پاکستان اور چین تعلقات۔۔روس کی مجبوری
کچھ عرصہ قبل تک روس اور پاکستان سخت ترین حریف بھی رہے ہیں لیکن اب حالات دونوں طرف تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں
احساس تنہائی حریفوں سے قربت کا باعث بن رہی ہے۔ فوٹو: فائل
پاکستان اور چین کے درمیان گہرے تزویراتی، دفاعی اور اقتصادی تعلقات اسلام آباد اور بیجنگ کے لیے نیا موضوع نہیں ہیں کیونکہ دونوں کی بے مثل ہمسائیگی اور پُرخلوص دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، مگر جب درمیان میں روس، بھارت یا تُرکی کا ذکر چھڑتا ہے توموضوع غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔
سفارتی ،اقتصادی اور معاشی طور پر روس کے ساتھ پاکستان کے مراسم اتنے گہرے نہیں جتنا کہ چین کے ساتھ ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک روس اور پاکستان ایک دوسرے کے سخت ترین حریف بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن اب حالات دونوں طرف تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو برفانی ریچھ کی گرم پانیوں تک رسائی کا ڈر نہیں رہا جو ماضی میں لاحق تھا۔ روس کو بھی اندازہ ہوچکا کہ پاکستان اب ایک ایٹمی قوت اور مضبوط فوج رکھنے والا طاقتور ملک ہے۔ اس لیے دونوں ملک اب ماضی کی سردی گرمی کو نظرانداز کرتے ہوئے (چین کو ساتھ لیے) ایک دوسرے کے مزید قریب ہونے لگے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان قربت بڑھانے میں جو کردار چین نے ادا کیا ہے اسے انکار کرنا سورج کو انگلی سے چھپانے کے مترادف ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے روس کا دورہ کیا۔ ان کے دورے کے کئی پہلو ہیں لیکن سب سے اہم زاویہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون سے متعلق معاہدے ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ رواں سال کے آغاز میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان جب دو طرفہ دفاعی تعاون سے متعلق خبریں آنے لگیں تو روس نے اسے بدشگونی سے تعبیر کیا تھا۔
روس کا خیال تھا کہ پاکستان سعودی عرب کے قریب ہو کر شام میں بشارالاسد کے خلاف فوجی مداخلت میں مدد کرسکتا ہے، لیکن یہ تمام باتیں محض افواہیں ثابت ہوئیں۔ جب گرد چھٹ چکی تو روس کو بھی اندازہ ہوا کہ پاک ، سعودی عرب تعلقات کسی لالچ اور طمع کے لیے نہیں بلکہ دو برادر ملکوں کے درمیان ایک دوسرے کی اقتصادی اور دفاعی ضروریات میں اپنی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ اس طرح روس کو یقین ہوگیا کہ پاکستان کو شام کے خلاف استعمال نہیں کیا جا رہا ہے، اس لیے ماسکو کے گلے شکوے ویسے ہی ختم ہوگئے۔
روسی تھنک ٹینک کے مطابق شام کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے بے سروپا خدشات کے ختم ہوتے ہی ماسکو نے اسلام آباد سے رابطے بڑھا دیے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس سرکار میں پاکستان کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالے میں دیرینہ دوست چین نے نہایت موثر کردار ادا کیا۔ پس پردہ روس نے چین کے ذریعے پاکستان سے دفاعی تعلقات بڑھانے کی کوششیں تو بہت پہلے شروع کردی تھیں لیکن پاک، سعودی عرب دفاعی معاہدوں کے بعد روس نے پاکستان سے زیادہ قریب ہونے کی ضرورت محسوس کی۔
