عوام سیکولرزم کو پسند کرتے ہیں
75سال تک حکمران طبقات نے مذہبی قوتوں کی مدد و تائید کے ساتھ پاکستان کے پورے سسٹم کو یرغمال بنائے رکھا
قیام پاکستان سے تین دن قبل بانی پاکستان نے اسمبلی سے خطاب میں واضح اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں ایک سیکولر نظام ہوگا۔ 'میں یہاں دستور ساز اسمبلی میں 11 اگست 1947کو قائد اعظم کے افتتاحی خطاب میں سے جو انھوں نے اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے کیا تھا، ایک اقتبا س پیش کرنا چاہوں گا۔
انہوں نے کہا ، ''آ پ ا پنے ما ضی کو بھو ل جا ئیں'با ہمی ا تحا دو ا تفا ق کے سا تھ اس جذ بے سے کا م کر یں کہ آ پ میں سے ہر ایک اول و آ خر اس ملک کا شہری ہے 'خو اہ کسی فر قے سے تعلق ر کھتا ہو 'ما ضی میں ایک دو سر ے کے سا تھ کیسے ہی تعلقات ر ہے ہو ں' آ پ کا ر نگ نسل ، ذات برادری یا عقیدہ کو ئی بھی ہو، سب کے حقو ق برا بر ہیں اور ذ مہ دا ریاں بھی بر ا بر ہیں۔ مملکت پا کستا ن میں ہر شخص ا پنی عبا د ت گا ہو ں میں جا نے کے لیے آ زاد ہے' مندر میں جا ئے یا مسجد میں، آپ کا تعلق کسی مذ ہب ،فر قے یا عقیدے سے ہو مملکت کو اس سے کو ئی سرو کا ر نہیں ''۔
1949میں جب قرار داد مقاصد منظور کی گئی تو احمد بشیر نے مولانا حسرت موہانی سے انٹرویو میں سوال کیا تو مولانا صاحب نے قرار داد مقاصد پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا'اللہ تعالی کے نام پر یہاں کے حکمران اور مذہبی طبقہ عوام کو ضرور اپنے حقوق سے محروم کردیں گے''۔
اس مرد درویش کی بات سو فیصد درست ثابت ہوگئی ہے'پاکستان کے مذہبی اور حکمران طبقوں کے اتحاد نے ملک کو ایک تنگ گلی میں پہنچادیا ہے' جاگیرداروں، قبائلی سرداروں، بڑے زمینداروں، سرمایہ داروں ، سیاسی پیروں اور گدی نشینوں نے اپنے نظام اور مفادات کو بچانے کے لیے ہمیشہ ملا اور مارشل لاء کی بیساکھیوں کا سہارا لیا ہے۔
75سال تک حکمران طبقات نے مذہبی قوتوں کی مدد و تائید کے ساتھ پاکستان کے پورے سسٹم کو یرغمال بنائے رکھا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان کی مدد دینے والے ملک کے طعنے سننے کو ملے'اب پاکستان کے عوام کو سمجھ آرہی ہے اور مذہبی پارٹیوں کا ووٹ بینک سکڑ رہاہے'عوام ماڈریٹ اور معتدل نظریات رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دے رہے ہیں۔
موجودہ الیکشن کے نتائج یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ مقابلہ اصل میں سیکولر اور ماڈریٹ پارٹیوں کے درمیان تھا'جیتنے اور ہارنے والے دونوں سیکولر اور ماڈریٹ ہیں'ایک رپورٹ میں اسلامی اور دیگر مذہبی پارٹیوں کی سکڑتی ووٹ بینک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ قارئین کی دلچسپی کے لیے حاضر ہے۔
''175رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میںسے 23 کے قریب اسلامی یا فرقہ وارانہ ناموں والی مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں'لیکن انتخابات میں ان کی کارکردگی اتنی بری رہی ہے کہ نہ ہی الیکشن کمیشن اور نہ ہی متعلقہ این جی اوز نے ان گروپوں کے حاصل کردہ ووٹوں کے اعدادوشمارکا ریکارڈ رکھا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں جے یو آئی (ف)کے علاوہ اسلامی سیاسی جماعتیں الیکشن میں اچھی کا رکردگی نہیں دکھا رہی' سماجی کارکن شاہد جتوئی کے مطابق جے یو آئی کوئی مذہبی تنظیم نہیں ہے۔ انھوں نے پختون بیلٹ میںاس پارٹی کی مقبولیت کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جمیعت بڑی حد تک دائیں بازو کی پختون قوم پرست سیاسی جماعت ہے جس نے 1970کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی پرپابندی کے بعد پیدا ہونے والی خلاء کو پر کیا لیکن اس کا بھی ان انتخابات میں برا حال ہوا۔
دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں ''متحدہ دینی محاذ'' انتخابی دوڑ میں شامل ہوا ، لیکن اس کے ووٹوں کی تعداد انتہائی کم رہی۔ مجلس وحدت مسلمین، مرکزی جمیعت الحدیث، جماعت اسلامی ، ٹی ایل پی وغیرہ بھی قومی سطح تو چھوڑ ، کسی ایک ضلع کی ساری نشتیں حاصل نہیں کرسکی ہیں۔ جماعت اسلامی ملک بھر میں زیادہ تر سرگرم ہے لیکن ووٹر اس جماعت سے متاثر نظر نہیں آتے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چند غیرمسلم مینارٹی جماعتیں بھی رجسٹرڈ ہیں۔ ایک سابق اقلیتی رکن اسمبلی نے کہا کہ یہ جماعتیں انتخابات میں دلچسپی نہیں رکھتیں تھیں لیکن انھوں نے ایک کمیونٹی تنظیم کے طور پر کام کیا'لال چند نے کہا کہ ''حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کمیونٹی پر مبنی تنظیم (CBO)یا NGO شروع کرنے کے مقابلے میں سیاسی جماعت کا قیام آسان ہے۔اگر ان جماعتوں کا مقصد عقیدے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا تھا تو بھی ان کی کوششیں بری طرح ناکام ہوئیں۔
سندھ کے سابق ایم پی اے انتھونی نوید کے مطابق حکومت کی طرف سے2002کے مشترکہ انتخاب کے فیصلے کے ثمرات اب نظر آرہے ہیں'انھوں نے ہری رام اور گیان چند کی مثال دی 'دونوں کا تعلق ہندو بردادری سے ہے۔'جنھوں نے بالترتیب 2018میں میر پور خاص شہر اور جامشورو سے پی پی پی کے ٹکٹ پر صوبائی انتخابات جیتے تھے 'انھوں نے کہا کہ ''ان حلقوں میں شاید ہی کوئی غیر مسلم آبادی تھی ''۔انھوں نے مزید کہا کہ ''یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پاکستان کے لوگ نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں تھیں'جو شمولیت کو نافذ کر نے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی تھیں''۔
کارکنوں نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ عام نشستوں کے لیے غیر مسلم امیدواروں کو زیادہ ٹکٹ دیں اور پارٹیوں کے اندر غیر مسلم کمیونیٹیز کے اراکین کو زیادہ سیاسی عہدے دیں۔
انہوں نے کہا ، ''آ پ ا پنے ما ضی کو بھو ل جا ئیں'با ہمی ا تحا دو ا تفا ق کے سا تھ اس جذ بے سے کا م کر یں کہ آ پ میں سے ہر ایک اول و آ خر اس ملک کا شہری ہے 'خو اہ کسی فر قے سے تعلق ر کھتا ہو 'ما ضی میں ایک دو سر ے کے سا تھ کیسے ہی تعلقات ر ہے ہو ں' آ پ کا ر نگ نسل ، ذات برادری یا عقیدہ کو ئی بھی ہو، سب کے حقو ق برا بر ہیں اور ذ مہ دا ریاں بھی بر ا بر ہیں۔ مملکت پا کستا ن میں ہر شخص ا پنی عبا د ت گا ہو ں میں جا نے کے لیے آ زاد ہے' مندر میں جا ئے یا مسجد میں، آپ کا تعلق کسی مذ ہب ،فر قے یا عقیدے سے ہو مملکت کو اس سے کو ئی سرو کا ر نہیں ''۔
1949میں جب قرار داد مقاصد منظور کی گئی تو احمد بشیر نے مولانا حسرت موہانی سے انٹرویو میں سوال کیا تو مولانا صاحب نے قرار داد مقاصد پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا'اللہ تعالی کے نام پر یہاں کے حکمران اور مذہبی طبقہ عوام کو ضرور اپنے حقوق سے محروم کردیں گے''۔
اس مرد درویش کی بات سو فیصد درست ثابت ہوگئی ہے'پاکستان کے مذہبی اور حکمران طبقوں کے اتحاد نے ملک کو ایک تنگ گلی میں پہنچادیا ہے' جاگیرداروں، قبائلی سرداروں، بڑے زمینداروں، سرمایہ داروں ، سیاسی پیروں اور گدی نشینوں نے اپنے نظام اور مفادات کو بچانے کے لیے ہمیشہ ملا اور مارشل لاء کی بیساکھیوں کا سہارا لیا ہے۔
