الیکشن بتیاں اور انتخابات درانتخابات

ایوب خان کے بنیادی جمہوریت کا بابرکت اور ولولہ انگیز زمانہ تھا جو صحیح معنی میں ’’بالغ رائے دہی‘‘ کا زمانہ تھا

barq@email.com

گوناگوں،رنگ برنگی اور طرح طرح کے انتخابات بھوگ کر اس مقام پر پہنچے ہیں کہ

پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

اب جب کسی قسم کے انتخابات بھی ہوتے ہیں پہلے تو جاتے ہی نہیں لیکن اگر کوئی زبردستی لے جائیں تو اندر جب ''ہم جانیں اور ہمارا خدا''کے مقام پر پہنچتے ہیں تو جتنے بھی انتخابی نشان ہوتے ہیں ان سب پر مہر لگا کر اپنی غیرجانبداری ثابت کردیتے ہیں

حامی بھی نہیں منکر غالب بھی نہیں ہیں

ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں ہیں

اور کیوں ہوں سب ہی اتنے اچھے اتنے مخلص اور اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ہم سب کو وہ دعا دیتے ہیں جو کبھی افغان مہاجرین کو دیا کرتے ہیں اور قبول ہوگئی،ان افغان مہاجرین سے تنگ آکر ہم ان کو دعا دیتے تھے کہ خدا تم سب کو بادشاہ بنائے لیکن ہمارے اعصاب سے اترجاؤ چنانچہ اپنے ہاں ان امیدواروں کو بھی ہم 77سال میں اتنا پہچان چکے ہیں کہ ان کو وہی دعا دہرا کر دیتے ہیں،بقول ایک دو یہودی بیویوں کے شوہر کے۔کسی نے اس پوچھا تھا کہ کون اچھی ہے کون بُری؟

خدا غارت کرے دونوں کو۔نہ گلابو اچھی ہے نہ گُلہ۔الیکشنوں کے بارے میں جانکاری تو ہمیں تھوڑی تھوڑی پہلے بھی تھی لیکن جب کچھ لوگوں نے ہمیں بانس پر چڑھاکر الیکشن میں کھڑا کیا اور انھی لوگوں نے نیچے سے بانس ہٹا کر دھڑام سے گرا دیا تو حق الیقین بھی حاصل ہوگیا۔کہ جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں اور جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں۔یعنی یہ ایک ایسا تالاب ہے جس کا پانی بھی گدلا ہے اور مچھلیاں بھی اندھی ہیں دراصل جن لوگوں نے ہمیں بانس پر چڑھایا تھا جیتنے کے لیے نہیں چڑھایا تھا بلکہ بیچنے کے لیے چڑھایا تھا جیسے سوداگر لوگ کسی جانور کو بیچنے کے لیے اسے رنگ لگاتے گھنگرو ڈالتے ہیں اور سینگ وغیرہ تراشتے ہیں۔ہمیں تو یہ کہہ کر بانس پر چڑھایا کہ ہر گاؤں کے لوگ ہمارے ممبر بن جاتے ہیں ہمارے گاؤں میں ایسا کوئی نہیں جو کھڑا ہوجائے۔پھر ہماری قابلیت اور مقبولیت کے ایسے گُن گائے کہ ہمیں بھی اپنی آنکھیں لال کرنا پڑیں۔وہ ڈسٹرکٹ کونسل کا الیکشن تھا اور دس دیہات کا ایک حلقہ تھا۔اور اگر ہمارے گاؤں والے بھی ووٹ دیتے تو ہمارا جیتنا یقینی تھا لیکن ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ سانپ ہماری اپنی آستین میں تھے۔یہاں تک کہ ان میں ایک ہمارا قریبی دوست بھی تھا جس نے چپکے چپکے میں ہمیں غیر مذہب کا ثابت کیا تھا۔


خیر وہ تو جو ہوا سو ہوا لیکن اس میں ایک بڑا مزیدار واقعہ ہوگیا تھا،جو امیدوار جیتا وہ مقدر کا سکندر نہ بھی ہوتا تو دوسرے کئی میدانوں کا سکندر تھا۔بہت بڑا منشیات کا اسمگلر،پراپرٹی ڈیلر،موٹر بارگینر اور نہ جانے کیا کیا تھا، حرام کی دولت بھی بے شمار تھی خرید وفروخت بھی ہوتی رہی۔

لیکن الیکشن کے دن اس نے شہر سے بہت ساری پیشہ ور خواتین بھی لاکر پھیلائی تھیں اس کے اپنے حلقے کے پولنگ اسٹیشن کے بارے میں ہمیں ایک اور امیدوار نے بتایا کہ اس امیدوار کی لائی ہوئی خواتین دوسرے امیدواروں کے صندوقوں میں ڈالنے والی ووٹر جب آتی ہے تو اس سے زبردستی ووٹ لے کر اپنے صندوق میں ڈالتی ہیں چنانچہ اس کے اصرار پر ہم نوشہرہ سے ایک مجسٹریٹ کو لے کر آگئے۔

