نئی حکومت چند یقین گوئیاں
ملک کو بدستور شدید بجٹ خسارے اور مسلسل تجارتی و مالیاتی خسارے کا سامنا ہے
حکومت سازی کا مرحلہ رولر کوسٹر کی طرح جاری ہے۔ کل کے حلیف آج کے حریف اور گزشتہ کل کے حلیف حریف بن رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے انکشافات سے تو گویا سارا سیاسی منظر فیض یاب ہو رہا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
آٹھ فروری سے قبل بے یقینی کی دھند میں لپٹا ہوا انتخابی منظرنامہ بظاہر صاف ہوا ہے لیکن کچھ یوں کہ وفاقی سطح پر طاقت کا توازن تین بڑی جماعتوں کے درمیان آ گیا ہے۔ ہاں صوبوں کی حد تک پنجاب سندھ اور کے پی میں منظر صاف ہے۔ تاہم بلوچستان اسمبلی کے نتائج حسب معمول مخلوط حکومت کی دھینگا مشتی کے لیے اوپن ہیں۔
کچھ دیر کے لیے نئی حکومت کی تشکیل سے ہٹ کر نگران حکومتوں کا ذکر... نگران حکومتوں کا آہستہ آہستہ غیر علانیہ فریضہ سا بن گیا ہے کہ 60یا 90دن کی ملی آئینی مدت کے دوران گزشتہ حکومت کے معاشی ملبے کی صفائی اور آنے والی حکومت کے لیے آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام کی ''گراؤنڈ بریکنگ''کے لیے ''مشکل فیصلے'' کرجائیں۔
یہ صورت سابق ہوجانے والی حکومتی پارٹی کو سوٹ کرتی ہے۔ جانے والے جگہ جگہ دامن اٹھا کر گواہی لیتے ہیں کہ گواہ رہنا، ہمارا دامن چاندنی سے بھی زیادہ اجلا ہے۔
دوسری جانب نئی حکومت کو بھی سہولت ہو جاتی ہے کہ مشکل فیصلوں کا گناہ نگرانوں کے سر تھوپ کر عوامی غصے کے سامنے اپنا دامن لہرا کر معصومیت سے وضاحتیں دیتے ہیں کہ ہمارا ان مشکل فیصلوں سے کیا لینا دینا، ہم تو مظلوم ہیں کہ ان مشکل فیصلوں کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے کے جو نادر نسخے سوچ رکھے تھے انھیں اب مجبوری میں زنبیل سے نکالنے سے قاصر ہیں۔
موجودہ نگران حکومت جس کے پاس بظاہر آئینی طور پر زیادہ سے زیادہ 90دن کا عرصہ حکومت ہونا چاہیے تھا، انھیں سات ماہ سے زائد کا عرصہ مل گیا۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کا کہ جس نے الیکشن کی تاریخ دی ورنہ یہ نگران حکومت شاید سیاسی حکومت کے مکمل عرصے پر بھی محیط ہو سکتی تھی۔
نگران حکومت کے فیصلے لینے کا انداز ہو بہو ایسا تھا کہ کئی تجزیہ کار اور ماہرین بضد تھے کہ یہ نگران جانے کے لیے نہیں آئے۔گزشتہ دونوں حکومتوں کے دوران تجارتی اور مالیاتی خسارہ بہت تیزی سے بڑھا۔ گو سیاسی مخالفین نے الزام ایک دوسرے پر دھرتے ہوئے اپنے اپنے ہاتھ جھاڑ لیے، پی ٹی آئی نے سارا ملبہ اپنی پیش رو نواز لیگ کی حکومت پر ڈال دیا، جب کہ پی ڈی ایم حکومت نے یہ ملبہ پی ٹی آئی پر ڈال کر اپنے آپ کو ڈیفالٹ بچاؤ مسیحا کے طور پر پیش کیا۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں حکومتوں کے دور میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی نے مہنگائی کو بے قابو کر دیا، ہاں اسراف یعنی consumption کی بناء جی ڈی پی ترقی کا وقتی غلغلہ ضرور رہا۔ مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی کھینچا تانی نے معیشت اور گورننس کو بدستور زیر بار رکھا۔ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد پی ڈی ایم حکومت کے اقدامات نے عام آدمی کے لیے پہلے سے موجود معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔
نئی حکومت سازی کے بارے میں سیاسی پنڈت اپنی اپنی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے وزارت عظمیٰ کے لیے اپنے امیدوار عمر ایوب کا اعلان کر دیا ہے۔
