عوام کے جان و مال کا تحفظ
اب تو گھر کے اندر اور گھر کے دروازے پر بھی انسان محفوظ نہیں
جس معاشرے میں غربت، بیروزگاری، دولت کی غیر مساوی تقسیم، لاقانونیت، ناخواندگی، پسماندگی، مہنگائی اور بے راہ روی کا دور دورہ ہو، اس معاشرے میں جرائم بڑی تیزی سے بڑھتے ہیں اور ایسے میں ان جرائم کو کنٹرول کرنا اور ان سے عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
جرم ایک ایسے انسانی فعل کو کہتے ہیں جو قانونی طور پر ممنوع قرار دیا جاتا ہے اور جس سے انسانی زندگیوں، ان سے وابستہ اخلاقیات اور ریاست کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچتا ہے اور اس کی قانون میں سزا بھی مقرر ہوتی ہے۔ جرائم کئی قسم کے ہوتے ہیں مثلاً انسانوں کے خلاف جرم، جائیداد کے خلاف جرم، وائٹ کالر جرائم اور انسانوں کے اپنی ذات کے خلاف جرم شامل ہیں۔
انسانوں کے خلاف جرائم میں قتل، اقدام قتل، ٹارگٹ کلنگ، دہشتگردی، بم دھماکے، جھگڑا، فساد، کسی انسان کو زخمی کرنا، ملازموں پر تشدد، جنسی زیادتی اور اغوا شامل ہیں۔ جائیداد کے خلاف جرائم میں بینک ڈکیتی، ہائی وے ڈکیتی، پٹرول پمپ ڈکیتی، مویشی چوری، کار اور موٹر سائیکل چوری شامل ہیں۔
اسی طرح بیورو کریسی جرائم ایسے جرائم کو کہتے ہیں جن کا ارتکاب اعلیٰ اور عزت دار طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی ملازمت کے دوران کرتے ہیں اور ایسے جرائم جن سے انسان اپنی ہی ذات کو نقصان پہنچاتا ہے ان میں نشے کی عادت اور خودکشی شامل ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان میں ایسے جرائم کی بہتات ہے جو گلی محلوں میں انجام دیے جاتے ہیں اور جنھیں اسٹریٹ کرائمز کا نام دیا جاتا ہے۔
اسٹریٹ کرائمز میں جیب کتری، موبائل، پرس، موٹر کار، موٹر بائیک اور اسی طرح کی دوسری اشیاء اسلحے کے زور پر چھیننا شامل ہیں۔ اس طرح کے زیادہ تر جرائم بازاروں، سنسان سڑکوں اور پوش علاقوں میں دیکھنے میں آتے ہیں اور ان کے دوران بہت سی انسانی جانیں بھی ضایع ہو جاتی ہیں۔ جب کوئی انسان ان وقوعات کے دوران مزاحمت کی کوشش کرتا ہے تو اسے اس کے قیمتی مال سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ قتل کر کے زندہ رہنے کے حق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔
اب تو گھر کے اندر اور گھر کے دروازے پر بھی انسان محفوظ نہیں۔ اسٹریٹ کرائمز کا زیادہ تر شکار 16 سے 65 سال کی عمر کے مرد یا خواتین بنتی ہیں۔ جو یا تو طالبعلم ہوتے ہیں یا پھر کسی بھی نجی یا سرکاری ادارے میں کام کرتے ہیں۔ اسٹریٹ کرائمز کی زیادہ تر رپورٹیں تھانے میں نہیں لکھوائی جاتیں۔ زیادہ تر لوگ پولیس کی جانب سے صحیح اور بروقت اقدام نہ کیے جانے، رشوت ستانی اور ملزمان کو پکڑنے کے بجائے سائل کو بے جا تنگ کرنے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کے خوف سے پولیس کو اپنے ساتھ ہونیوالے جرائم سے آگاہ نہیں کرتے۔ اس طرح تقریباً 70 فیصد جرائم کے کیس درج نہیں ہو پاتے۔