یہ ضرورت اس وقت زیادہ شدت اختیار کرگئی جب مارچ کے آخر میں روس نے یوکرائن میں اپنی فوجیں داخل کیں۔ روس کے اس اقدام پر اسے اپنے یورپی اتحادیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جاپان، جنوبی کوریا اور جارجیا جیسے ملکوں کو روس کے خلاف پروپیگنڈہ کا ایک اچھا موقع ہاتھ آگیا۔ یوں روس نے اس احساس تنہائی کو ختم کرنے کے لیے ماضی کے حریف سے شناسائی بڑھانے کی ضرورت محسوس کی۔ ماہرین کے خیال میں دفاعی اعتبار سے روس بھی ایک طاقتور ملک ہے، جس کے پاس ایٹم بم سے لے کربین البراعظمی سطح پر مار کرنے والے میزائل، کلاشنکوف سے لے کرٹینک تک ہرقسم کا ہتھیار روس خود تیار کرتا ہے۔ ایسے میں روس کو پاکستان کی ضرورت محض اس لیے محسوس ہو رہی ہے کیونکہ وہ یوکرائن میں فوجی مداخلت کرکے عالمی سطح پر تنہا ہو چکا ہے۔
شام میں صدر بشارالاسد کی آمریت کی حمایت کی سزا روس کو پہلے ہی مل رہی ہے۔ اس لیے ماسکو کو نئے اتحادیوں اورحلیفوں کی تلاش ہے۔ عین ممکن ہے کہ بھارت میں نریندر مودی سرکار روسی صدر ولادی میرپوتن کو پاکستان سے فاصلے برقرار رکھنے کے لیے کوئی مہم شروع کردے لیکن اب کی بار روس پاکستان کو زیادہ دور نہیں رکھنا چاہتا ۔ چونکہ یوکرائن کے معاملہ میں پاکستان کا موقف وہ نہیں جو چین کا ہے لیکن پاکستان موجودہ حالات میں روس کے ساتھ مضبوط معاشی اور دفاعی تعلقات استوارکرکے یوکرائن پر ماسکو کے موقف کو مضبوط کر سکتا ہے۔
روس کی قدرتی گیس، قدرتی تیل، درآمدات و برآمدات کے لیے مشرق وسطیٰ، افریقا اور ایشیا تک رسائی پاکستان کے ذریعے ممکن ہے۔ گوکہ دیگر راستوں سے بھی روس بین البراعظمی ٹریفک چلا سکتا ہے مگر یوکرائن کے تنازع کے بعد اب بہت سے راستے بند ہو چکے ہیں۔ روس کو ایشیائی ملکوں کو اپنے تک رسائی دینا ہے جس کے لیے اسے پاکستان کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان کو صر ف چین ہی روس کے ساتھ غیر مشروط تعاون پر تیار کرسکتا ہے۔
چونکہ یوکرائن میں روس مخالف یوروشنکوصدر منتخب ہو چکے ہیں۔ یوروشنکو ماسکو کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ انہیں فی الوقت زبانی کلامی حد تک امریکا اور عملی طور پر یورپی یونین کی آشیر باد اور معاونت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے مغرب سے منہ موڑ کر چین اور پاکستان سے مزید قربت پیدا کرنا شروع کردی ہے۔ روس کا جھکاؤ یقینا پاکستان کے لیے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ لگتا ہے کہ ہماری قیادت کو بھی روس کی مجبوری اور اپنی ضروریات کا احساس ہوا ہے۔ پاکستانی وزیر دفاع ایک ایسے وقت میں روس کے دورے پر گئے ہیں جب یوکرائن میں ماسکو مخالف صدر جیت کرروس میں شامل ہونے والے علاقوں کو آزاد کرانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔
''السیسی کو آئینے میں کچھ نہیں نہیں آتا''
عرب جمہوریہ مصرمیں سابق فوجی سربراہ فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسی ایک جعلی انتخابی عمل کے ذریعے سابق مردآہن حسنی مبارک کے جانشین بن گئے ہیں مگرفوج کے ادارے کو جس سُبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ سیاست پسند جرنیلوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ جنرل السیسی کے ترجمان سمجھے جانے والے دو بڑے اخبارات''الیوم السابع'' اور ''مصر الیوم'' مسلسل چار روز تک اپنے اداریوں میں فیلڈ مارشل کو کوستے رہے۔
الیوم السابع نے تو انتخابی عمل پر اپنی سُرخی ان الفاظ میں جمائی''السیسی آئینے میں اپنا چہرہ ضرور دیکھیں، لیکن وہ دیکھیں گے کیا؟ آئینے میں دکھائی ہی کچھ نہیں دیتا'' اور جب انتخابات کے تیسرے روز بھی لوگ ووٹ ڈالنے گھروں سے نہ نکلے توان کے ترجمان اخبار''مصرالیوم'' کی سرخی کچھ یوں تھی کہ''ریاست کو ووٹوں کی تلاش''۔ یوں مصری ذرائع ابلاغ کا فیلڈ مارشل السیسی کا مخالف ہو جانا لمحہ فکریہ نہیں بلکہ جنرل السیسی کی ناکامی کے لیے نوشتہ دیوار دکھائی دیتا ہے۔
جون 2012ء میں اخوان المسلمون کے ڈاکٹر محمد مرسی 52 فی صد ووٹ لے کر پہلے آئینی صدر منتخب ہوئے۔ اگر مرسی کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھ سکتا ہے تو السیسی کے25 سے 28 فی صد ووٹوں کے ساتھ کامیاب قرار پانے کی کیا وقعت ہوگی۔ مصر میں حالیہ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح کے قطع نظرمابعد انتخابات جو نقشہ بنتا دکھائی دے رہا ہے فی الوقت وہ نہایت خوفناک ہے۔ مصری سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے تین ایام میں گھروں سے نہ نکل کر عوام نے محمد مرسی کی برطرفی کے فوجی اقدام کے خلاف اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔
انتخابات نے کالعدم قرار دی گئی اخوان المسلمون کے موقف کی تائید کی ہے اور فوج کے پاؤں تلے سے زمین سرکنے لگی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں عبدالفتاح السیسی کے خلاف عوامی بغاوت میں کئی گنا شدت آسکتی ہے۔ لیکن اس کے رد عمل میں فیلڈ مارشل السیسی فوج کی مدد سے اپنی حکومت بچانے کی پوری کوشش کریں گے۔ اب تک فوج فیلڈ مارشل کے ساتھ ہے اور ساتھ کیوں نہیں ہوگی؟ السیسی نے ریٹائرمنٹ سے قبل اپنا جانشین لیفٹیننٹ جنرل صدقی صبحی کوبنایا۔ جنرل صدقی صبحی فیلڈ مارشل السیسی کے قریبی عزیز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل السیسی کو اپنی پشت پرفوج کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔
بعض مبصرین کے خیال میں فوج کے ادارے کو تازہ انتخابات میں جس سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے باعث فوج بیرکوں میں واپس جانے اور جنرل السیسی کی پشت پناہی سے ہاتھ کھنچنے پرغور کرسکتی ہے۔ مصری فوج اگر ایسا کرنا بھی چاہے تو آمریت نواز ممالک السیسی کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بعض دوسرے خلیجی ملکوں کی ہمدردیاں اب بھی مصری فوج کے ساتھ ہی ہیں۔ السیسی کو اندازہ ہے کہ اگر عوام ساتھ نہیں تو کوئی پرواہ نہیں آرمی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل تو اس کے ساتھ ہیں۔
گوکہ پڑوس میں اسرائیل نے السیسی کی ''شرمناک'' انتخابی فتح پر اطمینان کا اظہار کیا ہے مگرصیہونی تجزیہ نگار السیسی کے سیاسی مستقبل کو مخدوش قرار دے کرتل ابیب کو قاہرہ کے ساتھ محتاط انداز میں تعلقات کے قیام کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اسرائیلی سکیورٹی اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ انتخابات کے تین دنوں میں لوگوں نے گھروں سے نہ نکل کر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ فوجی آمریت کے ساتھ نہیں ہیں۔ یوں السیسی صرف فوجی طاقت کے ذریعے کچھ عرصہ حکومت کرسکیں گے ورنہ عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔
فلسطینیوں کی باہمی مفاہمت ۔۔۔ ایک کڑی آزمائش!
