الیکشن 2024 انتخابی معرکے کے انوکھے واقعات

صرف 25 حلقوں میں 16 لاکھ ووٹ مسترد، لوگ برف باری میں بھی ووٹ ڈالنے نکلے

صرف 25 حلقوں میں 16 لاکھ ووٹ مسترد، لوگ برف باری میں بھی ووٹ ڈالنے نکلے ۔ فوٹو : فائل

آٹھ فروری کو پاکستان کے چودہویں عام انتخابات انجام پائے ۔چار سال بعد منعقد ہونے والے یہ الیکشن ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرتے اور حکومت میں عوام کی شمولیت کو یقینی بناتے ہیں۔

ابتدائی جائزوں کے مطابق حالیہ الیکشن میں چھ کروڑ سے زائد ووٹروں نے ووٹ ڈالا۔اگر تمام سیاسی جماعتوں کو آزادی سے انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی جاتی تو یہ ٹرن آوٹ مذید زیادہ ہوتا۔اب بھی یہ پچاس فیصد کے قریب پہنچنے میں کامیاب رہا۔حالات دیکھتے ہوئے یہ اچھا ٹرن آوٹ ہے۔

الیکشن کے دوران کئی انوکھے واقعات ظہورپذیر ہوئے۔بعد ازاں مختلف تنازعات بھی سامنے آئے۔زیر نظر مضمون میں انھیں یکجا کر دیا گیا ہے تاکہ قارئین انھیں جان کر معلومات حاصل کریں اور سبق وشعور بھی۔

توسیع نہیں ملی

پچھلے الیکشن میں الیکشن کمیشن نے شام کو ووٹنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کی توسیع دے دی تھی تاکہ قطاروں میں کھڑے سبھی مروزن اپنا ووٹ دے سکیں۔اس بار مگر کوئی توسیع نہیں دی گئی۔اس باعث ملک بھر میں پولنگ سٹیشنوں کے باہر موجود لاکھوں ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکے۔اس امر پہ کئی راہنماؤں نے الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

لاکھوں ووٹ مسترد

عام انتخابات کے حوالے سے عام انتخابات کے اعداد وشمار جمع کرنے والی جنی تنظیم، فافن کی مشاہدہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ قومی اسمبلی کے 25 حلقوں میں مسترد ووٹوں کا مارجن جیت کے مارجن سے زیادہ تھا۔اب تک کی تحقیق کے مطابق 16 لاکھ ووٹ مسترد ہوئے۔رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اتنی بھاری تعداد میں ووٹ کیوں مسترد ہوئے۔ان ووٹوں کی مستردگی سے کئی حلقوں میں نتیجہ بدل گیا ہو گا۔

رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ ملک بھر میں 28 فیصد پولنگ سٹیشنز پر افسران نے فارم 45 کی کاپی مبصرین کو نہیں دی۔یہ عمل بھی افسوس ناک قرار پایا۔

بنیادی اعدادوشمار

٭...عام انتخابات کے دوران قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 855 حلقوں کے لیے 882 خواتین اور 4 خواجہ سراؤں سمیت ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ امیدواروں نے حصہ لیا جن کی تعداد 17 ہزار 816 ہے۔

٭... پولنگ کے دوران ملک بھر میں 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے تھے۔ ان میں 6 کروڑ 92 لاکھ 63 ہزار 704 مرد اور 5 کروڑ 93 لاکھ 22 ہزار 56 خواتین ووٹرز تھیں۔ مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز میں تقریباً 54 فیصد مرد اور 46 فیصد خواتین ووٹرز شامل تھے۔

٭...عام انتخابات کے لیے خصوصی سکیورٹی فیچرز کے حامل 26 کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ۔الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن 2018 کے لیے 22 کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے تھے اور اس پر 800 ٹن اسپیشل سکیورٹی کاغذ استعمال ہوا تھا ۔ اس بار 2170 ٹن کاغذ استعمال ہوا ۔