CPLC کے مطابق ہر روز 103 موبائل فون چھینے جاتے ہیں۔ موبائل فون کمپنیوں کے IMEI باوجود سسٹم متعارف کروانے کے موبائل چوری اور چھیننے کی وارداتوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پہلے پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، اسٹریٹ کرائمز کا مرکز تھا، لیکن 2023 کے آغاز سے گلشن حدید میں بھی ایسی منفی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے اور اب یہاں بھی عوام کے جان اور مال محفوظ نہیں رہے۔ دن دیہاڑے ڈکیتی، قتل، ٹارگٹ کلنگ، چوری، اغوا اور پرس چھیننے کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔
لوگ گھروں میں محفوظ نہیں عورتیں بچے سب ہائی رسک پر ہیں، ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوںمیرے بھتیجے زوہیب اعجازشیخ کے ساتھ پیش آیا، جسے گھر کے دروازے پر لوٹ لیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق یکم نومبر سے 22 دسمبر کے دوران 44 دن میں 50 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اسٹریٹ کرائمز کے 321 کیس درج کیے گئے اور 650 سے زائد موٹر سائیکلیں اس عرصے میں چھینی گئیں یا چوری ہوئیں۔ جب کہ جولائی 2023میں 15 دن کے دوران 113 بچے اغوا کیے گئے اور کئی اغوا کاروں کو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پکڑ کر ان کی خوب دھلائی بھی کی اور اس خاص عرصے کے دوران لوگوں میں اپنے بچوں کی حفاظت کو لے کر خوف و ہراس کی فضا پھیلی رہی۔
اسی طرح ملک کے دیگر شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی اسی طرح کے اسٹریٹ کرائمز کا روز ہی کوئی نہ کوئی شکار بنتا ہے، کیونکہ کروڑوں کی آبادی والے شہر میں پولیس صرف چند ہزار پولیس اہلکار ڈیوٹی پر لگائے گئے ہیں جو اتنی بڑی آبادی والے شہر کے لیے ناکافی ہیں اور اسی وجہ سے جرائم کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ہر دوسرے آدمی کے پاس اپنے ساتھ ہوئے جرم کی الگ ہی داستان موجود ہے، جسے وہ بڑی بیچارگی و بے بسی سے سناتا دکھائی دیتا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز اور دوسرے تمام جرائم کی ایک سب سے بڑی بنیادی وجہ بیروزگاری ہے۔ آجکل نوجوان پڑھنے لکھنے کے باوجود باعزت روزگار سے محروم ہیں۔ یا پھر ان کے پاس کوئی ایسی بڑی سفارش موجود نہیں ہے جو انھیں روزگار دلوا سکے۔
اہل افراد کو موقع نہیں دیا جاتا جب کہ نااہل افراد سفارش کی بناء پہ اعلیٰ عہدوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور یہی غیر منصفانہ رویہ نوجوانوں میں شدت پسندی اور بدلے کی خواہش کو جنم دیتا ہے اور وہ دوسروں سے ان کی آسائشات چھیننا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ غربت اور دولت کی غیر مساوی تقسیم بھی ان بڑھتے ہوئے جرائم کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ ناخواندگی بھی جرائم کی پیدائش کا اہم ذریعہ ہے۔
ناخواندہ افراد قانون اور اخلاقیات کے ساتھ ساتھ ان کے دوسرے افراد کی جانب فرائض سے نا آشنا ئی کی وجہ سے ایسے غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکات و افعال جو جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، ان کا بلا خوف و ندامت ارتکاب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بنیادی وجہ جس کے باعث اسٹریٹ کرائمز معاشرے میں ناسور کی شکل اختیار کر چکے ہیں وہ پولیس فورس کی نااہلی و بے توجہی، رشوت ستانی اور مجرموں و جرائم کے بر وقت خاتمے بارے ان کی عدم دلچسپی ہے۔
پولیس کے اسی رویے کی وجہ سے معاشرے میں جرائم جراثیم کی طرح پھیل رہے ہیں اور اگر فرض کریں پولیس مجرموں کو پکڑ بھی لیتی ہے تو ان کو عدالت کی طرف سے بروقت اور قابل عبرت سزائیں نہیں دی جاتیں، جو دوسرے مجرموں کے لیے عبرت کا باعث بنیں۔ معاشرے کی روایت بن چکی ہے کہ غریب اگر جرم نہ بھی کرے تو وہ مجرم قرار پاتا ہے جب کہ اعلیٰ عہدوں اور اونچی گدیوں پر بیٹھنے والے اگر جان بوجھ کر بھی ناقابل تلافی جرم کا ارتکاب کریں تب بھی ان کا جرم، جرم نہیں سمجھا جاتا۔
ہماری حکومت عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ عوام کی جان و مال کا تحفظ جو ان کا بنیادی حق ہے وہ تک عوام کو دینے میں حکومت ابھی تک سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان دن بدن بڑھتے اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے ان تمام عوامل کا خاتمہ کرے جو ان کو بڑھاوا دیتے یا ان کے جنم کا باعث بنتے ہیں اور معاشرے میں امن و امان کی فضاء قائم کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں، مثلاً غربت کو کنٹرول کیا جائے۔
نئے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بنائی جائیں اور خواندگی کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ بیروزگاری کا خاتمہ کیا جائے اور میرٹ کی بنیاد پر نوکریاں فراہم کی جائیں نہ کہ سفارش کے بل بوتے پر۔ دن بدن بڑھتی اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے تاکہ عوام کو دو وقت کی روٹی سہولت سے میسر ہو اور سب سے بڑھ کر پولیس فورس کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ رشوت سے دور رہیں اور انھیں اپنا کام دلجمعی اور دیانت کے ساتھ انجام دینے میں کسی قسم کی کوئی دقت محسوس نہ ہو۔
تھانہ سسٹم کو ایسا بنا دیا جائے کہ لوگوں کو اپنی شکایات درج کروانے میں کوئی خوف و ہچکچاہٹ محسوس نہ ہو۔ اور انھیں پولیس افسران کی جانب سے غیر جانبداری کا پورا یقین ہو۔
جرم ایک ایسے انسانی فعل کو کہتے ہیں جو قانونی طور پر ممنوع قرار دیا جاتا ہے اور جس سے انسانی زندگیوں، ان سے وابستہ اخلاقیات اور ریاست کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچتا ہے اور اس کی قانون میں سزا بھی مقرر ہوتی ہے۔ جرائم کئی قسم کے ہوتے ہیں مثلاً انسانوں کے خلاف جرم، جائیداد کے خلاف جرم، وائٹ کالر جرائم اور انسانوں کے اپنی ذات کے خلاف جرم شامل ہیں۔
انسانوں کے خلاف جرائم میں قتل، اقدام قتل، ٹارگٹ کلنگ، دہشتگردی، بم دھماکے، جھگڑا، فساد، کسی انسان کو زخمی کرنا، ملازموں پر تشدد، جنسی زیادتی اور اغوا شامل ہیں۔ جائیداد کے خلاف جرائم میں بینک ڈکیتی، ہائی وے ڈکیتی، پٹرول پمپ ڈکیتی، مویشی چوری، کار اور موٹر سائیکل چوری شامل ہیں۔
اسی طرح بیورو کریسی جرائم ایسے جرائم کو کہتے ہیں جن کا ارتکاب اعلیٰ اور عزت دار طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی ملازمت کے دوران کرتے ہیں اور ایسے جرائم جن سے انسان اپنی ہی ذات کو نقصان پہنچاتا ہے ان میں نشے کی عادت اور خودکشی شامل ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان میں ایسے جرائم کی بہتات ہے جو گلی محلوں میں انجام دیے جاتے ہیں اور جنھیں اسٹریٹ کرائمز کا نام دیا جاتا ہے۔