ادھیڑ عمر کا مجسٹریٹ اندر گیا لیکن تھوڑی دیر بعد جب نکلا تو اس کا رنگ پیلا رنگ لال بھبو کا ہو رہا تھا۔اور توبہ توبہ کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا ہوگیا۔یہ جو ہم نے ووٹ کے نشان پر مہر لگانے کا طریقہ اختیار کیا یہ ہم نے اپنے گاؤں کے ایک پاگل ''گھنگرو'' سے سیکھا ہے۔

''گھنگرو'' کو ایک پارٹی کے امیدوار پکڑ لائے۔تو پولنگ اسٹیشن میں دوسری پارٹی نے اسے قبضے میں لے لیا۔لیکن اس سے بھی ایک تیسری پارٹی نے چھین لیا اور اندر کرلیا ان تینوں پارٹیوں کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ گھنگرو کو اس کے بھائی نے پچھلی رات ہی کو پانچ سو روپے میں بیچا تھا۔

الیکشن کے دوسرے دن ہم نے گھنگرو سے پوچھا مہر کس نشان پر لگایا۔ بولا سب پر۔یہی غیرجانبدارانہ اور انصاف دارانہ طریقہ ہم نے بھی سیکھ لیا ہے۔ضیاء الحق کے زمانہ حق میں ایک ریفرنڈم ہوا تھا جس میں ایک معجزہ ہوگیا۔ہمارے گاؤں کے پولنگ اسٹیشن اکثر اسکولو ں میں ہوتے ہیں اور اسکول قبرستان میں ہیں۔

اس ریفرنڈم میں جب لوگ ووٹ دینے پہنچے تو سب کے ووٹ پول ہوچکے تھے، کچھ لوگ تو خاموشی سے چلے گئے لیکن کچھ نے یونی کونسل کے ممبران سے پوچھا۔ ہمارے ووٹ کس نے ڈالے؟ممبران نے کہا۔ تم کو دیر ہوگئی تو مقبرے سے تمہارے بزرگ اٹھ کر آئے اور اپنی اپنی اولادوں کے ووٹ پول کرکے چلے گئے۔

یہ قبرستان ہر الیکشن کے موقع پر بڑا بارونق ہوجاتا ہے جگہ جگہ درختوں کے جھنڈ میں ہر امیدوار کا گشتی دفتر قائم ہوجاتا ہے اور خریدو فروخت چل پڑتی ہے۔ دراصل یوں کہ لوگ پہلے قرآن پر قسم دلا کر ووٹ خریدتے تھے لیکن جب لوگوں نے دیکھا کہ اس کے باوجود لوگ دغا کرتے ہیں تو یہ قبرستان کا سلسلہ شروع ہوا۔اب قسم پورے مقبرے کا دیتے ہیں جس میں ایک دو بزرگوں کے مزارات بھی ہیں اور ان بزرگوں کا ڈر ابھی باقی ہے۔

ایوب خان کے بنیادی جمہوریت کا بابرکت اور ولولہ انگیز زمانہ تھا جو صحیح معنی میں ''بالغ رائے دہی'' کا زمانہ تھا اور''بالغ'' صرف یونین کونسل کے ممبر ہوتے تھے۔ایک حلقے میں قومی اسمبلی کے دو امیدوار تھے اور دونوں ہی نوٹوں کے بنڈل لے کر نکلے ہوئے تھے۔ ایک امیدوار کے آدمیوں نے جب ایک ممبر کو پیسے دیے، قرآن پر قسم اور آمین دعائے خیر کے بعد جب لوگ اٹھنے لگے۔تو جھولی میں نوٹ ڈالے ہوئے اس ممبر کے جسم سے ایک ایسی آواز نکلی جو بہت زیادہ معیوب سمجھی جاتی ہے۔

اس آواز کا ایک مخصوص نام بھی ہے چنانچہ وہ نام اس ممبر کے نام کا حصہ بن گیا۔اب لوگ اس کے سامنے تو اس کا نام لیتے تھے لیکن پیٹھ پیچھے اس کے نام کے ساتھ اس کا تخلص بھی جوڑ دیتے تھے پھر ممبری تو چلی گئی لیکن وہ تخلص اس کے نام کا مستقل حصہ بن گیا۔ لیکن بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوئی۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا تخلص اس کے پورے خاندان کا تخلص ہوگیا اور اس کے بیٹے اور پوتے بھی اس تخلص سے یاد کیے جانے لگے۔کون ؟ وہ کیا ہے۔۔۔ والا۔ اچھا اچھا تم...اس کی بات کررہے ہو بھئی کل وہ... آیاتھا... کس کا کھیت؟ وہ...والوں کا کھیت۔
Load Next Story