زبان و بیان اور اسلوبِ تازہ کا اہم شاعر منور رانا

ایک کامیاب شاعر کے ساتھ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے، محبت کرنیوالے نرم دل آدمی بھی تھے


صدام ساگر February 18, 2024

الماری سے خط اُس کے پرانے نکل آئے
پھر سے میرے چہرے پہ یہ دانے نکل آئے

ماں بیٹھ کے تکتی تھی جہاں سے میرا راستہ
مٹی کو ہٹاتے ہی خزانے نکل آئے

دنیائے ادب کے اُفق پر چمکنے والے تابندہ ستاروں میں سے ایک نام منور رانا کا ہے، جو اُردو اور ہندی ادب میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں، جنھوں نے اپنی تخلیقاتِ نظم و نثر سے ادب کے دامن کو مالا مال کیا، ان کے کلام میں روایتی ہندی اور اودھی زبان کا ذائقہ بھی چکھنے کو ملتا ہے، جس میں شوخ پن سے حقیقت پسندی کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔

منور رانا کا پیدائشی نام سید منور علی ہے، وہ سید انور علی کے ہاں 26 نومبر 1952 کو بھارت کے شہر رائے بریلی میںپیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کا سلسلہ شعیب ودھیالیہ اور گورنمنٹ کالج، رائے بریلی میں جاری رہا، کچھ سال بعد مزید تعلیم کے لیے انھیں لکھنو بھیج دیا گیا جہاں ان کا داخلہ سینٹ جانس ہائی اسکول میں ہُوا، قیامِ لکھئنو کے دوران انھوں نے یہاں کے روایتی ماحول سے اپنی زبان و بیان کی بنیادیں پختہ کیں، لکھنو شہر میں کچھ سال کی عارضی سکونت کے بعد والد کے روزگار کے پیشِ نظر کلکتہ منتقل ہونا پڑا، جہاں 1968میں محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول سے ہائر سیکنڈری کی تعلیم مکمل کی اورگریجویشن کی ڈگری کے لیے کلکتہ شہر کے ہی امیش چندرا کالج میں بی کام کے لیے داخلہ لیا۔

منور رانا کی ادبی شخصیت کو پروان چڑھانے، ان کی سوچ کو نیا رنگ دینے میں لکھنو کے ماحول کا خاص اثر رہا، خاص طور پر ان کے ادب نواز، محبت پرور دادا سید صادق علی کا گہرا اثر رہا جو ان سے عہدِ طفلی میں دوسروں کی غزلیں باقاعدہ پڑھوایا کرتے، جس سے ان کو بہت سے شعرا کے اشعار ازبر ہو جاتے۔ منور رانا کی شاعری کا بنیادی موضوع غزل ہے، جس میں ماں جیسی عظیم ہستی کی عظمت پر ان کے سیکڑوں اشعار کسی اور شاعر کے ہاں پڑھنے کو نہیں ملتے۔ ان کا یہ شعر مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے۔

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

تقریبا ستر کی دہائی میں میدانِ شعر وسخن کے ابتدائی دنوں میں ان کا نام '' منور علی آتش'' رکھتے ہوئے پروفیسر اعزاز افضل کے حلقہ تلمذ میں شامل ہوئے، ان سے اکتسابِ فیض پاتے ہوئے اپنی شعلہ بیانی اور خوش اخلاقی کا بھرپور مظاہرہ کیا، انھوں نے اپنی پہلی نظم سولہ سال کی کم عمری میں کہی جو اُس وقت محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول کے مجلے میں چھپی، لیکن بحیثیت شاعر ان کی پہلی تخلیق 1972 میں منور علی آتش کے نام سے کلکتہ کے ماہنامہ '' شہود'' میں شایع ہوئی، یہ رسالہ اپنے عہد کے معیاری رسالوں میں سے ایک تھا۔

کچھ برس تک منور علی آتش کے نام سے مشہور ہونے پر نازش پرتاپ گڑھی اور راز الہٰ آبادی کے مشوروں سے اپنا تخلص بدل کر '' منور علی شاداں'' رکھ لیا یوں اس نئے '' شاداں'' تخلص سے غزلیں کہنے لگے، لیکن چند ہی ماہ کے بعد والی آسیؔ جیسے شخصیت سے شرفِ تلمذ حاصل کرنے اور ان کے مشورے سے 1977میں ایک بار پھر اپنا تخلص بدل کر '' منور رانا '' بن گئے۔

آتشؔ سے شاداںؔ اور پھر منور رانا بننے میں انھیں نو سال کا عرصہ لگ گیا۔ ہر وقت کے گزرتے سمے کے ساتھ قارئینِ ادب کو اپنے فکرو خیال اور موضوعات سے اُردو شاعری کو ایک نیا راستہ دکھاتے ہوئے ایک نیا موڑ عطا کیا۔ خاص طور پہ غزل میں انھوں نے کئی نئی زمینیں متعارف کروائی اور کئی نئے موضوعات پر لکھا، جس سے غزل کا دامن مزید وسیع ہُوا۔

