مسلم لیگ ن کی مشکلات

مسلم لیگ ن کی سیاسی حکمت عملی میں پرانی سوچ اور فکر غالب نظر آئی

salmanabidpk@gmail.com

مسلم لیگ ن مرکز اور پنجاب میں حکومت بناسکتی ہے مگر یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اسے بطور جماعت توقع سے کم مینڈیٹ ملا ہے ۔

عام انتخابات 2024 کی انتخابی مہم سے قبل مسلم لیگ ن کی قیادت کا دعویٰ تھا کہ وہ سادہ اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی کی نشستیں جیت جائیں گی اوراسے حکومت بنانے میں کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔مسلم لیگ ن کے اس دعوے کے پیچھے دو بنیادی نقطے تھے۔

اول، ان کی سب سے بڑی مخالف جماعت پی ٹی آئی کو9مئی کے بعد مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا ہے ۔ پھر پی ٹی آئی کے متنازعہ داخلی الیکشن ، انتخابی نشان سے محرومی، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی امیدواروں کو بطور آزاد امیدوار اور مختلف نشانات کے تحت الیکشن لڑنا پڑا۔پارٹی کے کئی امیدوار اشتہاری اور مفرور ہیں۔کئی اہم سیاسی شخصیات پی ٹی آئی چھوڑ چکی ہیں، لہٰذا پی ٹی آئی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکے گی۔

دوئم، مسلم لیگ ن نے یہ تاثر بھی دیا اور یہ سوچ بھی موجود تھی کہ انھیں اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہے ۔اسی بنیادپر مسلم لیگ ن نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ ہم سادہ اکثریت سے جیت جائیں گے اور مرکز سمیت پنجاب میں باآسانی حکومت بھی بنالیں گے۔

لیکن جو نتائج سامنے آئے ، وہ مسلم لیگ ن کی توقعات کے مطابق نہیں ہیں ۔ مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی 75نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔جب کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 92نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں ۔ مسلم لیگ ن نے جو بھی تجزیے، حکمت عملی اور توقعات اپنی سطح پر قائم کیے، وہ غلط ثابت ہوئے۔

میں پی ٹی آئی کے حامیوں کے اس مفروضے کا حامی ہوں کہ اگر پی ٹی آئی کی قیادت گرفتار اور مفرور نہ ہوتی، پارٹی کا انتخابی نشان موجود ہوتا تو مسلم لیگ ن کی نشستیں اوربھی کم ہوتیں ۔ اگر فارم 45اور فارم 47سے جڑے معاملات میں شفافیت ہوتی تو ن لیگ کی کل نشستوں کی تعداد 35یا 40کے قریب ہی ہوسکتی تھی ۔ اس لیے جو بھی انتخابی نشستیں مسلم لیگ ن جیتی ہیں، اس کے پیچھے بھی سہولت کاری کا الزام ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔

مسلم لیگ ن کا اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کا مفروضہ اور انتخابی مہم دیر سے شروع کرنے کی پالیسی نے اسے نقصان پہنچایا ہے۔ ن لیگی قیادت نے ووٹرز کے ساتھ رابطہ کم رکھا ۔ پی ٹی آئی کی پراپگینڈا ٹیم نے مسلم لیگ ن کو اسٹیبلیشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر پیش کیا او را س کا نتیجہ اس کی مقبولیت میں کمی کے طور پر سامنے آیا۔


یہ جو سوچ تھی کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی مسلم لیگ ن کو الیکشن میں قطعی کامیابی دلوا دے گی بلکہ عمران خان کی مقبولیت کو بھی کمزور کرنے کا سبب بنے گی لیکن ان کی پاکستان واپسی سے لے کر انتخابی مہم تک ہمیں کوئی پرجوش انتخابی مہم اور عمران خان کے خلاف ایک مضبوط سیاسی بیانیہ نہیں مل سکا۔

مسلم لیگ ن سمجھتی رہی کہ سیاسی میدان میں بس ان ہی کی انتخابی مہم ہے لیکن عمران خان یا پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر ایک بھرپور انتخابی مہم چلا کر اور مصنوعی ذہانت کے استعمال کو موثر حکمت عملی کے تحت استعمال کرکے مسلم لیگ ن کو انتخابی مہم کی ڈیجیٹل حکمت عملی میں شکست دی ہے ۔

