اخوّت کی جہاں گیری محبّت کی فراوانی

ایمان والے بھائی بھائی ہیں تواپنے دوبھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرادیا کرو اوراﷲ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیاجائے


’’بے شک! ایمان والے بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرا دیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ ۔ فوٹو : فائل

اخوت کے معنیٰ بھائی چارہ ، یگانگت اور برادری کے ہیں۔ اسلام میں تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں، چاہے وہ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں اور ان کا کسی بھی رنگ و نسل اور وطن سے تعلق ہو، جو کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو جاتا ہے وہ بہ حیثیت مسلمان ہمارا دینی بھائی ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان ایک پائیدار اور مستحکم رشتہ قائم کیا، جسے قرآن کریم نے ''رشتہ اخوت اسلامی'' کا نام دیا ہے۔ اس رشتہ کی عظمت و فضیلت، افادیت اور اہمیت کے حوالے سے قرآن مجید کی کئی آیات مقدسہ اور رسول اﷲ ﷺ کی بے شماراحادیث مبارکہ موجود ہیں۔

قرآن پاک میں اخوت اسلامی کا ذکر:

بعثت رسول ﷺ اور نزول قرآن کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بنی نوع انسان کو منظم کر دیا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی اور عداوت کرنے والوں کو پیار محبت اور اخوت و بھائی چارہ کے رنگ میں رنگ دیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے حضور رحمت دوعالم ﷺ نے اہل ایمان کے درمیان ''رشتہ اخوت'' قائم کیا۔ اس عظیم رشتے کی بنیاد اسلام اور اﷲ و رسول ﷺ کی محبت ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ''بے شک! ایمان والے (آپس میں) بھائی بھائی ہیں (اگر ان کے درمیان کچھ تنازع ہو جائے) تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح و صفائی کرا دیا کرو اور (ہر معاملہ میں) اﷲ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔'' (سورۃ الحجرات)

اﷲ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے اور اخوت اسلامی کے رشتہ کی موجودی میں رنگ، نسل، زبان، قومیت اور علاقوں کی بنیاد پر بننے والے باقی تمام رشتوں کی حیثیت ثانوی بل کہ ختم ہوجاتی ہے، جو مسلمان رشتہ اخوت پر دوسرے عارضی اور ناپائیدار رشتہ کو فوقیت دیتے ہیں وہ قرآن کے اس واضح اور صریح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

آیت مذکورہ میں دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے: ''اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دو'' اس سے معلوم ہُوا کہ دو مسلمانوں، افراد یا دو گروہوں میں اختلاف واقع ہو سکتا ہے، لیکن ان کے قریب جو تیسرا فرد یا گروہ ہے، اس کی ذمے داری ہے کہ ان لڑنے یا اختلاف کرنے والوں میں فوراً صلح کرا دے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کرے جو دو بھائیوں سے کیا جاتا ہے۔

آیت مبارکہ میں تیسرا حکم ہے: ''اور اﷲ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے'' اس میں تنبیہ کی گئی کہ اہل ایمان کے درمیان اگر اختلاف ہوجائے تو تمہاری ذمے داری ہے کہ ان کے درمیان اختلاف کی خلیج کو بڑھاؤ نہیں بل کہ کم کرنے کی کوشش کرو اور صلح کرانے میں کسی بھی فریق کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں ہونی چاہیے بل کہ ان سب کے ساتھ برابری اور خیر خواہی کا سلوک کیا جائے۔

امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ آپس میں بھائی بھائی ہیں اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں اور جس طرح ایک بھائی دوسرے بھائی کے کام آتا ہے، اس کے دکھ سکھ میں کام آتا ہے ، اسی طرح تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

غریب و محتاج مسلمان کی مالی امداد و اعانت بھی کرتے ہیں۔ اس کے دکھ سکھ اور غم خوشی کے مواقع پر تعاون کرتے ہیں، اس طرح امت مسلمہ میں باہمی اتحاد و یک جہتی اور امداد و اعانت کی فضا قائم ہوتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ''اور سب مل کر اﷲ کی رسی (پیغام ِہدایت) کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو اور اﷲ کی اس مہربانی (انعام) کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کی بہ دولت بھائی بھائی بن گئے۔'' (آلعمران)

