مریم نواز کا میرٹ
جیل سیاست کا پہلا زینہ ہے۔ مریم نواز اس راستے کی مسافر کب بنیں؟ یہ واقعہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں
سیاست کے قدم بہ تدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ نئی صف بندی بھی متوقع ہے لیکن ایک فیصلہ ایسا ہے جس کی گونج بہ دستور ہے اور یہ فیصلہ ہے پنجاب کی پگ کا۔ یہ فیصلہ ہو چکا اور پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار اللہ نے یہ عزت ایک خاتون کو عطا کی ہے۔ اب پریشانی یہ ہے کہ یہ خاتون یعنی مریم نواز ہی کیوں، مریم نواز کا میرٹ کیا ہے؟
سوال مختصر سہی لیکن جواب اس سوال کا مختصر نہیں۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ اختصار کا موقع ہے بھی نہیں لیکن اذیت پسندوں کی چیرہ دستیوں کو ہنس کر نظر انداز کر دینے والی مریم نواز شریف کے حامی اور مخالف سب جانتے ہیں کہ یہ میرٹ اس کے پل صراط پر چل کربنا یا ہے۔
مریم نواز اس وقت یقینا سیاست کی بلندیوں پر ہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ ایک بڑے باپ کی بیٹی ہی اس مرتبے پر کیوں؟ کوچۂ حریفاں سے اٹھنے والے سوالات کو تاریخ کسی اور نظر سے دیکھتی ہے لیکن یہ سوال ایسا ہے جس سے بہت سے عقدوں کی گرہ کھلتی ہے۔
سیاسی مخالفین نے مریم نواز کو پہلے پہل اپنے اعتراضات کا موضوع تب بنایا جب وہ اپنے والد کے گھر قیام کرتی تھیں لیکن ڈی چوک پر دھرنا دے کر ریاست کو منجمد کرنے اور چین کے صدر کے دورہ پاکستان میں رخنہ ڈال کر سرمایہ کاری کی راہ روکنے والوں نے آوازہ کسا کہ آخر مریم نواز وزیراعظم ہاؤس میں کیا کرتی ہیں؟
جواب تو اس سوال کا سیدھا تھا کہ ایک بیٹی اپنے والد کے گھر نہ رہے تو پھر کہاں رہے لیکن سیاست کی پگڈنڈی سیدھی نہیں ہوتی۔ حریف جب پیچیدہ راہوں پر چل کر کسی شریف آدمی کا دامن کھینچتے ہیں تو ان جانے میں وہ اسی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
تو بات یہ ہے کہ میاں محمد شریف کے مشرقی گھرانے میں تربیت پانے والی بچی کی دلچسپیاں تو گھر داری، اپنی والدہ بیگم کلثوم کے زیر اثر مطالعہ اور اپنے بچوں کے بارے میں اچھے اچھے خواب تھے لیکن حریفوں نے اوّل خاموشی کے ساتھ ان کے اپنے والد کے گھر بیٹھنے پر اعتراض کیا پھر پاناما کے سازشی گند میں انھیں گھسیٹ کر ان کے لیے کوئی راستہ نہ چھوڑا لہٰذا حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر مریم کو ببانگ دہل اعلان کرنا پڑا کہ میں اپنے والد کے ساتھ کھڑی ہوں اور تم دیکھو گے کہ "میں اپنے والد کی کمزوری نہیں، طاقت ہوں۔"
ان کا اعلان تھا کہ میرے مؤقف میں کچھ لچک آئے گی اور نہ تم مجھے کم ہمت لوگوں میں پاؤ گے، ایسے لوگوں میں تو بالکل ہی نہیں جو مشکل وقت میں حیلوں بہانوں سے معذوری کا سوانگ رچاتے ہیں۔ تاریخ نے ایسے مناظر کبھی کراچی کے عباسی شہید اسپتال میں دیکھے تھے یا پھر لاہور کے زمان پارک میں جہاں کسی موہوم چوٹ کے زخم مندمل ہونے میں ہی نہ آتے تھے۔
جیل سیاست کا پہلا زینہ ہے۔ مریم نواز اس راستے کی مسافر کب بنیں؟ یہ واقعہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔ الزام تھا کہ چوہدری شوگر ملز کے معاملات میں مریم کے کچھ معاملات جواب طلب ہیں لہٰذا انھیں نیب میں پیش ہو کر وضاحت پیش کرنی چاہیے۔ انھیں دن تین بجے طلب کیا گیا تھا۔ تین بجنے میں ابھی بہت وقت باقی تھا جب مریم اپنے والد سے ملنے جیل پہنچیں۔ اس سے پہلے کہ والد اپنے جگر گوشے کو سینے سے لگاتا، گھات میں بیٹھے نیب کے اہل کاروں نے انھیں گرفتار کر لیا۔ پھر قید و بند کا سلسلہ کچھ ایسا کھچا کہ اس لڑکی کی پر عزم ماں بھی آخری سانس لے کر اللہ کی بارگاہ میں جا پہنچیں۔
آمروں کی بات الگ ہے لیکن ہمارے یہاں سیاست ہی نہیں بڑے سے بڑے اختلاف میں بھی لحاظ مروت ہوتا ہے۔ مریم اور ان کے والد کے حریفوں کو اگر ان اقدار کا کوئی پاس ہوتا تو وہ بستر مرگ پر پڑی ہوئی ماں کی بیٹی اور اس کے شوہر کو آخری وقت میں اس کے پاس رہنے پر کوئی اعتراض نہ کرتے بلکہ عزت دار حریفوں کی طرح کچھ سہولت فراہم کرتے لیکن ان حریفوں کی جڑوں کا تعلق پاکستان کی باوفا سرزمین کی باوقار روایات سے ہوتا تو یہ خوش گوار واقعہ رونما ہوتا۔ یہ طرز عمل تھا جس کے نتیجے میں میاں شریف کے وضع دار خانوادے میں میاں نواز شریف کے جانشین کا اہتمام خود بخود یعنی ورثا کے کسی ارادے کے بغیر ہی ہو گیا۔
سیاست کی دنیا میں دار و رسن کی آزمائشیں تو آتی ہی رہتی ہیں۔ میاں شریف کا خاندان بھی اس کا سامنا ایک زمانے سے کر رہا تھا لیکن جنرل مشرف کے بعد میاں نواز شریف کی سیاسی جماعت کو موت کے گھاٹ اتار دینے کی نہایت منظم کوشش عمران خان نے کی۔ کوئی شبہ نہیں کہ میاں صاحب کے برادر خورد یعنی میاں شہباز شریف پوری استقامت کے ساتھ اس آزمائش میں کھڑے رہے لیکن یہ معرکہ سخت تھا اور لڑائی چو مکھی۔
اس افتاد میں کارکنوں کو حوصلہ دیے رکھنے اور میدان سیاست میں حریف کو للکارنے کے لیے میاں نواز شریف کے لہجے بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ان کے ہم زاد کی ضرورت تھی۔ مطلب یہ ہے کہ آزمائش کسی کے حوصلے کو آزمانے کے لیے بے تاب تھی، مریم نواز نے ایک با حوصلہ اور با وفا بیٹی کی طرح ان تمام تر کڑی آزمائشوں کا سامنا کیا اور اللہ کی مدد سے سرخ رو ہوئیں۔ سیاسی اور غیر سیاسی آزمائشوں یعنی انتقامی کارروائیوں کا جس جواں مردی اور ہمت کے ساتھ مریم نواز نے سامنا کیا ہے، ان کا کوئی ہم عصر سیاست دان حتیٰ کہ عمران خان بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میرٹ اور کیا ہوتا ہے؟
اگر یہ میرٹ نہیں ہے تو پھر کیا عثمان بزدار اور محمود خان میرٹ ہیں یا پھر علی امین گنڈاپور؟ مریم نواز پر ایک اعتراض اور بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلی کے لیے ان کے انتخاب کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ میاں نواز شریف کی صاحب زادی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیا پوری مسلم لیگ ن میں مریم کے سوا کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس پر نگاہ انتخاب ٹھہرتی؟ اس اعتراض میں بڑی جان ہوتی اگر یہ معاملہ جنوبی ایشیا میں نہ ہو تا۔ ایک ضمنی سوال کے بعد آگے بڑھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بھارت میں کانگریس آئی کی ذمے داری راہول گاندھی کے ہاتھ میں کیوں ہے؟ اس کا نہایت سادہ جواب یہ ہے کہ یہ اس خطے کی روایت ہے۔ یہاں کی سیاسی جماعتیں اس محور کے گرد مجتمع رہتی ہیں جو اپنی غیر متزلزل قیادت اور آزمائشیں جھیلنے کے باوجود ثابت قدم رہے اور ایک نظریے کے پیرو کاروں کو قیادت فراہم کرتا رہے۔ دوسری وجہ کا تعلق خالصتا پاکستان سے ہے۔