فلسطینی صدر محمود عباس نے حماس کے ساتھ مفاہمت کرکے بڑی پامردی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ساتھ ہی ان کے دل سے اسرائیل کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رکھنے کی خواہش بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اگر وہ اسرائیل سے امن بات چیت کا عمل بحال کرتے ہیں تو اسرائیل پہلی شرط ہی حماس سے ناطہ توڑنے کی رکھ سکتا ہے۔ ایسے میں مذاکرات کے لیے ابومازن کا موقف کافی حد تک کمزور ہوگا اور ان کے مطالبات میں وہ شدت اور جان پیدا نہیں ہوسکے گی جو غیرمشروط بات چیت میں ہونی چاہیے۔ یوں قومی مفاہمت اور اسرائیل سے مذاکرات ایک ساتھ چلنا دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے لیے یہ ایک کڑی آزمائش کا وقت ہے کہ آیا وہ امریکا، یورپی یونین اور اسرائیل کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے دوبارہ امن بات چیت شروع کرے یا حماس کے ساتھ قومی سیاسی اتحاد کو آگے بڑھایا جائے۔ ان دونوں اہم امور کا کمزور پہلو قومی مفاہمت ہے جس کے ٹوٹنے کے امکانات زیادہ ہیں۔تا دم تحریر قومی حکومت کا اعلان نہیں ہوسکا ۔ مخلوط حکومت کے حوالے سے بھی ابھی اختلافات موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزارتوں کی تقسیم کے باب میں اب کی بار صدر عباس کی جماعت الفتح اور حماس کے موقف میںکافی حد تک یکسانیت موجود ہے اور دونوں جماعتیں صدر کے من پسند امیدواروں کی مخالفت کر رہی ہیں۔
صدر بضد ہیں کہ ریاض المالکی کا وزارت خارجہ کا منصب برقراررہے لیکن حماس اور الفتح دونوں المالکی کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ اسی طرح صدر فلسطینی اسیران کی وزارت کو سرے سے ختم کرنے کے خواہاں ہیں لیکن الفتح اور حماس صدرکی اس تجویز کی بھی سخت مخالف ہیں۔ وزارت خارجہ کے نام کی تبدیلی تو کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں ہے لیکن وزارت اسیران کو سرے سے ختم کرنے کی تجویز نہایت خطرناک معلوم ہوتی ہے۔ اس وقت کم سے کم پانچ ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں صیہونی مظالم کا سامنا کر رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں وزارت اسیران کو ختم کرنا اسرائیل کے مفاد میں تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہوگا۔
صدر عباس نے تجویز دی ہے کہ اسیران کا ایک آزاد بورڈ قائم کیا جائے جو کسی وزارت کے ماتحت کام کرنے کے بجائے آزادانہ طور پرخدمات انجام دے، تاہم فلسطینی سیاسی حلقے، سماجی تنظیمیں اور انسانی حقوق کے ادارے صدر کی اس تجویز کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ادھر اسرائیلی جیلوں میں انتظامی حراست میں رکھے گئے دو سو قیدیوں نے بھوک ہڑتال جاری رکھی ہوئی ہے۔ ڈیڑھ ماہ سے جاری بھوک ہڑتال کے نتیجے میں دسیوں قیدیوں کی جانوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی خاموش تماشائی ہیں اور کسی عرب، مسلمان یا غیرمسلم ملک کی جانب سے سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کی بھوک ہڑتال ختم کرانے یا ان کے بنیادی انسانی حقوق پر کوئی آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