دوسری جانب مخلوط حکومت بنانے کا بیڑا نون لیگ کی جانب سے شہباز شریف نے اٹھایا ہے۔ اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن بادشاہ گر جیسی ہے۔ کون ہوگا وزیراعظم؟ یہ سوال دو ہفتوں کے اندر حل ہو جائے گا، رہی یہ پیشین گوئی کہ نئی حکومت اور نئے وزیراعظم کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا ؟ اس بابت کوئی ابہام نہیں ہے بلکہ یہ یقین گوئی نوشتہ دیوار ہے۔
جس ڈیفالٹ کو ٹالنے کا سہرا پی ڈی ایم اپنے سر باندھتے نہیں تھکتی، ڈیفالٹ کا وہ خطرہ بدستور دہلیز پر کھڑا ہے۔ نگران حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ قرض پروگرام مارچ میں طبعی عمر مکمل کرے گا۔ نئی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے قرض پروگرام کا فوری حصول ہو گا۔ یہ غالباً پاکستان کو 23واں پروگرام ہو گا۔
ملک کو بدستور شدید بجٹ خسارے اور مسلسل تجارتی و مالیاتی خسارے کا سامنا ہے۔ اس کا براہ راستہ اثر ڈالر روپے کی شرح مبادلہ پر پڑتا ہے۔ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا ٹریک ریکارڈ بہت مایوس کن رہا ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ برآمدات کے لیے فاضل صنعتی پیداوار موجود نہیں اور ملکی ضروریات کے لیے وافر مقدار میں صنعتی اور زرعی پیداوار بھی نہیں۔ اس فرسودہ معاشی ڈھانچے کا لازمی نتیجہ مہنگائی اور بے روزگاری کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح ہے۔نئی حکومت کی تشکیل کے بعد اسے کن معاشی چیلنجز اور مفاداتی ڈائنوسارز سے واسطہ پڑے گا۔
اس کے لیے پیشین گوئی کی ضرورت نہیں بلکہ نوشتہ دیوار یقین گوئی کی صورت سامنے ہے۔ ہم ایسے سادہ لوح الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں، اب نئی حکومت جانے اور اس کا کام ، تاہم جمال احسانی کا ایک حسب حال شعر اندیشہ ہائے قریب کی طرح ذہن کو جھنجھوڑ رہا ہے:
جہان بدلنے کا وہ بھی گمان رکھتے ہیں
جو گھر کے نقشے میں پہلے دوکان رکھتے ہیں
آٹھ فروری سے قبل بے یقینی کی دھند میں لپٹا ہوا انتخابی منظرنامہ بظاہر صاف ہوا ہے لیکن کچھ یوں کہ وفاقی سطح پر طاقت کا توازن تین بڑی جماعتوں کے درمیان آ گیا ہے۔ ہاں صوبوں کی حد تک پنجاب سندھ اور کے پی میں منظر صاف ہے۔ تاہم بلوچستان اسمبلی کے نتائج حسب معمول مخلوط حکومت کی دھینگا مشتی کے لیے اوپن ہیں۔
کچھ دیر کے لیے نئی حکومت کی تشکیل سے ہٹ کر نگران حکومتوں کا ذکر... نگران حکومتوں کا آہستہ آہستہ غیر علانیہ فریضہ سا بن گیا ہے کہ 60یا 90دن کی ملی آئینی مدت کے دوران گزشتہ حکومت کے معاشی ملبے کی صفائی اور آنے والی حکومت کے لیے آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام کی ''گراؤنڈ بریکنگ''کے لیے ''مشکل فیصلے'' کرجائیں۔
یہ صورت سابق ہوجانے والی حکومتی پارٹی کو سوٹ کرتی ہے۔ جانے والے جگہ جگہ دامن اٹھا کر گواہی لیتے ہیں کہ گواہ رہنا، ہمارا دامن چاندنی سے بھی زیادہ اجلا ہے۔
دوسری جانب نئی حکومت کو بھی سہولت ہو جاتی ہے کہ مشکل فیصلوں کا گناہ نگرانوں کے سر تھوپ کر عوامی غصے کے سامنے اپنا دامن لہرا کر معصومیت سے وضاحتیں دیتے ہیں کہ ہمارا ان مشکل فیصلوں سے کیا لینا دینا، ہم تو مظلوم ہیں کہ ان مشکل فیصلوں کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے کے جو نادر نسخے سوچ رکھے تھے انھیں اب مجبوری میں زنبیل سے نکالنے سے قاصر ہیں۔