ہمارے یہاں جمہوریت پر بار بار شب خون مار کر سیاسی جماعتوں کو نہایت منصوبہ بندی کے ساتھ کمزور کیا جاتا رہا لہٰذا بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کا ڈھانچا کلاسیکی سیاسی جماعتوں جیسا نہیں بن سکا۔ یہ منزل پاکستان میں بھی ان شااللہ آئے گی لیکن اس منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی مزید سفر کی ضرورت ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ دیگر سیاسی چہروں کو آزمانے بغیر یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی مضبوطی میں ابھی کچھ وقت باقی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ کئی بار آزمایا جا چکا۔
بھٹو صاحب پر برا وقت آیا تو انھوں نے جن لوگوں کو اپنا جانشین بنایا تھا، ان سب نے پیپلز پارٹی جنرل ضیا کی خدمت میں پیش کر کے اپنے اپنے الگ سیاسی گروہ بنا لیے۔ کچھ ایسا ہی تجربہ مسلم لیگ (ن کا بھی ہے۔ بالکل ہی تازہ واقعہ ہے۔ 2017 ء میں اپنے جانشین کے لیے میاں نواز شریف کی نگاہ انتخاب شاہد خاقان عباسی پر پڑی تھی، عباسی صاحب آج کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ تو بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے خاطر جمع رکھیں، مریم نواز آٹھوں کانٹھ کمیت ہر معیار پر پورا اترتی ہیں اور آنے والے دنوں میں اپنی کارکردگی سے یہ ثابت بھی کر دیں گی۔
حرف آخر یہ کہ بنگلہ دیش کی ترقی کو مثال بنا کر پیش کرنے والے حسینہ واجد کی پزیرائی میں تو رطب اللسان رہتے ہیں لیکن مریم نواز شریف پر تیر برساتے ہیں۔
سوال مختصر سہی لیکن جواب اس سوال کا مختصر نہیں۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ اختصار کا موقع ہے بھی نہیں لیکن اذیت پسندوں کی چیرہ دستیوں کو ہنس کر نظر انداز کر دینے والی مریم نواز شریف کے حامی اور مخالف سب جانتے ہیں کہ یہ میرٹ اس کے پل صراط پر چل کربنا یا ہے۔
مریم نواز اس وقت یقینا سیاست کی بلندیوں پر ہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ ایک بڑے باپ کی بیٹی ہی اس مرتبے پر کیوں؟ کوچۂ حریفاں سے اٹھنے والے سوالات کو تاریخ کسی اور نظر سے دیکھتی ہے لیکن یہ سوال ایسا ہے جس سے بہت سے عقدوں کی گرہ کھلتی ہے۔
سیاسی مخالفین نے مریم نواز کو پہلے پہل اپنے اعتراضات کا موضوع تب بنایا جب وہ اپنے والد کے گھر قیام کرتی تھیں لیکن ڈی چوک پر دھرنا دے کر ریاست کو منجمد کرنے اور چین کے صدر کے دورہ پاکستان میں رخنہ ڈال کر سرمایہ کاری کی راہ روکنے والوں نے آوازہ کسا کہ آخر مریم نواز وزیراعظم ہاؤس میں کیا کرتی ہیں؟
جواب تو اس سوال کا سیدھا تھا کہ ایک بیٹی اپنے والد کے گھر نہ رہے تو پھر کہاں رہے لیکن سیاست کی پگڈنڈی سیدھی نہیں ہوتی۔ حریف جب پیچیدہ راہوں پر چل کر کسی شریف آدمی کا دامن کھینچتے ہیں تو ان جانے میں وہ اسی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
تو بات یہ ہے کہ میاں محمد شریف کے مشرقی گھرانے میں تربیت پانے والی بچی کی دلچسپیاں تو گھر داری، اپنی والدہ بیگم کلثوم کے زیر اثر مطالعہ اور اپنے بچوں کے بارے میں اچھے اچھے خواب تھے لیکن حریفوں نے اوّل خاموشی کے ساتھ ان کے اپنے والد کے گھر بیٹھنے پر اعتراض کیا پھر پاناما کے سازشی گند میں انھیں گھسیٹ کر ان کے لیے کوئی راستہ نہ چھوڑا لہٰذا حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر مریم کو ببانگ دہل اعلان کرنا پڑا کہ میں اپنے والد کے ساتھ کھڑی ہوں اور تم دیکھو گے کہ "میں اپنے والد کی کمزوری نہیں، طاقت ہوں۔"
ان کا اعلان تھا کہ میرے مؤقف میں کچھ لچک آئے گی اور نہ تم مجھے کم ہمت لوگوں میں پاؤ گے، ایسے لوگوں میں تو بالکل ہی نہیں جو مشکل وقت میں حیلوں بہانوں سے معذوری کا سوانگ رچاتے ہیں۔ تاریخ نے ایسے مناظر کبھی کراچی کے عباسی شہید اسپتال میں دیکھے تھے یا پھر لاہور کے زمان پارک میں جہاں کسی موہوم چوٹ کے زخم مندمل ہونے میں ہی نہ آتے تھے۔
جیل سیاست کا پہلا زینہ ہے۔ مریم نواز اس راستے کی مسافر کب بنیں؟ یہ واقعہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔ الزام تھا کہ چوہدری شوگر ملز کے معاملات میں مریم کے کچھ معاملات جواب طلب ہیں لہٰذا انھیں نیب میں پیش ہو کر وضاحت پیش کرنی چاہیے۔ انھیں دن تین بجے طلب کیا گیا تھا۔ تین بجنے میں ابھی بہت وقت باقی تھا جب مریم اپنے والد سے ملنے جیل پہنچیں۔ اس سے پہلے کہ والد اپنے جگر گوشے کو سینے سے لگاتا، گھات میں بیٹھے نیب کے اہل کاروں نے انھیں گرفتار کر لیا۔ پھر قید و بند کا سلسلہ کچھ ایسا کھچا کہ اس لڑکی کی پر عزم ماں بھی آخری سانس لے کر اللہ کی بارگاہ میں جا پہنچیں۔
آمروں کی بات الگ ہے لیکن ہمارے یہاں سیاست ہی نہیں بڑے سے بڑے اختلاف میں بھی لحاظ مروت ہوتا ہے۔ مریم اور ان کے والد کے حریفوں کو اگر ان اقدار کا کوئی پاس ہوتا تو وہ بستر مرگ پر پڑی ہوئی ماں کی بیٹی اور اس کے شوہر کو آخری وقت میں اس کے پاس رہنے پر کوئی اعتراض نہ کرتے بلکہ عزت دار حریفوں کی طرح کچھ سہولت فراہم کرتے لیکن ان حریفوں کی جڑوں کا تعلق پاکستان کی باوفا سرزمین کی باوقار روایات سے ہوتا تو یہ خوش گوار واقعہ رونما ہوتا۔ یہ طرز عمل تھا جس کے نتیجے میں میاں شریف کے وضع دار خانوادے میں میاں نواز شریف کے جانشین کا اہتمام خود بخود یعنی ورثا کے کسی ارادے کے بغیر ہی ہو گیا۔
سیاست کی دنیا میں دار و رسن کی آزمائشیں تو آتی ہی رہتی ہیں۔ میاں شریف کا خاندان بھی اس کا سامنا ایک زمانے سے کر رہا تھا لیکن جنرل مشرف کے بعد میاں نواز شریف کی سیاسی جماعت کو موت کے گھاٹ اتار دینے کی نہایت منظم کوشش عمران خان نے کی۔ کوئی شبہ نہیں کہ میاں صاحب کے برادر خورد یعنی میاں شہباز شریف پوری استقامت کے ساتھ اس آزمائش میں کھڑے رہے لیکن یہ معرکہ سخت تھا اور لڑائی چو مکھی۔
