کراچی پولیس ایک بار پھر سے اغوا برائے تاوان میں ملوث نکلی
سرجانی پولیس نے واقعہ کی مزید تفتیش اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) پولیس کے حوالے کر دی
سرجانی ٹاون پولیس نے گلشن اقبال ڈویژن اے وی ایل سی کے 3 پولیس اہلکاروں سمیت 8 اغوا کاروں کو گرفتار کر کے سرکاری اسلحہ و پولیس موبائل برآمد کر کے مغوی کو بازیاب کرالیا۔
تفصیلات کے مطابق جمعرات کی رات سرجانی ٹاون سیکٹر فور ڈی میں پولیس موبائل اور پولیس کی وردی و سادہ لباس میں ملبوس افراد نے جنرل اسٹور پر چھاپہ مار کر وہاں پر کام کرنے والے ثاقب کو اغوا کر کے اپنے ہمراہ لے گئے اور بعدازاں ملازم کے موبائل فون سے اس کے مالک سید جنید کو فون کر کے رہائی کے عوض ایک لاکھ روپے تاوان طلب کیا۔
اس واقعے کی اطلاع جنید نے فوری طور پر سرجانی ٹاؤن پولیس کو دی جس پر پولیس نے اس کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 204 سال 2024 بجرم دفعہ 365 اے کے تحت درج کرلیا۔ اس حوالے سے سرجانی ٹاؤن پولیس کی جانب سے دکان کے ملازم کو اغوا کرنے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی سے متعلق سرکار کی مدعیت میں اے ایس آئی نواز جمالی کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 205 سال 2024 بجرم دفعہ سندھ آرمز ایکٹ 23 ون اے کے تحت درج کرلیا۔
جس میں مدعی مقدمہ اے ایس آئی نواز جمالی نے بیان دیا ہے کہ وہ مدعی مقدمہ سید جنید کے ہمراہ تلاش ملزمان و مغوی میں مصروف تھا کہ اس دوران مین روڈ کریمی کٹ سرجانی ٹاؤن پہنچا تو پیچھے بیٹھے ہوئے مدعی بالا نے بلند آواز میں پولیس موبائل رکوائی اور سڑک کے کنارے کھڑی ہوئی موبائل سرکاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ مغوی ثاقب اس موبائل میں موجود ہے۔
جس پر انھوں نے پولیس موبائل روک کر دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ وہاں پر موجود پولیس موبائل کا گھیراؤ کر کے پچھلی جانب فرش پر بیٹھے ہوئے ایک شخص کی جانب مدعی سید جنید نے اشارہ کر کے بتایا کہ یہ میری دکان کا ملازم ثاقب ہے جس پر پولیس نے اس سے معلومات کی تو ثاقب نے بتایا کہ پولیس موبائل میں سوار افراد مجھے جنرل اسٹور سیکٹر فور ڈی سرجانی سے اٹھا کر لائے ہیں اور چھوڑنے کے لیے پیسوں کا تقاضہ کر رہے ہیں جس پر مدعی پولیس افسر نے سرکاری پولیس موبائل میں سوار افراد سے پوچھ گچھ کی تو انھوں نے اپنا نام ابرار، ظفر علی ، ارسلان ، ندیم احمد ، ندیم انصاری ، عبدالرحمٰن ، اسد رسول اور رانا ساجد بتائے۔
انھوں نے تمام افراد کی تلاشی کے دروان ان کے قبضے سے ملنے والے موبائل فونز اور نقدی کو پولیس نے اپنے قبضے میں لیے جبکہ ظفر علی کے دائیں ہاتھ میں موجود سرکاری ایس ایم جی لوڈ میگزین 10 گولیاں ، ارسلان علی کے دائیں ہاتھ میں پکڑی گئی سرکاری ایس ایم جی لوڈ میگزین اور 15 گولیاں جبکہ عبدالرحمٰن کی پہنی ہوئی پینٹ کے نیفے میں دائیں جانب اڑسا ہوا ایک 30 بور پستول لوڈ میگزین اور 6 گولیاں برآمد کر کے مغوی کو بازیاب کرالیا۔
مدعی مقدمہ کے مطابق گرفتار کیے جانے والے 8 ملزمان میں سے 3 ملزمان ابرار ، ظفر اور ارسلان نے بتایا کہ وہ پولیس ملازمان ہیں اور اپنی تعیناتی اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل ( اے وی ایل سی) گلشن اقبال میں ظاہر کی تاہم پولیس نے تمام ملزمان کو سرجانی ٹاؤن تھانے منقتل کیا جس کے بعد انھیں مزید تحقیقات کے لیے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے حوالے کر دیا جو کہ گرفتار پولیس اہلکاروں سے ان کی پولیس پارٹی کے انچارج سمیت دیگر پہلوؤں پر تحقیقات کر رہی ہے کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے اختیارات اور سرکاری پولیس موبائل کا ناجائز استعمال کس کے کہنے پر کیا گیا تھا