موجودہ نگران حکومت جس کے پاس بظاہر آئینی طور پر زیادہ سے زیادہ 90دن کا عرصہ حکومت ہونا چاہیے تھا، انھیں سات ماہ سے زائد کا عرصہ مل گیا۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کا کہ جس نے الیکشن کی تاریخ دی ورنہ یہ نگران حکومت شاید سیاسی حکومت کے مکمل عرصے پر بھی محیط ہو سکتی تھی۔
نگران حکومت کے فیصلے لینے کا انداز ہو بہو ایسا تھا کہ کئی تجزیہ کار اور ماہرین بضد تھے کہ یہ نگران جانے کے لیے نہیں آئے۔گزشتہ دونوں حکومتوں کے دوران تجارتی اور مالیاتی خسارہ بہت تیزی سے بڑھا۔ گو سیاسی مخالفین نے الزام ایک دوسرے پر دھرتے ہوئے اپنے اپنے ہاتھ جھاڑ لیے، پی ٹی آئی نے سارا ملبہ اپنی پیش رو نواز لیگ کی حکومت پر ڈال دیا، جب کہ پی ڈی ایم حکومت نے یہ ملبہ پی ٹی آئی پر ڈال کر اپنے آپ کو ڈیفالٹ بچاؤ مسیحا کے طور پر پیش کیا۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں حکومتوں کے دور میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی نے مہنگائی کو بے قابو کر دیا، ہاں اسراف یعنی consumption کی بناء جی ڈی پی ترقی کا وقتی غلغلہ ضرور رہا۔ مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی کھینچا تانی نے معیشت اور گورننس کو بدستور زیر بار رکھا۔ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد پی ڈی ایم حکومت کے اقدامات نے عام آدمی کے لیے پہلے سے موجود معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔
نئی حکومت سازی کے بارے میں سیاسی پنڈت اپنی اپنی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے وزارت عظمیٰ کے لیے اپنے امیدوار عمر ایوب کا اعلان کر دیا ہے۔
دوسری جانب مخلوط حکومت بنانے کا بیڑا نون لیگ کی جانب سے شہباز شریف نے اٹھایا ہے۔ اس صورتحال میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن بادشاہ گر جیسی ہے۔ کون ہوگا وزیراعظم؟ یہ سوال دو ہفتوں کے اندر حل ہو جائے گا، رہی یہ پیشین گوئی کہ نئی حکومت اور نئے وزیراعظم کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا ؟ اس بابت کوئی ابہام نہیں ہے بلکہ یہ یقین گوئی نوشتہ دیوار ہے۔
جس ڈیفالٹ کو ٹالنے کا سہرا پی ڈی ایم اپنے سر باندھتے نہیں تھکتی، ڈیفالٹ کا وہ خطرہ بدستور دہلیز پر کھڑا ہے۔ نگران حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ قرض پروگرام مارچ میں طبعی عمر مکمل کرے گا۔ نئی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے قرض پروگرام کا فوری حصول ہو گا۔ یہ غالباً پاکستان کو 23واں پروگرام ہو گا۔
ملک کو بدستور شدید بجٹ خسارے اور مسلسل تجارتی و مالیاتی خسارے کا سامنا ہے۔ اس کا براہ راستہ اثر ڈالر روپے کی شرح مبادلہ پر پڑتا ہے۔ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا ٹریک ریکارڈ بہت مایوس کن رہا ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ برآمدات کے لیے فاضل صنعتی پیداوار موجود نہیں اور ملکی ضروریات کے لیے وافر مقدار میں صنعتی اور زرعی پیداوار بھی نہیں۔ اس فرسودہ معاشی ڈھانچے کا لازمی نتیجہ مہنگائی اور بے روزگاری کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح ہے۔نئی حکومت کی تشکیل کے بعد اسے کن معاشی چیلنجز اور مفاداتی ڈائنوسارز سے واسطہ پڑے گا۔
اس کے لیے پیشین گوئی کی ضرورت نہیں بلکہ نوشتہ دیوار یقین گوئی کی صورت سامنے ہے۔ ہم ایسے سادہ لوح الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں، اب نئی حکومت جانے اور اس کا کام ، تاہم جمال احسانی کا ایک حسب حال شعر اندیشہ ہائے قریب کی طرح ذہن کو جھنجھوڑ رہا ہے:
جہان بدلنے کا وہ بھی گمان رکھتے ہیں
جو گھر کے نقشے میں پہلے دوکان رکھتے ہیں