اس افتاد میں کارکنوں کو حوصلہ دیے رکھنے اور میدان سیاست میں حریف کو للکارنے کے لیے میاں نواز شریف کے لہجے بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ان کے ہم زاد کی ضرورت تھی۔ مطلب یہ ہے کہ آزمائش کسی کے حوصلے کو آزمانے کے لیے بے تاب تھی، مریم نواز نے ایک با حوصلہ اور با وفا بیٹی کی طرح ان تمام تر کڑی آزمائشوں کا سامنا کیا اور اللہ کی مدد سے سرخ رو ہوئیں۔ سیاسی اور غیر سیاسی آزمائشوں یعنی انتقامی کارروائیوں کا جس جواں مردی اور ہمت کے ساتھ مریم نواز نے سامنا کیا ہے، ان کا کوئی ہم عصر سیاست دان حتیٰ کہ عمران خان بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میرٹ اور کیا ہوتا ہے؟
اگر یہ میرٹ نہیں ہے تو پھر کیا عثمان بزدار اور محمود خان میرٹ ہیں یا پھر علی امین گنڈاپور؟ مریم نواز پر ایک اعتراض اور بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلی کے لیے ان کے انتخاب کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ میاں نواز شریف کی صاحب زادی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیا پوری مسلم لیگ ن میں مریم کے سوا کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس پر نگاہ انتخاب ٹھہرتی؟ اس اعتراض میں بڑی جان ہوتی اگر یہ معاملہ جنوبی ایشیا میں نہ ہو تا۔ ایک ضمنی سوال کے بعد آگے بڑھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بھارت میں کانگریس آئی کی ذمے داری راہول گاندھی کے ہاتھ میں کیوں ہے؟ اس کا نہایت سادہ جواب یہ ہے کہ یہ اس خطے کی روایت ہے۔ یہاں کی سیاسی جماعتیں اس محور کے گرد مجتمع رہتی ہیں جو اپنی غیر متزلزل قیادت اور آزمائشیں جھیلنے کے باوجود ثابت قدم رہے اور ایک نظریے کے پیرو کاروں کو قیادت فراہم کرتا رہے۔ دوسری وجہ کا تعلق خالصتا پاکستان سے ہے۔
ہمارے یہاں جمہوریت پر بار بار شب خون مار کر سیاسی جماعتوں کو نہایت منصوبہ بندی کے ساتھ کمزور کیا جاتا رہا لہٰذا بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کا ڈھانچا کلاسیکی سیاسی جماعتوں جیسا نہیں بن سکا۔ یہ منزل پاکستان میں بھی ان شااللہ آئے گی لیکن اس منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی مزید سفر کی ضرورت ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ دیگر سیاسی چہروں کو آزمانے بغیر یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی مضبوطی میں ابھی کچھ وقت باقی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ کئی بار آزمایا جا چکا۔
بھٹو صاحب پر برا وقت آیا تو انھوں نے جن لوگوں کو اپنا جانشین بنایا تھا، ان سب نے پیپلز پارٹی جنرل ضیا کی خدمت میں پیش کر کے اپنے اپنے الگ سیاسی گروہ بنا لیے۔ کچھ ایسا ہی تجربہ مسلم لیگ (ن کا بھی ہے۔ بالکل ہی تازہ واقعہ ہے۔ 2017 ء میں اپنے جانشین کے لیے میاں نواز شریف کی نگاہ انتخاب شاہد خاقان عباسی پر پڑی تھی، عباسی صاحب آج کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ تو بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے خاطر جمع رکھیں، مریم نواز آٹھوں کانٹھ کمیت ہر معیار پر پورا اترتی ہیں اور آنے والے دنوں میں اپنی کارکردگی سے یہ ثابت بھی کر دیں گی۔
حرف آخر یہ کہ بنگلہ دیش کی ترقی کو مثال بنا کر پیش کرنے والے حسینہ واجد کی پزیرائی میں تو رطب اللسان رہتے ہیں لیکن مریم نواز شریف پر تیر برساتے ہیں۔