مسلم لیگ ن کی سیاسی حکمت عملی میں پرانی سوچ اور فکر غالب نظر آئی۔ جدیدیت اور ابلاغ کی دنیا میں تبدیلیوں سے پارٹی اپنے کے بیانیے کو متعارف نہ کرا سکی ۔ نئی نسل کو محض گ بدتمیز، شدت پسند اور انتہا پسندی کا طعنہ دے کر یا انھیں ممی ڈیڈی کہہ کر مذاق اڑانا اور یہ سمجھنا کہ ان کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں، سنگین غلطی ثابت ہوئی۔

مسلم لیگ ن مجموعی طور پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر چلنے والی انتخابی مہم کی نہ تو اہمیت کو سمجھ سکی او رنہ ہی ان کو یہ اندازہ ہوسکاکہ ہمارے مقابلے میں پی ٹی آئی کی ڈیجیٹل مہم ، ہمیں سیاسی طور پر انتخابی نظام میں شکست کی طرف لے کر جاسکتی ہے ۔ مسلم لیگ ن کا میڈیا سیل روائتی بھی ہے اور ردعمل کی سیاست سے جڑا ہوا ہے جو محض عمران خان کی مخالف میں ہی لگا رہتا ہے اور اپنی پارٹی کی مقبولیت یا ان کی ساکھ کو بہتر بنانے پر کم توجہ دیتا ہے۔

مسلم لیگ ن کی توجہ رسمی میڈیا تک محدود رہی اور ڈیجیٹل کی سطح پر وہ اس کی نہ تو اہمیت کو سمجھ سکے او رنہ ہی ان کی کوئی موثر حکمت دیکھنے کو مل سکی ۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی طاقت کا مرکز سینٹرل اور شمالی پنجاب کو ہی سمجھا جاتا ہے لیکن اس دفعہ پنجاب کے اس حصے میں بھی ن لیگ کے متعدد امیدواروں شکست کا سامنا کرنا پڑااور یہ تاثر کمزور ہوا کہ جی ٹی روڈ پر ان کو شکست دینا ممکن نہیں۔

مسلم لیگ ن میں ایک بڑا طبقہ مریم نواز کو نواز شریف کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن ماضی میں آزاد کشمیر ،گلگت بلتستان اور پنجاب میں ضمنی الیکشن میں وہ پارٹی کو فتح دلانے میں ناکام رہی تھیں۔ اب عام انتخابات میں بھی مریم نواز بھاری جلسوں کے باوجود پنجاب میں توقع کے مطابق جیت حاصل کرنے میں ناکام نظر آئی ہیں۔حمزہ شہباز جو پنجاب کی سیاست میں اپنی گرفت رکھتے تھے او ران کی انتخابی مینجمنٹ بھی کافی بہتر نظر آتی تھی ان کی عدم فعالیت بھی مسلم لیگ کے لیے کوئی اچھا پہلو نہیں۔

مسلم لیگ ن کی وہ میڈیا ٹیم جو میڈیا پر نظر آتی تھی اس میں ہمیں عمران خان کی سیاسی مخالفت میں سیاسی دشمنی کا پہلو نمایاں نظر آیا اور خاص طور پر عمران خان کے خلاف آنے والی سزائیں اور مخالفانہ مہم کو بھی عوامی سطح پر پزیرائی نہیں مل سکی ۔نئی نسل کی اکثریت مسلم لیگ ن کے بڑے سیاسی مخالف عمران خان کے گرد کھڑی نظر آتی ہے ۔پارٹی کی تنظیم سازی کی کمزوریوں سمیت پارٹی کو محض ایک ہی خاندان اور خاندان کے قریب چند خوشامدیوں تک محدود کرنے کی پالیسی نے بھی ان کو انتخابی سیاست میں نقصان پہنچایا۔

نواز شریف ذاتی طور پر مرکز میں حکومت بنانے کے حق میں نہیں ہیں، وہ اپنی توجہ پنجاب تک محدود کرنا چاہتے ہیں لیکن حالات کے سبب انھیں شہباز شریف کی سربراہی میں وفاقی حکومت بنانے کی کڑوی گولی کھانی پڑرہی ہے لیکن وفاقی حکومت کی ناکامیوں کا بوجھ پنجاب کی حکومت پر گرے گا اوریہ مسلم لیگ ن کے لیے نئی مشکلات بھی پیدا کرے گا ۔
Load Next Story