75سال تک حکمران طبقات نے مذہبی قوتوں کی مدد و تائید کے ساتھ پاکستان کے پورے سسٹم کو یرغمال بنائے رکھا اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان کی مدد دینے والے ملک کے طعنے سننے کو ملے'اب پاکستان کے عوام کو سمجھ آرہی ہے اور مذہبی پارٹیوں کا ووٹ بینک سکڑ رہاہے'عوام ماڈریٹ اور معتدل نظریات رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دے رہے ہیں۔
موجودہ الیکشن کے نتائج یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ مقابلہ اصل میں سیکولر اور ماڈریٹ پارٹیوں کے درمیان تھا'جیتنے اور ہارنے والے دونوں سیکولر اور ماڈریٹ ہیں'ایک رپورٹ میں اسلامی اور دیگر مذہبی پارٹیوں کی سکڑتی ووٹ بینک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ قارئین کی دلچسپی کے لیے حاضر ہے۔
''175رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میںسے 23 کے قریب اسلامی یا فرقہ وارانہ ناموں والی مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں'لیکن انتخابات میں ان کی کارکردگی اتنی بری رہی ہے کہ نہ ہی الیکشن کمیشن اور نہ ہی متعلقہ این جی اوز نے ان گروپوں کے حاصل کردہ ووٹوں کے اعدادوشمارکا ریکارڈ رکھا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں جے یو آئی (ف)کے علاوہ اسلامی سیاسی جماعتیں الیکشن میں اچھی کا رکردگی نہیں دکھا رہی' سماجی کارکن شاہد جتوئی کے مطابق جے یو آئی کوئی مذہبی تنظیم نہیں ہے۔ انھوں نے پختون بیلٹ میںاس پارٹی کی مقبولیت کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جمیعت بڑی حد تک دائیں بازو کی پختون قوم پرست سیاسی جماعت ہے جس نے 1970کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی پرپابندی کے بعد پیدا ہونے والی خلاء کو پر کیا لیکن اس کا بھی ان انتخابات میں برا حال ہوا۔
دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں ''متحدہ دینی محاذ'' انتخابی دوڑ میں شامل ہوا ، لیکن اس کے ووٹوں کی تعداد انتہائی کم رہی۔ مجلس وحدت مسلمین، مرکزی جمیعت الحدیث، جماعت اسلامی ، ٹی ایل پی وغیرہ بھی قومی سطح تو چھوڑ ، کسی ایک ضلع کی ساری نشتیں حاصل نہیں کرسکی ہیں۔ جماعت اسلامی ملک بھر میں زیادہ تر سرگرم ہے لیکن ووٹر اس جماعت سے متاثر نظر نہیں آتے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چند غیرمسلم مینارٹی جماعتیں بھی رجسٹرڈ ہیں۔ ایک سابق اقلیتی رکن اسمبلی نے کہا کہ یہ جماعتیں انتخابات میں دلچسپی نہیں رکھتیں تھیں لیکن انھوں نے ایک کمیونٹی تنظیم کے طور پر کام کیا'لال چند نے کہا کہ ''حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کمیونٹی پر مبنی تنظیم (CBO)یا NGO شروع کرنے کے مقابلے میں سیاسی جماعت کا قیام آسان ہے۔اگر ان جماعتوں کا مقصد عقیدے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا تھا تو بھی ان کی کوششیں بری طرح ناکام ہوئیں۔
سندھ کے سابق ایم پی اے انتھونی نوید کے مطابق حکومت کی طرف سے2002کے مشترکہ انتخاب کے فیصلے کے ثمرات اب نظر آرہے ہیں'انھوں نے ہری رام اور گیان چند کی مثال دی 'دونوں کا تعلق ہندو بردادری سے ہے۔'جنھوں نے بالترتیب 2018میں میر پور خاص شہر اور جامشورو سے پی پی پی کے ٹکٹ پر صوبائی انتخابات جیتے تھے 'انھوں نے کہا کہ ''ان حلقوں میں شاید ہی کوئی غیر مسلم آبادی تھی ''۔انھوں نے مزید کہا کہ ''یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پاکستان کے لوگ نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں تھیں'جو شمولیت کو نافذ کر نے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی تھیں''۔
کارکنوں نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ عام نشستوں کے لیے غیر مسلم امیدواروں کو زیادہ ٹکٹ دیں اور پارٹیوں کے اندر غیر مسلم کمیونیٹیز کے اراکین کو زیادہ سیاسی عہدے دیں۔