٭... عوام کو ووٹ کے کا حق استعمال کرنے کے لیے 90 ہزار 675 پولنگ اسٹیشنز اور 2 لاکھ 66 ہزار 398 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ۔

٭... پولنگ کے دوران 14 لاکھ 90 ہزار انتخابی عملہ الیکشن کی ذمہ داریاں انجام دیتا رہا۔

برف باری میں بھی پولنگ

آٹھ فروری کو مری، گلیات، نتھیاگلی اور دیگر پہاڑی مقامات میں برف باری ہوئی اور شدید سردی نے وہاں کے باسیوں کو آن گھیرا۔تاہم ووٹر اس قدرتی آفت سے گھروں میں نہیں بیٹھے اور ان کی کثیر تعداد نے اپنا حق ِرائے دہی انجام دے کر قومی فریضہ ادا کیا۔خواتین کے پولنگ سٹیشن پر بھی ہجوم دکھائی دیا۔



تین بھائی آمنے سامنے

گجرات کے حلقہ پی پی 28 سے تین سگے بھائیوں نے الیکشن لڑا ۔دلچسپ بات یہ کہ تینوں کو تین مختلف پارٹیوں نے ٹکٹ دیا۔چودھری شاہدرضا کوٹلہ کو پی ٹی آئی کی حمایت حاصل تھی۔پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چودھری شبیر احمد کو کھڑا کیا۔ مسلم لیگ (ق) کے امیدوار چودھری نعیم رضا تھے۔ ان بھائیوں میں چودھری شاہد رضا بازی جیت گئے۔ انھوں نے 48 ہزار 271ووٹ لیے اور کامیاب رہے۔ چودھری شبیر 35 ہزار 268 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ تیسرے بھائی9 ہزار 659 ووٹ ہی لے سکے ۔

ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ چوتھے سگے بھائی، چودھری عابد رضا کوٹلہ قومی اسمبلی کی نشست، این اے 62 گجرات سے مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے مگر وہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ چودھری الیاس سے ہار گئے۔پانچویں بھائی، چودھری محمد علی نے گجرات کے حلقے پی پی 33 سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پہ انتخاب لڑا مگر وہ بھی ہار گئے۔

پہلی مرتبہ خواتین نے ووٹ ڈالا

سرگودھا کی تحصیل، کوٹ مومن کے ایک قصبے، للیانی کی تاریخ میں حالیہ الیکشن کے دوران پہلی بار خواتین نے ووٹ ڈالا۔ماضی میں ہر الیکشن میں پنچایت انھیں ووٹ ڈالنے سے روک کر ان کا یہ حق غضب کر لیتی تھی۔ این اے 83 اور پی پی 73 میں بھی خواتین نے ووٹ دیا۔ ماضی میں پنچائیت نے ان حلقوں کی خواتین کو ووٹ دینے سے روک دیا تھا۔

موبائل سروس کی بندش

اعداد وشمار کے مطابق آٹھ فروری کو موبائل سروس بند ہونے سے پہلے دو کروڑ ووٹرز نے 8300 سے ووٹنگ کے سلسلے میں معلومات لیں۔ایک دن قبل 80 لاکھ سے زائد ووٹرز کو تفصیلات دی گئیں۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق الیکشن والے دن موبائل نیٹ ورک بند نہ ہوتی تو 2 کروڑ سے زائد ووٹرز کو معلومات مل جاتی اور وہ بھی اپنا ووٹ ڈالنے کے قابل ہو جاتے۔

انتخابی نتائج میں پھر تاخیر

دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کی طرح اس بار بھی نتائج تاخیر کا شکار ہو گئے۔اس بنا پہ چہ میگوئیوں اور شکوک وشبہات کا بازار گرم ہو گیا۔بعض دانشوروں نے اس عمل کو 'الیکشن مینیج کرنے کی ایک کوشش' قرار دیا ۔کراچی میں سندھ اسمبلی کے حلقہ 110 سے انتخابات میں حصہ لینے والے آزاد امیدوار اور سماجی کارکن جبران ناصر نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ انتخابات کے نتائج کے اجرا میں تاخیر اسی وقت ہوتی ہے، جب انہیں 'مینیج' کیا جائے۔ ''ووٹ گننا سادہ سی گنتی ہے۔

ڈبا کھولا، ووٹ نکالے اور اسے گن لیا۔ اس میں تو کوئی دیر والا کام نہیں۔ لیکن اگر آپ نے حساب کتاب بٹھانا ہو اور نتائج تبدیل کرنا ہوں، چیزیں تبھی تاخیر کا شکار ہوتی ہیں۔''ن لیگ کے ایک رہنما نے میڈیا سے اس شکایت کا اظہار کیا کہ ٹی وی چینلز پر چار پانچ فیصد پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کی بنیاد پر اعلانات شروع ہو گئے تھے۔

پاکستانی صحافیوں نے انتخابی نتائج کے اجرا میں تاخیر کو دو ہزار اٹھارہ سے مماثلت دی۔ ان کا کہنا تھا ''دو ہزار اٹھارہ میں بھی اسی طرح سے تاخیر ہوئی۔ یہاں تک کے جو کراچی کے نتائج تھے، وہ چار روز بعد جاری ہوئے۔ ایسے میں دھاندلی کے شدید الزامات عائد کیے گئے۔ تب یہ وجہ بتائی گئی کہ آر ٹی ایس ایک نیا نظام ہے، جو 'بیٹھ گیا'۔ تاہم اس وقت ای ایم ایس نظام (الیکشن مینیجمنٹ سسٹم) کا استعمال کیا جا رہا ہے۔مگر وہ بھی چل نہ سکا۔''

کراچی میں کتنے ووٹ مسترد ہوئے؟

الیکشن کمیشن کے مطابق کراچی کی قومی اور صوبائی نشستوں پر 97 ہزار سے زائد ووٹ مسترد کیے گئے۔ 47 صوبائی نشستوں پر 47 ہزار 701 ووٹ مسترد ہوئے جبکہ قومی اسمبلی کی 22 نشستوں پر 50 ہزار 391 ووٹ مسترد ہوئے۔پی ایس 108 جنوبی میں ایک بھی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔ پی ایس 129 وسطی میں صرف 85 ووٹ مسترد ہوئے۔ سب سے زیادہ پی ایس 123 وسطی میں 1898 ووٹ مسترد ہوئے۔

صوبائی نشستوں میں سب سے کم ٹرن آؤٹ پی ایس 127 پر 25.88 فیصد رہا جبکہ سب سے زیادہ ٹرن آوٹ پی ایس 125 پر 63.35 فیصد رہا۔الیکشن کمیشن کے مطابق این اے 241 کراچی جنوبی کی نشست پر ایک بھی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔ اس حلقے میں 1 لاکھ 8 ہزار 356 ووٹ کاسٹ ہوئے۔

این اے 231 ملیر کی نشست پر 2487 ووٹ مسترد ہوئے۔ حلقے میں پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ 389 ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے۔کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ 48.8 فیصد رہا جبکہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 241 پر سب سے کم 23 فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔

لاہور میں پی ٹی آئی کی برتری

لاہورمیں قومی اسمبلی کی نشستوں پرووٹوں کے لحاظ سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آ زاد امیدوار سب سے آگے رہے۔ن لیگ دوسرے اورٹی ایل پی تیسرے نمبرپررہی۔اعداد وشمار کی رو سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ قومی اسمبلی کے 14آزاد امیدوار لاہور میں مجموعی طور پر 11لاکھ 56 ہزار 211 ووٹ لے کر سرفہرست رہے اور انھوں نے تین نشستیں جیتیں۔ مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کے 12 امیدواروں نے 10 لاکھ 7 ہزار 81ووٹ حاصل کرکے 9 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ تحریک لبیک پاکستان حاصل شدہ ووٹوں کے اعتبار سے لاہور کی تیسری بڑی طاقت ثابت ہوئی۔ٹی ایل پی کے 14 امیدواروں نے مجموعی طور پر 3 لاکھ 11 ہزار 364 ووٹ حاصل کیے۔