اسٹریٹ کرائمز میں جیب کتری، موبائل، پرس، موٹر کار، موٹر بائیک اور اسی طرح کی دوسری اشیاء اسلحے کے زور پر چھیننا شامل ہیں۔ اس طرح کے زیادہ تر جرائم بازاروں، سنسان سڑکوں اور پوش علاقوں میں دیکھنے میں آتے ہیں اور ان کے دوران بہت سی انسانی جانیں بھی ضایع ہو جاتی ہیں۔ جب کوئی انسان ان وقوعات کے دوران مزاحمت کی کوشش کرتا ہے تو اسے اس کے قیمتی مال سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ قتل کر کے زندہ رہنے کے حق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔
اب تو گھر کے اندر اور گھر کے دروازے پر بھی انسان محفوظ نہیں۔ اسٹریٹ کرائمز کا زیادہ تر شکار 16 سے 65 سال کی عمر کے مرد یا خواتین بنتی ہیں۔ جو یا تو طالبعلم ہوتے ہیں یا پھر کسی بھی نجی یا سرکاری ادارے میں کام کرتے ہیں۔ اسٹریٹ کرائمز کی زیادہ تر رپورٹیں تھانے میں نہیں لکھوائی جاتیں۔ زیادہ تر لوگ پولیس کی جانب سے صحیح اور بروقت اقدام نہ کیے جانے، رشوت ستانی اور ملزمان کو پکڑنے کے بجائے سائل کو بے جا تنگ کرنے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کے خوف سے پولیس کو اپنے ساتھ ہونیوالے جرائم سے آگاہ نہیں کرتے۔ اس طرح تقریباً 70 فیصد جرائم کے کیس درج نہیں ہو پاتے۔
CPLC کے مطابق ہر روز 103 موبائل فون چھینے جاتے ہیں۔ موبائل فون کمپنیوں کے IMEI باوجود سسٹم متعارف کروانے کے موبائل چوری اور چھیننے کی وارداتوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پہلے پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، اسٹریٹ کرائمز کا مرکز تھا، لیکن 2023 کے آغاز سے گلشن حدید میں بھی ایسی منفی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے اور اب یہاں بھی عوام کے جان اور مال محفوظ نہیں رہے۔ دن دیہاڑے ڈکیتی، قتل، ٹارگٹ کلنگ، چوری، اغوا اور پرس چھیننے کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔
لوگ گھروں میں محفوظ نہیں عورتیں بچے سب ہائی رسک پر ہیں، ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوںمیرے بھتیجے زوہیب اعجازشیخ کے ساتھ پیش آیا، جسے گھر کے دروازے پر لوٹ لیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق یکم نومبر سے 22 دسمبر کے دوران 44 دن میں 50 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اسٹریٹ کرائمز کے 321 کیس درج کیے گئے اور 650 سے زائد موٹر سائیکلیں اس عرصے میں چھینی گئیں یا چوری ہوئیں۔ جب کہ جولائی 2023میں 15 دن کے دوران 113 بچے اغوا کیے گئے اور کئی اغوا کاروں کو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پکڑ کر ان کی خوب دھلائی بھی کی اور اس خاص عرصے کے دوران لوگوں میں اپنے بچوں کی حفاظت کو لے کر خوف و ہراس کی فضا پھیلی رہی۔
اسی طرح ملک کے دیگر شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی اسی طرح کے اسٹریٹ کرائمز کا روز ہی کوئی نہ کوئی شکار بنتا ہے، کیونکہ کروڑوں کی آبادی والے شہر میں پولیس صرف چند ہزار پولیس اہلکار ڈیوٹی پر لگائے گئے ہیں جو اتنی بڑی آبادی والے شہر کے لیے ناکافی ہیں اور اسی وجہ سے جرائم کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ہر دوسرے آدمی کے پاس اپنے ساتھ ہوئے جرم کی الگ ہی داستان موجود ہے، جسے وہ بڑی بیچارگی و بے بسی سے سناتا دکھائی دیتا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز اور دوسرے تمام جرائم کی ایک سب سے بڑی بنیادی وجہ بیروزگاری ہے۔ آجکل نوجوان پڑھنے لکھنے کے باوجود باعزت روزگار سے محروم ہیں۔ یا پھر ان کے پاس کوئی ایسی بڑی سفارش موجود نہیں ہے جو انھیں روزگار دلوا سکے۔