اخوت اسلامی اور ارشاداتِ رسول ﷺ:

رسول اﷲ ﷺ نے اپنے متعدد ارشادات میں اخوتِ اسلامی کی اہمیت، افادیت اور عظمت کو اجاگر اور واضح کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کے معاملے میں خیانت نہیں کرتا، دانستہ اس کو کوئی جھوٹی اطلاع نہیں دیتا اور نہ ہی وہ اس کو رسوا کرتا ہے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب کچھ حرام ہے، اس کا خون (یعنی جان) اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔''

(سنن ابن ماجہ، مسند امام احمد)

حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم: '' تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔''

اس حدیث پاک میں ایمان کی ایک اعلیٰ اخلاقی صفت کو بیان کیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں ایمان کا معیار اور کسوٹی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرتا ہے جو وہ اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔

رسول اﷲ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم: ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کسی ضرورت کو پورا کرتا ہے، اﷲ اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مشکل کو آسان کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں آسانی پیدا کر ے گا اور جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی (کسی عیب یا غلطی کی) پردہ داری کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ پوشی کرے گا۔'' (سنن ابو داؤد) فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔

رشتہ مواخات کی بنیاد و اساس:

حضور سید عالم ﷺ کا یہ بہت بڑا عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آپ ﷺ نے امت مسلمہ کو ''رشتۂ مواخات'' کی ایک لڑی میں پرو دیا۔ جب آپ ﷺ اور مسلمانوں نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو مسلمان مفلسی کی حالت میں تھے۔ ان کے گھر بار تھے اور نہ ہی دوسری ضروریاتِ زندگی کا کوئی انتظام تھا۔ اس موقع پر اﷲ کے پیارے رسول حضور خاتم الانبیاء ﷺ نے انصار اور مہاجرین صحابۂ کرامؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا اور ایک صحابی کو دوسرے صحابی کا دینی و اسلامی بھائی بنادیا۔

رشتہ مواخات میں صحابہ کرامؓ کا ایثار:

انصار صحابہ کرامؓ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے والے اپنے مہاجرین صحابہ کونہ صرف خوش آمدید کہا بل کہ ان کو اپنی ہر چیز میں برابر کا حصہ دار بنا دیا۔ جس صحابی کے پاس دو مکان تھے، اس نے ایک مکان اپنے دوسرے مہاجر بھائی کو دے دیا۔ جس کے پاس دس بکریاں تھیں، اس نے پانچ بکریاں اپنے اسلامی مہاجر بھائی کو دے دیں۔

اسی طرح دوسری املاک (باغات، زمینیں وغیرہ) کو بھی تقسیم کر دیا۔ انصار زراعت کے پیشے سے منسلک تھے اور مہاجرین تجارت کیا کرتے تھے ۔ چناں چہ انصار نے مہاجرین کو اپنی زراعت میں شامل کرلیا اور مہاجرین انصار سے مل کر اپنی تجارت کر نے لگے ۔ اس طرح انصار اور مہاجرین نے باہم مل کر زراعت و تجارت میں معاشی استحکام اور ترقی حاصل کی۔

ایک روایت میں ہے کہ ایک انصاری صحابی کی دو بیویاں تھیں تو اس نے اپنے مہاجر بھائی سے کہا کہ میری دو بیویاں ہیں، ان میں سے جس کو تم پسند کرو، میں اسے طلاق دے دوں گا اور (عدت کے بعد) تم اس سے نکاح کر لینا۔ چناں چہ اس انصاری صحابی نے اپنے مہاجر بھائی کی پسند کے مطابق اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور عدت کے بعد اس مہاجر صحابی نے اس سے نکاح کر لیا۔اس طرح کے انوکھے، بے مثال اور حیرت انگیز ایثار و قربانی کی مثال شاید ہی دنیا کی تاریخ میں مل سکے ، یہ تو صرف آقائے دو جہاں حضر ت محمد مصطفی ﷺ کے پیارے اصحاب کا عمل و کردار ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب اﷲ کے پیارے رسول خاتم الانبیاء ﷺ نے صحابۂ کرامؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا اور ایک صحابی کو دوسرے صحابی کا دینی اسلامی بھائی بنا دیا تو حضرت علیؓ بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ! آپ نے عقد مواخاۃ میں تمام صحابۂ کرامؓ کو تو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا ہے لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ رسول اﷲ ﷺ نے نہایت پیار اور محبت کے انداز میں فرمایا: ''اے علی! تم دنیا و آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو۔'' (جامع ترمذی)

رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کے اس باہمی تعلق کو کہیں بھائی کہہ کر بیان فرمایا تو کہیں اسے جسم واحد قرار دیا اور کہیں اسے مضبوط دیوار کی مانند قرار دیا جس کی ایک اینٹ دوسری کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ فرمان نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ مومن، مومن کا بھائی ہے (اور وہ) ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصے کو کوئی تکلیف پہنچے تو اس کا درد اس کے تمام بدن میں محسوس ہوتا ہے۔ یعنی ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملے میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے ، اگر کسی ایک عضو کو شکایت و تکلیف ہوتی ہے تو باقی تمام جسم بھی بیداری اور بخار و تکلیف کی صورت میں اسی طرح کرب کو محسوس کرتا ہے۔

اخوت کو قائم رکھنے کا حکم :

اخوت اسلامی ایسا انمول ، پائیدار اور عظیم رشتہ ہے کہ اس کو قائم رکھنے کے لیے بارہا حکم دیا گیا ہے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''بُرے گمان سے بچو! بے شک! بُرا گمان بڑی جھوٹی بات ہے۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ لگو اور ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے دشمنی کرو اور نہ ایک دوسرے کو چھوڑو اور اﷲ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔''

اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے اخوت اسلامی کے آداب اور احترام کے حوالے سے اپنے فرمان میں اخوت اسلامی کے رشتے کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے اصول بیان فرمائے ہیں۔ اگر صاحبان ایمان ان اصولوں پر چلنے لگیں تو ان کے درمیان کبھی جھگڑے اور فتنہ و فساد برپا نہیں ہوں گے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے حوالے سے بُرا گمان قائم کرنا خلافِ شرع ہے ۔ ہمیشہ دوسروں کے متعلق اچھا گمان رکھنا چاہیے ، ہوسکتا ہے جسے ہم بُرا سمجھ رہے ہو ں، وہی اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب ہو ۔

اخوت اسلامی کے ثمرات اور فوائد:

اخوت و بھائی چارہ مسلمانوں کے درمیان وہ عظیم رشتہ ہے جس کی بہ دولت مسلمان جہاں کہیں بھی بستے ہوں وہ اپنے آپ کو ایک معاشرہ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اخوت سے باہمی اختلافات اور تنازعات کو ختم کیا جاتا ہے۔

اخوت و بھائی چارہ سے مسلمان ایک دوسرے کی مدد اور خدمت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، جس سے معاشرتی زندگی کو استحکام ملتا ہے اور معاشرہ میں ایک اچھی اور عمدہ فضا قائم ہوتی ہے اور نیکیوں کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے ۔ اخوت و بھائی چارہ سے مسلمانوں میں اتحاد و یک جہتی پیدا ہوتی ہے ، جس سے مسلمانوں کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے اور مسلمانوں کی یہ قوت دیکھ کر کفار کے دلوں پر رعب و دہشت طاری ہوجاتی ہے۔

اخوت و بھائی چارہ کی بنیاد پر جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مالی مدد کرتا ہے تو اسلامی معاشرہ میں مالی استحکام پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ میں امن و سکون اور جذبہ ہم دردی پیدا ہوتی ہے۔ اخوت و بھائی چارہ کی فضا میں معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ دوسروں کا دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔ مصیبت و آزمائش کے موقع پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ غم و خوشی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں