تنزلی کے دکھ نے یونس خان کو سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط نہ کرنے کے لیے سوچنے پر مجبور کردیا
سینئربیٹسمین کی جانب سے بورڈ کا معاہدہ ٹھکرانے کا امکان،دبائو مزید بڑھنے پر عہدیداروں کو یوٹرن لینا پڑے گا، ذرائع
''اے'' سے بی کیٹیگری میںتنزلی کا صدمہ یونس خان کو سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط سے روکنے لگا،ان کی جانب سے بورڈ کا معاہدہ ٹھکرائے جانے کا امکان ہے، دبائو مزید بڑھنے پر معاہدوں کیلیے حتمی فہرست مرتب کرنے والے عہدیداروں کو یوٹرن لینا پڑے گا۔
متنازع فیصلے کرنے والی کمیٹی کے رکن ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ ذاکرخان نے تجربہ کار بیٹسمین کی طرف سے کنٹریکٹ پر دستخط نہ کرنے کے سوال پرکہا کہ ''ان کی مرضی ہے،قواعد و ضوابط کا تو ہر کسی کو پاس رکھنا چاہیے''۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو سینٹرل کنٹریکٹ کیلیے منتخب قومی کرکٹرز کی فہرست جاری ہوتے ہی سخت تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، بعض کھلاڑیوں کو ناقص پرفارمنس کے باوجود نوازنے اور چند کی حیران کن تنزلی نے کئی سوال اٹھا دیے،ذرائع کے مطابق ''اے'' سے بی کیٹیگری میں دھکیلے جانے والے یونس خان کی طرف سے سینٹرل کنٹریکٹ کو مسترد کرتے ہوئے دستخط نہ کیے جانے کا امکان ہے۔
آئی سی سی ورلڈ 20ٹوئنٹی 2009کی فاتح ٹیم کے کپتان 89ٹیسٹ اور253ون ڈے میچز میں ملک کی نمائندگی کرچکے،ایک روزہ میچز کیلیے ٹیم سے ڈراپ ہونے کے باوجود انھوں نے صدمہ دل کا روگ نہیں بنایا اور 2013 کے 10ٹیسٹ میں3سنچریوں سمیت 834 رنز اسکور کیے،اس فارم کی بنیاد پر مبصرین اور شائقین انھیں ورلڈ کپ کیلیے پاکستان ٹیم کا حصہ دیکھنے کے خواہشمند تھے لیکن ان پر ایک فارمیٹ کا کھلاڑی ہونے کی مہر ثبت کرکے بی کیٹیگری میں دھکیل دیا گیا،ذرائع کے مطابق طویل عرصے ملک کی نمائندگی کے باوجود تنزلی کا صدمہ دیے جانے پر تجربہ کار بیٹسمین انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں،دبائو مزید بڑھنے پر معاہدوں کیلیے حتمی فہرست مرتب کرنے والے عہدیداروں کو یوٹرن لینا پڑے گا۔
دوسری طرف سینٹرل کنٹریکٹ کی حتمی فہرست مرتب کرنے والی کمیٹی میں شامل ڈائریکٹر انٹرنیشنل ذاکر خان نے کہاکہ اس بار باہمی مشاورت سے کچھ معیار وضع کیے گئے تھے، اے کیٹیگری کیلیے لازمی تھا کہ کرکٹر تینوں فارمیٹس کھیلتا ہو،کپتان یا2فارمیٹ کی ٹیموں میں شامل اور ساتھ 50ٹیسٹ کھیلے ہوں،2فارمیٹ اور 200ون ڈے کھیلنے والے بھی زیر غور لائے جا سکتے تھے۔ بی کیٹیگری کیلیے کپتان، 35ٹیسٹ یا 150ایک روزہ میچ جبکہ سی کیٹیگری کیلیے 10ٹیسٹ،25ون ڈے اور 15ٹوئنٹی 20 معیار تھے۔
