برما منزل سے دوریوں کی طرف… آخری حصہ

برما کے مختلف حصوں میں ترقی کی مختلف مگر ناہموار شکلیں ہیں


Qamaruzzaman Khan September 19, 2012
قمرالزماں خاں

لاہور: برما کی وہ آبادی جس کو برمی کہا جاتا ہے رنگون اور دیگر بڑے شہروں میں رہتی ہے جب کہ باقی نسلوں، قوموں اور مذاہب کے لوگوں کی اکثریتی آبادی نواحی علاقوں، دیہات اور دور دراز کے علاقوں میں رہتی ہے۔

شہری علاقوں اور اقلیتی نسلی گروپوں کے علاقوںمیں ترقی کے درمیان بہت تضاد ہے۔ اگر رنگون میں بجلی مہیا کیے جانے کا تناسب 67 فی صد ہے تو دیہی اور دوردراز علاقوں میں 16 فی صد بجلی مہیا کی جاتی ہے۔

85 فی صد غریب دیہی علاقوں میں اور اقلیتی نسلوں کے علاقوں میں بستے ہیں، ان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر تمام مذاہب کے لوگ بھی اس غربت کا شکار ہیں۔ ان علاقوں کے 75 فی صد بچے پرائمری اسکول کی تعلیم کے دوران ہی پڑھائی کے عمل کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جب کہ شہری علاقوں کے 63 فیصد بچے پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرکے ہائی اسکول کی تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں۔

مختلف نسلوں اور مذاہب کے مابین جو کشمکش، مخاصمت اور جھگڑے کی فضا ہے اس میں کمی اور خاتمہ، برابر کی ترقی اور مواقعے فراہم کیے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ برما کے مختلف حصوں میں ترقی کی مختلف مگر ناہموار شکلیں ہیں۔ عمومی طور پر برمی دولت اور وسائل کا استعمال فوجی جنتا اور حکمران گروہوں کی لوٹ مار کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

میانمار میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بذات خود اتنا انسانیت سوز اور وحشیانہ عمل ہے کہ اس کی محض مذمت کافی نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس قتل عام اور نسل کشی کو روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

اگرچہ سرمایہ داری نظام میںیہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ عراق، افغانستان خود پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہزارہ قبائل کی نسل کشی، صوبہ گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ قتل عام، کراچی میں گینگ وار اور ٹارگٹ کلنگ، سوات اور شمالی علاقوں میں طالبان کے ہاتھوں مسلمانوں کو ذبح کرنے اور پھانسیوں پر لٹکانے کے واقعات موجودہ نظام کی سفاکیت اور بوسیدگی کے گواہ ہیں، مگر برما میں ہونے والے واقعات پر پاکستان میں ہونے والا شور و غوغا حقیقت پسندی کے بجائے مخصوص مقاصد اور پراپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اس قتل و غارت گری اور بربریت کے واقعات جن کا کوئی تدارک سرمایہ داری نظام میں رہتے ممکن نہیں ہے کا درست تجزیہ کرنے کے بجائے اسلام اور کفر کی جنگ بنانے کا کھیل جاری ہے۔

'پاکستانی لبرل' اور کچھ دیگر عناصر کا کہنا کہ میانمار میں کچھ ایسا نہیں ہے کہ اس پر شور مچایا جائے! ایک سنگدلانہ نقطہ نظر کی حد تک جانبدارانہ رویہ ہے، اس رویے کو تقویت وہ مبالغہ آمیزی اور جعل سازی دے رہی ہے جس میں فسادات اور نسل کشی کے اس معاملے کی تصاویر اور فوٹیج کے ساتھ برسوں پرانے تھائی لینڈ، تبت اور دیگر علاقوں میں ملتے جلتے لباسوں، شکلوں اور حلیے والے انسانوں کی زلزلوں، سیلابوں اور مختلف واقعات میں ہلاکتوں والی تصاویر اور فوٹیج نکال کر ان پر حالیہ قتل عام کا ٹائٹل فٹ کرکے اس معاملے کی شدت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ''رضاکارانہ کاوش '' نے موجودہ قتل وغارت گری کو سرے سے ہی مشکوک بنانے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔

برما میں ہونے والے واقعات پر ''اسلام کے خلاف ہنود و یہود کی سازش'' کے ٹائٹل کے تحت کام کرنے والے مذہبی عناصر یہ بتلانے میں قاصر ہیں کہ اگر برما کی غیر مسلم حکومت مسلمانوں کا مذہبی بنیادوں پر قتل عام کروا رہی ہے تو بنگلہ دیشی حکومت آخر کس مذہبی جذبے کے تحت بے گھر اور لاچار روہنگیہ مسلمانوں کی کشتیوں پر فائرنگ کرکے اور زبردستی ان کا رخ موت کے منہ کی طرف موڑ رہی ہے؟ کیا یہ مسئلہ واقعی مذہب سے جڑا ہے؟ حالات اور واقعات اس بات کی بھی نفی کرتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ بنیادوں پر برما، افغانستان، صومالیہ، پاکستان، فلسطین اور کرہ ارض کے تمام براعظموں پر پھیلے سیکڑوں ممالک کے اندر ہونے والی ہلاکتوں کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔

جنگوں سے زیادہ امن کے دنوں میں انسانوں کو اپنی زندگیوں سے محروم کردینے والی منڈی کی معیشت کا اب تو انحصار ہی عدم استحکام پر ہے۔ یوگوسلاویہ ایک کثیرالنسلی اور مذہبی ملک تھا جہاں بے شمار قومیں آباد تھیں۔

ان تمام قوموں کے درمیاں بے شمار تفاوت اور تضادات تھے، بالکن میں ماضی میں قومی مسائل پر دو جنگیں ہوچکی تھیں مگر ان تمام اختلافات کو ایک ہی جادو نے حل کردیا وہ تھا ''سوشلزم'' جو انسان کو ماضی کے تعصبات سے نکال کر پہلی دفعہ انسان بن کر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے اور ایک ایسی یک جہتی عطا کرتا ہے جہاں ثقافت کی انتہائی بلندی اور طبقاتی سانجھ ہر فرق اور اختلاف کو مٹا کر مختلف مذاہب اور قوموں کو پرامن اور یک جان بن کر رہنے پر آمادہ کرلیتی ہے۔

مگرسوویت یونین میں اسٹالنزم کے انہدام کے بعد جب یوگوسلاویہ میں سرمایہ داری کو واپس لایا گیا تو منڈی کی معیشت کے تقاضوں کے تحت اور ملکوں کی بندربانٹ کرنے کی ضرورت کی وجہ سے یوگوسلاویہ کمزور قوموں کا مقتل بن کر رہ گیا جہاں لاکھوں کی تعداد میں البانوی، سلاو، کروٹس، سربس قومیتوں کے لوگ مار دیے گئے۔ برما میں صرف روہنگیہ مسلمانوں کے مسائل نہیں ہیں۔

آدھی سے زیادہ آبادی غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بہترین قدرتی وسائل کے حامل ملک میں سامراجی قوتیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ مارکر رہی ہیں۔ برما کا فوجی ٹولہ دنیا کا بدعنوان ترین حکمران گروہ ہے۔

یہاں کی اپوزیشن سامراجی اسپانسرڈ ہے جس کا سارا وقت بین الاقوامی اجارہ داریوں کے کاروبار اور سرمایہ کاری کو برما میں لانے پر ہے جس کا براہ راست فائدہ یا تو ان کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ہوگا یا پھر برما کے حکمران دھڑوں کا جو لوٹ مارکے اس کھیل میں اپنا حصہ وصول کریں گے۔ دنیا کی جدید تاریخ گواہ ہے اور تمام اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری اس ملک کے عوام کو اور زیادہ غریب، پسماندہ اور مفلوک الحال بنا دیتی ہے۔

تاریخ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ برما، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ہندوستان اور اس کی تمام ملحقہ اور قومی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی ریاستوں اور حتیٰ کہ چین کا مسئلہ جدا جدا نہیں ہے بلکہ تمام نسلی، مذہبی، گروہی، فرقہ وارانہ اور فروعی تنازعوں سے بڑا مسئلہ محنت کے استحصال اور غربت کا ہے۔ ان تمام ممالک کے مسائل کا حل بھی آپس میں جڑا ہوا ہے جو نہ صرف معاشی مسائل حل کرے گا بلکہ سماجی تفاوت اور نسلوں، مذہبوں کے تنازعات کو بھی یک لخت ختم کردے گا۔ ان ممالک کے محنت کش طبقے کی طبقاتی یکجہتی ان کی صدیوں کی غلامی اور محرومیوں کو ختم کرسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں