’’ لینن‘‘ کا سیاسی شعور دوسرا اور آخری حصہ
مارکس اور لینن کے فلسفے کے دوست تنقید اور خود تنقیدی کے عمل کو ذات سے لے کر اپنے دائرے میں بحث و مباحث کا حصہ بنائیں
پریس کلب کی گزشتہ نشست کے دوران ہمارے محبی اور ڈوئچے جرمنی کے نامہ نگار شامل شمس کا یہ سوال بہت اہمیت کا حامل تھا کہ کیا برصغیرکی سیاست میں واقعی جمہوری رویے ہیں یا محض ہم اپنی دانست میں اس خطے کو جمہوری بنانے کے در پہ ایک لا حاصل کوشش کر رہے ہیں؟
شامل کے نزدیک کیونکہ اس خطے کی اقتداری سیاست صدیوں تک '' آمرانہ مزاج'' کی بادشاہت یا فتوحات پر مبنی رہی ہے توکیا مجموعی طور سے اس خطے کے عوام صدیوں پر محیط '' جبر میں رہنے'' اور بادشاہت کی دریوزہ گری کرنے کے عمل سے ذہنی طور سے آزاد ہو بھی سکے ہیں یا ابھی تک ''آمرانہ دور'' کے مزاج و ذہن سے ہم اپنی نسلوں کی تربیت کر رہے ہیں؟
یہ ایک اہم اور تاریخی و نفسیاتی وہ نکتہ تھا جس کو مجھ سمیت غازی صلاح الدین، پیرزادہ سلمان اور جاوید ستار نے سنجیدگی سے محسوس کیا۔ غازی صلاح الدین کا اس ضمن میں تاریخی حوالے اور '' کارل مارکس'' کے کمیونسٹ فلسفے کی روشنی میں استدلال تھا کہ ''ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ برصغیر میں آمرانہ طرز پر برطانوی راج کے ہوتے ہوئے '' روس کا اکتوبر انقلاب'' کیا واقعی مارکس کی تاریخی جدلیات اور سماج کی جزئیات پر محیط ''انقلاب'' تھا یا '' اکتوبر انقلاب'' بھی مارکس کی سماجی اور صنعتی جزئیات کے برخلاف برپا کیا گیا، جس کے دنیا پر بہت مثبت اثرات یعنی پہلی مرتبہ عوام کی جمہوری آزادی کو اہمیت ملی وہیں انسان کے حقوق اور بطور خاص عورتوں کے حقوق سے دنیا نہ صرف باخبر ہوئی بلکہ عوام اپنی آزادیوں کے لیے احتجاج اور حقوق لینے کے راستوں کا تعین کرنے میں ایک قدم آگے ہوئی، اسی طرح دنیا میں انسان کے جمہوری حقوق اور ان کی رائے کو ''انقلاب روس'' کے پیش نظر نہ صرف مانا گیا بلکہ یورپ اور امریکا کے جبر سے کروڑوں انسانوں نے آزادی حاصل کی اور یورپ و امریکا کو عوام کے حقوق دینے کے لیے اپنی ریاستوں کو مجبورا فلاحی کرنا پڑا۔
صحافی دانشور غازی صلاح الدین جہاں '' انقلاب روس'' کے نتیجے میں دنیا میں عوام پر پڑنے والے انسانی حقوق اور مثبت جمہوری اثرات کا ذکر کررہے تھے وہیں غازی صاحب کا یہ نکتہ بہت اہم تھا کہ کیا '' انقلاب روس لانے میں لینن یا بالشویک پارٹی نے کارل مارکس کے سماج کی صنعتی ترقی کے عروج پانے کو پیش نظر رکھا یا نیم صنعتی سماج میں وقت کی ضرورت کے پیش نظر مارکس کے فلسفے اور تجزیے کے تقاضوں کے برعکس '' انقلاب روس'' برپا کیا گیا۔''
غازی صلاح الدین کے استدلال پر میرا اور شامل شمس اور دیگر احباب کا نکتہ کم و بیش یہی تھا کہ ہم '' انقلاب روس'' کے برپا ہونے کو تاریخ کی روشنی میں ہی دیکھیں گے تو ''انقلاب روس'' کے مثبت اور منفی اثرات کا شعوری جائزہ لے سکیں گے، جس جائزے سے شاید ہم نے خود کو الگ کر کے دنیا کے انسانوں کو سرمایہ داری کے بھیانک اندیشے اور خطرات سے بچانے کے بجائے ایسے لایعنی استدلال تلاش کر لیے ہیں جو دنیا کے پسے ہوئے محروم طبقات کو سرمایہ دارانہ عفریت سے نجات کے مقابلے میں محکوم عوام کو مختلف تاویلات میں الجھا کر دراصل عوام دشمن سرمایہ دارانہ جبرکے نئے تقاضوں کو نظر اندازکیے ہوئے ہیں جس کا لازمی نتیجہ سرمایہ دارانہ مفاد پرست حاکمیت نکل رہا ہے اور دنیا کے اربوں انسان بھوک، بیروزگاری، خط افلاس سے نیچے کی زندگی گذارنے پر مجبور کردیے گئے ہیں مذکورہ پر مغز بحث کے دوران میرا استدلال تھا کہ جب تک ملک میں '' بالشویک'' طرز پر مضبوط کمیونسٹ نظریے کے تحت تنظیمی ڈھانچہ تیار نہیں ہوتا یا ٹھوس بنیادوں پر مضبوط کمیونسٹ پارٹی عوام کے حقیقی اور سیاسی مسائل کو حل کرنے کا سبب نہیں بنتی۔
اس وقت تک مارکس اور لینن کے سیاسی و سماجی شعورکی عوام میں امیدکی خواہش محض خواہش تو ہوسکتی ہے مگر اس سے سماج میں بحث ومباحث کی شعوری سوچ پروان چڑھنے کا عمل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا، کمیونسٹ سماج کی تشکیل میں میرا نکتہ خود تنقیدی کے عمل کا فروغ اور دلیل و منطق کے تحت مباحث ہی ہم کو پسے ہوئے محروم طبقات کو مسائل و ابتلا سے نکالنے میں معاون ہونگے۔
میرا استدلال رہا کہ جب تک کمیونسٹ کہلوانے والا یا کمیونسٹ سماج کی تشکیل کا خواہشمند فرد اپنی ذات کے خول سے باہر نہیں آتا اور زمانے کی حقیقتوں کو تسلیم کر کے اس کا نظریاتی جائزہ وقت کی سیاسی ہلچل کے تناظر میں نہیں لیتا تو چلنے والے سیاسی و معاشی مسائل کا ادراک بھی نظریاتی کمیونسٹ کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے۔
سوشلسٹ اورکمیونسٹ سماج کی تشکیل میں ہمارے ٹھوس نظریاتی کمیونسٹ دانشوروںکو آج کے زمینی حقائق کی روشنی میں اس بات کا عمیق جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ مزدور حقوق کی ٹریڈ یونین کی نئی بنت کیسے اورکیونکر ممکن ہے، اس جاگیردارانہ اور نیم غلامی کے سردارانہ نظام میں عورتوں کو باندی بنانے یا ان کے حقوق رسم و روایات کے بہانے غصب ہونے سے کس طرح بچائے جا سکتے ہیں، طلبہ سیاست میں '' سیکیورٹی اسٹیٹ'' کے نام پر انتہائی قدامت پرست مذہبی سوچ سے سماج کوکیسے بچا جاسکتا ہے اور طلبہ کے بنیادی سیاسی آزادی کی سوچ کو کس طرح محفوظ کر کے سماج میں عدم برداشت کے ماحول کو ازسر نو نافذکیا جا سکتا ہے، اسی طرح اظہار اور شہری آزادیوں کے جمہوری اور آئینی حقوق کو ''جبر اور مطلق العنانی'' کے پنجوں سے کیسے نجات دلائی جاسکتی ہے۔