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدورکبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

محنت کشوں کے نام اس سے خوبصورت خیال شاید ہی کسی اور شاعر کے ہاں پڑھنے کو ملیں۔ اسی غزل کا مطلع میں یادِ ماضی کی ایک ایسی جھلک دکھا دیتے ہیں کہ جس سے بچپن کا زمانہ لوٹ آتا ہے۔

ہنستے ہوئے ماں باپ کی گالی نہیں کھاتے

بچے ہیں تو کیوں شوق سے مٹی نہیں کھاتے

منور رانا کی شاعری میں اکثر موضوعات نئی نسل کا المیہ، وصال و ہجر، مردہ ضمیروں کا مرثیہ، زندگی کے نشیب و فراز، سدا بہار موسم کی طرح ملنے والے دُکھ، خزاں کی ستم ظریفی، روز مرہ کے جھگڑے اور وسائلِ زندگی سے محرومیاں ہیں۔ منور رانا نے شاعری کے علاوہ ڈرامہ نگاری میں بھی جوہر دکھائے، ان کا اپنا تخلیق کردہ ڈرامہ 1971 میں ''جئے بنگلہ دیش'' کے نام سے کلکتہ کے ہومیو پیتھی کالج میں منعقدہ ڈرامہ مقابلے میں نہ صرف پیش کیا بلکہ اس کی ہدایت کاری بھی انجام دی اور یوں یہ ڈرامہ انعام یافتہ قرار پایا۔

اس کے علاوہ انھوں نے پرتھوی راج اور آغا حشر کاشمیری کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری بھی کی، جس پر معلوم ہُوا کہ '' بالخصوص سجن کمارکی زیر ہدایت آغا حشر کاشمیری کا ڈرامہ ''آنکھ کا نشہ '' میں بینی پرشاد کے مرکزی کردار میں ان کی اداکاری اتنی پسندکی گئی کہ اس ڈرامہ کے کئی کامیاب شوز منعقد کیے گئے، بالآخر انھوں نے فلم اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر جوگندرکی ایک فلم کے لیے کہانی لکھ کر ہی دم لیا، جس کا ٹائٹل اندراج بھی ہُوا لیکن کسی وجہ سے یہ فلم نہ بن سکی۔ اس ناکامی کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان کے سر سے فلم اور اداکاری کا آسیب اتر گیااور وہ مغربی بنگال کی تاریخ شاعری کی زندہ روایات کا مستحکم عزم لیے میدان شاعری میں آ گئے ۔''

منور رانا کی تصانیف میں بدن چوپال، چوڑی ٹوٹ جاتی ہے، بغیر نقشے کے مکان، کہو ظلِ الٰہی سے، چہرے یاد رہتے ہیں، سخن سرائے، سفید جنگلی کبوتر، جنگلی پھول، مہاجر نامہ نمایاں ہیں۔ انھوں نے اُردو، ہندی شاعری میں اپنا نام اس حد تک روشن کیا کہ نئی نسل ان کے نقشِ قدم پر چلتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

یاد رہے کہ تقسیم ہند کے وقت ان کے بہت سے رشتے دار پاکستان ہجرت کر گئے تھے، لیکن ان کے والدنے بھارت کو ہی اپنا مسکن بنائے رکھا۔ ان کے کلام میں ہجرت کا دکھ بھی پایا جاتا ہے جس پر وہ غم زدہ اور افسردہ رکھتے ہوئے اپنے اس دُکھ کر ہمیشہ تازہ رکھتے۔

مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں

تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں

منور رانا نے ہندوستان سمیت پوری دنیا میں اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑے، ہندوستان میں ہونیوالے زیادہ تر مشاعروں کی صدارت انھی کو سونپی جاتی، ایک کامیاب شاعر کے ساتھ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے، محبت کرنیوالے نرم دل آدمی بھی تھے، ان کا آخری شعری مجموعہ '' مہاجر نامہ '' ہے، اس مجموعے نے ادبی حلقوں سے بہت داد حاصل کی۔

اُردو اور ہندی ادب کی نامور شخصیت منور رانا 15 جنوری 2024کو ہم سے جدا ہو گئی، منور رانا کی وفات سے علم وادب کا آسماں خالی ہوگیا جو یقینی طور پر بہت بڑا صدمہ ہے۔ آخر میں ان کے اس خیال کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

اوڑھ کر مٹی کی چادر بے نشاں ہو جائیں گے

ایک دن آئے گا ہم بھی داستاں ہو جائیں گے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں