جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا…افضل گرو شہید
افضل گرو کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کا ایک اعترافی بیان منظر عام پر آیا جس پر مبینہ طور پر اس کے دستخط تھے
2019، میں بھارتی صحافی سنیترا چوہدری اور سنیل گپتا، سابقہ سپرنٹنڈنٹ اور لیگل ایڈوائزر، تہاڑ جیل کی لکھی گئی ایک کتاب ''بلیک وارنٹ'' شایع کی گئی جس میں طریقہ کار کی غلطیوں اور بدعنوانی کے مشترکہ اعترافات کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کی وجہ سے انصاف کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔
اپنی اس کتاب میں ہی ایک جگہ سنیل گپتا نے تحریر کیا کہ'' مشہور حریت پسند لیڈر افضل گرو وہ واحد شخص تھے جن کو پھانسی دیتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے۔کچھ عرصہ قبل انھوں نے ایک انڈین چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے افضل گرو شہید کی زندگی کے آخری لمحات کا تذکرہ کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری سروس میں آٹھ افراد کو پھانسی چڑھتے دیکھا لیکن مشہور حریت پسند لیڈر افضل گرو وہ واحد شخص تھے جن کو پھانسی دیتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے۔
افضل گرو شہید 1969 میں جموں و کشمیر کے بارہ مولہ ضلع کے سوپور قصبے کے قریب دو آبگاہ گاؤں میں حبیب اللہ کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ حبیب اللہ لکڑی اور نقل و حمل کا کاروبار کرتے تھے جو گرو کے بچپن میں ہی انتقال کر گئے۔ گرو نے گورنمنٹ اسکول، سوپور سے اسکول کی تعلیم مکمل کی اور 1986 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اس نے جہلم ویلی میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔
اس نے اپنے ایم بی بی ایس کورس کا پہلا سال مکمل کر لیا تھا اور مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہا تھا جب اس نے دوسری سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔
13، دسمبر 2001 کو مسلح حریت پسند انڈین وزارت داخلہ اور پارلیمنٹ کے لیبلوں والی گاڑی میں پارلیمنٹ میں گھس آئے، وہ احاطے میں کھڑی اس وقت کے نائب صدر کرشن کانت کی کار میں گھس گئے اور فائرنگ شروع کر دی۔ وزراء اور ارکان اسمبلی بال بال بچ گئے۔
تقریباً 30 منٹ تک دونوں جانب سے شدید فائرنگ کی جاتی رہی۔ اس حملے میں 8 انڈین سیکیورٹی اہلکاروں اور ایک باغبان سمیت 9 افراد ہلاک اور 13 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 16 افراد زخمی ہوئے جب کہ پانچ کشمیری حریت پسند شہید ہوئے۔
15، دسمبر 2001 کو دہلی پولیس نے افضل گرو کو انڈین پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے میں سہولت کاری کے الزام میں سرینگر سے گرفتار کیا اور اس پر انسداد دہشت گردی ایکٹ، 2002 اور تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت الزام لگایا گیا تھا جس میں حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنا اور اس کے ارتکاب کی سازش شامل تھی۔
قتل اور مجرمانہ سازش، دہشت گردانہ کارروائی کی سازش اور جان بوجھ کر سہولت فراہم کرنا یا دہشت گردی کی کارروائی کی تیاری کرنا، اور رضاکارانہ طور پر ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کو پناہ دینا اور چھپانا جیسے الزامات شامل تھے۔
افضل گرو کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کا ایک اعترافی بیان منظر عام پر آیا جس پر مبینہ طور پر اس کے دستخط تھے، جسے ڈی سی پی، اسپیشل سیل نے ریکارڈ کیا تھا۔سپریم کورٹ پولیس اہلکاروں کے اس عمل سے ناراض تھی، جنھوں نے اپنی حد سے زیادہ جوش میں، میڈیا سے افضل گرو کے انٹرویو کا انتظام کیا تھا۔