کامیاب خواتین

الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ 111 پارٹیوں نے الیکشن میں قومی اسبملی کی جنرل سیٹوں پر 280 خواتین کو ٹکٹ جاری کیے تھے۔مگر کل امیدواروں میں یہ تعداد صرف پانچ فیصد بنتی ہے۔پاکستان کا آئین صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی ضمانت فراہم کرتا ہے لیکن ملک کی سیاسی جماعتیں شاذ و نادر ہی خواتین کو اس کوٹے کے علاوہ انتخاب لڑنے کی اجازت دیتی ہیں۔

الیکشن کمیشن کی رو سے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی بارہ نشستوں پر خواتین امیدوار کامیاب ہوئیں۔ پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار، شاندانہ گلزار این اے 30 پشاور سے کامیاب قرار پائیں۔اسی طرح حافظ آباد این اے 67 سے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ ازاد امیدوار انیقہ مہدی نے سابق وفاقی وزیر سائرہ تارڈ کو شکست دی۔

این اے 73 سیالکوٹ سے مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر نوشین افتخار 112143 ووٹ لے کر دوبارہ ایم این اے منتخب ہوئیں۔ این اے 112 ننکانہ صاحب سے ن لیگی امدوار، شذرہ منصب سابق وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کو ہرا کر جیت گئیں۔مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز این اے 119 لاہورسے پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن جیتی ہیں۔



این اے 156 سے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار عائشہ نذیر جٹ کامیاب ہوئیں۔ این اے 158 سے مسلم لیگ ن کی تہمینہ دولتانہ کامیاب رہیں۔این اے 185 ڈی جی خان سے پی ٹی آئی رہنما، زرتاج گل دوبارہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔این اے 202 خیر پور سے پیپلزپارٹی کی نفیسہ شاہ ، این اے 209 سے شازیہ مری اور این اے 232 کراچی سے ایم کیو ایم کی آسیہ اسحاق کامیاب ہوئی ہیں۔ این اے 181 سے پی ٹی آئی کی امبر مجید جیت گئیں۔

ووٹ کسی اور کو دے دیا

صوبہ خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آئی کے دو سابق وزرائے اعلی، پرویز خٹک اور محمود خان الیکشن ہار گئے۔دونوں نے تحریک انصاف سے الگ ہو کر اپنا دھڑا بنا لیا تھا۔مگر اس اقدام کو صوبے کے عوام نے پسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھا اور انھیں شکست سے دوچار کر دیا۔عام انتخابات میں ہار کے بعد محمود خان کی ووٹروںسے شکوے کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

انہیں کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے '' ظاہری طور پر آپ لوگ میرے ساتھ تھے لیکن ووٹ ان کو دیا ۔یہ منافقت ہے، منافق اللہ کا دشمن ہوتا ہے۔ آپ لوگوں نے منافقت کی، اللہ پوچھے گا آپ لوگوں سے۔''جواب میں لوگوں نے انھیں زیادہ بڑا منافق ہونے کا طعنہ دے ڈالا۔

قوم کا پیسہ بیکار گیا؟

اخباری رپورٹوں کے مطابق آٹھ فروری کو الیکشن کمیشن کے صدر دفتر واقع اسلام آباد میں کروڑوں روپے کی لاگت سے لایا گیا الیکشن مینجمنٹ سسٹم رات گئے تک کوئی نتیجہ مکمل نہ دکھا سکا۔میڈیا پرسنز کے لیے قائم الیکشن سٹی میں بھی الیکشن کمیشن کے حکام اور ترجمان موجود نہ تھے ۔

