انتخابات سب کے خواب ادھورے رہ گئے

یہ بات سو فیصد درست ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ ان سیاست دانوں سے مایوس ہو چکا

meemsheenkhay@gmail.com

لیجیے جناب، الیکشن کا اختتام کیا ہوا ، انتخابی مہم کے دوران بیانات سے تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہر پارٹی کراچی سے لے کر خیبر تک فتح کا جھنڈا بلند رکھے گی مگر مزے کی بات دیکھیں کہ کوئی سیاسی پارٹی اکثریت کا پہاڑ نہ توڑ سکی اور اب سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں، سب وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور پھر سب کے خواب ادھورے رہ گئے۔

خواب بہت کم سچائی کا ساتھ دیتے ہیں ہاں کامیابی کی امید ضرور ہوتی ہے، مسلم لیگ ن والے کہہ رہے تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف ہوں گے کیونکہ ان پر بے بنیاد مقدمات بنائے گئے یہی جملہ پی ٹی آئی والے بھی کہہ رہے تھے اور قوم حیران و پریشان ہو کر ان کے منہ دیکھ رہی تھی۔

سب سے پہلے تو افواج پاکستان کو مبارک ہو کہ اس نے الیکشن کے دوران خوبصورت کردار ادا کیا اس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی اپنا کردار خوش اسلوبی سے انجام دیا کچھ شہروں میں شکایتیں ضرور یوٹیوب کے ذریعے آن ایئر ہوئیں کیونکہ لکھی ہوئی تحریر غلط بھی ہو سکتی ہے مگر وڈیو کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کچھ شر پسند حضرات نے بدمزگی کا مظاہرہ کیا مگر قوم نے اس کو نظرانداز کرکے ایک بہتر شہری ہونے کا ثبوت دیا۔

الیکشن سے قبل نئے مہمانوں کے خیرمقدم کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کیفے ٹیریا کی تزئین و آرائش کا فیصلہ کیا گیا ویسے بھی وہاں کا کیفے بہت سستا ہے جس سے ہمارے ایم این اے حضرات مستفید ہوتے ہیں اور یہ اچھی بات ہے کہ غریب عوام کے رہبر اس فائدے سے سرخرو ہوں گے، یہ بات دوسری ہے کہ غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں سیاسی حضرات عوام کو اپنے دلوں میں زندہ رہنے کے لیے ادھورے بیانات دیتے ہیں، اپنے سیاسی تعلقات کو بالکل نظرانداز نہیں کرتے جملہ کچھ یوں ہوتا ہے ایک بڑی پارٹی نے تو کرپشن کی حد کردی اب کس کو کہہ رہے ہیں یہ قوم کو پتا نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ الیکشن کے بعد کے رزلٹ کے لیے اپنی جھولی میں دوستی کے پھول ضرور رکھتے ہیں کہ نہ جانے کب اتحاد کی ضرورت پڑ جائے۔

تمام پارٹیوں نے اپنے منشور بیان کیے مگر کسی پارٹی نے لاقانونیت کے خاتمے کا ذکر نہیں کیا۔ اس ملک میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں بے قصور لوگ جو روزگار کے لیے نکلتے ہیں، مارے جاتے ہیں سی سی ٹی وی میں شکلیں تک نظر آتی ہیں مگر نہ جانے وہ کہاں چلے جاتے ہیں ہر منشور میں مہنگائی کا تذکرہ دل و جان سے نظر آیا مگر پی ڈی ایم حکومت میں جو مہنگائی ہوئی وہ آج تک رواں دواں ہے 2 سال پہلے 40 روپے کلو والی پیاز دوسو روپے کلو بکتی ہے آخر کیوں؟

اس کا جواب پی ڈی ایم کی پارٹیوں کے پاس نہیں ہے اب الیکشن ہو چکا شہباز شریف وزیر اعظم، مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد ہو رہی ہیں، خبر ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کو صدر پاکستان دوبارہ بنایا جائے ،یہ بلاول کی خواہش ہے جب کہ زرداری صاحب کا خیال تھا کہ وزیر اعظم بلاول بھٹو کو بنوائیں گے، ابھی تک معاملات مبہم ہیں اور کچھ بھی تبدیلی آ سکتی ہے، اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا سب کو انتظار ہے۔

اب آتے ہیں پی ٹی آئی کی طرف، پی ٹی آئی کے چیئرمین فی الحال سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے جیل میں ہیں اگر وہ جیل میں نہ ہوتے تو شاید الیکشن کے رزلٹ میں خاصی تبدیلی ہوتی ۔دکھ اس بات کا ہے کہ پارٹیاں جو منشور قوم کو دیتی ہیں اس پر ذرہ برابر عمل نہیں ہوتا ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں کے نظام اور کارکردگی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح مثبت نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کی درویش جماعتیں صرف جمہوریت کا پرچم اٹھائے پھرتی ہیں انھوں نے قرضے لے لے کر ملک کو بدحال کر دیا ہے ہمارے جمہوری نظام میں غریب عوام کشکول کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔


دل ایک بلیک بورڈ کی شکل اختیار کر چکا ہے دلوں پر اخبارات کے توسط سے نئی خبریں چھپتی ہیں رات میں وہ مٹ جاتی ہیں صبح دل ناتواں نئی خبروں کی تیاری کرتا ان کے بیانات پڑھ کر نگاہ کمزور ہو چکی ہے حافظہ زنگ آلود ہو گیا ہے اس جمہوری نظام سے فی الحال گزشتہ 30 سال سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ۔اس الیکشن میں جماعتوں کے منشور میں ایک بات واضح تھی کہ ہم روٹی، چینی سستی کریں گے۔

آپ غور سے پڑھ لیں کسی نے منشور میں یہ نہیں لکھا کہ قوم کو فری میڈیکل کی سہولتیں دیں گے کسی نے تشریح نہیں کی کہ دل کے مریضوں کے آپریشن (بائی پاس) فری ہوں گے کینسر کا علاج فری ہوگا اب تو کینسر کا علاج 30 لاکھ سے شروع ہو کر 60 لاکھ تک ہو رہا ہے اور جو یہ علاج کروا سکتے ہیں انھیں ان سیاسی جماعتوں کے منشور کی قطعی ضرورت نہیں ہے غریب ضرور لائن میں کھڑا ہوتا ہے۔

اب تعلیم یافتہ افراد بھی سوچتے ہیں کہ ووٹ کے حوالے سے کیا کریں سیاسی اکھاڑہ ایک ہے پہلوان تبدیل ہو کر آتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ راقم کی تحریر سے کچھ لوگ ناراض بھی ہوتے ہوں گے مگر ہم ٹھہرے غریب اور ناتواں صحافی تو ہم اپنے جیسے لوگوں کی بات کریں گے۔ مزے کی بات دیکھیں ماضی میں جو فریب زدہ نعرے سیاسی طور پر لگے تھے ان کی عمر ناتواں اپنی انجام کو پہنچی کھوکھلے بیانات کی تدفین عنقریب ہونے والی ہے۔

عوام کو اس دلاسے کے ماحول میں جینا اب مجبوری ہے مگر اس مجبوری کے دروازے کو کوئی کھولنے کے لیے تیار نہیں پاکستان میں سیاست ایک گلدستہ ہے اور گلدستے میں بہت پھول ہوتے ہیں یہ سیاسی وعدے پورے نہ ہونے کے بعد مرجھا جاتے ہیں اور پھر نئے الیکشن کے موقع پر اس کو پھولوں سے جھوٹے وعدوں کے تحت سجایا جاتا ہے سیاسی تاریخ کا سب سے خوبصورت سبق یہ ہے کہ سبق پر عمل نہ کرو۔

پی ٹی آئی کی کیا پالیسی ہوگی اس کے حوالے سے پی ٹی آئی کے گوہر بہتر جانتے ہیں مگر (ن) لیگ اور پی پی پی عوام کے لیے بہتر حکومت تشکیل دے سکتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو قوم کو مایوسی ہوگی وزارتوں میں مقابلہ بازی نہ کی جائے یہ شاید آخری موقع ہے کہ قوم منتظر ہوگی کہ یہ سیاسی حضرات اٹھ کھڑے ہوں اور اگر ایسا نہ ہوا تو اگلے 5 سال میں شاید خوشی خوشی ووٹ نہ دیں یہ سیاسی حضرات اب انا کی جنگ ختم کریں اور مل جل کر قوم کی بہتری کے لیے دن رات ایک کردیں۔

یہ بات سو فیصد درست ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ ان سیاست دانوں سے مایوس ہو چکا اور جو غیر تعلیم یافتہ ہیں ان کے بچے بھی بی اے، انٹر اور میٹرک کر لیں گے اور جب انسان کا شعور پختہ ہو جاتا ہے تو وہ سوچ سمجھ کر فیصلے کرتا ہے جس کی مثال حالیہ الیکشن ہے کہ (ن) لیگ، پی پی پی کو کوئی نمایاں کامیابی قومی اسمبلی کے حوالے سے نہیں ملی، عمران خان پر قوم نے ووٹ کے حوالے سے توجہ دی، اس کا مطلب ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے نے عمران خان کو بھرپور ووٹ دیے ہیں تو پی پی پی اور (ن) لیگ سوچیں کہ اگلے پانچ سال میں سو فیصد تبدیلی آ سکتی ہے۔

سیاسی تبدیلی کے تحت اس دفعہ 19 نئے چہرے قومی اسمبلی میں آ چکے ہیں سوچیں اگر ان سیاسی پارٹیوں نے اس دفعہ قوم کو مایوس کیا تو اگلے پانچ سال یہ بڑی پارٹیاں قوم کے ووٹ سے محروم بھی ہو سکتی ہیں اور اب انٹرنیٹ نے بہت ترقی کرلی ہے۔ روڈ کی خبر تو ٹی وی اخبارات میں تاخیر سے آتی ہیں جب کہ سوشل میڈیا کی صورت میں خبر کو لمحوں میں قوم کے سامنے عیاں کر دیتی ہے، لہٰذا ان سیاسی پارٹیوں کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔

تیس سال پہلے والا زمانہ گیا گاؤں میں جو شخص تین ہزار کی سائیکل پر سفر کرتا تھا، اب اس کے ہاتھ میں پچیس ہزار کا موبائل ہوتا ہے مگر یہ بڑے سیاستدان آج بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں یہ ان کی بھول ہے، لہٰذا آنیوالی حکومت جو بھی ہو اسے پانچ سال بہت محتاط طریقے سے گزارنے ہوں گے ،اب دھینگا مشتی نہیں چلے گی قومی جذبات کا احترام کرنا ہوگا۔
Load Next Story