تاہم سات ماہ کے بعد، گرو نے اس اعتراف کو مسترد کر دیا اور سپریم کورٹ نے اس کے خلاف ثبوت کے طور پر پہلے کے اعتراف کو قبول نہیں کیا۔گرو کے وکیل سشیل کمار نے بعد میں دعویٰ کیا کہ گرو نے انھیں ایک خط لکھا تھا جس میں گرو نے کہا تھا کہ اس نے یہ اعتراف مجبوری کے تحت کیا ہے کیونکہ ان کے خاندان کو دھمکیاں دی جارہی تھیں۔
بھارتی صحافی ونود کے جوس نے دعویٰ کیا کہ 2006 میں ایک انٹرویو میں افضل گرو نے کہا تھا کہ انھیں انتہائی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں ان کے پرائیویٹ حصوں میں بجلی کے جھٹکے اور گرفتاری کے بعد ان کے خاندان کے حوالے سے دھمکیوں کے ساتھ گھنٹوں تک مار پیٹ کی گئی۔ اس کی گرفتاری کے وقت اور ابتدائی الزامات کے دائر ہونے کے درمیان، گرو کو بتایا گیا کہ اس کے بھائی کو حراست میں رکھا گیا ہے۔ جب کہ اس کے اس خود ساختہ اعتراف کے وقت، اس کی جانب سے کسی کو قانونی نمایندگی نہیں دی گئی تھی۔
کشمیر میں سیاسی گروپوں سمیت مختلف انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے گرو کو معافی دینے کی اپیل کی گئی تھی جن کا خیال ہے کہ گرو کو منصفانہ ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا بلکہ اس کے خلاف الزامات بدعنوان اور نا اہل پولیس افسران کی نااہلی کا شاخسانہ تھے۔ ہندوستان اور دنیا کے مختلف حصوں میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے انڈیا کو اس پھانسی پر عمل درآمد کرنے سے باز رہنے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ اس مقدمے میں بے شمار خامیاں تھیں۔
بہت سے غیر جانبدار صحافیوں نے اس مقدمے کی مذمت کی اور دلیل دی کہ گرو کو قدرتی انصاف سے انکار کیا گیا ہے جب کہ بہت سی انسانی حقوق کی تنظیموں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے ہیں۔ نومبر 2012 کو صدر نے سات مقدمات وزارت داخلہ (MHA) کو واپس بھیجے تھے جن میں افضل گرو کے کیس بھی شامل تھے۔
صدر نے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے سے درخواست کی کہ وہ اپنے پیشرو پی چدمبرم کی رائے کا جائزہ لیں۔ 10 دسمبر کو شندے نے اشارہ کیا کہ وہ 20 دسمبر کو پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس ختم ہونے کے بعد فائل دیکھیں گے۔شندے نے 23 جنوری 2013 کو گرو کو پھانسی دینے کی اپنی حتمی سفارش کی۔ 3 فروری 2013 کو، گرو کی رحم کی درخواست صدر ہند نے مسترد کر دی تھی۔
افضل گرو کو چھ دن بعد 9 فروری 2013 کو صبح 8 بجے پھانسی دے دی گئی۔ جیل حکام نے کہا ہے کہ جب گرو کو ان کی پھانسی کے بارے میں بتایا گیا تو وہ پرسکون تھے۔ اس نے اپنی بیوی کو خط لکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے اسے ایک قلم اور کاغذ دیا۔ اس نے خط اردو میں لکھا، جو اسی دن کشمیر میں ان کے اہل خانہ کو بھیج دیا گیا۔ اس فیصلے کے بارے میں بہت کم افسران کو بتایا گیا۔
اس کی آخری رسومات ادا کرنے والے تین ڈاکٹروں اور ایک مولوی کو ایک رات پہلے خفیہ طور پر اطلاع دی گئی۔ انھیں ہفتے کی صبح سویرے آنے کو کہا گیا۔ گرو نے اپنی صبح کی نماز ادا کی اور قرآن کے چند صفحات پڑھے۔ تہاڑ میں افضل کے ساتھ تین سال گزارنے والے کوباد گاندھی نے لکھا کہ افضل نے جیل حکام سے جیل کے عملے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو کہا اور عملہ افضل کے لیے رویا۔