اہل افراد کو موقع نہیں دیا جاتا جب کہ نااہل افراد سفارش کی بناء پہ اعلیٰ عہدوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور یہی غیر منصفانہ رویہ نوجوانوں میں شدت پسندی اور بدلے کی خواہش کو جنم دیتا ہے اور وہ دوسروں سے ان کی آسائشات چھیننا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ غربت اور دولت کی غیر مساوی تقسیم بھی ان بڑھتے ہوئے جرائم کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ ناخواندگی بھی جرائم کی پیدائش کا اہم ذریعہ ہے۔
ناخواندہ افراد قانون اور اخلاقیات کے ساتھ ساتھ ان کے دوسرے افراد کی جانب فرائض سے نا آشنا ئی کی وجہ سے ایسے غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکات و افعال جو جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، ان کا بلا خوف و ندامت ارتکاب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بنیادی وجہ جس کے باعث اسٹریٹ کرائمز معاشرے میں ناسور کی شکل اختیار کر چکے ہیں وہ پولیس فورس کی نااہلی و بے توجہی، رشوت ستانی اور مجرموں و جرائم کے بر وقت خاتمے بارے ان کی عدم دلچسپی ہے۔
پولیس کے اسی رویے کی وجہ سے معاشرے میں جرائم جراثیم کی طرح پھیل رہے ہیں اور اگر فرض کریں پولیس مجرموں کو پکڑ بھی لیتی ہے تو ان کو عدالت کی طرف سے بروقت اور قابل عبرت سزائیں نہیں دی جاتیں، جو دوسرے مجرموں کے لیے عبرت کا باعث بنیں۔ معاشرے کی روایت بن چکی ہے کہ غریب اگر جرم نہ بھی کرے تو وہ مجرم قرار پاتا ہے جب کہ اعلیٰ عہدوں اور اونچی گدیوں پر بیٹھنے والے اگر جان بوجھ کر بھی ناقابل تلافی جرم کا ارتکاب کریں تب بھی ان کا جرم، جرم نہیں سمجھا جاتا۔
ہماری حکومت عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ عوام کی جان و مال کا تحفظ جو ان کا بنیادی حق ہے وہ تک عوام کو دینے میں حکومت ابھی تک سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان دن بدن بڑھتے اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے ان تمام عوامل کا خاتمہ کرے جو ان کو بڑھاوا دیتے یا ان کے جنم کا باعث بنتے ہیں اور معاشرے میں امن و امان کی فضاء قائم کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں، مثلاً غربت کو کنٹرول کیا جائے۔
نئے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بنائی جائیں اور خواندگی کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ بیروزگاری کا خاتمہ کیا جائے اور میرٹ کی بنیاد پر نوکریاں فراہم کی جائیں نہ کہ سفارش کے بل بوتے پر۔ دن بدن بڑھتی اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے تاکہ عوام کو دو وقت کی روٹی سہولت سے میسر ہو اور سب سے بڑھ کر پولیس فورس کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ رشوت سے دور رہیں اور انھیں اپنا کام دلجمعی اور دیانت کے ساتھ انجام دینے میں کسی قسم کی کوئی دقت محسوس نہ ہو۔
تھانہ سسٹم کو ایسا بنا دیا جائے کہ لوگوں کو اپنی شکایات درج کروانے میں کوئی خوف و ہچکچاہٹ محسوس نہ ہو۔ اور انھیں پولیس افسران کی جانب سے غیر جانبداری کا پورا یقین ہو۔