سماج کی روشن خیال ثقافت، موسیقی،آرٹ اور ادب کی ترقی پسندانہ سوچ کوکن چیلنجوں کا سامنا ہے اور وہ کون سے اقدامات لیے جاسکتے ہیں کہ جن کی روشنی میں نسل کے ذہنوں میں دقیانوسی اور تنگ نظر اثرات کے مقابل روشن خیالی کے نئے زاویے تلاش کر کے ادب ثقافت ،آرٹ اور موسیقی کے مثبت اثرات کو سماج کی ضرورت بنایا جا سکتا ہے، ان مذکورہ نشاندہیوں کے علاوہ موجودہ عہد میں سیاست اور خاص طور سے ہمارے خطے اور ملک کی سیاست میں جو تشدد کا زہر ڈالا گیا ہے ،جس سے ناخواندہ عوام اور نسل کو غیر سیاسی کرنے کا عمل زور شور سے ظاہر ہو رہا ہے، اس خطرناک ''پاپولسٹ'' عفریت سے سماج اور بطور خاص نئی نسل کو کیسے نکالا جا سکتا ہے، یہ اور دیگر سماجی مسائل ایسے ہیں کہ جب تک سماج کوکارل مارکس کے جدلیاتی قوانین اور لینن کی بالشویک سیاسی حکمت عملی کے تحت نہیں دیکھا اور محسوس کیا جائے گا، اس وقت تک سماج کسی بھی انقلاب یا کسی بھی آمرانہ سوچ سے نجات کا متحمل نہیں ہو پائے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ گروہوں میں بٹے مارکس اور لینن کے فلسفے کے دوست تنقید اور خود تنقیدی کے عمل کو ذات سے لے کر اپنے دائرے میں بحث و مباحث کا حصہ بنائیں تاکہ مارکس اور لینن کے افکار اور نظریات کی روشنی میں مضبوط تنظیم اور ایک مضبوط انقلاب کی ہراول کمیونسٹ پارٹی ذریعے معروض کی سرمایہ دارانہ عوام دشمن پالیسیوں سے مستقبل کی نسل کو بچایا جاسکے۔
شامل کے نزدیک کیونکہ اس خطے کی اقتداری سیاست صدیوں تک '' آمرانہ مزاج'' کی بادشاہت یا فتوحات پر مبنی رہی ہے توکیا مجموعی طور سے اس خطے کے عوام صدیوں پر محیط '' جبر میں رہنے'' اور بادشاہت کی دریوزہ گری کرنے کے عمل سے ذہنی طور سے آزاد ہو بھی سکے ہیں یا ابھی تک ''آمرانہ دور'' کے مزاج و ذہن سے ہم اپنی نسلوں کی تربیت کر رہے ہیں؟
یہ ایک اہم اور تاریخی و نفسیاتی وہ نکتہ تھا جس کو مجھ سمیت غازی صلاح الدین، پیرزادہ سلمان اور جاوید ستار نے سنجیدگی سے محسوس کیا۔ غازی صلاح الدین کا اس ضمن میں تاریخی حوالے اور '' کارل مارکس'' کے کمیونسٹ فلسفے کی روشنی میں استدلال تھا کہ ''ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ برصغیر میں آمرانہ طرز پر برطانوی راج کے ہوتے ہوئے '' روس کا اکتوبر انقلاب'' کیا واقعی مارکس کی تاریخی جدلیات اور سماج کی جزئیات پر محیط ''انقلاب'' تھا یا '' اکتوبر انقلاب'' بھی مارکس کی سماجی اور صنعتی جزئیات کے برخلاف برپا کیا گیا، جس کے دنیا پر بہت مثبت اثرات یعنی پہلی مرتبہ عوام کی جمہوری