موبائل فون کی بندش کے باعث الیکشن کمیشن کے حکام اور ترجمان سے بھی رابطہ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ صحافی رات گئے جب الیکشن کمیشن انتخابی نتائج کی صورتحال معلوم کرنے گئے تو وہاں الیکشن سٹی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک بڑی سکرین کا اہتمام تو کیا گیا تھا لیکن اس پر کوئی بھی رزلٹ رات گئے تک اپ لوڈ نہ کیا جاسکا۔

الیکشن سٹی میں چہ مگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے الیکشن مینجمنٹ سسٹم لایا گیا ہے لیکن یہ بھی ماضی کی طرح بند پڑا ہے۔

قابل تحسین روایت

صوبہ خیبرپختونخوا کی صوبائی نشست پی کے 83 سے عوامی نیشنل پارٹی کی خاتون اْمیدوار، ثمر ہارون بلور میدان میں اْتری تھیں۔تاہم وہ پی ٹی آئی کے امیدوار، مینہ خان سے شکست کھا گئیں۔اس موقع پہ معاصر پہ لعن طعن کرنے کے بجائے ثمر صاحبہ گلدستہ لے کر مینہ خان سے ملیں اور جیت پر انھیں مبارکباد پیش کی۔

یہ ایک اچھی روایت ہے جس کی ثمر ہارون نے طرح ڈالی۔ مگر ان کا عمل یہ بھی عیاں کرتا ہے کہ حلقے میں مقابلہ کسی دھاندلی ودھوکے بازی کے بغیر انجام پایا اور مینہ خان اسٹیبلشمنٹ نہیں اپنے زور ِبازو اور بل بوتے پہ کامیاب ہوئے۔یاد رہے، ثمر ہارون سابق صدر، غلام اسحاق خان کی نواسی ہیں۔آپ پچھلے الیکشن میں اسی حلقے سے الیکشن جیت گئی تھیں۔

الیکشن کے فارم
الیکشن والے دن کچھ فارم بہت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں لہذا ان کی بابت جاننا ضروری ہے۔یہ سبھی فارم الیکشن نتائج مرتب کرنے والے نظام سے متعلق ہیں۔

٭...فارم 45:۔ عام انتخابات ہوں یا ضمنی انتخاب،اس فارم کا تذکرہ اکثر ہوتا ہے اور یہ الزامات کی زد پر رہتا ہے۔اسے'رزلٹ آف دی کاوئنٹ' بھی کہا جاتا ہے۔اس اہم فارم پر پولنگ اسٹیشن کا نمبر، حلقے کا نام، رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد، ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد اور ہر امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ امیدوار پولنگ اسٹیشن سے اس فارم کے ذریعے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد خود گن سکتے ہیں۔

٭...فارم 46:۔ اس میں پولنگ اسٹیشن میں موصول ہونے والے بیلٹ پیپرز کی تعداد، بیلٹ باکسز سے نکالے گئے بیلٹ پیپرز کی تعداد، چیلنج کیے گئے، غلط اور منسوخ شدہ بیلٹ پیپرز کی تعداد سے متعلق تمام معلومات لکھی ہوتی ہیں۔ غیر قانونی نتائج کے بارے میں بھی معلومات درج ہوتی ہیں۔



٭...فارم 47:۔ اس سے انتخابی حلقے کے غیر مصدقہ نتائج کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔نیز فارم میں ڈالے اور منسوخ کیے گئے ووٹوں کی تعداد کا بھی ذکر ہوتا ہے۔

٭...فارم 48:۔الیکشن نتائج کی تیاری کے لیے یہ سب سے اہم فارم ہے۔ اس میں ایک حلقے میں ہر امیدوار کو ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد شامل ہوتی ہے۔

٭...فارم 49:۔ پاکستان کے گزٹ میں شامل ہونے والے اس فارم کو حتمی اور سرکاری نتیجے کا فارم بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں امیدواروں کے نام، ان سے وابستہ سیاسی جماعتوں کے نام اور انتخابی حلقے میں حاصل کردہ ووٹ کی معلومات لکھی جاتی ہیں۔