اسٹیپنڈرز کیٹیگری کو اس بار ڈی کے طور پر متعارف کرایا گیا،انھوں نے کہا کہ مستقبل کی ضرورت کے پیش نظر اہم کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا،یونس خان ایک ہی فارمیٹ میں کھیلتے ہیں، ان کی ٹیم کیلیے بے پناہ خدمات ہیں لیکن ہر ملک کو اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق فیصلے کرنا ہوتے ہیں،تجربہ کار بیٹسمین کی طرف سے کنٹریکٹ پر دستخط نہ کرنے کے سوال پر ذاکر خان نے کہا کہ ''ان کی مرضی ہے،قواعد و ضوابط کا تو ہر کسی کو پاس رکھنا چاہیے''، جیند خان تینوں فارمیٹ میں کھیلتے ہیں،سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں بھی لیں،اسی لیے اے کیٹیگری کے مستحق تھے، عمر امین پاکستان کیلیے کھیل چکے، کیریئر میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں لیکن معین خان کا خیال تھا کہ ان میں صلاحیت ہے کہ مستقبل میں ٹیم کے کام آسکیں۔
انھوں نے کہا کہ ناصر جمشید میچ ونر کرکٹر رہے ہیں، فارم کا مسئلہ ضرور ہوا تاہم اوپنر واپسی کیلیے بھرپور محنت اور کوشش کررہے ہیں۔ ذاکر خان نے کہا کہ معین خان اور محمد اکرم نئی سوچ لے کر آئے،ان کی پلیئرز فٹنس پر بھرپور توجہ تھی،اسی لیے معیار برقرار نہ رکھنے پر معاوضوں سے 25فیصد کٹوتی کا فیصلہ بھی کیا گیا،البتہ اگر کوئی کھلاڑی سپر فٹ ہو تو انعام بھی دیا جائے گا، یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔
ذاکر خان نے بتایا کہ اس بار کنٹریکٹ صرف 2 نہیں بلکہ 200صفحات پر مشتمل ہے جس میں ڈسپلن اورکمرشل معاملات سمیت مختلف تفصیلات درج ہیں، ہم فٹنس سمیت مختلف امور میں کھلاڑیوں میں شعور اجاگر کرنا چاہتے تھے، کیمپ کے دوران اس میں خاصی کامیابی حاصل ہوئی، امید ہے کہ کرکٹرز 3ماہ بعد بھی اسی انداز میں فٹنس پروگرام پر عمل کرتے نظر آئیں گے، کوچز اور سلیکٹربھی میچز اور ٹریننگ کے دوران ان کی کارکردگی کو مانیٹر کرتے رہیں گے۔
متنازع فیصلے کرنے والی کمیٹی کے رکن ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ ذاکرخان نے تجربہ کار بیٹسمین کی طرف سے کنٹریکٹ پر دستخط نہ کرنے کے سوال پرکہا کہ ''ان کی مرضی ہے،قواعد و ضوابط کا تو ہر کسی کو پاس رکھنا چاہیے''۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو سینٹرل کنٹریکٹ کیلیے منتخب قومی کرکٹرز کی فہرست جاری ہوتے ہی سخت تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، بعض کھلاڑیوں کو ناقص پرفارمنس کے باوجود نوازنے اور چند کی حیران کن تنزلی نے کئی سوال اٹھا دیے،ذرائع کے مطابق ''اے'' سے بی کیٹیگری میں دھکیلے جانے والے یونس خان کی طرف سے سینٹرل کنٹریکٹ کو مسترد کرتے ہوئے دستخط نہ کیے جانے کا امکان ہے۔