آزادی کو اہمیت ملی وہیں انسان کے حقوق اور بطور خاص عورتوں کے حقوق سے دنیا نہ صرف باخبر ہوئی بلکہ عوام اپنی آزادیوں کے لیے احتجاج اور حقوق لینے کے راستوں کا تعین کرنے میں ایک قدم آگے ہوئی، اسی طرح دنیا میں انسان کے جمہوری حقوق اور ان کی رائے کو ''انقلاب روس'' کے پیش نظر نہ صرف مانا گیا بلکہ یورپ اور امریکا کے جبر سے کروڑوں انسانوں نے آزادی حاصل کی اور یورپ و امریکا کو عوام کے حقوق دینے کے لیے اپنی ریاستوں کو مجبورا فلاحی کرنا پڑا۔
صحافی دانشور غازی صلاح الدین جہاں '' انقلاب روس'' کے نتیجے میں دنیا میں عوام پر پڑنے والے انسانی حقوق اور مثبت جمہوری اثرات کا ذکر کررہے تھے وہیں غازی صاحب کا یہ نکتہ بہت اہم تھا کہ کیا '' انقلاب روس لانے میں لینن یا بالشویک پارٹی نے کارل مارکس کے سماج کی صنعتی ترقی کے عروج پانے کو پیش نظر رکھا یا نیم صنعتی سماج میں وقت کی ضرورت کے پیش نظر مارکس کے فلسفے اور تجزیے کے تقاضوں کے برعکس '' انقلاب روس'' برپا کیا گیا۔''
غازی صلاح الدین کے استدلال پر میرا اور شامل شمس اور دیگر احباب کا نکتہ کم و بیش یہی تھا کہ ہم '' انقلاب روس'' کے برپا ہونے کو تاریخ کی روشنی میں ہی دیکھیں گے تو ''انقلاب روس'' کے مثبت اور منفی اثرات کا شعوری جائزہ لے سکیں گے، جس جائزے سے شاید ہم نے خود کو الگ کر کے دنیا کے انسانوں کو سرمایہ داری کے بھیانک اندیشے اور خطرات سے بچانے کے بجائے ایسے لایعنی استدلال تلاش کر لیے ہیں جو دنیا کے پسے ہوئے محروم طبقات کو سرمایہ دارانہ عفریت سے نجات کے مقابلے میں محکوم عوام کو مختلف تاویلات میں الجھا کر دراصل عوام دشمن سرمایہ دارانہ جبرکے نئے تقاضوں کو نظر اندازکیے ہوئے ہیں جس کا لازمی نتیجہ سرمایہ دارانہ مفاد پرست حاکمیت نکل رہا ہے اور دنیا کے اربوں انسان بھوک، بیروزگاری، خط افلاس سے نیچے کی زندگی گذارنے پر مجبور کردیے گئے ہیں مذکورہ پر مغز بحث کے دوران میرا استدلال تھا کہ جب تک ملک میں '' بالشویک'' طرز پر مضبوط کمیونسٹ نظریے کے تحت تنظیمی ڈھانچہ تیار نہیں ہوتا یا ٹھوس بنیادوں پر مضبوط کمیونسٹ پارٹی عوام کے حقیقی اور سیاسی مسائل کو حل کرنے کا سبب نہیں بنتی۔
اس وقت تک مارکس اور لینن کے سیاسی و سماجی شعورکی عوام میں امیدکی خواہش محض خواہش تو ہوسکتی ہے مگر اس سے سماج میں بحث ومباحث کی شعوری سوچ پروان چڑھنے کا عمل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا، کمیونسٹ سماج کی تشکیل میں میرا نکتہ خود تنقیدی کے عمل کا فروغ اور دلیل و منطق کے تحت مباحث ہی ہم کو پسے ہوئے محروم طبقات کو مسائل و ابتلا سے نکالنے میں معاون ہونگے۔