خواتین ووٹروں نے امیدوار کو جتوا دیا
اپر چترال خیبر پختونخوا کا آخری ضلع ہے جو 2018ء میں بنایا گیا تھا۔اس ضلع میں صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست(پی کے 1)ہے۔مقابلہ پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ امیدوار، ثریا بی بی اور جے یو آئی(ایف)کے شکیل احمد کے مابین تھا۔مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ شکیل صاحب نے بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلائی مگر ناکام ہو گئے۔جیت ثریا بی بی کے حصے میں آئی۔ مرد اُمیدوار کی ناکامی میں ضلع کی خواتین نے بنیادی کردار ادا کیا۔

الیکشن میں ثریا بی بی نے اپنے معاصر کو شکست دے کر یوں نئی تاریخ رقم کر دی کہ وہ چترال کے علاقے سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون رکن صوبائی اسمبلی بن گئیں۔ انھوں نے 18 ہزار 914 ووٹ حاصل کیے۔شکیل احمد ساڑھے دس ہزار ووٹ ہی پا سکے۔



الیکشن دستاویز کے مطابق حلقے میں مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 130189 تھی جس میں سے 65722 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔یوں ٹرن آئوٹ 50.48 فیصد رہا ۔ ان 65722 میں سے 35377 خواتین ووٹرز تھیں جو سخت سردی اور برف کے باوجود گھروں سے ووٹ ڈالنے نکلیں۔

خواتین ووٹرز کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث ہر پولنگ اسٹیشن پر خواتین کی لمبی قطاریں لگ گئی تھیں۔ دوسری جانب اس مرتبہ آزاد خاتون امیدوار نے بھی گھر گھر انتخابی مہم کرکے خواتین ووٹرز کو ووٹنگ کے لیے نہ صرف مائل کیا بلکہ کامیابی بھی حاصل کرلی۔

یہ واضح رہے، ان دنوں علاقے کے بیشتر علاقوں میں بھاری برف پڑی تھی اور سردی بھی شدید رہی۔ ڈپٹی کمشنر اپر چترال ،عرفان الدین کے مطابق بروغل کے علاقے میں چار فٹ تک برف موجود تھی۔اس کے باوجود انتظامیہ نے بند سڑکوں کو کھول کر بروقت پولنگ کا عمل یقینی بنایا۔

مقامی لوگ کہتے ہیں، ان کے علاقے میں مجموعی طور پر ووٹرز ٹرن آؤٹ شاید مذید زیادہ ہوتا اگر انتخابات موسم سرما کی تعطیلات کے بعد منعقد ہوتے۔ وجہ یہ ہے، سردی میں اکثر لوگ بال بچوں سمیت پشاور یا اسلام آباد چلے جاتے ہیں اور اس بار بھی یہی صورت حال تھی۔ چترال میں سردی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔

اپر چترال میں شرخ خواندگی زیادہ ہے۔ہر دوسری خاتون یونیورسٹی سے پڑھی ہے۔اس باعث خواتین ووٹ کی طاقت سے واقف اور اہمیت کو سمجھتی ہیں۔دوسری اہم بات یہ کہ اہل چترال ترقی پسند لوگ ہیں۔وہ خواتین کو آزادی اور حقوق دیتے ہیں۔ اس لیے بھی وہ اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دینے میں کامیاب رہیں۔

پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی خواتین ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلیں۔ پشاور کے شہری علاقوں میں خواتین پولنگ اسٹیشنز پر رش زیادہ دیکھنے میں آیا۔ گلبہار، صدر، اندرون شہر، حیات آباد ، یونیورسٹی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں خواتین ووٹرز نے بڑی تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔اس بار الیکشن میں روایتی گہما گہمی کا فقدان تھا۔ بیشتر امیدواروں نے بھی انتخابی مہم نہیں چلائی مگر خواتین ووٹروں کا گھروں سے نکلنا خوش آئند ہے۔

 
Load Next Story