آئی سی سی ورلڈ 20ٹوئنٹی 2009کی فاتح ٹیم کے کپتان 89ٹیسٹ اور253ون ڈے میچز میں ملک کی نمائندگی کرچکے،ایک روزہ میچز کیلیے ٹیم سے ڈراپ ہونے کے باوجود انھوں نے صدمہ دل کا روگ نہیں بنایا اور 2013 کے 10ٹیسٹ میں3سنچریوں سمیت 834 رنز اسکور کیے،اس فارم کی بنیاد پر مبصرین اور شائقین انھیں ورلڈ کپ کیلیے پاکستان ٹیم کا حصہ دیکھنے کے خواہشمند تھے لیکن ان پر ایک فارمیٹ کا کھلاڑی ہونے کی مہر ثبت کرکے بی کیٹیگری میں دھکیل دیا گیا،ذرائع کے مطابق طویل عرصے ملک کی نمائندگی کے باوجود تنزلی کا صدمہ دیے جانے پر تجربہ کار بیٹسمین انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں،دبائو مزید بڑھنے پر معاہدوں کیلیے حتمی فہرست مرتب کرنے والے عہدیداروں کو یوٹرن لینا پڑے گا۔
دوسری طرف سینٹرل کنٹریکٹ کی حتمی فہرست مرتب کرنے والی کمیٹی میں شامل ڈائریکٹر انٹرنیشنل ذاکر خان نے کہاکہ اس بار باہمی مشاورت سے کچھ معیار وضع کیے گئے تھے، اے کیٹیگری کیلیے لازمی تھا کہ کرکٹر تینوں فارمیٹس کھیلتا ہو،کپتان یا2فارمیٹ کی ٹیموں میں شامل اور ساتھ 50ٹیسٹ کھیلے ہوں،2فارمیٹ اور 200ون ڈے کھیلنے والے بھی زیر غور لائے جا سکتے تھے۔ بی کیٹیگری کیلیے کپتان، 35ٹیسٹ یا 150ایک روزہ میچ جبکہ سی کیٹیگری کیلیے 10ٹیسٹ،25ون ڈے اور 15ٹوئنٹی 20 معیار تھے۔
اسٹیپنڈرز کیٹیگری کو اس بار ڈی کے طور پر متعارف کرایا گیا،انھوں نے کہا کہ مستقبل کی ضرورت کے پیش نظر اہم کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا،یونس خان ایک ہی فارمیٹ میں کھیلتے ہیں، ان کی ٹیم کیلیے بے پناہ خدمات ہیں لیکن ہر ملک کو اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق فیصلے کرنا ہوتے ہیں،تجربہ کار بیٹسمین کی طرف سے کنٹریکٹ پر دستخط نہ کرنے کے سوال پر ذاکر خان نے کہا کہ ''ان کی مرضی ہے،قواعد و ضوابط کا تو ہر کسی کو پاس رکھنا چاہیے''، جیند خان تینوں فارمیٹ میں کھیلتے ہیں،سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں بھی لیں،اسی لیے اے کیٹیگری کے مستحق تھے، عمر امین پاکستان کیلیے کھیل چکے، کیریئر میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں لیکن معین خان کا خیال تھا کہ ان میں صلاحیت ہے کہ مستقبل میں ٹیم کے کام آسکیں۔
انھوں نے کہا کہ ناصر جمشید میچ ونر کرکٹر رہے ہیں، فارم کا مسئلہ ضرور ہوا تاہم اوپنر واپسی کیلیے بھرپور محنت اور کوشش کررہے ہیں۔ ذاکر خان نے کہا کہ معین خان اور محمد اکرم نئی سوچ لے کر آئے،ان کی پلیئرز فٹنس پر بھرپور توجہ تھی،اسی لیے معیار برقرار نہ رکھنے پر معاوضوں سے 25فیصد کٹوتی کا فیصلہ بھی کیا گیا،البتہ اگر کوئی کھلاڑی سپر فٹ ہو تو انعام بھی دیا جائے گا، یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔
ذاکر خان نے بتایا کہ اس بار کنٹریکٹ صرف 2 نہیں بلکہ 200صفحات پر مشتمل ہے جس میں ڈسپلن اورکمرشل معاملات سمیت مختلف تفصیلات درج ہیں، ہم فٹنس سمیت مختلف امور میں کھلاڑیوں میں شعور اجاگر کرنا چاہتے تھے، کیمپ کے دوران اس میں خاصی کامیابی حاصل ہوئی، امید ہے کہ کرکٹرز 3ماہ بعد بھی اسی انداز میں فٹنس پروگرام پر عمل کرتے نظر آئیں گے، کوچز اور سلیکٹربھی میچز اور ٹریننگ کے دوران ان کی کارکردگی کو مانیٹر کرتے رہیں گے۔