکن بوجہ وطن ِ عزیز میں ایسا نہیں ہوسکا۔ وطن ِ عزیز میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک طویل عرصے سے چرچے ہورہے تھے لیکن کیونکہ اِس سلسلے میں کسی حتمی تاریخ کا تعین نہیں ہوسکا ، اس لیے افواہوں کا سلسلہ جاری تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
کوئی کچھ کہتا تھا اور کوئی کچھ غرضیکہ جتنے منہ اُتنی باتیں۔ بالآخر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ فیصلہ دیا کہ عام انتخابات 8 فروری کو منعقد ہوں گے اور اِس معاملہ میں کسی حیلہ بہانے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔
الحمدللہ عام انتخابات معینہ تاریخ کو ہی ہوئے۔انتخابات کے انعقاد سے پہلے یہ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ خدانخواستہ نقص امن کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ متعلقہ اداروں کے معقول انتظامات کی وجہ سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔
حالیہ انتخابات کے اعلان اور حتمی تاریخ کے درمیان بہت کم وقفہ تھا لیکن اِس کے باوجود رائے دہندگان نے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں نہ صرف نوجوانوں کی خاصی بڑی تعداد شامل تھی بلکہ خواتین سمیت بزرگ شہریوں نے بھی گہری دلچسپی کا اظہار کیا جس میں ایسے بزرگ شہری بھی شامل تھے جو ویل چیئر پر آئے تھے۔
انتخابات میں ووٹرز کی غیر معمولی دلچسپی سے صاف ظاہر ہوگیا کہ شہریوں کا شعور بہت بیدار ہوچکا ہے اور وطن عزیز کی بقا، سلامتی اور ترقی اُنہیں تہہ دل سے عزیز ہے اور اُنہیں قومی مسائل اور اُن کے حل کی بہت فکر ہے۔
حالیہ انتخابات میں میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا نے کلیدی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے انتخابی عمل میں شریک کسی بھی فرد یا فریق کے لیے یہ ممکن نہیں ہوسکا کہ جھوٹ، فریب یا چالبازی کے ذریعے عوام الناس کو گمراہ کرسکے یا اُن کی آنکھوں میں دھول جھونک سکے۔
ماضی میں سرکاری اجارہ داری کی وجہ سے غلط پروپیگنڈے کے بل پر حقائق کو چھپانا آسان تھا لیکن اب سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے اِس کے امکانات کو بالکل ختم کردیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اُسے لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں کیونکہ سرکاری ذرائع ابلاغ کے مقابلے میں نجی شعبے میں بہت سے چینلز موجود ہیں اور اُن سب میں بھی بڑی زوردار مسابقت موجود ہے تو کسی ہیرا پھیری کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ نتیجہ اِس کا یہ ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی۔
زیادہ وقت نہیں گزرا کہ جب ٹی وی چینلز کے اینکر پرسنز اپنی پسند کے لوگوں کی تحسین کے ذریعے عوام الناس کو اپنی پسندیدہ شخصیت یا شخصیتوں کی جانب راغب کرسکتے تھے یا اپنے ناپسندیدہ لوگوں کی شخصیات کو مسخ کرسکتے تھے مگر اب یہ بھی ممکن نہیں رہا۔باالفاظ دیگر موجودہ دور شفافیت کا دور ہے۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔ کوئی عجب نہیں کہ ایکسرے اور الٹراساؤنڈ کی ایجادات کے بعد وہ دور بھی آجائے کہ جب سائنس اور ٹیکنالوجی کوئی ایسا آلہ بھی ایجاد کرلے جب انسان کے دل و دماغ میں چھپی ہوئی بات باآسانی نظر آسکے۔
سیاست جو کبھی عبادت اور خدمت کا درجہ رکھتی تھی اب تجارت بن چکی ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوستی اور موقع پرستی بکاؤ مال ہوچکی ہے۔ سیاست کی منڈی میں بھاؤ تاؤ کا چلن ہے اور قول و فعل کا تضاد سکہ رائج الوقت ہے۔ جھوٹے وعدے کرنا اور پل بھر میں اُن سے مکر جانا سیاستدانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
لوگ اقرارِ وفا کرکے بھلا دیتے ہیں
یہ نہیں کوئی نئی بات چلو سو جائیں
انتخابات کے انتظامات کے لیے خطیر رقم درکار تھی جو حکومت کی مالی مشکلات کے باوجود مہیا کردی گئی۔ وطن عزیز کے سیاسی اور مالی بحران کے خاتمے کے لیے انتخابات کا آزادانہ، غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف انعقاد لازمی تھا جس کے لیے الیکشن کمیشن کو تمام ہدایات جاری کردی گئی تھیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اِس سلسلے میں فول پروف انتظامات کر لیے گئے ہیں لیکن جو کچھ ہوا وہ اظہر من الشمس ہے جس پر کوئی تبصرہ کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی گنجائش۔