میرا استدلال رہا کہ جب تک کمیونسٹ کہلوانے والا یا کمیونسٹ سماج کی تشکیل کا خواہشمند فرد اپنی ذات کے خول سے باہر نہیں آتا اور زمانے کی حقیقتوں کو تسلیم کر کے اس کا نظریاتی جائزہ وقت کی سیاسی ہلچل کے تناظر میں نہیں لیتا تو چلنے والے سیاسی و معاشی مسائل کا ادراک بھی نظریاتی کمیونسٹ کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے۔
سوشلسٹ اورکمیونسٹ سماج کی تشکیل میں ہمارے ٹھوس نظریاتی کمیونسٹ دانشوروںکو آج کے زمینی حقائق کی روشنی میں اس بات کا عمیق جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ مزدور حقوق کی ٹریڈ یونین کی نئی بنت کیسے اورکیونکر ممکن ہے، اس جاگیردارانہ اور نیم غلامی کے سردارانہ نظام میں عورتوں کو باندی بنانے یا ان کے حقوق رسم و روایات کے بہانے غصب ہونے سے کس طرح بچائے جا سکتے ہیں، طلبہ سیاست میں '' سیکیورٹی اسٹیٹ'' کے نام پر انتہائی قدامت پرست مذہبی سوچ سے سماج کوکیسے بچا جاسکتا ہے اور طلبہ کے بنیادی سیاسی آزادی کی سوچ کو کس طرح محفوظ کر کے سماج میں عدم برداشت کے ماحول کو ازسر نو نافذکیا جا سکتا ہے، اسی طرح اظہار اور شہری آزادیوں کے جمہوری اور آئینی حقوق کو ''جبر اور مطلق العنانی'' کے پنجوں سے کیسے نجات دلائی جاسکتی ہے۔
سماج کی روشن خیال ثقافت، موسیقی،آرٹ اور ادب کی ترقی پسندانہ سوچ کوکن چیلنجوں کا سامنا ہے اور وہ کون سے اقدامات لیے جاسکتے ہیں کہ جن کی روشنی میں نسل کے ذہنوں میں دقیانوسی اور تنگ نظر اثرات کے مقابل روشن خیالی کے نئے زاویے تلاش کر کے ادب ثقافت ،آرٹ اور موسیقی کے مثبت اثرات کو سماج کی ضرورت بنایا جا سکتا ہے، ان مذکورہ نشاندہیوں کے علاوہ موجودہ عہد میں سیاست اور خاص طور سے ہمارے خطے اور ملک کی سیاست میں جو تشدد کا زہر ڈالا گیا ہے ،جس سے ناخواندہ عوام اور نسل کو غیر سیاسی کرنے کا عمل زور شور سے ظاہر ہو رہا ہے، اس خطرناک ''پاپولسٹ'' عفریت سے سماج اور بطور خاص نئی نسل کو کیسے نکالا جا سکتا ہے، یہ اور دیگر سماجی مسائل ایسے ہیں کہ جب تک سماج کوکارل مارکس کے جدلیاتی قوانین اور لینن کی بالشویک سیاسی حکمت عملی کے تحت نہیں دیکھا اور محسوس کیا جائے گا، اس وقت تک سماج کسی بھی انقلاب یا کسی بھی آمرانہ سوچ سے نجات کا متحمل نہیں ہو پائے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ گروہوں میں بٹے مارکس اور لینن کے فلسفے کے دوست تنقید اور خود تنقیدی کے عمل کو ذات سے لے کر اپنے دائرے میں بحث و مباحث کا حصہ بنائیں تاکہ مارکس اور لینن کے افکار اور نظریات کی روشنی میں مضبوط تنظیم اور ایک مضبوط انقلاب کی ہراول کمیونسٹ پارٹی ذریعے معروض کی سرمایہ دارانہ عوام دشمن پالیسیوں سے مستقبل کی نسل کو بچایا جاسکے۔