جبکہ گرفتار دیگر 5 ملزمان پولیس کے مخبر بتائے جاتے ہیں جو شکار تلاش کر کے انھیں پولیس کی مدد سے اغوا کراتے ہیں اور ان کی رہائی کے عوض تاوان وصول کرتے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق جمعرات کی رات سرجانی ٹاون سیکٹر فور ڈی میں پولیس موبائل اور پولیس کی وردی و سادہ لباس میں ملبوس افراد نے جنرل اسٹور پر چھاپہ مار کر وہاں پر کام کرنے والے ثاقب کو اغوا کر کے اپنے ہمراہ لے گئے اور بعدازاں ملازم کے موبائل فون سے اس کے مالک سید جنید کو فون کر کے رہائی کے عوض ایک لاکھ روپے تاوان طلب کیا۔
اس واقعے کی اطلاع جنید نے فوری طور پر سرجانی ٹاؤن پولیس کو دی جس پر پولیس نے اس کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 204 سال 2024 بجرم دفعہ 365 اے کے تحت درج کرلیا۔ اس حوالے سے سرجانی ٹاؤن پولیس کی جانب سے دکان کے ملازم کو اغوا کرنے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی سے متعلق سرکار کی مدعیت میں اے ایس آئی نواز جمالی کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 205 سال 2024 بجرم دفعہ سندھ آرمز ایکٹ 23 ون اے کے تحت درج کرلیا۔
جس میں مدعی مقدمہ اے ایس آئی نواز جمالی نے بیان دیا ہے کہ وہ مدعی مقدمہ سید جنید کے ہمراہ تلاش ملزمان و مغوی میں مصروف تھا کہ اس دوران مین روڈ کریمی کٹ سرجانی ٹاؤن پہنچا تو پیچھے بیٹھے ہوئے مدعی بالا نے بلند آواز میں پولیس موبائل رکوائی اور سڑک کے کنارے کھڑی ہوئی موبائل سرکاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ مغوی ثاقب اس موبائل میں موجود ہے۔
جس پر انھوں نے پولیس موبائل روک کر دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ وہاں پر موجود پولیس موبائل کا گھیراؤ کر کے پچھلی جانب فرش پر بیٹھے ہوئے ایک شخص کی جانب مدعی سید جنید نے اشارہ کر کے بتایا کہ یہ میری دکان کا ملازم ثاقب ہے جس پر پولیس نے اس سے معلومات کی تو ثاقب نے بتایا کہ پولیس موبائل میں سوار افراد مجھے جنرل اسٹور سیکٹر فور ڈی سرجانی سے اٹھا کر لائے ہیں اور چھوڑنے کے لیے پیسوں کا تقاضہ کر رہے ہیں جس پر مدعی پولیس افسر نے سرکاری پولیس موبائل میں سوار افراد سے پوچھ گچھ کی تو انھوں نے اپنا نام ابرار، ظفر علی ، ارسلان ، ندیم احمد ، ندیم انصاری ، عبدالرحمٰن ، اسد رسول اور رانا ساجد بتائے۔
انھوں نے تمام افراد کی تلاشی کے دروان ان کے قبضے سے ملنے والے موبائل فونز اور نقدی کو پولیس نے اپنے قبضے میں لیے جبکہ ظفر علی کے دائیں ہاتھ میں موجود سرکاری ایس ایم جی لوڈ میگزین 10 گولیاں ، ارسلان علی کے دائیں ہاتھ میں پکڑی گئی سرکاری ایس ایم جی لوڈ میگزین اور 15 گولیاں جبکہ عبدالرحمٰن کی پہنی ہوئی پینٹ کے نیفے میں دائیں جانب اڑسا ہوا ایک 30 بور پستول لوڈ میگزین اور 6 گولیاں برآمد کر کے مغوی کو بازیاب کرالیا۔
مدعی مقدمہ کے مطابق گرفتار کیے جانے والے 8 ملزمان میں سے 3 ملزمان ابرار ، ظفر اور ارسلان نے بتایا کہ وہ پولیس ملازمان ہیں اور اپنی تعیناتی اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل ( اے وی ایل سی) گلشن اقبال میں ظاہر کی تاہم پولیس نے تمام ملزمان کو سرجانی ٹاؤن تھانے منقتل کیا جس کے بعد انھیں مزید تحقیقات کے لیے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے حوالے کر دیا جو کہ گرفتار پولیس اہلکاروں سے ان کی پولیس پارٹی کے انچارج سمیت دیگر پہلوؤں پر تحقیقات کر رہی ہے کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے اختیارات اور سرکاری پولیس موبائل کا ناجائز استعمال کس کے کہنے پر کیا گیا تھا جبکہ گرفتار دیگر 5 ملزمان پولیس کے مخبر بتائے جاتے ہیں جو شکار تلاش کر کے انھیں پولیس کی مدد سے اغوا کراتے ہیں اور ان کی رہائی کے عوض تاوان وصول کرتے ہیں ۔