موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ایکسپریس فورم
96 فیصد فیکٹریوں میں امیشن کنٹرول سسٹم نصب،بہتری آئیگی،ظہیر عباس ملک،مسائل سے نمٹنے کیلیے رویے بدلناہونگے، نازیہ جبیں
موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا دنیا میں آٹھواں نمبر ہے۔ہم اس سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، سرکاری و نجی اداروں کے درمیان کوآرڈینیشن کا فقدان ہے لہٰذا ہم آہنگی اور اشتراک کو فروغ دیکر مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔
آفات کے دوران سماجی اداروں کا کردار مثبت رہا، یہ ادارے حکومت کی ہر ممکن سپورٹ کرتے ہیں، متاثرین کو راشن، حفاظتی کٹس، کپڑوں سمیت دیگر اشیائے ضرورت فراہم کرتے ہیں، ان کا کردار قابل تحسین ہے، ماحولیاتی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب نے کلین ایئر پالیسی بنائی، اسموگ کی روک تھام اور کنٹرول کیلیے رولز بنائے۔
ان خیالات کا اظہار حکومت، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ''موسمیاتی تبدیلی اور ناگہانی آفات میںسماجی تنظیموں کا کردار''کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔
ڈائریکٹر جنرل انوائرمینٹل پروٹیکشن اتھارٹی ظہیر عباس ملک نے کہا کہ روابط کا فقدان اور فیصلہ سازمی میں غیر ضروری تاخیر کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں ادارے اپنے اپنے تحت تو کام کرتے ہیں مگر آپس میں کووارڈینیشن کے مسائل ہیں لہٰذا روابط کیلیے ادارہ جاتی میکنزم بنانا ہوگا۔ اب تک 96 فیصد فیکٹریوں میں ایمیشن کنٹرول سسٹم لگ چکا ہے، جس کے بعد انڈسٹریل ایمیشن 9.3 سے کم ہو کر 1.7 فیصد پر آگئی ہے۔
ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے نازیہ جبیں نے کہاکہ پی ڈی ایم اے، ضلعی انتظامیہ کے ذریعے کام کرتا ہے جو لوگوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہوتے ہیں، 2023ء میں ہم نے آگاہی پر زیادہ توجہ دی، بار بار مساجد میں اعلانات کروائے گئے کہ علاقہ خالی کر دیں۔ ہماری بہتر حکمت عملی کی وجہ سے دریائے ستلج میں آنے والے سیلاب سے کم نقصان ہوا،ہماری یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔پی ڈی ایم اے کا کام رسپانس ہے،غیر سرکاری تنظیمیں اچھا کام کر رہیں،سب کو ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہاکہ ہم نے اپنے کورسز میں تبدیلیاں کی ہیں،ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ریلیف کی سرگرمیوں کو شامل کیا گیا ہے۔
نمائندہ سول سوسائٹی مبارک علی سرور نے کہاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے جبکہ جنوبی ایشیاء میں اس سے بھی بری حالت ہے۔ پاکستان گزشتہ دہائی میں خشک سالی، سیلاب و دیگر ناگہانی آفات کا شکار رہا ہے، 2010ء میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، 2022ء میں بھی سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیلاب آیا، 2023ء کا سیلاب ماضی کے سیلاب سے مختلف تھا، 1988ء کے بعد 2023ء میں دریائے ستلج میں 3 لاکھ کیوسک پانی آیامشکل حالات میں حکومت، پی ڈی ایم اے، ای پی اے، ریسکیو اور سول سوسائٹی سمیت دیگر اداروں کا کردار قابل ستائش ہے۔
آفات کے دوران سماجی اداروں کا کردار مثبت رہا، یہ ادارے حکومت کی ہر ممکن سپورٹ کرتے ہیں، متاثرین کو راشن، حفاظتی کٹس، کپڑوں سمیت دیگر اشیائے ضرورت فراہم کرتے ہیں، ان کا کردار قابل تحسین ہے، ماحولیاتی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب نے کلین ایئر پالیسی بنائی، اسموگ کی روک تھام اور کنٹرول کیلیے رولز بنائے۔
ان خیالات کا اظہار حکومت، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ''موسمیاتی تبدیلی اور ناگہانی آفات میںسماجی تنظیموں کا کردار''کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔
ڈائریکٹر جنرل انوائرمینٹل پروٹیکشن اتھارٹی ظہیر عباس ملک نے کہا کہ روابط کا فقدان اور فیصلہ سازمی میں غیر ضروری تاخیر کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں ادارے اپنے اپنے تحت تو کام کرتے ہیں مگر آپس میں کووارڈینیشن کے مسائل ہیں لہٰذا روابط کیلیے ادارہ جاتی میکنزم بنانا ہوگا۔ اب تک 96 فیصد فیکٹریوں میں ایمیشن کنٹرول سسٹم لگ چکا ہے، جس کے بعد انڈسٹریل ایمیشن 9.3 سے کم ہو کر 1.7 فیصد پر آگئی ہے۔
ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے نازیہ جبیں نے کہاکہ پی ڈی ایم اے، ضلعی انتظامیہ کے ذریعے کام کرتا ہے جو لوگوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہوتے ہیں، 2023ء میں ہم نے آگاہی پر زیادہ توجہ دی، بار بار مساجد میں اعلانات کروائے گئے کہ علاقہ خالی کر دیں۔ ہماری بہتر حکمت عملی کی وجہ سے دریائے ستلج میں آنے والے سیلاب سے کم نقصان ہوا،ہماری یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔پی ڈی ایم اے کا کام رسپانس ہے،غیر سرکاری تنظیمیں اچھا کام کر رہیں،سب کو ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہاکہ ہم نے اپنے کورسز میں تبدیلیاں کی ہیں،ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ریلیف کی سرگرمیوں کو شامل کیا گیا ہے۔
نمائندہ سول سوسائٹی مبارک علی سرور نے کہاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے جبکہ جنوبی ایشیاء میں اس سے بھی بری حالت ہے۔ پاکستان گزشتہ دہائی میں خشک سالی، سیلاب و دیگر ناگہانی آفات کا شکار رہا ہے، 2010ء میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، 2022ء میں بھی سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیلاب آیا، 2023ء کا سیلاب ماضی کے سیلاب سے مختلف تھا، 1988ء کے بعد 2023ء میں دریائے ستلج میں 3 لاکھ کیوسک پانی آیامشکل حالات میں حکومت، پی ڈی ایم اے، ای پی اے، ریسکیو اور سول سوسائٹی سمیت دیگر اداروں کا کردار قابل ستائش ہے۔